اشاعتیں

جنوری, 2016 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

آ بیل مجھے مار

کُچھ عرصہ کے لیے انگلستان کے ایک دلکش قصبے گلوسٹر میں قیام تھا۔ فراغت تھی‘ موسم خوشگوار تھا‘ میلوں پیدل چلنے سے جو فرحت حاصل ہوتی تھی‘ بے مثال تھی۔ ٹائون سنٹر میں قدیم عمارتیں تھیں‘ بُک شاپیں تھیں‘ ٹائون لائبریری تھی‘ مسجد تھی‘ پاکستانی سینڈوچ فروش تھے۔ ایک صبح معمول کے مطابق نکلا اور فُٹ پاتھ پر چلتا جا رہا تھا کہ آگے راستہ بند ملا۔ سڑک کھودی جا رہی تھی‘ سُرخ رنگ کے فیتے ہر طرف رکاوٹ کی نشاندہی کر رہے تھے۔ غور سے دیکھا تو ایک طرف لکھا تھا: ’’پیدل چلنے والوں کے لیے‘‘۔ سُرخ رنگ کے فیتوں کے درمیان ایک راستہ بنایا گیا تھا جو تنگ تھا مگر اتنا ضرور تھا کہ ایک راہگیر آسانی سے چل سکے‘ یہ اہتمام کئی فرلانگ تک کیا گیا تھا‘ یہاں تک کہ پیدل چلنے والا اُس جگہ پہنچ جاتا تھا جہاں فُٹ پاتھ کا راستہ کلیئر تھا۔ صاف ظاہر ہے کہ اگر پیدل چلنے والوں کے لیے اس قدر اہتمام تھا تو گاڑیوں کو متبادل راستہ فراہم کرنے کے لیے بھی اتنا ہی اہتمام کیا گیا تھا۔ یہ بُھولے بسرے دن آج یوں یاد آئے کہ اورنج لائن ٹرین منصوبے کا مقدمہ سنتے ہوئے لاہور ہائیکورٹ نے حکم دیا ہے کہ متبادل رُوٹ اختیار کیا جائے اور متبادل رُوٹ ...

خوب! بہت خوب!!

سازش اقتدار کی بہن ہے! یہ دونوں بھائی بہن ہمیشہ مل جل کر رہتے ہیں۔ بھائی خطرے میں ہو تو بہن اس کی مدد کرتی ہے۔ بھائی کا جب بھی بس چلے، بہن کو چُپڑی دیتا ہے اور دو دو! اقتدار حاصل کرنے کے لیے سازش کو بروئے کار لانا ہوتا ہے۔ پھر اقتدار اپنے آپ کو طول دینے کے لیے سازشوں کے جال بچھا دیتا ہے اور جب تک بس چلے، بچھاتا رہتا ہے۔ ساموگڑھ کی لڑائی میں اورنگ زیب اور مراد نے دارا کو مل کر شکست دی۔ کریڈٹ سارا اورنگ زیب کو مل رہا تھا۔ مراد کو کھٹکا لگ گیا۔ دہلی کی جانب بڑھے تو دونوں بھائیوں کی رفتار سست تھی۔ آگے آگے اورنگ زیب کی سپاہ۔ پیچھے پیچھے مراد کا لشکر، اس قدر سست رفتاری کہ متھرا پہنچنے میں بارہ دن لگ گئے۔ دونوں ایک دوسرے سے خائف۔ ایسے مواقع پر سازش ہمیشہ اقتدار کی مدد کرتی ہے۔ مراد شکار سے واپس اپنی لشکر گاہ کو جا رہا تھا کہ ایک مصاحب نے ’’تجویز‘‘ پیش کی کہ ساتھ ہی اورنگ زیب کا کیمپ ہے دو گھڑی وہاں رک جاتے ہیں۔ گپ شپ ہو جائے گی۔ اورنگ زیب نے چھوٹے بھائی کے مشاغل کا پاس کرتے ہوئے اس کا پسندیدہ مشروب پیش کرایا۔ مراد نیم مدہوش ہوا تو ساتھ والے خیمے میں آرام کرنے کا مشورہ دیا گیا۔ خیمے ...

