اشاعتیں

نومبر, 2015 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

بادشاہت کے تقاضے

بچہ ہی تو تھا! پچیس تیس سال کی عمر‘ عمر ہی کیا ہے! بچے سے قتل ہو گیا اور پولیس والے پکڑ کر لے گئے۔ ماں‘ دادی اور نانی نے پولیس کو ہزار ہزار بد دعائیں اور کوسنے دئیے۔ جو مارا گیا اُس کی تقدیر ہی یہی تھی! بچے کا تو محض بہانہ بن گیا۔ جاگیرداروں‘ سرداروں‘ چودھریوں اور خانوں کے بیٹے اور پوتے جب مزارعوں اور ہاریوں کی خواتین سے’’کھیلتے‘‘ ہیں تو اُس پر بھی یوں ہی واویلا مچا دیا جاتا ہے۔۔۔۔ اس عمر کے بچے ’’کھیل کود‘‘ نہ کریں تو آخر کیا کریں! قصور میں جب بچوں کے ساتھ بدسلوکی کی ویڈیو کا سکینڈل منظرعام پر آیا تو ایک فریادی عورت کو بااثر خاندان کے فرد نے یہی تو سمجھایا کہ جو سلوک ہم تمہارے ساتھ کرتے رہے ہیں‘ تمہارے بچوں کے ساتھ ہوگیا ہے تو کون سی قیامت برپا ہو گئی ہے؟ اب یہ جو بچی سے چند ڈالر پکڑے گئے ہیں تو گویا آسمان گر پڑا ہے۔ ایان علی کی عمر ہی کیا ہے؟ اس پر مقدمہ چلانے والوں اور اُسے سزا دینے کی خواہش کرنے والوں کو کم از کم اُس ستر سالہ بڑے میاں سے ضرور سبق سیکھنا چاہیے جو عدالت کے باہر پھول لے کر کھڑا تھا۔ کتنی محبت اور عقیدت سے بڑے میاں نے وہ پھول ایان علی کو پیش کیے تھے۔ اس کے علاوہ ...

اے خانہ براندازِ چمن! کچھ تو اِدھر بھی!

چار دن سے مولوی صاحب نظر نہیں آ رہے تھے۔ ایک اور صاحب نمازیں پڑھا رہے تھے۔ پانچویں دن مؤذن صاحب سے پوچھا کہ خیریت تو ہے؟ مولانا کہاں ہیں؟ کیا چُھٹی پر ہیں؟ مؤذن صاحب نے بتایا کہ اُن کا تبادلہ ایک اور مسجد میں ہو گیا ہے۔ یہاں اُن کی مدت  (Tenure)  پوری ہو چکی تھی! اُس دن جمعہ تھا۔ نئے مولوی صاحب ہی نے خطبہ دیا۔ ملاقات ہوئی تو معلوم ہوا چودہ سال سے ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی سے وابستہ ہیں اور کچھ دیگر مساجد میں بھی خدمات سرانجام دے چکے ہیں! اس وقت ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی اور بحریہ‘ دونوں کی رہائشی آبادیوں میں یہی سسٹم کارفرما ہے۔ کسی مسجد میں چندہ لیا جاتا ہے نہ محلے والوں کی کمیٹی ہے، مولانا جس کے ماتحت ہوں۔ تنخواہ انتظامیہ دیتی ہے۔ معقول رہائش مہیا کی جاتی ہے۔ ڈیفنس ہائوسنگ میں خطیب اور مؤذن کو تین وقت کا تیار پکا پکایا کھانا پیش کیا جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے بحریہ میں بھی کھانے کا یہی انتظام ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ان دو رہائشی تنظیموں کے علاوہ بھی کچھ سیٹ اپ ایسے ہوں جہاں ایسا ہی یا اس سے ملتا جلتا انتظام چل رہا ہو! آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر آپ کا بیٹا آٹھ دس سال لگا کر تعلیم س...

