اشاعتیں

مارچ, 2016 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

زبان کی لغزش یا علم کا فقدان؟

بہت سال پہلے کی بات ہے‘ دارالحکومت کے آئی ایٹ سیکٹر میں قیام تھا۔ ہمارے ایک دوست شاہ زیب بھی وہیں رہتے تھے۔ دیندار اور خوش اخلاق! علومِ مردم شماری (ڈیموگرافی) کی ڈگری آسٹریلیا سے لے کر آئے تھے۔ شماریات کے کسی ادارے میں اچھے منصب پر تھے! ان سے ملنا جلنا تھا۔ اس حوالے سے اُن کے ملازم بختیار سے بھی علیک سلیک تھی۔ وہ غالباً کسی سرکاری دفتر میں نائب قاصد تھا اور شاہ زیب صاحب کی سرکاری کوٹھی کے سرونٹ کوارٹر میں رہائش پذیر تھا۔ ایک دن عشاء کی نماز کے لیے مسجد تاخیر سے پہنچا۔ جماعت ہو چکی تھی۔ ایک گروہ ایک طرف بیٹھا تھا اور بختیار ان کے درمیان کھڑا تقریر کر رہا تھا۔ اس تقریر کو خاص اصطلاح میں ’’بیان‘‘ کہا جاتا ہے۔ نماز سے فارغ ہو کر میں بھی بیٹھ کر بیان سننے لگا۔ بختیار محیر العقول، ناقابلِ یقین واقعات پے در پے سنا رہا تھا۔ ایک عجیب و غریب واقعہ ختم ہوتا تو دوسرا شروع کر دیتا۔ بیان ختم ہؤا۔ اُسی نے دعا کرائی۔ مسجد سے نکلتے وقت اس سے پوچھا: ’’بختیار بھائی! آپ کا بیان بہت اچھا تھا۔ جو واقعات آپ سنا رہے تھے، وہ آپ نے کہاں سے پڑھے؟ ان کی کوئی سند؟‘‘ بختیار مسکرایا اور کوئی جواب نہ دیا...

Cover Point

ماسکو میں مصروفیات ختم ہوئیں تو پاکستانی وفد کو دو دن کے لیے لینن گراڈ لے جایا گیا۔ لینن گراڈ سے واپسی ایک آرام دہ ٹرین سے ہوئی۔ پاکستانی سفیر کو بتایا گیا کہ ٹرین جب ماسکو پہنچے گی تو صدر پوڈگرنی اور وزیر اعظم کو سیجن ریلوے سٹیشن پر موجود ہوں گے اور وہیں سے مہمان صدر کو ایئرپورٹ لے جائیں گے۔ ٹرین میں رات کے کھانے پر روسی وزارت خارجہ کے ایک اعلیٰ افسر نے پاکستانی سفیر سے کہا کہ روسی لیڈر اس بات پر حیران ہیں کہ صدر یحییٰ نے پاکستان کو ہتھیاروں کی فراہمی کے مسئلہ پر بات نہیں کی۔ یہ ایک اہم مسئلہ ہے۔ صدر یحییٰ کو مشورہ دیا جائے کہ اگلی صبح وہ یہ مسئلہ اٹھائیں۔ سفیر یہ پیغام پہنچانے فوراً صدر یحییٰ کے ڈبے میں حاضر ہوا، جہاں صدر اپنے ہم پیالہ دوستوں کے ساتھ آلامِ زمانہ سے دور بیٹھے تھے۔ مے نوشی کی محفل عروج پر تھی تا ہم پیغام سن کر صدر نے فوراً اپنے مے نوش ساتھیوں کو رخصت کیا۔ یوں لگتا تھا جیسے الکوحل کے اثرات کو بھی دماغ سے نکال دیا! صدر نے اس مسئلے پر تفصیلی بات چیت کر کے اگلی صبح کے لیے حکمت عملی طے کر لی۔ اس کے بعد ’’پارٹی‘‘ دوبارہ شروع ہو گئی۔ اگلی صبح لیڈروں کا قافلہ ایئرپور...

