اشاعتیں

اپریل, 2016 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

ریکارڈ

جنرل ضیاء الحق نے جولائی1977ء کے پہلے ہفتے میں ذوالفقار علی بھٹو کو تخت سے اتارا اور اقتدار کا تاج اپنے سر پر رکھ کر تخت نشین ہوئے۔ الطاف حسن قریشی صاحب نے جنرل صاحب کا انٹرویو‘ جو ان کی تازہ کتاب ’’ملاقاتیں کیا کیا‘‘ میں شامل ہے‘ اس کے دو ماہ بعد‘ ستمبر میں لیا۔ اس انٹرویو سے تاثر یہی ملتا ہے کہ انٹرویو لینے والے اور دینے والے کے درمیان مکمل نہیں تو اچھی خاصی ذہنی ہم آہنگی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو انٹرویو کے دوران ایسے مقامات آتے رہے جہاں جنرل صاحب کو آڑے ہاتھوں لیا جا سکتا تھا۔ ایک طرف جنرل صاحب اس انٹرویو میں بار بار کہہ رہے تھے کہ’’ہم اقتدار پر قابض رہنے کے لیے نہیں اقتدار منتقل کرنے آئے ہیں۔ عام انتخابات انشاء اللہ 18اکتوبر کو ضرور منعقد ہوں گے۔‘‘ ’’میرا موقف واضح اور غیر مبہم ہے‘ میں صرف آزادانہ انتخابات منعقد کرانے آیا ہوں۔ نوے دن کے بعد اقتدار عوام کے نمائندوں کے سپرد کر دوں گا!‘‘ دوسری طرف ایسے واضح اشارات بھی دیے جا رہے تھے کہ وہ ملک کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں ۔مثلاً ’’ہم اپنے معاشرے میں سزائوں کے نفاذ کے ساتھ ساتھ اقتصادی اصلاحات بھی نافذ کر رہے ہیں۔ ہمارا مقصد ا...

بہت جی خوش ہئوا اے ہم نشیں کل جوش سے مل کر

تصویر

بانکے پہریدار!

خیانت نہ کرنا، بد عہدی نہ کرنا، چوری نہ کرنا، مقتولوں کے اعضا نہ کاٹنا۔ بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کو قتل نہ کرنا، کوئی بھی درخت نہ کاٹنا نہ جلانا، تمہارا گذر ایسے لوگوں کے پاس ہوگا جو اپنے آپ کو عبادت کے لیے وقف کیے گرجوں اور عبادت خانوں میں بیٹھے اپنے اپنے مذہب کے مطابق عبادت کر رہے ہوں گے،انہیں ان کے حال پر چھوڑ دینا، ان سے کوئی تعرض نہ کرنا، تمہیں ایسے لوگوں کے پاس جانے کا موقع ملے گا جو تمہارے لیے برتنوں میں ڈال کر مختلف قسم کے کھانے پیش کریں گے، تمہارا فرض ہے کہ بسم اللہ پڑھ کر کھانا شروع کردو۔ یہ اُن ہدایات میں سے چند ہیں جو امیر المومنین ابوبکر صدیقؓ نے لشکرِ اسامہ کی روانگی کے وقت حضرت اسامہؓ کو دی تھیں۔ درختوں کی حفاظت کے متعلق اور درخت نہ کاٹنے کے بارے میں متعدد احادیث میں بھی تلقین کی گئی ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے یاد آ رہا ہے کہ کراچی میں بارہ سو درخت قتل کر دیے گئے ہیں۔ اشتہارات کی غرض سے بِل بورڈز کی جگہ بنانا تھی! اس بھیانک وحشیانہ جرم کے خلاف شہریوں کی ایک تنظیم سپریم کورٹ جا کر روئی ہے۔ سپریم کورٹ نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے پوچھا ہے کہ شاہراہ فیصل پر واق...

نہیں جناب وزیر اعظم نہیں

تصویر

مزید دیر نہیں ہونی چاہیے!