رذائل

رشتہ اچھا تھا۔ لڑکا خوش شکل اور ہنس مُکھ واقع ہوا تھا۔ کاروباری خاندان تھا۔ دارالحکومت کے پوش علاقے میں محل نما کوٹھی میںرہائش تھی۔ شادی کر دی گئی۔ پھر ایک دن لڑکی نے ماں کوبتایا کہ کوشش کے باوجود یہ نہیں معلوم ہو رہا کہ اس کے میاں کا اور میاں کے باپ کا بزنس کیا ہے۔ بس صبح سویرے بیٹا اور اس کے ماں باپ، تینوں گھر سے چلے جاتے ہیں یہ کہہ کر کہ کام پر جا رہے ہیں۔ شام گئے واپس آتے ہیں۔ روپے پیسے کی کمی نہیں! جو بھی بزنس ہے، خوب چل رہا ہے! کچھ عرصہ گزر گیا۔ پھر ایک دن لڑکی کی ایک جاننے والی خاتون نے اُسے وہ بات بتائی جسے سن کر اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ ’’میں نے تمہارے میاں کو چاندنی چوک پر بھیک مانگتے دیکھا ہے۔‘‘ یہ معاشرہ زوال کی آخری حدوں کی سمت بڑھ رہا ہے۔ بھکاری محلات میں منتقل ہو گئے ہیں۔ کیکر دعویٰ کرتے پھر رہے ہیں کہ ان پر انگور لگتے ہیں۔ شیراز کی دلکش ندی کے کنارے بیٹھنے والے شاعر نے اِسی عہد کی پیشگوئی کی تھی کہ گلاب اور چینی کے شربت گائو دی اور احمق پی رہے ہیں۔ گدھوں کی گردنوں میں سنہری پٹے پڑے ہیں۔ تازی گھوڑے لکڑیاں ڈھو رہے ہیں اور عقل والوں کو پیاس بجھانے ...

دل جیسے مُٹھی میں جکڑا جا رہا ہے!

’’آدم بو‘ آدم بو‘‘… چڑیل نے اپنے بے حد چوڑے نتھنے سکیڑے‘ پھر پھیلائے۔ اُس کے پر چمگادڑ کے پروں کی طرح تھے۔ پھیلے ہوئے اور ڈرائونے۔ آسمانی بلا کی طرح زمین پر اتری! جو سامنے آیا اُسے کھا گئی‘ کھاتی گئی! خلق خدا نے پناہ مانگی۔ لوگ چھتوں پر چڑھ کر اذانیں دینے لگے۔ مائوں نے بچوں کو گھروں سے باہر بھیجنا بند کر دیا! خاندانوں کے خاندان تہہ خانوں میں جا چھپے!  حسینہ واجد کی پیاس ہے کہ بڑھتی جا رہی ہے! بلور کے بنے ہوئے ساغر اور ان میں انسانی خون! مگر آہ! پیاس بجھ نہیں رہی! تاریخ نے بڑے بڑے ظالم دیکھے ہیں۔ سولہویں صدی میں ملکہ مَیری نے پروٹسٹنٹ عقیدہ رکھنے والوں کو آگ میں جلانے کا حکم دیا۔ پادریوں کو پھانسیاں دینے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ملکہ کا نام ’’خونی مَیری‘‘ پڑ گیا۔ سٹالن خلق خدا کے لیے عذاب بنا۔ آج ملکہ مَیری ہے نہ سٹالن! حسینہ واجد بھی تاریخ کے گمنام صفحے پر خون کے ایک بدنما دھبے کے سوا کچھ نہیں ہو گی! بہت جلد! ہاں! بہت جلد! جب پنڈلی سے پنڈلی جُڑے گی! جھاڑ پھونک کرنے والوں کو بلایا جائے گا! آنکھوں کے سامنے فلم چلے گی! حسینہ واجد کی رحم طلب نگاہوں کے سامنے پروفیسر غلام احمد‘ قمر ال...

