اشاعتیں

دسمبر, 2015 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

خواب جھوٹے خواب! تیرے خواب میرے خواب بھی!

جذبات کو کچھ دیر کے لیے تھیلے میں ڈالیے‘ تھیلا دیوار میں لگی کیل کے ساتھ لٹکا دیجئے۔ پھرٹھنڈے دل سے‘ خالی الذہن ہو کر‘ سوچیے۔ جب بھی ہم عالم اسلام کی بات کرتے ہیں تو زمینی حقائق کی روشنی میں ہم اس سے کیا مراد لیتے ہیں؟ ایک طرف سے شروع ہو جائیے۔ مراکش‘ الجزائر‘ تونس سے ہمارے کون سے تعلقات ہیں؟ وسطی اور مغربی افریقہ کے مسلمان ملکوں کے ہم میں سے اکثر لوگ نام تک نہیں جانتے۔ مصر سے ہمارے تعلقات ایسے ہی ہیں جیسے کسی بھی دور دراز ملک سے ہو سکتے ہیں۔ وسط ایشیا کی ریاستوں نے جتنے معاہدے بھارت اور اسرائیل کے ساتھ کیے ہوئے ہیں‘ ہماری سوچ سے زیادہ ہیں۔ مشرق بعید میں انڈونیشیا‘ ملائیشیا اور برونائی کی اپنی دنیا ہے۔ کیا آپ کو یاد پڑتا ہے کہ ماضی قریب میں ان ملکوں میں سے کسی ملک کا سربراہ یہاں آیا ہو یا کوئی معاہدے ہوئے ہوں؟ ایران کو دیکھیے۔ کھلم کھلا نہ سہی‘ اندر خانے چپقلش ہے کہ ختم ہی نہیں ہوتی۔ بھارت کے ساتھ اس کے تعلقات مثالی ہیں۔ ہماری مجوزہ اقتصادی راہداری کے مقابلے میں ایران اور بھارت دونوں ایک پیج پر ہیں۔ یو اے ای میں چند ہفتے پہلے جو پذیرائی مودی کو ملی‘ پاکستان کو اپنی اوقات یاد آگ...

بادشاہ ہزارے نا ہوسی

یہ ایک نمایاں اور ممتاز یونیورسٹی تھی۔ جس کلاس میں گفتگو کرنا تھی اس کے طلبہ اصل میں کالجوں کے اساتذہ تھے جو ایک ہی صوبے سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کا کیا خیال ہے، کالج میں پڑھانے والے کم تعلیم یافتہ ہوتے ہیں؟ نہیں! اعلیٰ تعلیم یافتہ! ایم اے کے ڈگری ہولڈر‘ ملک کی آبادی کے عشیر عشیر سے بھی کم! مگر جب عینک ایک خاص رنگ کے شیشوں کی پہنا دی جائے اور ذہن کو ایک کٹہرے میں لپیٹ کر دنیا سے لاتعلق کر دیا جائے تو اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم بھی لاحاصل ثابت ہوتی ہے۔ وہ جو کسی نے کہا تھا کہ تعلیم بھی فلاں کا کچھ نہیں بگاڑ سکی‘ تو کسی ایسے ہی موقع پر کہا تھا! بات صرف اتنی ہوئی کہ ان طلبہ سے خطاب کرنے والے نے ایک واقعہ سنا دیا جو کچھ عرصہ قبل پنجاب کے شہر لاہور میں پیش آیا تھا۔ ایک نواب صاحب پریس کانفرنس کر رہے تھے۔ کسی بد دماغ نے سوال کر دیا کہ جھوٹ سچ میں تمیز کرنے کے لیے جلتے سلگتے انگاروں پر چلانا کہاں کا انصاف ہے۔ نواب صاحب نے فخر سے جواب دیا کہ یہ ہماری روایت ہے! طلبہ کو واقعہ سنانے کا مقصد یہ تھا کہ روایت کے نام پر ظلم و جہالت کو جاری رکھنا عوام کے لیے سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔ مگر کُچھ طلبہ برافروختہ ہ...