ہائوسنگ سیکٹر ہی میں فوج اور سول کا موازنہ کر کے دیکھ لیجیے۔ پاکستان آرمی نے ریٹائر ہونے والے افسروں کے لیے مکان بنانے کی سکیم شروع کی جس کے مصارف افسر قسطوں میں ادا کرتے تھے۔ آج تک ہر افسر کو اپنی باری پر رہائش گاہ مل رہی ہے۔ زیادہ سے زیادہ چار یا چھ ماہ انتظار کرنا پڑتا ہے۔ سوائے بیوگان کے کسی کو کسی پر ترجیح نہیں دی جا رہی۔ بریگیڈیر ہے یا میجر،رینک کے حساب سے ریٹائرمنٹ پر سر چھپانے کی جو جگہ اس کا استحقاق ہے‘ مل جاتی ہے۔ اس کے مقابلے میں آپ مرکزی حکومت کی ہائوسنگ فائونڈیشن کی حالت دیکھیے۔ فائونڈیشن نے ان سرکاری ملازموں کے لیے جو 2007ء میں یا اس کے بعد ریٹائر ہوئے وفاقی دارالحکومت میں سیکٹر جی 14مختص کیا۔ نو سال ہو گئے، فائونڈیشن پوری قیمت وصول کر چکی، آج تک کسی کو قبضہ تک نہیں ملا۔ مضحکہ خیز حقیقت یہ ہے کہ جہاں ناجائز تعمیرات کو گرانا ہے‘ وہاں مزید تعمیرات ہو رہی ہیں۔ کئی سرکاری ملازم عمر بھر کی پونجی ہائوسنگ فائونڈیشن کے حوالے کر کے پلاٹ کا انتظار کرتے کرتے قبر میں جا رہائش پذیر ہوئے۔ ریٹائرڈ ملازمین کبھی ضلعی انتظامیہ کے پاس جا کر فریاد کر رہے ہیں، کبھی فائونڈیشن کو شرم دلان...

وزیر ریلوے محنت کر رہے ہیں مگر

تصویر

,لاچار بُڑھیا

47  سال پہلے مراکش کے صدر مقام رباط میں یہ سب جمع ہوئے اور عہد کیا کہ مسلمان ریاستیں متحد ہو کر دنیا میں اہل اسلام کا نام بلند کریںگی۔ نام اس تنظیم کا آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس رکھا گیا۔ نشان میں تین علامات تھیں۔۔۔۔ کعبہ، کرۂ ارض اور ہلال۔ 2011ء میں نام تبدیل ہوکر آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن ہوگیا۔47 سال! تین سال اور جمع کریں تو نصف صدی! آہ! امّتِ مسلمہ کی بد قسمتی! اختر ہوشیارپوری نے ماتم توکسی اور حوالے سے کیا تھا مگر اس تنظیم پر صادق آ رہا ہے      ؎ دامن خالی، ہاتھ بھی خالی، دستِ طلب میں گردِ طلب عمرِ گریزاں! عمرِ گریزاں! مجھ سے لپٹ اور مجھ پر رو ایک ہفتہ ہوا۔ استنبول میں اجلاس ہوا۔ آخری سیشن میں سعودی عرب اور اس کے حامی ملکوں نے ایران اور حزب اللہ کی مذمت میں قرار داد پیش کی۔ ایرانی صدر نے احتجاجاً آخری سیشن کا بائی کاٹ کیا۔ قرارداد میں افسوس ظاہرکیا گیا کہ ایران دوسرے ملکوں کے داخلی معاملات میں الجھتا ہے۔ بحرین، شام، یمن اور صومالیہ کی مثالیں پیش کی گئیں۔ حزب اللہ کی مذمت بھی اسی حوالے سے ہوئی۔ سیاسی حوالے سے او آئی سی کی ناکامی کا اس...