غیرت مند

’’نادرا نے ایک لاکھ تیس ہزار افغان شہریوں کو بلیک لسٹ کر دیا ہے۔ سالِ رواں میں ایک لاکھ مزید افغانوں کے بارے میں چھان بین کی جائے گی۔ نادرا کے ذرائع سے وصول ہونے والی تفصیلات کے مطابق افغان باشندوں نے ملک کے طول و عرض میں وسیع کاروبار اور جائیدادیں حاصل کی ہوئی ہیں۔ اس میں اسلام آباد بھی شامل ہے۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ متعلقہ حکام کو افغانوں کی شناخت میں دقت ہو رہی ہے، تا ہم نادرا نے یہ معلوم کر لیا ہے کہ ایک لاکھ تیس ہزار افغانوں کے پاس جعلی شناختی کارڈ ہیں۔ موجودہ سال کے دوران ایک لاکھ مزید ایسے افغان دریافت کر لیے جائیں گے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جب شناختی کارڈوں کو کمپیوٹرائز کیا جا رہا تھا تو اس وقت پچیس لاکھ افغانوں نے ناجائز ذرائع سے پاکستانی شہریت حاصل کر لی تھی۔ یہ بات وزارتِ داخلہ نے اور ریاستوں اور سرحدی امور کی وزارت( سیفران) نے حکومت کو بتائی ہے۔ اس بات کا امکان ہے کہ مزید دس لاکھ افغانوں کی نشاندہی ہو جائے‘‘۔ یہ عام سی خبر اُن سیکڑوں خبروں میں سے ایک ہے جو آئے دن شائع ہوتی رہتی ہیں۔ بہت سے لوگ سرخی پڑھتے ہیں اور آگے گزر جاتے ہیں۔ بہت سے سرخی بھی نہیں پڑھتے۔ کچھ نادرا...

چار کاندھوں پر سواری

طاق صفیں  چار تکبیریں دائیں بائیں سلام یہ ہے ساری کہانی! ابھی ابھی جنازہ پڑھ کر‘ قبر پر مٹی ڈال کر‘ دعا مانگ کر‘ تھکے تھکے بوجھل قدموں سے گھر لوٹنا ہوا ہے۔ کیا یہ ہے زندگی کی حقیقت؟ زندگی‘ جس کے لیے ہاہاکار مچی ہے! جس کے لیے گلے کاٹے جا رہے ہیں! جائیداد کے بٹواروں پر مقدمہ بازیاں ہو رہی ہیں۔ چُھپ چُھپ کر چالیں چلی جاتی ہیں۔ فلاں کو معلوم نہ ہو پائے۔ فلاں کو کچھ نہیں بتانا! دوست دیرینہ وحید بھٹی کے صاحبزادے کی شادی ایک ماہ پہلے تھی۔ پھول ابھی مرجھائے نہ تھے۔ مبارکبادیں ابھی ختم نہ ہوئی تھیں۔ حجلۂ عروسی ابھی جوں کا توں سجا تھا۔ دلہن کے ہاتھوں پر حنا کا رنگ ابھی بھڑک رہا تھا۔ جوانِ رعنا عفان کمرے میں داخل ہوا۔ لائٹر سے ہیٹر جلایا۔ پورا کمرہ آگ کے شعلوں سے بھر گیا۔ گیس لیک ہو رہی تھی۔ تنصیبات اس ملک میں غیر معیاری ہیں۔ پلگ ہیں یا پائپ‘ بجلی کے بورڈ ہیں یا گیس کے متعلقہ آلات کسی شے پر اعتبار نہیں۔ ٹھپّہ چین کا یا تائیوان کا لگا ہوتا ہے‘ چیز دھرم پورے میں بنی ہوتی ہے۔ انسانوں کی زندگی سے کھیلنا اس ملک میں ایسے ہی ہے جیسے مکھی مچھر کو مار دینا۔ چند سکوں کی خاطر‘ دوائیں جع...

