اشاعتیں

مئی, 2016 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

جدائی بُن کے بچھالی ہے فرش پر اظہار

ایک ماہ اور اس سے اوپر اٹھائیس دن کا عرصہ پلک جھپکنے میں گزر گیا! سنہری نیند میں چاندی جیسا خواب! خواب میں آہستہ آہستہ کھُلتا خوبصورت دریچہ! مگر یہ کیا! آنکھ کھلی تو دریچہ نظر نہیں آرہا! سامنے دیوار ہے! سپاٹ سفید دیوار! جس کے پار آنکھیں کچھ نہیں دیکھ پا رہیں!  ایک مہینہ اور اس سے اوپر اٹھائیس دن! سائبیریا سے آئی ہوئی کونجیں جھیلوں پر اتری ہوئی تھیں! کنارے آباد تھے۔ پروں کو پھڑ پھڑاتی تھیں تو جیسے فرشتوں کے پر ساتھ پھڑ پھڑاتے تھے۔ حدِ نگاہ تک۔ افق سے افق تک۔ کسی نے سونے کا پانی چھڑک دیا تھا! شفق تھی مست کر دینے والے رنگوں کے ساتھ! دھنک آسمان کے ایک طرف نہیں، دو طرف تھی! رنگ ہی رنگ! پھوار! ہلکی پھوار! تازگی بھری رطوبت دل کے اندر تک پہنچاتی پھوار! مگر کونجیں جھیلوں کے کناروں کو ویران کر کے اُڑ گئیں! کوہِ قاف سے آئے رنگین طلسمی پرندے اپنے پرستانوں کی طرف واپس چلے گئے۔ حمزہ اور زہرا میلبورن کو پرواز کر گئے! رات پونے بارہ بجے ہوائی اڈے سے خالی ہاتھ پلٹے تو عجیب کیفیت تھی۔ ساڑھے پانچ سالہ حمزہ اور ساڑھے تین سالہ زہرا کے بغیر گھر سُونا تھا! کہاں چہل پہل، چیخ و پکار، چل...

ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں

ڈیڑھ ٹن کا ایئرکنڈیشنر مسلسل چل رہا ہے۔ کھڑکیوں پر دبیز پردے پڑے ہیں۔ کمرے میں ہلکی ہلکی‘ نرم‘ رومان بھری روشنی ہے۔ آبنوس کی دیدہ زیب میز پر خشک میوے پڑے ہیں۔ ایک طرف دودھ‘ شہد اور مصفّیٰ پانی سے بھری ٹھنڈی بوتلیں رکھی ہیں۔ دوسری طرف خوان دھرے ہیں جن میں اشتہا انگیز پکوان پڑے ہیں۔ تخیل کہتا ہے کہ اس خنک آرام گاہ کے باہر‘ آسمان پر بادلوں کی چھتری تنی ہے۔ ٹھنڈی ہوا کے جھونکے جسموں کو ترو تازگی بخش رہے ہیں۔ ہلکی ہلکی پھوار پڑتی ہے تو آسودگی کا احساس دوچند ہو جاتا ہے۔ ذرا اس طرف آسمان پر دھنک اپنے سارے رنگوں کے ساتھ نظروں میں طرب بھر رہی ہے۔ درخت جھوم جھوم کر بہار دکھلا رہے ہیں۔ پھولوں پر تتلیاں اڑ رہی ہیں۔ نہروں میں پانی اٹھکیلیاں کر رہا ہے۔ دنیا کشمیر جنت نظیر بنی ہوئی ہے یا کوہ قاف کا پرستان۔ بہشت ایسا ہو گا    ؎ بہشت آنجا کہ آزاری نہ باشد کسی را با کسی کاری نہ باشد کسی سے جھگڑا نہ تعرّض‘ نہ کوئی دل آزادی! مگر آہ ! ایسا نہیں ہے۔ یہ محض خنک آرام گاہ میں تشریف فرما حضرات کی پرواز تخیل ہے۔ ایئرکنڈیشنر سے ٹھنڈے کیے کمرے میں‘ دبیز پردوں کے سائے میں‘ خشک میوئوں ...