گرہ

اگر پاکستان‘ پاکستان نہ ہوتا‘ مراکش ہوتا‘ اردن ہوتا یا سعودی عرب ہوتا تو عوام کو معاف کیا جا سکتا تھا۔ ان ممالک  میں جمہوریت نہیں‘ خاندانی بادشاہتیں ہیں۔ پریس آزاد نہیں۔ پرائیویٹ ٹیلی ویژن چینل کام نہیں کر سکتے۔ انتخابات کی روایت نہیں‘ اسمبلیاں ناپید ہیں اور اگر ہیں تو برائے نام! ان ملکوں میں فرمانروائی کا تاج زرداری‘ نوازشریف اور شہبازشریف جیسے افراد کے سر پر رکھ دیا جائے اور عشروں تک حکومت کرتے رہیں تو اچنبھے کی کوئی بات نہیں! پاکستان شام‘ لیبیا اور عراق بھی نہیں جہاں ایک حکمران آتا ہے تو تیس سال حکومت کرتا ہے اور پھر اس کا بیٹا تخت پر بیٹھ جاتا ہے۔ شام‘ لیبیا اور عراق کے مظلوم اور خوفزدہ عوام کو معاف کیا جا سکتا ہے مگر پاکستانی عوام کو معاف نہیں کیا جا سکتا! اگر کسی کو یہ بات معلوم نہیں تو وہ جان لے کہ پاکستان جمہوریت کے بطن سے نکلا تھا۔ قائداعظمؒ کی مسلم لیگ نے تقسیم سے پہلے الیکشن لڑ کر اپنا وجود‘ اپنا استحقاق ثابت کیا تھا۔ برطانوی آقائوں کو اور کانگریس کو وزارت خزانہ تک مسلم لیگ کے حوالے کرنا پڑی۔ یہی پاکستانی عوام تھے جنہوں نے بقائمی ہوش و حواس‘ بہ رضا و رغبت قائداعظمؒ...

غالب چھٹی شراب…

اب یہ تعداد اور یہ مقدار کچھ اتنی زیادہ بھی نہیں تھی۔ صبح، پھر چاشت کے وقت، پھر دوپہر کے کھانے کے فوراً بعد، پھر سہ پہر کو، پھر مغرب کے لگ بھگ، پھر رات کے کھانے کے فوراً بعد، پھر رات کو ایک یا دو بار! ڈاکٹر صاحب کو جو دوست بھی ہیں، یہ تعداد اور یہ مقدار خوش نہ آئی۔ بریگیڈیئر ڈاکٹر شاہد رانا کا اپنا ہی سٹائل ہے۔ لہجہ نرم اور دھیما مگر ایڈوائس سنجیدہ اور اٹل۔ ’’یہ تو زیادہ ہے!‘‘ اور پھر انہوں نے وہ ایڈوائس لڑھکائی جو مریض کو خوش نہ آئی۔ ’’پانچ بجے شام کے بعد چائے نہیں پینی‘‘۔ منیر نیازی نے کہا تھا  ع نہ میں پڑھی نماز تے نہ میں جام شراب دا پیتا جام شراب کا تو کیا پیتے کہ عمر خیام تھے نہ غالب! ہم تو عدمؔ بھی نہ تھے۔ رہی نماز، تو وہ بھی بے رنگ، بے ذائقہ! سوز نہ گریہ! جیسے چھلکا ہو اور مغز نہ ہو! جیسے قالب ہو اور روح نہ ہو! بس یہ ہے کہ حاضری دے رہے ہیں۔ زندگی میں یہ ایک ہی تو رنگینی تھی جو ڈاکٹر صاحب نے پرہیز کی نذر کر ڈالی! فراغتی و کتابی و گوشۂ چمنی تو اب میسر نہیں، لے دے کر رات ہوتی ہے اور کوئی دامنِِ دل کھینچنے والی کتاب یا کوئی نظروں کو جکڑ لینے والی فلم اور ساتھ ایک ...

گیارہ کروڑ پنجرے

ایک انداز ے کے مطابق خواتین کی تعداد ہمارے ملک میں کم از کم پچپن فی صد ہے۔ فرض کیجیے اس وقت آبادی بیس کروڑ ہے تو خواتین گیارہ کروڑ بنتی ہیں۔ گیارہ کروڑ خواتین کی سرپرستی، ان کی حفاظت، ان کے حقوق کا تحفظ آسان کام نہیں۔ ملک میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے جتنے ادارے تھے، نجی یا سرکاری، نیم سرکاری یا این جی اوز، سب ناکام ثابت ہوئے۔ خواتین مایوس ہو چکی تھیں۔ خدا خدا کر کے روشنی کی ایک کرن نظر آئی ہے۔ مولانا کے روپ میں خواتین کا ایک محافظ، قومی اسمبلی میں ظہور پذیر ہوا ہے۔ گزشتہ ہفتے قومی اسمبلی میں غیرت کے نام پر قتل اور جبری آبرو ریزی کے حوالے سے بلوں کو مؤخر کر دیا گیا۔ وفاقی وزیر نے مؤخر کرنے کی وجہ یہ بتائی کہ ایک طاقت ور مولانا کو اس بل پر تحفظات ہیں۔ ان کی مشاورت ضروری ہے اور وہ شہر میں موجود نہیں؛ چنانچہ بل التوا میں ڈال دیئے گئے۔ اب اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ مولانا اور ان کی طاقت ور جماعت کے نمائندے جن علاقوں سے منتخب ہو کر آتے ہیں، وہاں خواتین ووٹ ڈالتی ہیں نہ ڈالنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ تو یہ اعتراض بے معنی ہے، مولانا کی جماعت اگر کل ووٹوں کا دو یا تین فی صد حاصل کرتی...

