اشاعتیں

2016 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

2016ء کا آخری سورج

ہم گزشتہ برس 31 دسمبر کو آنکھوں پر امید کے خنک برگ ہائے سبز باندھ کر سوئے تھے کہ 2016ء کا نیا سورج ہماری دستگیری کرے گا مگر اے آج غروب ہونے والے 2016ء کے آخری سورج ! تو نے ہماری کوئی امید بر نہ آنے دی۔ ہم نے آنکھیں کھولیں تو دھند نے روشنی کو اسی طرح نرغے میں لے رکھا تھا‘ جیسے سالہا سال سے‘ عشروں سے‘ صدیوں سے لے رکھا ہے۔ ہم نے ہر نئے سال سے توقعات وابستہ کیں۔ ہم نے نجومیوں سے پوچھا۔ فال نکلوائی‘ زائچے بنوائے‘ دست شناسوں کی خدمت میں پہنچے ؎ مرا ہاتھ دیکھ برہمنا! مرا یار مجھ سے ملے گا کب ترے منہ سے نکلے خدا کرے اسی سال میں اسی ماہ میں کاہنوں سے پوچھا‘ سادھوئوں کے پاس گئے ؎ دیکھیے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے مگر بخت جیسا سیاہ تھا ویسا ہی رہا ؎ یک فالِ خوب راست نہ شد برزبانِ ما شومیٔ چغد ثابت و یُمنِ ہما غلط اُلّو کی نحوست کا علاج ہو سکا نہ ہی ہما ہمارے سر پر بیٹھا! ہم نے دوسروں کو پھلتے پھولتے دیکھا پھر اپنے آپ پر نظر ڈالی‘ پھر سر بہ زانو ہو کر روئے ؎ میں دیکھتا ہوں شتر سواروں کے قافلے کو پھر آسماں کو پھر اپنا اسباب ...

ہمارے نام پر حج اور عُمرے کون کر رہا ہے؟

یہ ایک تشویشناک صورتِ حال ہے حد سے زیادہ تشویشناک! سعودی عرب کی حکومت نے گزشتہ دس سال کے دوران حج اور عمرہ میں سرِفہرست رہنے والے ملکوں کی فہرست جاری کی ہے۔ اس کے مطابق مصر پہلے اور پاکستان دوسرے نمبر پر ہے۔ انڈونیشیا تیسرے‘ ترکی چوتھے‘ ایران پانچویں‘ بھارت چھٹے‘ اردن ساتویں‘ الجزائر آٹھویں اور ملاایشیا نویں نمبر پر ہے۔ انڈونیشیا آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑا مسلمان ملک ہے۔ اس کی آبادی 25کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ حج اور عمرہ کی فہرست میں پاکستان کا نمبر اس سے اوپر ہے! اسی ملک پاکستان کے بارے میں‘ جو حج اور عمرہ کی سعادت حاصل کرنے میں پورے عالم اسلام میں دوسرے نمبر پر ہے‘ جی ہاں! اس ملک کی سب سے بڑی عدالت نے تسلیم کیا ہے کہ بچوں کو خالص دودھ نہیں دیا جا رہا۔ فوڈ اتھارٹی کے حکام نے دو دن پہلے تسلیم کیا ہے کہ کمپنیوں اور شیر فروشوں کا دودھ انسانوں کے پینے کے قابل نہیں۔ اس میں کیمیکل‘ یوریا اور گنے کا رس ملایا جا رہا ہے۔ ڈائریکٹر جنرل فوڈ نے عدالت کو بتایا کہ حلیب کے دودھ سے ’’فارمالین‘‘ نکلا۔ اس پر عدالت نے کہا کہ ’’فارمالین‘‘ تو مردہ جسم کو محفوظ کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ عدالت کو ...