ظرف بڑا کیجیے

سچی بات یہ ہے کہ میرزا طاہر بیگ کے دادا نیک اور دیانت دار شخص تھے۔ وعدہ پورا کرتے۔ تاجر تھے مگر ایسے کہ لین دین میں ننگی تلوار کی طرح صاف گو اور کھرے۔ بتا دیتے کہ یہ شے جو بیچ رہا ہوں، زیادہ اچھی نہیں! میرزا کے والد نے بھی یہ روایت قائم رکھی مگر یہ داستان ماضی کی تھی۔ میرزا تک معاملہ پہنچا تو بات بدل چکی تھی۔ میرزا ایسے تھے جیسے ان کے اردگرد سارا معاشرہ! جہاں موقع ملتا، جھوٹ بول جاتے۔ وعدہ کبھی پورا کرتے کبھی نہ کرتے! دیانت داری کی شہرت اب ایک اور خاندان میں منتقل ہو گئی۔ یہ چودھری تھے! چوٹی کے بزنس مین! کروڑوں کا لین دین! مگر ہر شخص کو معلوم تھا کہ ایک پیسے کا ہیر پھیر نہیں کریں گے۔ یہی وجہ تھی کہ لاکھوں کی نقد رقم بغیر رسید لیے بیوپاری ان کے حوالے کر دیتے۔ صاف گوئی اور شفافیت اس خاندان کی ضرب المثل ہو چکی تھی۔ میرزا طاہر بیگ ہر روز مغرب کے بعد اپنے بچوں کو پاس بٹھاتے اور باپ دادا کی دیانت کی کہانیاں سناتے۔ جب بچے پوچھتے کہ کیا ایسے دیانت دار لوگ آج کے زمانے میں نہیں پائے جاتے؟ تو عجیب بات تھی کہ میرزا کے منہ کو قفل لگ جاتا! ظرف چھوٹا تھا۔ اس چھوٹے ظرف کے اوپر حسد نے جالا تنا ہؤ...

کھوٹے سکے، اندھے سنار

پہلا منظر بھارت ایران اور افغانستان کے درمیان چاہ بہار بندرگاہ کی تعمیر کے معاہدے پر دستخط ہو گئے ہیں۔ پاکستان کے لیے یہ ایک زبردست سفارتی اور  Strategic  شکست ہے۔ تین ہمسایہ ملکوں نے اسے مکمل بائی پاس کرتے ہوئے آپس میں ہاتھ ملا لیے ہیں اور کھلم کھلا گوادر منصوبے کو نا کام کرنے کا عزم کر لیا ہے۔ نہ صرف یہ کہ عزم کر لیا ہے بلکہ موثر اور منظم طور پر قدم بھی اٹھا رہے ہیں۔ ایران اور انڈیا کے درمیان اس موقع پر بارہ معاہدے ہوئے ہیں جن کا دامن ثقافت سے لے کر ٹیکنالوجی تک پھیلا ہوا ہے۔ بھارت چاہ بہار منصوبے کے لیے پچاس کروڑ ڈالر مہیا کرے گا۔ تینوں سربراہوں نے مشترکہ پریس کانفرنس کی جس میں ایرانی صدر نے کہا کہ یہ معاہدہ ’’دو عظیم ملکوں‘‘ کے درمیان تعاون کی بہت بڑی علامت ہے۔ بھارتی میڈیا چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ اس معاہدے سے پاکستان بائی پاس ہو جائے گا اور افغانستان کو تجارت کے لیے ایک ایسا راستہ ملے گا جس میں وہ پاکستان سے مکمل طور پر بے نیاز ہو جائے گا۔ اہم ترین عنصر اس سارے پیش منظر کا یہ ہے کہ ایرانی صدر نے اس معاہدے کو نہ صرف اقتصادی بلکہ ’’سیاسی‘‘ اور ’’علاقائی‘‘ بھی قرار...