کیا مصطفی کمال صفر سے ضرب کھائیں گے؟

عید کی نماز پڑھنے ہم یونیورسٹی ہوسٹل سے اکٹھے نکلے۔ گمان غالب یہ تھا کہ کم از کم آج تو خواجہ صاحب نماز پڑھ ہی لیں گے۔ نماز کے بعد خطبہ ہوا۔ خطبے کے بعد دعا‘ پھر ہم ایک دوسرے کو گلے ملے۔ خواجہ صاحب کہیں دکھائی نہ دیئے۔ واپس ہوسٹل پہنچے تو بڑے گیٹ پر نئی شلوار قمیض میں ملبوس‘ خوشبو سے معّطر‘ ہنستے مسکراتے‘ بازوئوں کو وا کیے کھڑے تھے۔ معانقے کیے۔ کسی نے کہا خواجہ! ہم عید گاہ میں آپ کو تلاش کرتے رہے۔ ہنس کر بولے‘ بے وقوفو! میں بھی عیدگاہ آ جاتا تو واپسی پر یہاں تمہارا استقبال کون کرتا؟ گھر سے تم پہلے ہی دور ہو! ڈھاکہ یونیورسٹی میں قیام کا یہ واقعہ 23 مارچ کے حوالے سے مسلسل یاد آ رہا ہے! 23 مارچ اور عیدالفطر میں کتنی مماثلت ہے! عیدالفطر کا مقصد واعظین کرام یہ بتاتے ہیں کہ خوشی کا موقع تو ہے ہی مگر اس دن اپنا محاسبہ بھی کرنا چاہیے کہ رمضان کیسے گذارا! کیا وہ مقاصد پورے ہوئے جن کے لیے روزے فرض کئے گئے؟ روایت ہے کہ عید کے دن ایک صاحب امیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہ کو ملنے حاضر ہوئے۔ دیکھا کہ سوکھی روٹی تناول فرما رہے ہیں‘ اور گریہ کر رہے ہیں! خیر! عید کے دن نان خشک کھا کر گریہ کناں ہون...

سہسرام اور دہلی کے لیے ویزے

حافظ آباد میں وہی کچھ ہوا جو قصور میں ہوا! چھ ماہ گزر گئے۔ اگر وزیر اعلیٰ کسی سسٹم کو رائج کرتے یا رائج ہونے دیتے، تو حافظ آباد میں وہ کچھ نہ ہوتا جو قصور میں ہوا تھا۔ قصور میں کیا ہوا تھا؟ یہ گزشتہ اکتوبر کی بات ہے۔ وزیر اعلیٰ ’’اچانک‘‘ قصور پہنچے۔ انہوں نے قصور کے سرکاری ہسپتال کا دورہ کیا۔ صفائی کا حال برا تھا۔ بیت الخلا غلاظت سے بھرے تھے۔ پانی میسر تھا نہ روشنی کا انتظام تھا۔ بستروں کی چادریں گندی تھیں۔ ادویات عدم دستیاب تھیں۔ وزیر اعلیٰ نے ہسپتال انتظامیہ کی سرزنش کی اور پھر اپنے مخصوص خطیبانہ انداز میں میڈیا سے کہا کہ دکھی انسانیت کی خدمت نہ کرنے والوں کو عہدوں پر رہنے کا کوئی حق نہیں۔ چھ ماہ گزر گئے۔ ہسپتالوں میں صورتِ حال کس درجہ بہتر ہوئی؟ ایک فی صد بھی نہیں۔ اس لیے کہ وزیر اعلیٰ کسی سسٹم کسی نظام پر یقین نہیں رکھتے۔ ان کی کتاب میں کسی وزیر صحت اور کسی سیکرٹری صحت کے لیے کوئی صفحہ، کوئی پیراگراف نہیں۔ آپ یقینا ہر روز اخبارات کا مطالعہ کرتے ہیں۔ کیا آپ کو رانا ثناء اللہ کے علاوہ دوسرے صوبائی وزیروں کے نام یا ان کی وزارتوں کا علم ہے؟ صوبائی وزیر صحت کون ہے؟ کوئی ہے بھی...