یہ ہے میری کہانی

زینب تین چار سال کی تھی تو ایک گانا اسے یاد ہو گیا تھا۔ بیٹھ کر آگے پیچھے جھومتی اور آنکھیں بند کر کے گاتی، کہیں کہیں سے بول تبدیل ہو جاتے، کہیں کچھ لفظ کسی اور شکل کے ہو جاتے جیسے بچے کرتے ہیں۔ ہم سب اس سے فرمائش کرتے اور وہ سنانا شروع ہو جاتی! گانے کے درمیان ایک بول تھا… ’’یہ ہے میری کہانی‘‘۔ آج یہ بول شدت سے یاد آ رہا ہے۔ اگر اس ملک کے منہ میں، جسے دنیا پاکستان کہتی ہے، زبان ہوتی تو آج یہ ضرور کہہ رہا ہوتا ’’یہ ہے میری کہانی‘‘! پاکستان کی کہانی آج کے اخبارا ت میں شائع ہوئی ہے۔ یہ صرف دو فقروں پر مشتمل ہے۔ ایک فقرہ اعتزاز احسن نے کہا: ’’وزیر اعظم بتائیں پیسہ کہاں سے آیا‘‘ دوسرا فقرہ مشاہد اللہ خان نے کہا ہے: ’’جس کے لیڈر زرداری ہوں وہ کسی پر کرپشن کا کیا الزام لگائے گا؟‘‘ بس! یہ ہے پاکستان کی کہانی، دو فقروں پر مشتمل کہانی۔ یہ کہانی سچی ہے۔ اس قدر سچی کہ جھٹلائی نہیں جا سکتی۔ یہ دو ایسی پارٹیوں کے رہنمائوں نے بیان کی ہے جو برے وقت میں ایک دوسرے کا ساتھ دیتی رہی ہیں۔ ایک دوسرے کو بچاتی رہی ہیں۔ جس آصف زرداری کو وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف خود کار ڈرائیو کر کے...

سُرمہ ڈالنے والی سلائی اور ہاتھی

رات کو امریکی ایبٹ آباد آئے۔ کس طرح آئے؟ ہماری سرحدوں کے محافظ کہاں تھے؟ اتنا عرصہ اسامہ بن لادن کیسے چھپا رہا؟ یہ سب سوال ایک طرف رکھ دیتے ہیں اور اُس صبح کی بات کرتے ہیں جو اُس رات کے بعد طلوع ہوئی تھی۔ ایک ہنگامہ تھا، تہلکہ تھا، حیرتیں تھیں۔ الیکٹرانک میڈیا پر شعلے تھے، دھواں تھا، بھانت بھانت کی آوازیں تھیں۔ کالم نگار چینل پر چینل بدل رہا تھا۔ قرار نہیں آ رہا تھا۔ بنیادی انفارمیشن وہی تھی جو پہلے ہی سے موجود تھی! اب جو کچھ میڈیا پر ہو رہا تھا، وہ اندازوں پر مشتمل تھا۔ اندازے، مزید اندازے؛ تبصرے، مزید تبصرے۔ ایک چینل نے روک لیا۔ عوام کا ردِعمل پیش کیا جا رہا تھا۔ ٹی وی والا مختلف لوگوں کے سامنے مائک لے جاتا اور پوچھتا کہ آپ کا کیا خیال ہے؟ ان میں راہگیر تھے، دکاندار تھے، گاہک تھے۔ مولانا لوگ تھے، بے ریش افراد تھے۔ پڑھے لکھے تھے، نیم تعلیم یافتہ تھے، ان پڑھ تھے۔ جوابات اِس طرح کے تھے : یہ امریکی سازش ہے۔ حکومت نے اسے خود ہی چھپایا ہوا تھا۔ اسامہ بن لادن اس مکان میں موجود ہی نہیں تھا، سب جھوٹ ہے۔ ایسا واقعہ سرے سے پیش ہی نہیں آیا۔ یہ امریکہ‘ بھارت اور اسرائیل کا ...