پسِ دیوار قسمت کب سے بیٹھی رو رہی ہے

ظلّ ہما پر درد کا شدید حملہ ہوا۔ 23 برس کی یہ لڑکی کراچی یونیورسٹی میں ابلاغ عامہ شعبے کی طالبہ تھی۔ گھر والوں نے ٹیکسی میں ڈالا اور جناح پوسٹ گریجوایٹ میڈیکل سینٹر کی طرف بھاگے۔ مگر کراچی شہر پر صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف نازل ہو چکے تھے۔ شاہراہیں بند تھیں‘ راستے مسدور تھے‘ گھنٹوں انتظار کے بعد ہسپتال پہنچے تو بہت دیر ہو چکی تھی۔ اپنڈکس پھٹ چکا تھا۔ ظلّ ہما کمانڈو صدر کی رعیت سے نکل کر ایک اور عدالت میں پہنچ چکی تھی‘ یہ قتل 2006ء کے اپریل میں ہوا۔ گورنر عشرت العباد سے لے کر وزیراعلیٰ ارباب رحیم اور سٹی ناظم مصطفیٰ کمال تک کسی کو ظلّ ہما کے گھر آ کر معافی مانگنا تو درکنار تعزیت کرنے کی بھی توفیق نہ ہوئی۔ اخباری بیان تک جاری کرنا مناسب نہ سمجھا گیا! یہ کالم نگار بلاول زرداری کی موروثی سیاست کی ہم نوائی کرنے والا اس ملک میں آخری شخص ہو گا۔ مگر بسمہ کی موت پر سیاست دانوں اور مصنوعی سیاست دانوں کے ’’غم زدہ‘‘ بیانات پڑھ اور سُن کر ہنسی نہ آئے تو کیا ہو؟ چھاج تو بولے مگر نو سو چھید دامن میں رکھنے والی چھلنی کو بولنے کا کیا حق ہے؟ کیا ہی دلچسپ اور مضحکہ خیزخبر ہے کہ آل پاکستان مسلم ل...

انتہا

کس مونہہ سے؟ کس برتے پر؟ جو کچھ ہم حلب میں کر رہے ہیں اور جو کچھ عدن میں کر رہے ہیں اور جو کچھ بیروت میں کر رہے ہیں اور جو کچھ رقّہ میں کر رہے ہیں اور جو کچھ دمشق میں کر رہے ہیں اور یہ جو ہم قبریں اکھاڑ رہے ہیں‘ قیدیوں سے قبریں کھدوا کر انہیں ان قبروں میں لیٹنے کا حکم دے رہے ہیں‘ عورتیں فروخت کر رہے ہیں بچوں کو اچھال کر سنگینوں میں پرو رہے ہیں‘ اسلحہ کبھی سعودی عرب سے یمن اور کبھی ایران سے بھیج رہے ہیں‘ جنگ جُو کبھی تہران سے دمشق بھیجتے ہیں اور کبھی وزیرستان سے‘ کبھی پیرس پر حملہ کرتے ہیں تو کبھی لندن پر۔قندوز میں خون بہاتے ہیں تو کبھی قندھار میں! ہم میں سے کچھ ہلمند پر حملہ کرتے ہیں اور کچھ دفاع‘ عورتوں کو گھروں میں بند کر دیتے ہیں یا چوراہوں پر سنگسار! بچوں کے ہاتھوں میں غلیلیں دیتے ہیں۔ ان کے کاندھوں پر بندوقیں رکھتے ہیں اور ان کے کچّے ‘ادھ پکے جسموں پر بارودی جیکٹیں پہناتے ہیں۔دیدہ دلیری کی انتہا ہے کہ یہ سب کچھ کر کے ہم بارہ ربیع الاول کو دربارِ نبوت میں بھی حاضر ہو جاتے ہیں۔جس مقدس ہستی کا نام‘ فرشتے بھی درود پڑھے بغیر زبان پر نہیں لاتے‘ جہانوں زمانوں اور کائناتوں کا پروردگ...