حرف اُس شے کے تین ہیں

زیادہ مدت نہیں گزری جب عبدالستار ایدھی شدید بیماری کی وجہ سے ہسپتال داخل ہوئے۔ سوشل میڈیا پر جیسے طوفان آ گیا۔ ہر شخص تشویش کا اظہار کر رہا تھا۔ مرد بھی‘ عورتیں بھی‘ بچے بھی‘ بوڑھے بھی۔انہی دنوں ان کی وفات کی خبر اُڑ گئی۔ جلد ہی اس کی تردید کر دی گئی مگر اس تھوڑے سے وقت میں جیسے قیامتیں گزر گئیں۔ دلوں کی دھڑکنیں تیز ہو گئیں۔ ہاتھ دعائوں کے لیے اُٹھ گئے۔ آنکھیں آنسوئوں سے چھلکنے لگیں۔  اور اس شخص کی حیثیت کیا ہے؟ ملیشیا کی قمیض‘ اسی رنگ کا پاجامہ‘ اس لباس کی قیمت شاید ہزار پندرہ سو سے زیادہ نہ ہو۔ سر پر ایک عام سی ٹوپی! سائیدوں سے مُڑی تڑی ہوئی! لمبی داڑھی! ڈیزائنر سوٹ‘ نہ آگے پیچھے گاڑیاں‘ نہ ڈیفنس میں ‘نہ باتھ آئی لینڈ میں محل‘ نہ پرسنل سٹاف‘ نہ غیر ملکی دورے‘ نہ ڈنر‘ نہ عصرانے‘ نہ پریس کانفرنس‘ کچھ بھی نہیں۔ مگر ایدھی دلوں پر حکمرانی کرتا ہے۔ آج اگر عبدالستار ایدھی یہ اعلان کر دے کہ سب لوگ مال روڈ لاہور یا ڈی چوک اسلام آباد پر جمع ہو جائیں کہ اس نے وہاں ایک ضروری اعلان کرنا ہے تو اُس خدا کی قسم! جس نے عزت اور ذلت کے حقیقی معیار قائم کر رکھے ہیں‘ اتنا بڑا مجمع جمع ہو جائے کہ...

عورت بو!عورت بو

تو پھر شہباز شریف اور پنجاب اسمبلی نے کیا سمجھ رکھا تھا کہ اسلام کے محافظ ختم ہو گئے؟ نہیں! واللہ! نہیں! اسلام کے محافظ زندہ ہیں۔ جب تک یہ محافظین اسلام زندہ ہیں‘ عورت اس ملک میں‘ اپنی اوقات میں رہے گی!   ؎ وادیٔ قیس سلامت ہے تو انشاء اللہ سر بکف ہو کے جوانانِ وطن نکلیں گے اسلام اس وقت دنیا میں ہے بھی کہاں؟ جو جانتے ہیں وہ جانتے ہیں جو نہیں جانتے کان کھول کر سُن لیں کہ اسلام… اصل اسلام۔ اس وقت صرف دو ملکوں میں ہے۔ پاکستان اور افغانستان! الحمد للہ! پاکستان اور افغانستان کے علماء اور فقہا ء اس اصل اسلام کے محافظ ہیں! باری علیگ نے اپنی معرکہ آرا تصنیف ’’کمپنی کی حکومت‘‘ میں لکھا ہے کہ گزشتہ صدی کے اوائل میں جب دارالکفر اور دارالحرب کا مسئلہ کھڑا ہوا تو بہت سے ہندوستانی مسلمانوں نے ہجرت کرتے ہوئے افغانستان کا رُخ کیا۔ انہی میں سے ایک گروہ جلال آباد کی ایک مسجد میں بیٹھا تھا ۔اکثر حضرات قرآن پاک کی تلاوت کر رہے تھے۔ اتنے میں مقامی معززین تشریف لائے۔راوی کو یہ یاد نہیں کہ باری علیگ نے مقامی معززین میں علما ء کا ذکر بھی کیا ہے یا نہیں؟ کیونکہ اس کتاب کو پڑھے ہوئے چالیس برس سے...