ماتم

ہم گروہوں کی صورت میں آئے۔ ہم گروہوں کی شکل میں مشہد سے آئے۔ نیشاپور سے آئے۔ بخارا اور ترمذ سے آئے۔ شہرِ سبز سے آئے۔ گردیز اور بلخ سے آئے غور اور غزنی سے آئے۔ گیلان اور تبریز سے آئے۔ ہم جہاں سے بھی آئے۔ ہمارے لیے پشاور نے اپنے دروازے کھولے۔ ہمیں اپنی بانہوں میں سمیٹا۔ ہمیں کھانے کو نان اور سونے کو بستر دیا۔ پھر ہم وہاں سے چلے۔ ہم میں سے کچھ لاہور بس گئے۔ کچھ دہلی، کچھ جونپور، کچھ پٹنہ، کچھ لکھنؤ، کچھ دکن۔ ہم نے اٹھارہ گھڑ سواروں کے ساتھ ڈھاکہ فتح کیا۔ ہم آسام گئے، اور آباد ہوئے۔ یہ سارے احسانات پشاور کے تھے۔ پشاور دروازہ ہے جو اب بھی ہمارا تعلق ان سرزمینوں کے ساتھ جوڑتا ہے جو ہم نے چھوڑیں۔ پشاور کھڑکی ہے جس سے ہمیں اب بھی ترمذ، بخارا، گیلان، مشہد اور تبریز کی ہوا آتی ہے۔ جس سے وسط ایشیا کے میدانوں کی دھوپ در آتی ہے۔ جس سے افغانستان کے چھوڑے ہوئے تاکستانوں اور ایران کے چھوڑے ہوئے زعفران زاروں کی خوشبو آتی ہے اور ہم سے اور ہم اس سے لپٹ لپٹ جاتے ہیں۔ مگر آہ! پشاور کے ان احسانات کا بدلہ ہم نے کیا دیا؟ خون اور آگ۔ لوہے کی بارش، بارود کے انبار، اسلحہ کی یورش، گولیو...

نرسریوں کے شوقین

میٹرو بس راولپنڈی سے اسلام آباد میں داخل ہوتی ہے تو پہلی شاہراہ جو اس کا استقبال کرتی ہے نائنتھ  (9 th)  ایونیو کہلاتی ہے۔ تقریباً دو تین منٹ کے بعد بائیں طرف قطار اندر قطار نرسریاں دکھائی دینے لگتی ہیں۔ پودوں، پھولوں سے بھری ہوئی! کہیں گملوں کے ڈھیر لگے ہیں، کہیں گاڑیاں کھڑی ہیں، بیگمات پسند کے پودے خرید رہی ہیں۔ ایک وسیع کاروبار ہے۔۔۔۔ پتوکی، ساہیوال اور اوکاڑہ سے اسلام آباد تک پھیلا ہوا۔ پرانے اسلام آباد پر چوریوں، ڈاکوں، پانی کی قلت اور کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں نے پنجے گاڑے تو جو استطاعت رکھتے تھے، ایکسپریس وے کی آبادیوں کی طرف ہجرت کر گئے، جہاں بحریہ اور عسکری رہائشی کالونیوں میں معیارِ زندگی پرانے اسلام آباد کی نسبت بہتر ہے۔ ساتھ ہی وہاں بھی نرسریاں نظر آنا شروع ہو گئیں؛ چنانچہ جیسے ہی اب ایئرپورٹ چوک سے بحریہ اور ڈیفنس کی طرف بڑھتے ہیں تو دائیں بائیں نرسریوں کی قطاریں شروع ہو جاتی ہیں۔ پھول، پودے، درخت انسانی زندگی کے حسن میں اضافہ کرتے ہیں۔ مجید امجد نے کہا تھا  ؎ افق افق پہ زمانوں کی دھند سے ابھرے طیور نغمے ندی تتلیاں گلاب کے پھول اِس حقیر کا ...