حلب جو کبھی ایک شہر تھا

تصویر

ہم سو سال پیچھے جا رہے ہیں

یہ جنوبی اٹلی کا شہر نیپلز تھا‘ اطالوی اسے ناپولی کہتے ہیں۔ کئی سال پہلے کی بات ہے‘ ہم تیسری دنیا کے مختلف ملکوں سے بلائے ہوئے افسر شاہی کے پیادوں کو یہاں چھ ماہ گزارنے تھے اور ادارہ برائے ترقیاتی اقتصادیات (انسٹی ٹیوٹ فار ڈویلپمنٹ اکنامکس) میں پڑھ کر اپنا معاشیات کا علم دوبالا کرنا تھا! ’’طلبہ‘‘ میں ہم دو پاکستانی تھے‘ دو بنگالی‘ کچھ ترکی سے تھے اور برما سے‘ اور کچھ انڈونیشیا، سوڈان اور اردن سے۔ افریقی ممالک کی نمائندگی بھی تھی۔ جنوبی امریکہ کے ہسپانوی بولنے والے ملکوں سے بھی بیورو کریٹ اس گروہ میں شامل تھے۔ وہیں یہ دلچسپ بات معلوم ہوئی کہ اطالوی اور ہسپانوی زبانیں بہنیں ہیں، شاید پنجابی اور اردو کی طرح۔ اطالوی اساتذہ کے لیکچر سمجھنے کے لیے ہم ترجمہ کے محتاج تھے مگر ہسپانوی زبان جاننے والے براہ راست سمجھ لیتے تھے۔ اسی طرح وہ اپنے امتحانی پرچوں میں جوابات ہسپانوی میں لکھتے تھے اور اطالوی استاد ان پرچوں کو براہ راست جانچ سکتے تھے۔ پہلا دن تعارف میں گزرا۔ دوسرے دن ہمیں ہدایات دی گئیں۔ ایک ہدایت عجیب تھی: ’’اگر اٹلی میں کسی جگہ آپ کھو جائیں‘ آپ کا پاسپورٹ گم ہو جائے‘ آپ کے پاس پیسے ...

کیا کلاس ہے!!

ساری پڑھائی، اعلیٰ تعلیم، ساری تھیوریاں‘ سب بیکار ثابت ہوئیں۔ تربیت، ماحول، آئی کیو، سب خرافات ہیں۔ صحیح وہی نکلا جو بزرگ کہا کرتے تھے اور ہم اسے خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ الاسکا سے لے کر جنوبی افریقہ تک اور اٹلانٹک کے مشرقی کنارے سے لے کر بحرالکاہل کے مغربی گھاٹ تک جدید ترین یونیورسٹیوں میں پڑھایا جانے والا علمِ نفسیات، گھاس کے تنکے کی بھی حیثیت نہیں رکھتا۔ کہاں کی نفسیات؟ کون سی تھیوریاں؟ بان کی چارپائیوں پر، کڑھے ہوئے تکیوں سے ٹیک لگائے، درختوں کی چھاؤں تلے بابے‘ چاچے‘ مامے جو کہتے تھے، ٹھیک کہتے تھے۔ یہی تو فردوسی نے بادشاہ کے بارے میں کہا تھا۔ تجربہ کہتا ہے، مشاہدہ تصدیق کرتا ہے، تاریخ گواہی دیتی ہے کہ فردوسی نے سچ کہا تھا۔ درختوں کی چھاؤں تلے، بان کی چارپائیوں پر، کڑھے ہوئے تکیوں سے ٹیک لگا کر دانش کے موتی بکھیرنے والے چاچے ‘مامے‘ بابے فردوسی سے کیا کم تھے!    ؎ اگر مادرِ شاہ بانو بُدی مرا سیم و زر تا بہ زانو بُدی بادشاہ اگر ملکہ کا بیٹا ہوتا تو میں آج گھٹنوں تک سونے چاندی میں کھڑا ہوتا۔ وگر شاہ راشاہ بودی پدر بسر بر نہادی مرا تاجِ زر بادشاہ اگر خاندانی...