ماموں

تصویر

ایجنڈا

34مسلمان ملکوں کے اتحاد کی تشریح اس اتحاد کے معمار سفارت کاری کے انداز میں کر رہے تھے مگر امریکی وزیر دفاع نے نرم گفتاری کو ایک طرف رکھ کر اسے ایک خاص مسلک سے منسوب کر دیا ۔ اصل سوال اور ہے، بالکل اور! وہ یہ کہ کیا یہ اتحاد جارحانہ ہے؟ یا دفاعی ہے؟ابتدا کس نے کی؟ انگریزی محاورے کی رُو سے پھاوڑے کو پھاوڑا ہی کہنا پڑے گا، اُسے گلدان یا روئی کے بنے تکیے کا نام نہیں دے سکتے! دوسرے مسلک نے مشرق وسطیٰ میں عمل دخل کا اسّی کے عشرے ہی میں آغاز کر دیا تھا۔ یہ عمل دخل، زبان و بیان پر مشتمل نہ تھا، نہ محض تھیوری تھی، یہ جارحانہ عمل دخل تھا اور مسلّح عمل دخل تھا! اس لحاظ سے دیکھا جائے تو دوسرے مسلک کا یہ حالیہ اتحاد تیس پینتیس برس بعد وجود میں آیا ہے۔  لبنان کی مسلّح جماعت حزب اللہ بظاہر تو اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے لیے بنی تھی مگر اس میں شامل سب لوگ ایک خاص ملک سے تعلق رکھتے تھے۔ اسے مالی امداد ایران نے دی۔ اس کی رہنمائی ایرانی لیڈر شپ کے ہاتھ میں تھی۔ پندرہ سو ایرانی انقلابی گارڈ، شام کی اجازت سے آئے اور حزب اللہ کے ارکان کی جنگی تربیت کی۔ حزب اللہ کی تشکیل میں اسرائیل کا نام لیا گیا...

پرانے شکاری…نیا جال

بالآخر وہ ہو کر رہا جو امریکی تھنک ٹینک چاہتے تھے۔ سعودی عرب کے زیر انتظام 34 ملکوں کے اتحاد نے عالمِ اسلام میں اُس شیعہ اور سنی تقسیم پر مہر لگا دی ہے جس کا آغاز ایران نے کیا تھا اور پھر اِس تقسیم کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے مسلسل تگ و دو کی! امریکی وزیر دفاع نے کسی لگی لپٹی بغیر کہہ دیا ہے کہ ’’یہ اتحاد امریکی حکمت عملی کے عین مطابق ہے جس کے تحت داعش کے مقابلے کے لیے سنیوں کے کردار کو وسعت دینا ہے‘‘ اس شیعہ سنی تفریق میں امریکی کردار تاریخ کے لیے نیا نہیں ہے۔ یہ ایک پرانی مہم کا تسلسل ہے۔ ایران کو ایک مسلک کی ریاست میں ڈھالنے کی ابتدا شاہ اسماعیل صفوی نے کی۔ اُس کی پالیسی کشت و خون کی پالیسی تھی۔ لاتعداد سنی مارے گئے۔ بہت سے پڑوسی ملکوں میں جا بسے۔ شاہ اسماعیل نے عرب امامیہ علماء کو دعوت دی کہ آ کر اِس ’’کام‘‘ میں اُس کا ہاتھ بٹائیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ اکثر عرب شیعہ علماء اپنی اِس روایت پر قائم رہے کہ کسی حکومت کی خدمت نہیں کرنی۔ انہیں اِس رسم پر بھی اعتراض تھا جو شاہ اسماعیل نے دربار میں شروع کی تھی کہ اس کے آگے جھکا جائے۔ عرب شیعہ علماء اِسے عقیدۂ توحید کے خلاف سمجھتے ...