’’انکشاف‘‘

کچے رستے پر لینڈ کروزر آ کر رُکی۔ قیمتی فرنگی سوٹ میں ملبوس ایک خوش شکل نوجوان اترا۔ اس نے باس کی گراں بہا قمیض پہنی ہوئی تھی۔ نکٹائی ریشمی تھی، سمسونائٹ کا چرمی بیگ کاندھے سے لٹکائے تھا۔ اس میں ایپل کا تازہ ترین ٹیکلنالوجی سے بھرپور لیپ ٹاپ تھا۔ ایک طرف پہاڑی تھی، لہلہاتا کھیت جس کی ترائی پر نظروںکو سرسبز تازگی بخش رہا تھا۔ دوسری طرف ندی تھی، خراماں خراماں چھوٹے چھوٹے پتھروں میں راستہ بناتی! پہاڑی اور ندی کے درمیان وسیع سبزہ زار تھا۔ گھاس تھی اور درخت، جن کے ہرے پتے ہوا میں ہلتے تھے تو زمین پر سائے کا قالین بچھ بچھ جاتا تھا۔ بھیڑیں بے خوف پھر رہی تھیں۔ گم شدہ شاعر شبیر شاہد نے کہا تھا  ؎ کسان دلشاد، کھیت آباد ہیں وہاں کے سفید بھیڑیں ہیں سبز چارے ہیں اس کنارے شیشم کے درخت تلے کسان بیٹھا بانسری بجا رہا تھا۔ مجید امجد یاد آ گیا  ؎ نخیلِ زیست کی چھائوں میں نَے بلب تری یاد فصیلِ دل کے کلس پر ستارہ جُو ترا غم لینڈ کروزر سے اترنے والا خوش پوش نوجوان سبزہ زار پر چلتا کسان کے پاس پہنچا۔ سلام دعا کے بعد اس نے عجب فیاضانہ پیش کش کی: ’’میں حساب کتاب کر کے تمہیں بتا دیت...

صحرا میں اذان دے رہا ہوں

سال 1951ء کا تھا۔ پارلیمنٹ مصر کی تھی۔ حکومت شاہ فاروق کی تھی۔ وزارت تعلیم اُس ڈاکٹرطٰہٰ حسین کے پاس تھی جو بچپن میں ایک ڈاکٹر کی نا اہلی کی وجہ سے بصارت کھو بیٹھا تھا۔ جس نے فرانس سے پی ایچ ڈی کی اور تاریخ پر اور عربی کے کلاسیکی اور جدید ادب پر درجنوں نہیں بیسیوں کتابیں تصنیف کیں۔ اُس دن ڈاکٹرطٰہٰ حسین پارلیمنٹ میں آیا اور تقریر کے لیے کھڑا ہوا تو اُس نے ایوان کو بتایا کہ ایک کاغذ اس کے کوٹ کی دائیں جیب میں ہے اور ایک کاغذ اس کے کوٹ کی بائیں جیب میں ہے۔ اس نے ایوان کے ارکان کو حق دیا کہ وہ چاہیں تو دائیں جیب والا کاغذ منظور کر لیں اور چاہیں تو بائیں جیب والا کاغذ پسند کر لیں۔ دائیں جیب والے کاغذ پر تجویز تھی کہ مصر میں پرائمری تعلیم مفت کر دی جائے۔ بائیں جیب میں اس کا استعفیٰ تھا۔ ایوان نے مفت پرائمری تعلیم کی تجویز منظور کر لی۔ آنے والے وقت میں اسے میٹرک تک بڑھا دیا گیا۔ نابیناطٰہٰ حسین نے قرآن پاک پڑھانے والے مدارس کو پرائمری تعلیم کا کام بھی سونپ دیا۔ سکولوں کو کالج اور کالجوں کو یونیورسٹیاں بنایا۔ کئی نئی یونیورسٹیاں قائم کیں۔ آج مصریوں کی اکثریت کو جانے معلوم ہے یا نہیں ک...