خواہ مخواہ

خیر بخش گاؤں سے شہر وارد ہوا تو اجنبی تھا۔ مکمل اجنبی! دور کے ایک عزیز نے، جو آسودہ حال تھا، پناہ دی۔ نوکری مل گئی تو آسودہ حال عزیز نے اسے ایک کمرہ مستقل دے دیا۔ اس کے عوض خیر بخش اس کے بچوں کو پڑھا دیتا تھا۔ یہ انتظام بخیر و خوبی چلتا رہا؛ تاہم کچھ عرصہ بعد خیربخش نے محسوس کیا کہ میزبان کے طور اطوار، طرزِ معاشرت اور عادات و خصائل درست نہیں اور اصلاح کے قابل ہیں۔ خیر بخش دیر سے آتا تو دروازہ بند پاتا۔ اس نے مطالبہ کیا کہ دروازہ رات بھر کھلا رہے۔ پھر اس نے مطالبہ کیا کہ بچوں کو فلاں سکول سے اُٹھا کر فلاں میں ڈالا جائے۔ پھر ڈرائنگ روم کو خواب گاہ میں تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا پھر اس نے ایک فہرست باورچی کے حوالے کی کہ کھانا اس کے مطابق پکایا جائے۔ پھر اس نے کہا کہ اس کا مطالعہ متاثر ہوتا ہے اس لیے ٹیلی ویژن لاؤنج سے ہٹا کر، اوپر کی منزل پر رکھا جائے۔ میزبان کچھ عرصہ تو طرح دیتا رہا۔ پھر ایک دن اس نے خیر بخش کو بٹھا کر اس سے بات کی۔ اس نے پوچھا کہ کیا میں نے تمہاری طرف نائی بھیجا تھا کہ آکر یہاں قیام کرو؟ تم بے گھر تھے اور بے یارومددگار‘ میں نے تمہیں پناہ دی۔ اب تمہیں ہر شے میں...

تمہارے منہ میں خاک

کبھی آپ نے سوچا ہے کہ آج اقوامِ عالم میں ہماری امتیازی حیثیت کا اصل سبب کیا ہے؟ یہ کہ ہم ایٹمی طاقت ہیں؟ ہاں! یہ ہمارے امتیاز کا سبب تو ہے مگر صرف عالمِ اسلام میں! فرانس‘ چین‘ امریکہ‘ برطانیہ‘ روس کیوں متاثر ہوں؟ وہ تو خود ایٹمی طاقتیں ہیں اور ہم سے کہیں پہلے یہ میدان مار چکی ہیں! ہماری مسلّح افواج؟ ہمیں ان پہ فخر ہے اور اقوام عالمِ میں ہماری عزت کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے مگر نہیں! اصل سبب یہ نہیں! اصل سبب جمہوریت کے لیے ہماری وہ خدمات‘ وہ قربانیاں اور وہ جدوجہد ہے جس کا عشرِ عشیر بھی مغربی جمہوری ملکوں کو نصیب نہیں ہوا۔  یہ سچ ہے کہ برطانیہ‘ امریکہ‘ کینیڈا جیسے ملکوں میں کبھی مارشل لا نہیں لگا۔ وہاں کی پارلیمانی روایات مضبوط ہیں۔ امریکیوں نے سول وار کا پل صراط تک پار کیا اور جمہوریت کو بچا لیا۔ مگر جو خدمات پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں نے جمہوریت کے لیے سرانجام دی ہیں‘ ان پر مغربی دنیا رشک تو کر سکتی ہے‘ ان کی مثال پیش کرنے سے معذور ہے!  جمہوریت کی خاطر جنرل ایوب خان نے مارشل لا لگایا تو سیاست دان اس کے ساتھ ہو گئے۔ پھر اقتدار اپنے جانشین جنرل یحییٰ خان...

چَھلنی

ایک سو تیس سے زیادہ بچے بزدل دُشمن کی گولیوں کا نشانہ بنے۔ ان کی استانیوں نے انہیں بچاتے ہوئے جانیں قربان کر دیں۔ اس دن پشاور میں قیامت کا سماں تھا۔ بنو عباس کی خلافت کو زوال آیا تو سعدی نے مرثیہ کہا تھا: آسمان را حق بود گر خون بگرید بر زمین بر زوالِِ ملکِ مستعصم امیرالمومنین ! آسمان کو حق پہنچتا ہے کہ زمین پر خون کے آنسو بہائے۔ اُس دن پشاور میں جو کچھ ہوا تھا‘ اس پر آسمان اور زمین لہو روئے تھے۔ مگر اُسی شام ایک بچے بلال نے ٹیلی ویژن کی ایک اینکر کو وہ بات کہی‘ جسے آسمان نے سنا تو اس کے رواں آنسو تھم گئے، زمین نے سنا تو تھرتھراہٹ ختم کر کے اپنی جگہ ٹھہر گئی۔ بلال نے اُس دن دہشت گردوں کی قسمت پر ہلاکت کی مُہر ثبت کر دی اور دو فقروں کی ایسی زبانی دستاویز جاری کی جس میں اس ملک کی سلامتی کی گارنٹی تھی! حوصلہ اُس شام بجھا بجھا تھا۔ زمین پشاور کی خون سے سُرخ تھی‘ فضا مائوں کی سسکیوں سے بھری ہوئی تھی۔ ابھی تو بارہ گھنٹے بھی نہیں ہوئے تھے۔ پختہ عمر کے لوگوں کی بھی ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔ کلیجے مُنہ کو آ رہے تھے۔ خوف تھا کہ ہڈیوں کے گودے میں جگہ بنا رہا تھا۔ اُسی دن تو قتل عام برپا ہو...