لب دوزی

بابا جی نے چائے کا گھونٹ بھرا۔ پھر ایک لمبی آہ بھری! عمامہ ان کا سفید تھا۔ تہمد بھی سفید کھدرکا تھا۔ داڑھی مہندی اور خضاب کے آمیزے سے رنگی ہوئی تھی۔ چٹائی پر نیم دراز تھے۔ شاگرد دم بخود تھے کہ آہ کیوں بھری ہے؟ ’’آج چائے میں لطف نہیں آ رہا!‘‘ بابا جی نے کہا۔  پھر انہوں نے چائے کی صفات بتائیں۔ ’’لازم ہے کہ چائے میں تین خواص ہوں تا کہ لطف اندوز ہوا جا سکے! اوّل: لبریز ہو! یعنی فنجان (پیالہ) لبالب بھرا ہو! دوم: لب سوز ہو! اتنی گرم کہ ہونٹ جیسے جل اٹھیں گے! سوم: لب دوز ہو! یعنی شیرینی اس میں اس قدر ہو کہ حلاوت کے زور سے ہونٹ آپس میں جُڑ جائیں! بابا جی کو دنیا سے کوچ کیے نصف صدی بیت چکی ہے۔ اس اثنا میں چائے پر کئی دورگزر گئے! اُس زمانے کا دودھ خواب و خیال ہوا! شکر دو چمچ سے ڈیڑھ ہوئی۔ پھر ایک اور اب نصف!  رہی لب سوزی! تو بہت لوگ اب خاصی ٹھنڈی کر کے پیتے ہیں جیسے چائے نہ ہو، شربت ہو! پوچھیے کہ ٹھنڈی چائے کا کیا فائدہ؟ تو آگے سے سوال داغیںگے کہ گرم چائے پینے میں کتنا ثواب ہے؟ اب تک آپ سمجھ چکے ہوں گے کہ لب دوزی سے مراد ہونٹوں کا سِی دینا ہے! آپ کئی اور...

کوفہ سے پاکستان تک

بازار سے گزرتا یہ شخص مسلسل اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا۔ کبھی دائیں طرف دکانوں کو دیکھتا کبھی بائیں طرف بلند و بالا مکانوں! عجیب بات تھی کہ اُس کی بائیں آستین پر بیسیوں مکھیاں بیٹھی تھیں اتنی ہی ساتھ ساتھ اُڑتی جا رہی تھیں اور بھنبِھنا رہی تھیں۔ اچانک اس کی نظر اُس وسیع و عریض مسجد پر پڑی جو بازار کے وسط میں واقع تھی۔ مسجد کے لمبے چوڑے صحن میں ایک طرف نوجوان طلبہ حلقہ زن تھے تو دوسرے گوشے میں چھوٹے بچے سبق پڑھ رہے تھے۔ اُس کی نظریں بچوں پر پڑیں اور وہیں ٹھہر گئیں۔ وہ دیر تک انہیں دیکھتا رہا۔ صحن کے جس حصے میں طلبہ حلقہ باندھے‘ محو درس تھے‘ وہاں ایک بزرگ تشریف فرما تھے جو ان طلبہ کے استاد تھے۔ انہوں نے اُس شخص کی حرکات و سکنات دیکھیں اور پھر اپنے شاگردوں کو بتایا کہ یہ شخص اس شہر کا نہیں ہے۔ اس کے بائیں ہاتھ میں کوئی شیرینی ہے اور یہ پیشے کے لحاظ سے بچوں کا مدرس ہے۔ ایک شاگرد اُٹھا اور جا کر اُس شخص سے اِن باتوں کی تصدیق چاہی۔ تینوں باتیں درست نکلیں شاگردوں کے پوچھنے پر استاد گرامی نے بتایا کہ یہ شخص جس طرح مسلسل اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا‘ اُس سے صاف ظاہر تھا کہ اجنبی تھا۔ مقامی شہری کو...