پروفائل

ٹرین کراچی سے روانہ ہوئی، ہم دو تھے، دونوں رفقائے کار(کولیگ) اور دوست بھی! غالباً لاہور اور راولپنڈی کے درمیان کوئی سٹیشن تھا۔ شام ڈھل چکی تھی اور رات اپنا بستر کھول رہی تھی۔ رفیقِ کار نے کہا ’’تم بیٹھو، میں ابھی آتا ہوں‘‘۔ میں کچھ توجہ کتاب پر مرکوز کرتا جو جھولی میں کھلی پڑی تھی اور کچھ پلیٹ فارم کی چہل پہل دیکھتا۔ اچانک خیال آیا کہ باہر نکلوں اور ٹانگیں سیدھی کروں جو بیٹھے بیٹھے اکڑ سی گئی تھیں۔ ٹہلتے ٹہلتے کیا دیکھتا ہوں کہ ہم سفر ایک سٹال پر کھڑا کھانا کھا رہا ہے۔ حسنِ اتفاق سے اس کی پشت میری طرف تھی۔ جو بات نوٹ کرنے والی تھی یہ تھی کہ وہ ایک حیرت انگیز سرعت کے ساتھ کھا رہا تھا۔ میں الٹے پائوں واپس آ کر نشست پر بیٹھ گیا۔ ٹرین نے وسل دی تو وہ واپس آیا۔ اُس نے ذکر کیا نہ ہی میں نے آنے والے تین عشروں کی رفاقتِ کار کے دوران جتایا، تا ہم اُسی وقت اُس کا ایک پروفائل ذہن میں بن گیا۔ گھر کی اٹھان اچھی ہو تو ایسا نہیں ہوتا۔ جو تنگ دل نہ ہو وہ کہتا ہے اٹھو یار کچھ کھا پی لیں، یا سٹال سے کھانا لے آتا ہے۔ جبھی تو فرمایا گیا کہ ایک فرد کا کھانا دو کے لیے کافی ہوتا ہے۔ محمد اسد اسلام قب...

وادیٔ قیس سلامت ہے تو انشاء اللہ

ان میں سے اکثر نے عمران خان کو دیکھا‘ نہ کبھی ملے۔ ان کی جیبوں میں دنیا کے بہترین ملکوں کے پاسپورٹ ہیں۔ ان ملکوں میں سکیورٹی ہے۔عزتِ نفس ہے۔ پولیس ہاتھ نہیں لگا سکتی۔ آگے بڑھنے کے لیے سفارش درکار ہے نہ خوشامد! رہنے کے لیے صاف ستھرے‘ دیدہ زیب شہر، میلوں ڈھونڈ لیجیے کوڑا کرکٹ نظر نہ آئے۔ اس سب کچھ کے باوجود یہ نوجوان اس فکر میں غلطاں ہیں کہ آبائی ملک کی قسمت بدلے اور اس غم میں پریشان کہ خود غرضی ملک کو نوچے جا رہی ہے۔ بحرالکاہل کے مشرقی کنارے آباد وینکوور سے لے کر، کرۂ ارض کے دوسرے سرے تک پھیلے ہوئے ان نوجوانوں کو تحریک انصاف کی روشنی کے سوا اُفق پر کچھ نہیں دکھائی دیتا! جس ملک میں ایک بڑی سیاسی پارٹی کا صدر ملک سے باہر پڑائو ڈالے ہو، اس کی زندگی کا مقصد کرپشن کے مقدمات کو ہوا میں اڑانا اور ڈاکٹر عاصموں اور ایانوں کو بچانا ہو اور دوسری پارٹی پر قابض خاندان اپنے بزنس کو فوقیت دیتا ہو، وہاں اگر ان تارکینِ وطن کو عمران خان کے سوا روشنی کی اور کوئی کرن نظر نہ آتی ہو تو کیا کریں؟ دو دن پہلے ہی ایک کالم نگار نے خبر دی ہے کہ سرکاری دوروں میں اعزہ و اقربا ساتھ ہوتے ہیں۔ تاثر یہ ہے کہ ش...