مہاجن

تصویر

انسانوں کی صرف دو قسمیں ہیں

تصویر

بکری کی چھینک

تصویر

قارئین کی خدمت میں دست بستہ

آپ نے وہ کہانی کئی بار سنی ہو گی جس میں ایک دادا‘ ایک پوتا اور ایک ان کا گدھا‘ لوگوں کو خوش کرنے کی کوشش کرتے رہے اور سراسر ناکام ہوئے۔ دادا پوتا دونوں گدھے پر سوار جا رہے تھے۔ راہگیروں نے کہا‘ دو مشٹنڈے غریب جانور پر سوار ہیں۔ ایک پیدل چل لے تو کیا حرج ہے‘ یہ سن کر دادا اتر پڑا اور پیدل چلنے لگا۔ اس پر راہگیروں نے پوتے پر اعتراض کیا کہ بوڑھے دادا کو تھکا رہا ہے اور خود مزے سے سواری پر بیٹھا ہے۔ اب پوتا نیچے اتر گیا اور دادا کو گدھے پر بٹھایا۔ مگر جو راہگیر اب ملے‘ انہوں نے دادا پر نفرین بھیجی کہ ذرا سا بچہ جا رہا ہے اور سخت دل بابا سواری کے مزے لے رہا ہے۔ اب دونوں پیدل چلنے لگے۔ نیا اعتراض یہ ہوا کہ عقل کے اندھوں کو سواری میسر ہے اور دونوں میں سے ایک بھی فائدہ نہیں اٹھا رہا۔ اب ایک ہی صورت بچی تھی کہ دونوں گدھے کو سر پر اٹھا لیتے مگر اس پر راہگیروں نے انہیں دنیا کے بے وقوف ترین دادا پوتا کا خطاب دے دینا تھا! کچھ کچھ یہی تعلق کالم نگار اور قارئین کا ہے۔ قارئین کسی حال میں خوش نہیں ہو سکتے۔ آپ اگر کالم نگار ہیں تو آپ اپنی خوش دامن کو خوش کر سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ آپ اپنی بیگم کو خوش ک...

47 ہزار روپے !

اٹھائیس مارچ کے کالم میں ہم بتا رہے تھے کہ سابق سفارت کار جمشید مارکر نے اپنے مشاہدات اور تجربات پر مشتمل تازہ ترین تصنیف میں کیا لکھا ہے۔ وزیر اعظم لیاقت علی خان کو جب ایک خوشامدی درباری نے مشورہ دیا کہ اپنے ساتھ ملٹری سیکرٹری اور اے ڈی سی تعینات کریں تو انہوں نے انکار کر دیا۔ ان کا موقف تھا کہ وہ ایک عوامی شخصیت ہیں اس لیے ان تکلفات سے ماورا ہیں۔ سالہا سال تک کسی سربراہ ملک نے یہ روگ نہ پالا۔ جب بھٹو صاحب صدر سے وزیر اعظم بنے تو یہ روایت انہوں نے توڑی۔ جمشید مارکر لکھتے ہیں کہ بھٹو کو احساس تفاخر کے دورے پڑتے تھے۔ انہی میں سے ایک دورہ پڑا تو ملٹری سیکرٹری اور اے ڈی سی رکھ لیے۔ جمشید مارکر نے بھٹو کے حوالے سے  Megalomania کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا ترجمہ ہم نے احساس تفاخر کیا ہے۔ عربی میں اسے جنون العظمتہ کہا گیا ہے۔ یعنی شان و شوکت اور عظمت کا خبط ! دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ لیاقت علی خان کا پس منظر نواب خاندان کا تھا۔ جمشید مارکر صاحب کو فارسی کا ذوق ہوتا تو لکھتے  ع نہد شاخِ پُر میوہ سر بر زمین پھلوں سے بھری ٹہنی جُھکی ہوئی ہوتی ہے۔ فیملی بیک گرائونڈ ایک حقیقی فی...

تہران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا

تصویر