دیکھتا کیا ہے مرے منہ کی طرف

وسطی بھارت کا کوئی شہر تھا۔ وزیراعظم مودی تقریر کر رہا تھا۔ ایک لمحہ کے لیے مسلسل بدلتے چینل روک دیئے۔ ہاتھ جوڑ کر عوام سے درخواست کر رہا تھا کہ بھگوان کا واسطہ ہے، صفائی کا خیال رکھو،کوڑا ہر جگہ نہ پھینکو، وہاںپھینکو جہاں پھینکنے کی جگہ ہے۔ گلیاں صاف ہوں گی، شاہراہیں صاف ہوں گی تو شہر بھی صاف ستھرے ہوں گے۔ مہینوں گزر گئے یہ تقریر، یہ منت سماجت، عوام کے سامنے ہاتھ جوڑنا، عرض گزاری کرنا، بھولتا نہیں! مسلمانوں کا دشمن ہے پاکستان کا ویری ہے۔ گجرات میں ہزاروںکلمہ گوئوں کو شہید کرایا۔ گھر اُجڑ گئے، آر ایس ایس کا کٹر پیروکار ہے۔ مگر جہاں تک بھارت کا تعلق ہے وژن رکھتا ہے۔ کچھ کرنا چاہتا ہے۔ گجرات کی معاشی حوالے سے حالت بدل ڈالی۔ وزیراعظم بننے کے بعد جس تیزی سے ملک ملک گیا، بھارت کے معاملات پر بات چیت کی، دفاعی پیداوار کے منصوبوں میںدلچسپی لی، بیرون ملک بھارتیوں سے، دوروں کے درمیان رابطہ کیا اور بڑے بڑے جلسوں سے خطاب کیا، اس سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح سرگرم کار ہے اور کچھ کرکے دکھانا چاہتا ہے! لیڈر کون ہوتا ہے؟ جو محض یہ جوڑ توڑ کر سکے کہ الیکشن کس طرح جیتنا ہے؟ ایوان صدرمیں یا وزیراعظم ہ...

انہیں زیادہ سے زیادہ تعداد میں برآمد کیجیے

ملک کی اِس وقت جو صورتِ حال ہے، اس کا بہترین حل وہی ہے جو قومی اسمبلی کے ایک معزز رکن نے تجویز کیا اور جسے متعلقہ وفاقی وزیر نے فوراً قابلِ غور قرار دیا! خوش فہمی ایک ارزاں جنس ہے۔ خود رَو جھاڑی کی طرح۔ ایسے فاضل حضرات کی کمی نہیں جو پاناما لیکس کو سنہری موقع قرار دے رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس سنہری موقع سے فائدہ اُٹھا کر فلاں ادارہ صفائی کرے گا اور فلاں ادارہ صفائی کے اس عمل کے دوران فلاں ادارے کی پشت پر کھڑا ہو گا۔ کاش انہیں معلوم ہوتا کہ اتحادِ ثلاثہ اس قسم کی کسی خوش فہمی پر عمل کا غلاف نہیں چڑھنے دے گا! یہ اتحادِ ثلاثہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نون اور مولانا فضل الرحمن کا ہے۔ یوں تو کہنے کو اے این پی بھی حکومتی پارٹی کے ساتھ ہے مگر دماغ کے جو خلیے زرداری صاحب اور مولانا صاحب نے پائے ہیں، ان کا اے این پی والے سوچ بھی نہیں سکتے! اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں اگر ایک طرف نوجوان بلاول وزیراعظم سے اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کر رہا ہے، ’’مودی کے یار کو ایک دھکا اور دو‘‘ کے نعرے بلند کر رہا ہے اور دوسری طرف نام نہاد اپوزیشن کے نام نہاد رہنما خورشید شاہ یقین دہانی کرا رہے ہیں کہ میاں...

نہ گلہ ہے دوستوں کا نہ شکایتِ زمانہ

پینسٹھ سالہ شخص نے اپنے پوتے کو بتایا کہ جب اس کے دادا اس کی عمر کے تھے تو ان کے گھر میں ریفریجریٹر نہیں تھا۔ بچہ حیران ہوا۔ ریفریجریٹر اور گاڑی کے بغیر گھر کا تصور ہی اس کے ذہن میں نہیں تھا! ’’پھر آپ آئس کریم کہاں رکھتے تھے اور ٹھنڈے ٹھنڈے پانی کی بوتل کہاں ہوتی تھی؟‘‘ اب اُسے کیسے بتایا جاتا کہ آئس کریم اُس وقت تک پیدا ہی نہیں ہوئی تھی اور پانی گھڑے کا ہوتا تھا۔ پانی ٹھنڈا کرنا مقصود ہوتا تو اس میں برف ڈالی جاتی تھی۔ ہر محلے میں ایک برف فروش ہوتا تھا جو بڑے بڑے چٹان نما برف کے ٹکڑوں کو پٹ سن کی بوریوں سے لپیٹ کر رکھتا۔ برف خریدنے والوں کا ہجوم ہوتا۔ باقی اہل مشرق کا تو پتا نہیں‘ لیکن ہم پاکستانیوں نے ہر اُس سہولت کا خوب خوب غلط استعمال کیا جو اہل مغرب نے ایجاد کی! ریفریجریٹر آنے سے گھروں میں تازہ خوراک کا سلسلہ کم و بیش منقطع ہی ہو گیا۔ اسی طرح گاڑیاں آنے سے لوگوں نے پیدل چلنا چھوڑ دیا۔ مغربی ملکوں میں بھی ہفتے بھر کا سودا سلف اکٹھا خریدا جاتا ہے مگر یہ جو جنون پورے پورے بکرے خرید کر فریزر بھر لینے کا ہمارے ہاں پایا جاتا ہے‘ اس کی مثال کہیں نہیں ملتی۔ گوشت وہاں اسی مقدار ...