کچھ تذکرے الگ نوعیت کے … (2)

اُس دن سنگاپور سے روانگی تھی۔ بیگم کا اصرار تھا کہ راستے کے لیے پیراسٹامول خریدنا لازم ہے جو وہ سفر میں پابندی سے ساتھ رکھتی ہیں۔ ہم دوائوں کی ایک دکان میں گئے۔ ان ملکوں میں جنہیں ہم ترقی یافتہ ممالک کہتے ہیں اور کبھی مغربی (اگرچہ جغرافیائی اعتبار سے سنگاپور مشرق میں واقع ہے)، ادویات کی دکانوں اور سپرسٹوروں پر گھومنے والے رَیک ضرور پڑے ہوتے ہیں جن پرکتابیں رکھی ہوتی ہیں۔ اس دکان پر بھی ایک طرف کتابوں کا ایسا ہی رَیک دھرا تھا۔ ایک کتاب پڑی تھی ’’سنز آف ییلو ایمپرر‘‘ یعنی زرد شہنشاہ کے بیٹے۔ یہ اہلِ چین کی داستانِ ہجرت تھی!  انتقالِ آبادی میں دلچسپی اُس وقت شروع ہوئی جب ڈھاکہ یونیورسٹی میں اقتصادیات کا طالب علم تھا۔ آبادی کا مضمون (ڈیمو گرافی) وہاں اقتصادیات کے سلیبس کا حصہ تھا۔ غالباً اُس وقت یہ مضمون پاکستان میں اور کہیں بھی نہیں پڑھایا جا رہا تھا۔ انتقالِ آبادی پر اقوامِ متحدہ کی ضخیم رپورٹیں پڑھنا پڑتی تھیں۔ مشرقی پاکستان کے نامور ماہرِ معاشیات ڈاکٹر کے ٹی حسین صدرِ شعبہ تھے اور ڈیموگرافی کے استاد بھی۔ مجسم شفقت اور نرم گفتار۔ مدتوں بعد اسلام آباد آئے تو غریب خانے کو شر...

راز کھلتا ہے!

یہ واقعہ غالباً دوست عزیزرئوف کلاسرا نے لکھا ہے۔ جنگ عظیم شروع ہوئی تو برطانیہ کو ہندوستانی جنگجوئوں کی ضرورت پڑی۔ شہر شہر بستی بستی بھرتی کا کام شروع ہو گیا۔ ڈپٹی کمشنروں کو اُوپر سے احکام ملے کہ عوام کو ترغیب اور تحریص دی جائے۔ انگریزی میں اس کیلئے جامع لفظ ایجاد ہوا ہے،  Motivate  کرنا! جنوبی پنجاب کے کسی گائوں میں ڈپٹی کمشنر نے دربار منعقد کیا اور تقریر میں کہا کہ ملکہ معظمہ کو اپنے اور اپنی سلطنت کے دفاع کیلئے تمہارے فرزندوں کی ضرورت آن پڑی ہے۔ اس پر ایک غریب کسان اُٹھا۔ فرض کیجئے اس کا نام گاما تھا۔ ڈی سی سے کہنے لگا، حضور! اگر نوبت یہ آ گئی ہے کہ ملکہ معظمہ کا دفاع گامے کے بیٹے کے سرآن پڑا ہے تو خداہی خیر کرے! عمران خان نے بلدیاتی انتخابات جیتنے پر ذوالفقار مرزا سے فون پر رابطہ کیا اور کہا کہ وہ یعنی عمران خان، سٹیٹس کو کا مقابلہ کرنے پر انہیں، یعنی ذوالفقار مرزا کو مبارک باد دیتے ہیں!مشہور و مقبول مزاحیہ ڈرامہ سیریز’’بلبلے‘‘ کا کردار محمود اکثر اس قبیل کے فقرے بولتا ہے :’’وہ جو تم کرو گے، وہ انصاف ہو گا؟‘‘یا’’ وہ جو تم کمائو گے، وہ پیسہ ہوگا؟‘‘! تو تبدیلی کی...