ڈھکنی سے اک شہر ڈھکا

تصویر

تنور! دوزخ کے! اور شکم کے!

اگر آپ نیدرلینڈز کے نقشے کو غور سے دیکھیں تو جنوب میں یہ ایک تنگ پٹی کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ اس پٹی کے مغرب میں بیلجیئم ہے اور مشرق میں جرمنی۔ پٹی کے اُوپر والے، یعنی شمالی سرے پر نیدرلینڈز کا پانچواں بڑا شہر آئن دھوون واقع ہے۔ یہاں یہ وضاحت بھی ہو جائے کہ نیدرلینڈز کو ہالینڈ کیوں کہا جاتا ہے؟ نیندرلینڈز کے بارہ صوبے ہیں۔ دو صوبوں کے نام شمالی ہالینڈ اور جنوبی ہالینڈ ہیں۔ایمسٹرڈیم اور ہیگ جیسے بڑے بڑے شہر انہی صوبوں میں واقع ہیں۔ نیدر لینڈز کو دنیا میں اکثر و بیشتر ہالینڈ انہی صوبوں کی وجہ سے کہا جاتا ہے مگر، شمالی ہالینڈ اور جنوبی ہالینڈ سے باہر، دوسرے صوبوں میں ملک کے لیے ہالینڈ کا لفظ استعمال کیا جائے تو ناپسند کیا جاتا ہے۔ نیدرلینڈز کا سب سے چھوٹا صوبہ زی لینڈ ہے۔ نیوزی لینڈ کا نام اِسی صوبے کے نام پر ہے کیونکہ نیوزی لینڈ کو نیدر لینڈز ہی کے ایک جہاز ران نے دریافت کیا تھا۔ ہم آئن دھوون کے شہر کی بات کر رہے تھے۔ اس شہر کی ایک وجہ شہرت فلپس کمپنی بھی ہے۔ 1891ء میں دو بھائیوں گیراڈ فلپس اور اینٹن فلپس نے بلب بنانے کی چھوٹی سی فیکٹری لگائی۔ یہ اتنی بڑی کمپنی بن گئی کہ ہائ...

سچ کہتا تھا افضل خان

ایک انٹلیکچوئل اور ایک تاجر کے وژن میں کیا فرق ہے؟ ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم بنے تو بے نظیر بھٹو کو ’شباب جن کے دروازے پر دستک دے رہا تھا‘ وزارتِ خارجہ میں بٹھا دیا۔ فائلیں پڑھتی تھیں، ہو سکتا ہے ان پر کچھ لکھتی بھی ہوں۔ نہیں معلوم کتنا عرصہ یہ سلسلہ جاری رہا!  مریم نواز امریکہ کے حالیہ دورے میں امریکی خاتونِ اوّل سے ملاقات کے دوران بولیں تو اچھا بولیں۔ اس سطح پر، گفتگو کرنے کے حوالے سے شہزادی کا غالباً یہ پہلا Exposure  تھا! والدِ گرامی نے بیٹی کو میڈیا کا کام سونپا ہے جو اصلاً ایک منفی کام ہے۔ اس ملک میں میڈیا کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہے کہ دریا کے اِس کنارے والوں کی تعریف و توصیف اور ہر اقدام کی خواہ وہ کتنا ہی غیر دانش مندانہ کیوں نہ ہو، ایسی توجیہہ کہ مافوق الفطرت نظر آئے۔ اور دریا کے دوسرے کنارے کھڑے ہونے والوں کو ہر حال میں یزداں کے مقابلے میں اہرمن ثابت کرنا! امورِ مملکت میں تربیت دینے کا یہ ایسا انداز ہے جو ہرگز مستحسن نہیں! ہاں رموزِ مملکت اس سے ضرور سمجھے جا سکتے ہیں اور ہم سب جانتے ہیں کہ ’’رموز‘‘ سے مراد ہمارے ہاں وہ ساری ترکیبیں ہیں جو ’’دوسری‘‘ قبیل ...