واہ رے منافقت!

امانت خان کی اپنے بیوی بچوں کے ساتھ چخ چخ اب روزمرہ کا معمول بن چکی تھی‘{ اور اُس دن تو میں بھی اپنے اس دوست کے گھر موجود تھا۔  نذیر شاہ کا گھرانہ یوں لگتا تھا امانت خان کا آئیڈیل بن گیا تھا۔ بات سے بات نکلتی تھی اور جیسے ہی نکلتی تھی‘ امانت خان‘ نذیر شاہ کے گھرانے کی تعریف شروع کر دیتا تھا۔ معلوم نہیں کئی پشتوں کا احساس کمتری تھا یا کوئی اور وجہ تھی! اُس دن میں اُس کے گھر‘ لائونج میں بیٹھا چائے پی رہا تھا اور بھابھی کے ہاتھ کے بنے ہوئے گرم گرم خستہ پکوڑے کھا رہا تھا۔ اچانک کہنے لگا: ’’یار وہ سُنا تُم نے! نذیر شاہ صاحب کی بیگم کالج میں ایسوسی ایٹ پروفیسر تھیں‘ اب فُل پروفیسر بن کر یونیورسٹی میں تعینات ہو گئی ہیں! کیا لائق فائق خاتون ہے! چند دن پہلے ایک سیمینار میں شرکت کرنے سنگاپور گئی ہوئی تھیں‘‘۔ میں نے دیکھا کہ مسکراتی ہوئی بھابھی کے ماتھے پر شکنیں پڑ گئیں۔ انہوں نے براہِ راست مجھے مخاطب کیا: ’’عجیب دوغلی شخصیت کا مالک ہے آپ کا یہ دوست بھی! کئی برسوں سے منتیں کر رہی ہوں کہ ملازمت کرنے دو۔ ایم بی اے کر کے گھر بیٹھی ہوں مگر اس کا ہمیشہ ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ خاندان میں خواتی...

عزت؟ یہ کس چڑیا کا نام ہے؟

انسان کو جرم کا ارتکاب کرنے سے کون سی چیز بچاتی ہے؟ خدا کا خوف اور آخرت کا ڈر! وہ جو کروڑوں کی پیش کش ٹھکرا دیتے ہیں اور مست جھومتے شباب کی ہمکتی دعوت دیتی گود سے منہ پھیر لیتے ہیں، انہیں دیکھنے والا اُس خدا کے سوا کون ہوتا ہے جو کسی کو نظر نہیں آتا اور جس کی موجودگی میں خلقِ خدا وہ سب کچھ کرتی ہے جو کسی دوسرے انسان کی موجودگی میں کرنے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا! دنیا کی کوئی پولیس، کوئی ایف آئی اے، کوئی سی آئی اے، کوئی نیب اتنی طاقت ور نہیں جتنا آخرت کا دھیان ہے بشرطیکہ آخرت پر یقین رسمی، خاندانی یا ثقافتی نہ ہو، بلکہ اس طرح ہو جیسے سامنے پڑے ہوئے گلاس کے بارے میں ذرا سا شک بھی نہ ہو کِہ یہ گلاس تھے اور فرش پر گرنے کی صورت میں ٹوٹ جائے گا! قلاش ٹیکسی والا جب کرنسی نوٹوں سے بھرا ہوا تھیلا اصل مالک کو لوٹاتا ہے تو وہ ایسا کیوں کرتا ہے؟ حالانکہ اسے پکڑا جا سکتا ہے نہ کوئی دعویٰ کر سکتا ہے! یہ یقین تو دل میں راسخ ہے کہ کانچ یہ گلاس جو سامنے میز پر پڑا ہے، فرش پر گرا تو ٹوٹ جائے گا مگر یہ یقین دل میں راسخ نہیں کہ حشر کے دن حساب دینا ہے۔ اگر یہ یقین راسخ ہوتا تو حج اور عمرے کرنے و...