دوسرے رخسار پر پائوں کون رکھے گا؟

مناجات پڑھتے ہوئے فرشتوں نے عرش کے پائے تھام لیے! اور وہ جو امور کی تدبیر کے لیے آسمان سے زمین کی طرف اور زمین سے آسمان کی طرف پرواز کر رہے تھے، خشیتِ الٰہی سے کانپ اُٹھے۔ اُن کے پروں نے افق سے افق تک، زمین کو ڈھانپ لیا۔ سب حکم کے منتظر تھے۔ وہ بھی جو پہاڑ اٹھا کر زمین پر گراتے ہیں، وہ بھی جو کانوں کو پھاڑنے والی تیز چیخ سے لوگوں کو اوندھے منہ پٹخ دیتے ہیں، وہ بھی جو پتھر برساتے ہیں وہ بھی جو زمین کو جھنجھوڑ کر سونے والوں کو چھت اور فرش کے درمیان پیس دیتے ہیں اور وہ بھی جو کسی کو قذافی کر دیتے ہیں، کسی کو حسنی مبارک بنا کر پنجرے میں ڈالتے ہیں، کسی کو صدام حسین کا روپ دے کر چوہے کی طرح بل میں چھپنے پر مجبور کر دیتے ہیں اور کسی کو نکولائی چائوسیسکو بنا کر دیوار کے ساتھ لگا دیتے ہیں اور کتے کی موت مارتے ہیں! افسوس! ہائے افسوس! صد افسوس! اگر اب بھی پتھر نہیں برسے تو کب برسیں گے! اگر اب بھی بلند چیخ لوگوں کو اوندھے منہ نہیں گراتی تو کب گرائے گی؟ کیا ایک لاکھ سے زیادہ کلمہ گو عورتیں، تقسیم کے وقت سکھوں اور ہندوئوں نے اپنے ناپاک بستروں پر اس لیے گرا لی تھیں کہ جس ملک کے لیے ان کی عص...

آدھا سیر گوشت اور آدھا سیر بِلّی

لبرل ازم کی طرح سیکولرازم بھی وہ بدقسمت لفظ ہے جسے عفریت بنا دیا گیا ہے۔ جس شخص نے بھی یہ اصطلاح سب سے پہلے استعمال کی، اب بہرطور یہ اُن معنوں میں نہیں لی جاتی۔ اس کا مطلب لادینیت، الحاد یا دہریہ ہونا ہرگز نہیں! اس سے مراد پوری دنیا میں اب یہ لیا جاتا ہے کہ تمام مذاہب کو برداشت کیا جائے اور مذہبی معاملات میں جبر، تشدد، امتیاز اور نفرت سے بچا جائے۔ اگر سیکولرازم کا مطلب دہریت اور الحاد ہوتا تو بھارتی مسلمان اسے اپنی ضرورت نہ سمجھتے۔ اسدالدین اویسی آل انڈیا مجلسِ اتحادالمسلمین کے صدر ہیں۔ تین بار لوک سبھا کے رکن رہے۔ 21 اکتوبر 2015ء کو انہوں نے دہائی دی کہ ’’سیکولرازم کے بغیر بھارت بے کس ہو جائے گا۔ اس ملک کی اقدار میں سیکولرازم اور تنوع بنیادی اہمیت رکھتے ہیں اور انہیں ہر حال میں مضبوط کرنا ہو گا‘‘۔ امریکی ذرائع ابلاغ میں آئے دن اُن کے دانشور، پروفیسر اور اہلِ علم وضاحتیں کر رہے ہیں کہ سیکولرازم سے مراد نازی ازم ہے، نہ سٹالن ازم، نہ سوشلزم اور نہ ہی الحاد و دہریت! امریکی اہلِ علم دائیں بازو کے انتہا پسند مذہبی گروہوں پر الزام لگا رہے ہیں کہ سیکولرازم کو یہ لوگ اپنے مقاصد کی خاطر غلط م...

نیا سیاپا

برسٹل کا شہر لندن سے تقریباً ایک سو بیس میل کے فاصلے پر ہے۔ برسٹل سے بارہ میل دور، 1632ء میں، گھاس پھونس کی چھت سے بنی ہوئی ایک جھونپڑی میں جان لاک پیدا ہوا۔ جان لاک کو عام طور پر جدید لبرل ازم کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ اُس نے یہ نظریہ پیش کیا کہ حکومت کے جواز کے لیے عوام کی مرضی لازم ہے، تا کہ حکمران یہ نہ کہتا پھرے کہ اسے قدرت نے یا مافوق الفطرت طاقتوں نے حاکم بنایا ہے! جان لاک نے اس پر بھی زور دیا کہ ضمیر کی آزادی انسان کا بنیادی اور فطری حق ہے، کسی حکومت کی اتھارٹی اسے متاثر نہیں کر سکتی۔ اُس کے خیال میں مذہبی رواداری اور دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو برداشت کرنا بھی لبرل ازم کا حصہ تھا! غور کرنے کی بات ہے کہ اگر یہ سب کچھ لبرل ازم ہے تو جان لاک تو سترھویں صدی میں پیدا ہوا، یہ سب کچھ اُس سے پہلے اسلام دنیا کے سامنے پیش کر چکا تھا! خلفائے راشدین عوام کی مرضی سے مسند نشین ہوتے تھے۔ خلیفہ برسرِ عام کہتا تھا کہ میں ٹیڑھا ہو جائوں تو مجھے سیدھا کر دو! رہی مذہبی رواداری اور دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو برداشت کرنا، تو اس کا مؤثر ترین اظہار اسلام ہی نے کیا۔  کیا مدینہ تشریف آور...