کسبِ کمال

ہم تین دوست بیٹھے تھے۔ یونیورسٹی میں تینوں اکٹھے تھے اس لیے ایک دوسرے کے ’’اندرونِ خانہ‘‘ احوال سے واقف تھے، اپنے مسائل پر ایک دوسرے سے بات چیت کرتے تھے اور حل مانگتے تھے یا تجویز کرتے تھے۔ بھٹی نے اُس دن بھی وہی پرانی پٹاری کھول رکھی تھی۔ بیٹے ماشاء اللہ اس کے چار پانچ تھے۔ باعثِ اذیت اس کے لیے یہ تھا کہ دس بارہ جماعتیں پڑھنے کے بعد بریک لگ جاتی تھی۔ کسی کی کسی مضمون میں کمپارٹمنٹ آ جاتی تھی، کوئی پورا فیل ہو جاتا تھا،کوئی کالج میں داخلے لینے کے بعد پڑھائی میں عدم دلچسپی کا باقاعدہ اعلان کر دیتا تھا اور کوئی اگر فیل نہیں بھی ہوتا تھا تو آگے بڑھنے سے منکر ہو جاتا تھا! اب تک تو جب بھی بیٹھتے تھے، یہی سوچتے تھے کہ کم از کم گریجوایشن تو کرلیں، مگر اُس دن ہم میں سے ایک کا میٹر بالکل پھِرا ہُوا تھا۔ اُس نے پوچھا، گریجوایشن، گریجوایشن کی جو ہم رٹ لگائے رکھتے ہیں، اگر دھکیل کر، مارکُٹ کر، لعن طعن کر کے، بہلا پھُسلا کر، گریجوایشن کر بھی لیں گے تو ظاہر ہے کہ اس سے آگے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہو گا۔ مگر کیا کبھی ہم نے سوچا ہے کہ گریجوایشن کے بعد کیا کریں گے؟ اب تو ڈرائیور کا اشتہار دیا جا...

مظلوموں کی پریڈ

عوام کے دلوں سے خدا کا خوف نکل چکا ہے۔ مظلوموں کی آہ آسمانوں کا سینہ چیر کر سیدھا اُوپر جا رہی ہے۔ آغا حشر کاشمیری کا شعر ایک زمانے میں زبان زد خاص و عام تھا‘ آج پھر اُس کا ورد کرنا چاہیے   ؎ آہ جاتی ہے فلک پر رحم لانے کے لیے بادلو ہٹ جائو دے دو راہ جانے کے لیے  ڈاکٹر عاصم مظلوم ہیں۔ اُن کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے۔ وہ فریاد کناں ہیں کہ غصہ کسی اور پر ہے‘ نکل اُن پر رہا ہے۔ اُنہی کے ہسپتال میں انہیں اس طرح لے جایا گیا کہ ہاتھ لوہے سے بندھے تھے۔ کبھی کہا جاتا ہے‘ اتنے کروڑ روزانہ کے حساب سے لیتے رہے‘ کبھی الزام لگایا جاتا ہے کہ دہشت گردوں کا علاج معالجہ کراتے رہے۔ حالانکہ وہ بے قصور ہیں‘ معصوم ہیں! آصف علی زرداری مظلوم ہیں۔ آہ! وطن سے دُور‘ جلاوطنی کے دن گزار رہے ہیں۔ اپنی سرزمین کی مٹی کو ترس گئے ہیں! غریب الوطنی صحت کو گھُن کی طرح کھا رہی ہے۔ روکھی سوکھی جو ملے زہر مار کرنا پڑتی ہے۔ یا رب کوئی جہاں میں اسیِر محسن نہ ہو! اُن کے احوال کا سُن کر کلیجہ مُنہ کو آتا ہے مگر افسوس! سوائے صبر کے چارہ نہیں! قائم علی شاہ مظلوم ہیں۔ خوش قسمت لوگ ضُعف اور پیری کے عالم میں آرام کرتے ...

