زبان کی لغزش یا علم کا فقدان؟
بہت سال پہلے کی بات ہے‘ دارالحکومت کے آئی ایٹ سیکٹر میں قیام تھا۔ ہمارے ایک دوست شاہ زیب بھی وہیں رہتے تھے۔ دیندار اور خوش اخلاق! علومِ مردم شماری (ڈیموگرافی) کی ڈگری آسٹریلیا سے لے کر آئے تھے۔ شماریات کے کسی ادارے میں اچھے منصب پر تھے! ان سے ملنا جلنا تھا۔ اس حوالے سے اُن کے ملازم بختیار سے بھی علیک سلیک تھی۔ وہ غالباً کسی سرکاری دفتر میں نائب قاصد تھا اور شاہ زیب صاحب کی سرکاری کوٹھی کے سرونٹ کوارٹر میں رہائش پذیر تھا۔ ایک دن عشاء کی نماز کے لیے مسجد تاخیر سے پہنچا۔ جماعت ہو چکی تھی۔ ایک گروہ ایک طرف بیٹھا تھا اور بختیار ان کے درمیان کھڑا تقریر کر رہا تھا۔ اس تقریر کو خاص اصطلاح میں ’’بیان‘‘ کہا جاتا ہے۔ نماز سے فارغ ہو کر میں بھی بیٹھ کر بیان سننے لگا۔ بختیار محیر العقول، ناقابلِ یقین واقعات پے در پے سنا رہا تھا۔ ایک عجیب و غریب واقعہ ختم ہوتا تو دوسرا شروع کر دیتا۔ بیان ختم ہؤا۔ اُسی نے دعا کرائی۔ مسجد سے نکلتے وقت اس سے پوچھا: ’’بختیار بھائی! آپ کا بیان بہت اچھا تھا۔ جو واقعات آپ سنا رہے تھے، وہ آپ نے کہاں سے پڑھے؟ ان کی کوئی سند؟‘‘ بختیار مسکرایا اور کوئی جواب نہ دیا...