تمغۂ حسنِ کارکردگی؟

تو پھر کیا بچہ بھی خاموش رہے؟ جلوس کے جلو میں بادشاہ چل رہا ہے۔ درباری، کیا وزیر، کیا مشیر‘ کیا مصاحب، کیا عمائدین۔ سب نئے’’لباس‘‘ کی تعریف کر رہے ہیں! ایک بالکونی سے بچہ چلاّ اٹھا’’بادشاہ ننگا ہے‘‘! تو پھر کیا بچہّ بھی خاموش رہے؟ آئی ایس پی آر کے بیان سے جمہوریت کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ تہلکہ برپا ہے! درو دیوار لرز رہے ہیں! اسی لکھنے والے کا شعر ہے   ؎ غلام بھاگتے پھرتے ہیں مشعلیں لے کر محل پہ ٹوٹنے والا ہے آسماں جیسے ایک صاحب نے اعلان کیا ہے کہ فلاں صورتِ حال میں سویلین شریف کا ساتھ دوں گا! جیسے ماضی میں آپ نے کبھی کسی کا ساتھ دیا! جمہوریت کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے! جمہوریت ؟ کون سی جمہوریت؟ اللہ کے بندو! جمہوریت کے جسم میں ایک ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے! ریڑھ کی اس ہڈی کو پارلیمینٹ کہتے ہیں! سو سوالوں کا ایک سوال یہ ہے کہ کیا پارلیمینٹ کی اپنی بھی ریڑھ کی ہڈی ہے؟ گورننس کا کیا حال ہے، سب کو معلوم ہے! عوام کی بھاری تعداد نے آئی ایس پی آر کے اعلامیے پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ سوشل میڈیا کی طاقت سے انکار ممکن نہیں! اب اس کی حیثیت نبض کی سی ہے! آئی ایس پی آر کو نشان دہ...

دربارِ وطن میں جب اک دن…

کیا کسی کو یاد ہے، چوہدری امیر حسین قومی اسمبلی کے سپیکر رہے؟ ایک دو نہیں پورے چھ سال! کسی اخبار میں، ٹیلی ویژن کے کسی پروگرام میں کبھی ان کا نام سنا؟ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا سپیکر رہیں! بے نظیر بھٹو کی زندگی میں کچھ بھی نہیں تھیں! اس سیارے کی جسے کرۂ ارض کہتے ہیں، ملک ملک کی سیر کی، قرضے معاف کرائے، مراعات لیں۔ تاریخ کے کتنے لفظ ان کے حصے میں آئیں گے؟ الٰہی بخش سومرو، حامد ناصر، گوہر ایوب؟ کیا کسی کو یاد ہیں؟ یوسف رضا گیلانی بھی رہے! من پسند بھرتیاں کیں جن کی پاداش میں جیل یاترا ہوئی۔ یہ الگ بات کہ اب ہر جیل یاترا، جمہوریت کے لیے قربانی بن جاتی ہے، جرم کیجیے! بچ گئے تو قسمت کے دھنی، پکڑے گئے تو اسیرِ جمہوریت! ہاں! تاریخ نے فضیلت کا تاج پہنایا ہے تو مولوی تمیزالدین خان کے سر پر! گورنر جنرل غلام محمد نے قومی اسمبلی کا تخت الٹا تو مولوی صاحب نے فیصلہ چیلنج کر دیا۔ جسٹس منیر نے طاقت وروں کا ساتھ دیا۔ مولوی صاحب ہار گئے، مگر ایسے ہارے کہ جیت ان کا مقدر بنی! تاریخ میں دونوں زندہ ہیں، مولوی تمیزالدین خان بھی اور جسٹس منیر بھی، لیکن اس طرح جیسے سراج الدولہ بھی تاریخ میں زندہ ہے اور میر ...