خدا ہے کہ نہیں ہے؟

وکڑکراسنوف کا جرم کیا تھا؟ اگر وہ امریکہ میں ہوتا یا مغربی یورپ کے کسی ملک میں‘ تو یہ جرم‘ جرم نہ ہوتا۔ اسے گرفتار کرنے کا سوال ہی نہ پیدا ہوتا۔مگر یہ روس تھا! لینن‘ سٹالن اور خروشچیف کا روس! جہاں سٹالن نے کہا تھا۔ ’’ہم نے سرمایہ دارانہ نظام کو زمین سے اور خدا کو آسمان سے نکال باہر کیا ہے۔‘‘جہاں لینن نے کہا تھا۔ ’’مذہب لوگوں کی افیون ہے! مارکس کا یہ قول مذہب کے بارے میں ہمارے نظریے کی بنیاد ہے!‘‘ جہاں مذہبی بنیاد پر مارے جانے والے عیسائیوں کی تعداد ایک کروڑ بیس لاکھ اور دو کروڑ کے درمیان بتائی جاتی ہے۔ کمیونسٹوں کا انقلاب آیا تو مذہب کی مخالفت اس انقلاب کا ضروری جزو تھا۔ پہلا رسالہ جو اس سلسلے میں جاری کیا گیا اس کا عنوان ’’انقلاب اور چرچ‘‘ تھا۔ اندازہ یہی لگایا گیا تھا کہ مذہب ختم ہو جائے گا اور بہت جلد مذہب کی جگہ الحاد لے لے گا۔ مگر جلد ہی معلوم ہو گیا کہ مذہب خودبخود ختم ہونے والا نہیں۔ ریاست کو اس کے لیے کوشش کرنا ہوگی۔ 1921ء کے عشرے میں یوکرائن میں 28 بشپ اور پونے سات ہزار پادریوں کو قتل کیا گیا۔ 1935ء تک ایک لاکھ تیس ہزار پادری گرفتار کیے جا چکے تھے۔ ان میں سے پچانوے ہزار کو...

کاغذ کے پھول

بھائی وسیم خان! تم کس ہوا میں تھے؟ تم بھول گئے تھے کہ یہ ملک، ملکِ پاکستان ہے! یہاں پگڑی اچھلتی ہے، اسے میخانہ کہتے ہیں۔ یہاں قانون کی نہیں، شخصیات کی حکمرانی ہے! یہاں آئین کی کتاب نہیں چلتی۔ یہاں ایک ہی کتاب کارفرما ہے جسے چیک بک کہتے ہیں! تم کیا سمجھتے تھے کہ جس شہر کی امارت تمہیں سونپی گئی، اُس کی فلاح مقصود تھی؟ نہیں! یہاں مقصود فلاح و بہبود نہیں! یہاں امیرِ شہر کا کام ہے اپنی امارت کی حفاظت! اور حفاظت تب ممکن ہے جب اثر و رسوخ والے عمائدین سے بنا کر رکھی جائے! ہاں اگر پائوں کسی کی دم پر نہ آئے تو شہریوں کی فلاح و بہبود ہوتی رہے! مگر بھائی وسیم خان، یہ ممکن نہیں کہ کسی کی دُم پر پیر آئے اور چیخ و پکار نہ ہو اور بچائو بچائو کی چیخیں بلند نہ ہوں۔ ناجائز تجاوزات ہٹانے اور گرانے کی یہ مہم جو تم نے پاکستان کے ایک قصبے میں شروع کی اور پھر دیانت داری اور حسنِ نیت سے چلائی، اگر کسی مغربی ملک کے قصبے میں چلاتے، اگر آسٹریلیا، جاپان یا سنگاپور میں چلاتے تو حکومت تمہاری پشت پر ہوتی۔ حکمران تمہیں شاباش دیتے، جب تک تم یہ مہم کامیابی سے ختم نہ کر لیتے، تمہیں اس ملک کا وزیر اعظم، اُس مل...