صرف تین گھنٹے کی مسافت پر

اس نے عنبرین کو بالوں سے پکڑا اور گھسیٹتا ہوا اس مکان تک لے گیا جہاںاور لوگ موجود تھے، مرکزی ملزم بھی وہیں بیٹھا تھا۔ گھر سے نکلتے ہی لڑکی کا دوپٹہ اس کے منہ پر باندھ دیا گیا تاکہ وہ شور شرابہ نہ کرسکے۔ لڑکی جب اس مکان میں پہنچی جہاں جرگے والے منصف بیٹھے تھے، تو اس پر تھپڑوں کی بارش کردی گئی۔ گرفتار ملزموں میں سے ایک کی شہادت یہ ہے کہ منہ اس کا بندھا ہوا تھا مگر ہاتھ جوڑ جوڑ کر منت سماجت کر رہی تھی اور بلک بلک کر رو رہی تھی۔ اس مار کٹائی میں دوپٹہ اس کے منہ سے ہٹ گیا۔ اب اس نے خدا اور رسول کے واسطے دیئے۔ وہ اپنا قصور پوچھتی تھی۔ اس موقع پر مرکزی ملزم نے حکم دیا کہ قصہ ختم کرو۔ دوپٹے سے گلا گھونٹنے کی کوشش کی گئی۔ مزاحمت پر پہلے سے لائے گئے نشہ آور انجکشن سے اسے بے ہوش کیا گیا۔ پھر گلا گھونٹا گیا۔ پھر لاش کو گاڑی کی سیٹ کے ساتھ باندھا گیا۔ پھر گاڑی کو جلا کر راکھ کیا گیا۔ پھر یہ جرگہ لڑکی کی ماں کے پاس گیا اور بتایا کہ اگر اس نے زبان کھولی تو اس کے بیٹے کو اور خاندان کے باقی افراد کو بھی اسی طرح نذر آتش کردیا جائے گا! یہ واقعہ کسی دورافتادہ جنگل میں نہیں پیش آیا۔ جرگے نے جہاں یہ ...

جوڑے

سیّد برادران نے پوری سلطنت کو مٹھی میں لے رکھا تھا! آغاز ان کے اثر و رسوخ کا اورنگزیب کے زمانے ہی میں ہو چکا تھا۔ بڑا بھائی سید حسن علی خان شہنشاہ کی آخری مہمات میں اس کے ساتھ تھا۔ پھر اس کے جنازے میں شریک ہوا۔ چھوٹا بھائی سید حسین علی خان ذہانت میں تیز تر تھا۔ پہلے اجمیر پھر آگرے کا حاکم رہا۔ 1707 ء میں اورنگزیب نے دنیا سے کوچ کیا۔ اس کے بعد بارہ سال میں سات مغل شہزادے یکے بعد دیگرے تخت نشین ہوئے۔ میوزک چیئر کے اس کھیل میں سارا کنٹرول سید برادران کے ہاتھ میں رہا! اورنگزیب کا بیٹا معظم، بہادر شاہ اوّل کے لقب سے تخت پر بیٹھا تو سید برادران اس کی پشت پر تھے۔ پانچ سال بعد وہ مرا تو اس کے جانشین جہانداد شاہ کو سید برادران نے قتل کرا دیا۔ پھر فرخ سیر نے سلطنت سنبھالی تو اصل بادشاہت سید برادران کے ہاتھ میں رہی۔ فرخ سیر اُن کے ہاتھ میں کٹھ پتلی کی طرح ناچتا تھا۔ 1791ء میں ان دونوں بھائیوں نے بادشاہ کو قید کر لیا۔ پہلے اُسے بھوکا رکھا گیا۔ پھر سوئیوں سے آنکھیں نکال کر اندھا کیا گیا۔ پھر گلا گھونٹ کر مار دیا گیا۔ پھر اس طاقتور جوڑے نے رفیع الدرجات کو تاج پہنایا۔ پھر رفیع الدولہ کو اور پھ...