زَمسِتاں

دارالحکومت میں زَمسِتاں کا ورود ہوتا ہے تو زخم ہرے ہو جاتے ہیں! کیا شہر تھا۔ باغوں اور پارکوں سے چھلکتا۔ تب جنرل ضیاء الحق کی داد و دہش شروع نہیں ہوئی تھی اور ہر اُس شخص کو پلاٹ نہیں دیے جا رہے تھے جو کچھ عرصہ اردن میں رہا ہو۔ گرین ایریا محفوظ تھا۔ دکانیں کھوکھوں میں نہیں بدلی تھیں۔ مارکیٹوں کا پارکنگ ایریا ہڑپ نہیں ہوا تھا۔ زَمسِتاں میں پتے جھڑتے‘ مگر سُرخ پتوں والے درخت خزاں میں بھی بہار دکھاتے رہتے۔ ہری خنک دھوپ میں سُرخ پتوں سے لدے درخت عجیب مسحور کن منظر پیش کرتے۔ خیاباں خیاباں خوبصورتی‘ رہنے والوں کو جُھک کر سلام کرتی۔ پھر ادبار ملک پر چھایا تو دارالحکومت کیسے بچتا۔ پراپرٹی ڈیلروں‘ ٹھیکیداروں اور نفع خوروں نے اس دیدہ زیب شہر کو محلّوں میں تبدیل کر دیا۔ ایک ایک انچ پر کھوکھے‘ دکانیں‘ ہوٹل‘ پلازے بنے۔ اہلِ مذہب بھی پیچھے نہ رہے۔ گندے نالوں پر راتوں رات مسجدیں بنا لی گئیں۔ صحن میں نماز پڑھتے وقت بدبو کے بھبکے ناک سے ٹکرانے لگے مگر وہ جو انگریز محاورہ دے گئے کہ  ! Who Cares!  تو پروا کون کرے! شعرا نے سرما کا کیسے کیسے استقبال کیا۔ غالبؔ کے زمانے میں عیدِ قرباں‘ سرم...

خوبصورت بہت ہو تم لیکن…

آج سے ٹھیک 45سال پہلے‘ اسی تاریخ کو ‘ لیفٹیننٹ جنرل اے اے کے نیازی نے ڈھاکہ میں شکست کی دستاویز پر دستخط کیے تھے۔ 45سال کا عرصہ بہت زیادہ نہیں تو بہت کم بھی نہیں۔ اس میں پانچ سال مزید جمع کریں تو نصف صدی بن جاتی ہے۔ قوموں کی تاریخ میں کبھی تو سینکڑوں سال چپ چاپ ایک ہی رو میں بہتے چلے جاتے ہیں۔ بھارت کے اچھوتوں کو دیکھیے۔ صدیوں سے کوئی تغیر ہے نہ ارتعاش۔ انفرادی اور اجتماعی زندگی ان کی جیسی تھی‘ ویسی ہی ہے۔ کبھی چند برس صدیوں کو مات کر جاتے ہیں۔ علائوالدین خلجی کا عہد نکال دیں تو 1208ء سے لے کر 1857ء تک کے 649 برس‘ شیر شاہ سوری کے پانچ برسوں کے مقابلے میں ہیچ نظر آتے ہیں۔ پہلی عالمی جنگ کے خاتمے اور دوسری جنگِ عظیم کی ابتدا کے دوران اکیس برس کا عرصہ ہے۔ ان اکیس برسوں میں کیا نہیں ہوا۔ روس میں لینن کا ستر سالہ اشتراکیت کا تجربہ شروع ہوا۔ ہٹلر نے یورپ کی پوری زمین پر نئی مٹی بچھا دی۔ صدیوں سے چلی آتی قوی ہیکل سلطنت عثمانیہ کا مینار زمین بوس ہو گیا۔ انہیں اکیس برسوں کے دوران مسلم وسط ایشیا چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹ کر اپنے لباس اور اپنے رسم الخط سے محروم ہو گیا۔ سوال یہ ہے کہ 16 ...