ڈرتے ڈرتے

ڈاکٹر رُتھ فائو 1929ء میں جرمنی میں پیدا ہوئیں۔ میڈیکل کی تعلیم مکمل کی اور پریکٹس شروع کر دی۔ پھر ایک مذہبی تنظیم میں شمولیت اختیار کر لی جو قناعت‘ پاک بازی اور اطاعت کا عہد لیتی تھی اور جس کے تحت زندگی کو انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کرنا ہوتا تھا۔ ڈاکٹر رُتھ فائو نے سُن رکھا تھا کہ ایشیا میں غربت‘ پسماندگی اور بیماریاں بہت ہیں؛ چنانچہ انہوں نے بھارت جا کر مریضوں کی دیکھ بھال کا قصد کیا۔ اتفاق ایسا ہوا کہ انہیں بھارت کا ویزا نہ مل سکا‘ کسی نے بتایا کہ پاکستان سے یہ ویزا مل جائے گا۔ چنانچہ وہ کراچی پہنچ گئیں۔ یہاں کوڑھ کے مریضوں کی حالت زار اور ان کی رُلا دینے والی بستی دیکھ کر یہیں کام کرنے کا فیصلہ کر لیا۔  ڈاکٹر رُتھ فائو گزشتہ 56 برسوں سے پاکستان میں جزام کے مریضوں کا علاج کر رہی ہیں۔ اُن مریضوں کا بھی علاج کیا جن کے جسم پرکیڑے رینگ رہے تھے اور جسم پر ہی رہتے تھے۔ پانی سے بھری نشیبی بستیوں میں میز پر کھڑے ہو کر بھی مریضوں کی خدمت کی۔ ایسے مریض بھی اٹینڈ کیے جو دونوں پائوں اور دونوں ہاتھوں پر چوپایوں کی طرح چل رہے تھے۔ مقامی ڈاکٹر ان مریضوں کے نزدیک آنے کا بھی حوصلہ نہ رکھتے ...

اے جغرافیہ بدل دینے والے پروردگار!!

ہم پر رحم کر اے پروردگار! تُورحمن ہے۔ رحیم ہے۔ تیری رحمت کا کوئی کنارا نہیں! اے اللہ! ہم گنہگار ہیں! خطا کار ہیں! ہم مانتے ہیں کہ ہماری بھاری اکثریت جھوٹ بولتی ہے۔ وعدہ خلافی کرتی ہے۔ مگر اے خدائے برتر! ہمارے معصوم بچوں پر رحم فرما! ہمارے گناہوں کی سزا ہمارے بچوں کو نہ دے! تیری قدرتِ کاملہ سے کچھ بعید نہیں! تُو انہونی کو ہونی کر سکتا ہے۔ تُو ناممکن کو ممکن بنا دیتا ہے۔ تونے اپنے پیغمبر عیسیٰؑ کو بن باپ کے پیدا کیا! یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں تھے۔ گھپ اندھیروں میں انہوں نے پکارا، تو نے سنا اور رہائی دی! یعقوب علیہ السلام کو بیٹے سے ملایا۔ ایوب علیہ السلام کو دردناک بیماری سے شفا بخشی! اے خدائے عزوجل! تو نے نارِ ابراہیم کو باغ میں تبدیل کر دیا! اے پتھر میں کیڑے کو رزق پہنچانے والے خدا! اے ایک بیج سے ہزاروں دانے نکالنے والے رازق! اے بنجر زمین کو سرسبز کر دینے والے مالک! ہم گنہگاروں پر بھی رحم فرما! ہم بدبختُوں کو اس مصیبت سے نکال! ہم پہلے دن سے جس بدقسمتی میں پھنسے ہوئے ہیں‘ ہمیں اس سے نجات دے! اے کائنات کے رب! تُو سمندروں کو خشک کر سکتا ہے! تُو پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کر سکتا ...