چھجو کا چوبارہ

تصویر

شام سے ایک عمر چُھپتے رہے

اکادمی ادبیات کے صدر نشین پروفیسر ڈاکٹر قاسم بگھیو نے جب بتایا کہ اکادمی کے پروگرام  Meet The Writer  کے تحت ’’اکادمی کیفے‘‘ میں ان سطور کے لکھنے والے کے ساتھ ایک شام کا اہتمام کیا گیا ہے تو تعجب ہوا  ع ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں جس طرح قومی زندگی کے ہر شعبے پر رنگ رنگ کے مافیا چھائے ہوئے ہیں، اسی طرح ادب پر بھی مافیا چھایا ہوا ہے۔ اخبارات کے ادبی صفحات کا مافیا‘ پبلشر حضرات کا مافیا‘ بیرون ملک مشاعروں کا مافیا جو اب شعراء کے لیے انڈسٹری کا درجہ اختیار کر چکا ہے‘ اردو کے نام پر کانفرنسوں کا مافیا‘ انعامات‘ ایوارڈز اور تمغوں کے پیچھے دوڑنے والا اور دینے والا مافیا‘ ادب سے متعلق سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کی کرسیوںکو کن انکھیوں سے دیکھنے والا مافیا‘ غرض ادب بیچارہ ایک اور ادب پیشہ مافیا لاتعداد۔ بقول منیر نیازی  ؎ ایک میں اور اتنے لاکھوں سلسلوں کے سامنے ایک صوتِ گنگ جیسے گنبدوں کے سامنے مونث ہوتا تو اس صورت حال میں ادب کنیز کہلاتا، مگر تذکیر کی بدولت اس کا شمار غلمان میں ہونے لگا۔ اکادمی کے ساتھ جو کچھ ہوتا رہا ایک طویل داستان ہے تفصیل جس کی...

یہ ندیمِ یک دو ساغر!!

اس کالم نگار کا تعلق لکھنے والوں کے اُس خاموش گروہ سے ہے جس کا کسی لین دین سے کچھ لینا دینا ہے‘ نہ کوئی مفاد ہی وابستہ ہے۔ قربت شاہ چاہیے نہ محل میں حاضری کا شوق ہے! بیرونی دوروں کی خواہش ہے نہ کسی ایسے طیارے میں بیٹھنے کی تمنا‘ جس میں عالی جاہ دوران پرواز حال چال پوچھیں اور گفت و شنید کریں‘ کسی مقتدر ہستی سے اپنے کسی عزیز کو کوئی فائدہ دلوانا ہے نہ کسی رنگ روڈ کا ٹھیکہ حاصل کرنا ہے…؎ یونہی تو کُنج قناعت میں نہیں بیٹھا ہوں خسروی‘ شاہ جہانی مری دیکھی ہوئی ہے یہ خاموش، یہ بے غرض گروہ تنقید کرتا ہے تو ملک کے مجموعی مفاد اور وقار کو سامنے رکھ کر اور تعریف و تحسین کرتا ہے تو خالص میرٹ پر۔ کسی سے دشمنی ہے نہ ایسی وابستگی جو قلم کی روانی میں رکاوٹ بنے۔ کُچھ دوست محبت بھرا شکوہ کرتے ہیں کہ تُم ہمیشہ تنقید ہی کرتے ہو۔ انہیں محبت بھرا جواب ملتا ہے کہ جہاں میرٹ نظر آئے‘ تحسین بھی کی جاتی ہے، یہ اور بات ہے کہ تحسین نمایاں نہیں لگتی جبکہ تنقید‘ خوش قسمتی یا بدقسمتی سے ہائی لائٹ ہو جاتی ہے ۔ اس ضمن میں کبھی کبھی دلچسپ صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔ جس وقت وزیر اعظم کو  Genuine  دف...

سنگ آستاں سے سنگ آستاں تک

تصویر