تنی ہوئی رسّی

نہیں! ہر گز نہیں! نہیں! حضور! ہم کسی ایک طرف نہیں جھُک سکتے۔ ہمیں تنی ہوئی رسّی پر چلنا ہو گا! ہمیں جذبات کو بالائے طاق رکھنا ہو گا۔ پاکستان کے طول و عرض میں پلاسٹک کے شاپنگ بیگ(تھیلے) ہر طرف اُڑتے پھرتے ہیں! شمالی علاقہ جات کا حُسن اِس گندگی کی وجہ سے زائل ہو رہا ہے۔ ہم ان تھیلوں کو، اِن اُڑتے ہوئے شاپنگ بیگز کو کام میں لائیں، ہم اپنے بے مہار، برافروختہ، جذبات کو اِن تھیلوں میں بند کر دیں اور تھیلے بند کمروں میں پھینک دیں۔ نہیں! ہم کسی ایک طرف نہیں جھُک سکتے۔ ایران کی طرف نہ عربوں کی طرف! پاکستان اگر قلعہ ہے تو اِس قلعے کی ہر صورت میں، ہر حال میں، حفاظت کرنا ہو گی! ہمیں غیر جانبدار رہنا ہو گا۔ کینیڈا کی طرح، سوئٹزر لینڈ کی طرح اور مسقط(عمان) کی طرح! اس میں کیا شک ہے کہ ایران کے ساتھ تعلقات مثالی نہیں رہے۔ ایران کبھی بھی وہ ماں نہیں بنی جو دہی کے ساتھ روٹی دیتی ہے۔ اس نے کبھی ہمارے منہ میں گھی شکر نہیں ڈالا۔ سارے گلے شکوے بجا ہیں۔ مگر یہ وقت گلوں، شکووں کا نہیں! یہ وقت زمینی حقیقتوں کو دیکھنے اور ان پر غور کرنے کا ہے۔ پاکستان ترکی کا دوست ہے۔ اس دوستی کی جڑیں گہری ہیں۔ ترکی شای...

از راہِ کرم اُونٹ سے پنگا نہ لیجیے

شام ڈھل رہی تھی۔ آخری کشتی گھاٹ سے روانہ ہو چکی تھی۔ میراثی بھاگتا بھاگتا گھاٹ پر پہنچا۔ اگر اُسے آخری کشتی نہ ملی اور اپنے گائوں نہ پہنچ سکا تو رات کہاں گزارے گا؟ اُس نے کنارے پر کھڑے ہو کر پوری قوت سے کشتی والوں کو پکارا۔ ہاتھ لہرائے، پھر کندھے سے چادر اتار کر اسے ہوا میں لہرایا۔ بالآخر ملاح کو اُس پر رحم آ گیا۔ کشتی والوں نے بھی ہمدردی کرتے ہوئے کشتی کو واپس کرنے کا مشورہ دیا۔ کشتی واپس گھاٹ پر لگائی گئی۔ میراثی نے سوار ہونے سے پہلے ایک نظر مسافروں پر ڈالی۔ اچانک ٹھٹھک گیا۔ اُلٹے پائوں واپس ہوا اور کشتی میں سوار ہونے سے انکار کر دیا۔ ملاح کے ساتھ مسافروں نے بھی اُسے برا بھلا کہا۔ اب کیا ہو سکتا تھا ! میراثی نے نہ سوار ہونا تھا، نہ ہوا۔ کشتی دوبارہ روانہ ہو گئی۔ دریا کے عین درمیان میں پہنچی تو ہچکولے کھانے لگی۔ توازن بگڑ گیا۔ پھر پانی بھرنے لگا۔ جو اچھے تیراک تھے، پانی میں کود پڑے۔ باقی ٹوٹے ہوئے تختوں کے ...