فیڈر کھلونے اور دودھ کے دانت

تصویر

سوڈان میں غروب آفتاب

سنیچر تھا اور مارچ کی پانچ تاریخ۔ صبح کا وقت تھا جب ڈاکٹر حسن الترابی اپنے دفتر میں بے ہوش ہوگئے۔ انہیں فوراً خرطوم کے رائل انٹرنیشنل ہسپتال میں لے جایا گیا۔ پھر دل کا دورہ پڑا اور سوڈان کا یہ فرزند، جس نے صرف اپنے خطے میں نہیں، پورے عالم اسلام میں بلکہ پوری علمی اور سیاسی دنیا میں اپنا اثرورسوخ قائم کیا تھا، اپنے پروردگار کے حضور حاضر ہوگیا۔ ہم سب نے لوٹ کر اسی کے پاس جانا ہے!حسن الترابی سوڈان کے صوبے کسالہ میں 1932ء میں پیدا ہوئے۔ خرطوم یونیورسٹی سے قانون میں ڈگری حاصل کی۔ پھر انگلستان، جا کر پڑھتے رہے۔ پی ایچ ڈی کی ڈگری سوربون یونیورسٹی پیرس سے لی۔ عربی ان کی مادری زبان تھی۔ انگریزی، فرانسیسی اور جرمن روانی سے بولتے تھے۔ صدر جعفر نمیری نے انہیں اٹارنی جنرل مقرر کیا۔ سیاسی کیریر ان کا تلاطم خیز رہا۔ مخالفین نے الزام لگایا کہ صدر حسن البشیرنے سوڈان کو ’’پولیس سٹیٹ‘‘ بنایا تو حسن الترابی نے اس کا ساتھ دیا۔ وہ جہادیوں کے بھی حامی رہے۔ کینیا اور تنزانیہ میں امریکی سفارت خانوں پر حملے ہوئے تو حسن الترابی نے ان حملوں کو ’’قابل فہم‘‘ قرار دیا۔ ان کا یہ قول بہت مشہور ہوا کہ’’اگر آپ جبر ...

یہ 2016ء ہے!

’’ ہم تعلیم یافتہ تھے ! تعلیم ہمارا زیور تھا ! تیس سال میں ہم جاہل ہو گئے !‘‘ مصطفی کمال نے یہ کہا تو کون سا غلط کہا۔ یہ کہہ کر وہ روپڑا اس لیے کہ بات ہی رونے کی ہے۔ جس کمیونٹی نے دانشور، عالم، فقیہہ، محدث، مفسر، خطیب، طبیب، شاعر اور ادیب پیدا کیے، اُس کمیونٹی میں جاوید لنگڑا اور اجمل پہاڑی پیدا ہونے لگے۔ کہاں سلیمان ندوی، کہاں عبدالماجد دریا بادی، کہاں شبلی نعمانی، کہاں محمد علی جوہر، کہاں حکیم اجمل خان اور کہاں صولت مرزا اور نام نہاد سیکٹر کمانڈر ! اِنا للہ و اِنا الیہ راجعون ! دوسروں پر کیا گلہ، خود اہلِ کراچی بھول گئے کہ ان کے اجداد کیا تھے؟ وہ کس درخت سے ٹوٹے اور پیوند کاری کا شکار ہو کر کہاں پہنچ گئے۔ جتنے منتظم، دانش ور، فقہا، محدثین، شاعر اور نثر نگار زمین کے اس مختصر ٹکڑے نے، جو دہلی اور پٹنہ کے درمیان ہے، پیدا کیے، عالمِ اسلام میں زمین کے کسی اتنے مختصر ٹکڑے نے شاید ہی پیدا کیے ہوں۔ مشہور مورّخ ضیاء الدین ...