آ بیل مجھے مار
کُچھ عرصہ کے لیے انگلستان کے ایک دلکش قصبے گلوسٹر میں قیام تھا۔ فراغت تھی‘ موسم خوشگوار تھا‘ میلوں پیدل چلنے سے جو فرحت حاصل ہوتی تھی‘ بے مثال تھی۔ ٹائون سنٹر میں قدیم عمارتیں تھیں‘ بُک شاپیں تھیں‘ ٹائون لائبریری تھی‘ مسجد تھی‘ پاکستانی سینڈوچ فروش تھے۔ ایک صبح معمول کے مطابق نکلا اور فُٹ پاتھ پر چلتا جا رہا تھا کہ آگے راستہ بند ملا۔ سڑک کھودی جا رہی تھی‘ سُرخ رنگ کے فیتے ہر طرف رکاوٹ کی نشاندہی کر رہے تھے۔ غور سے دیکھا تو ایک طرف لکھا تھا: ’’پیدل چلنے والوں کے لیے‘‘۔ سُرخ رنگ کے فیتوں کے درمیان ایک راستہ بنایا گیا تھا جو تنگ تھا مگر اتنا ضرور تھا کہ ایک راہگیر آسانی سے چل سکے‘ یہ اہتمام کئی فرلانگ تک کیا گیا تھا‘ یہاں تک کہ پیدل چلنے والا اُس جگہ پہنچ جاتا تھا جہاں فُٹ پاتھ کا راستہ کلیئر تھا۔ صاف ظاہر ہے کہ اگر پیدل چلنے والوں کے لیے اس قدر اہتمام تھا تو گاڑیوں کو متبادل راستہ فراہم کرنے کے لیے بھی اتنا ہی اہتمام کیا گیا تھا۔ یہ بُھولے بسرے دن آج یوں یاد آئے کہ اورنج لائن ٹرین منصوبے کا مقدمہ سنتے ہوئے لاہور ہائیکورٹ نے حکم دیا ہے کہ متبادل رُوٹ اختیار کیا جائے اور متبادل رُوٹ ...