برہنگی

جاڑا دروازہ کھول کر اندر جھانک رہا ہے۔ آپ نے گرم واسکٹ پہننا شروع کر دی ہے، کبھی کوٹ زیبِ تن کر لیتے ہیں، لباس آپ کو ٹھٹھرنے نہیں دیتا، حرارت بہم پہنچاتا ہے۔ پھر گرمیاں آ جائیں گی، آپ ململ کا خوبصورت، دیدہ زیب کرتا پہنیں گے۔ یہ پسینہ جذب کرے گا اور باعثِ آرام ثابت ہو گا۔ لیکن لباس صرف گرمی اور سری سے، یعنی عناصر کی سختیوں سے ہی نہیں بچاتا، یہ آپ کو ڈھانکتا بھی ہے! کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ برہنہ شخص بدصورت لگتا ہے۔ جسم پر جابجا بال، لاغر ہے تو ہڈیاں نکلی ہوئی، بازو اور ٹانگیں مدقوق نما! موٹا ہے تو اسے دیکھ کر ہو سکتا ہے گینڈا یاد آ جائے، لیکن لباس اس بدنمائی کو چھپا دیتا ہے۔ اُسے باعزت کر دیتا ہے۔ بدن پر داغ ہیں یا چلنے کے نشان یا زخم کی باقیات، سب کچھ چھپ جاتا ہے۔ لباس کے ہم پر کتنے احسانات ہیں! تو پھر یہ سمجھنا کون سا مشکل ہے کہ خلاقِ عالم نے ہماری بیویوں کو ہمارا لباس اور شوہروں کو بیویوں کا لباس قرار دیا ہے! آپ کو اور آپ کی اہلیہ کو دیکھ کر جب کوئی بے اختیار کہہ اٹھتا ہے کہ ماشاء اللہ کیا خوبصورت جوڑا ہے، تو وہ، دوسرے لفظوں میں، دو ملبوسات کی تعریف کر رہا ہوتا ہے۔ ...

کہانی محنت اور صبر کی چکی میں پستے رہنے کی

وفاقی وزارت برائے اوورسیز پاکستانیز کے فرائض میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ بیرون ملک ملازمت کرنے والے پاکستانیوں کے مسائل حل کرے، بالخصوص وہ پاکستانی جو باہر محنت مزدوری کر رہے ہیں۔ اس مقصد کے لیے دوسرے ملکوں میں ’’کمیونٹی ویلفیئر اٹیچی‘‘ مقرر کئے جاتے ہیں۔ اس وقت مختلف ملکوں میں کمیونٹی ویلفیئر اٹیچی کی 19 اسامیاں موجود ہیں۔ گزشتہ برس صورتِ حال یہ تھی کہ کچھ اسامیاں ان میں سے خالی تھیں اور کچھ مستقبل قریب میں خالی ہونا تھیں۔ اووسیز پاکستانیز کی وزارت نے ان اسامیوں کو پر کرنے کے لیے قواعد کے مطابق اخبارات میں اشتہار دے کر اہل سرکاری ملازموں کو مقابلے میں شرکت کی دعوت دی۔ 29 نومبر 2014ء کو تحریری امتحان ہوا جس میں 341 امیدواروں نے شرکت کی۔ یہ تحریری امتحان ’’نیشنل ٹیسٹنگ سروس‘‘ نے لیا جو ایک آزاد ادارہ ہے اور غیر جانب داری سے امتحان لے کر متعلقہ محکموں کو نتائج سے آگاہ کرتا ہے۔ اووسیز پاکستانیز کی وزارت نے فیصلہ کیا کہ صرف ان کامیاب امیدواروں پر غور کیا جائے جنہوں نے تحریری امتحان میں 57 فیصد یا اس سے زیادہ نمبر حاصل کئے ہیں۔ اس معیار پر 102امیدوار پورے اترے۔ اب قواعد کی روسے ان امیدوارو...