وسوسے

کیا آپ نے کبھی کیرم بورڈ کھیلا ہے؟ اگر کھیلا نہیں تو دوسروں کو کھیلتے دیکھا تو ہو گا۔ اس میں دو فریق ہوتے ہیں۔ کھیلنے والے دو بھی ہو سکتے ہیں اور چار بھی۔ چار ہوں تو دو ساتھی ایک طرف اور دو ساتھی فریق مخالف میں ہوتے ہیں۔ ایک گوٹیاں سفید دوسرے کی سیاہ رنگ کی ہوتی ہیں۔ اپنی گوٹیوں کو پاکٹ میں ڈال کر‘ ان کی تعداد کم کرنا ہوتی ہے۔ جس کی گوٹیاں پہلے ختم ہو جائیں اور وہ سرخ رنگ کی ملکہ کو بھی ہتھیا لے‘ وہ جیت جاتا ہے۔ چار دوست ایک بار کیرم بورڈ کھیل رہے تھے‘ دو کی گوٹیاں سفید رنگ کی تھیں۔یوں ہوا کہ ایک کے ساتھی نے ایک بار فریقِ مخالف کی گوٹی پاکٹ میں ڈال دی۔ دوسری بار بھی اس نے ایسا ہی کیا‘ یا اُس نے ایسا ہو گیا‘ اس نے سیاہ رنگ کی گوٹی پاکٹ کر ڈالی۔ جب تیسری بار بھی اس سے ایسا ہی کیا تو اس کے ساتھی نے کھیل روک دیا اور اپنے ساتھی سے پوچھا۔ یار‘ اصل بات بتائو‘ تم کس کے ساتھ ہو؟ کیرم بورڈ کی ایک بازی چند دن پہلے امرتسر میں کھیلی گئی۔  ایک طرف مودی تھے۔ ان کے ساتھ ایرانی فریق بنے ہوئے تھے۔ اشرف غنی بھی مودی کے پہلو میں بیٹھے تھے    ؎ بدھو میاں بھی حضرتِ گاندھی کے ساتھ ...

میرے ماں باپ قربان

انڈونیشیا کئی ہزار جزیروں پر مشتمل ہے۔ اس کے مشرقی جزیروں میں فجر ساڑھے پانچ بجے ہوتی ہے۔ ہزاروں مسجدوں میں موذن کھڑے ہو کر اذان کہتے ہیں۔ اذان کے درمیان ایک کلمہ ہے اَشہَدُ اَنَّ مُحَمَّدً رَّسُولُ اللّٰہ ۔ میں شہادت دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔ یہ شہادت فضائوں میں گونج اٹھتی ہے۔ انڈونیشیا کے درمیانی جزائر کا وقت ایک گھنٹہ پیچھے ہے۔ یعنی ایک گھنٹہ بعدمرکزی جزائر میں محمد رسول اللہ کے کلمات بلند ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ پھر ایک گھنٹہ بعد جاوا اور سماٹرا کے مغربی جزیروں میں یہی نام بلند ہونے لگتا ہے۔ ایک گھنٹے بعد ملائیشیا کی باری آتی ہے پھر تھائی لینڈ کی۔ ابھی تھائی لینڈ میں محمدؐ کے نام کی گونج باقی ہے کہ ڈھاکہ میں محمد رسول اللہ کی آوازیں اٹھنے لگتی ہیں۔ پھر کلکتہ میں ۔ ایک گھنٹہ بعد سری نگر میں! سری نگر اور سیالکوٹ میں فجر کا وقت ایک ہی ہے۔ تاشقند ، سمرقند اور بخارا بھی اسی ٹائم زون میں ہیں۔ ان تمام شہروں میں محمدؐ کا نام ایک ہی وقت میں گونجتا ہے۔ پھر افغانستان اور ایران اٹھتے ہیں۔ پھر خلیج کی ریاستیں اور مسقط! اتنے میں مکہ اور مدینہ میں صبح ہوتی ہے، جہاں سے اس روشنی...