اشاعتیں
اکتوبر, 2015 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں
کالم
زمیں جاگی تو اس کی ایک انگڑائی بہت ہے
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو رخصت ہوئے 79 برس ہو چکے تھے۔ پومپی آئی ایک ہنستا بستا شہر تھا۔ سمندر کے کنارے آباد! بیس ہزار کی آبادی تھی۔ پانی ہر گھر میں ایک مربوط نظام کے تحت پہنچتا تھا۔ شہر میں تھیٹر بھی تھا اور جمنیزیم بھی۔ بندرگاہ مصروف رہتی تھی۔ دور دور سے سیاح آتے تھے۔ امرا تعطیلات یہیں گزارتے تھے۔ اگست کی ایک دوپہر تھی جب لوگوں نے ایک عجیب و غریب، کالے رنگ کے بادل کو افق سے اٹھتے اور آسمان کو ڈھانپتے دیکھا۔ شہر کے پڑوس میں جو پہاڑ تھا، اس کی چوٹی پھٹ گئی تھی۔ ٹنوں کے حساب سے گرم، ابلتا لاوا اچھل اچھل کر، کوسوں دور تک لوہے کے گرم ٹکڑوں کی طرح، ہر طرف گر رہا تھا۔ گندھک بھری گیس ہوا میں پھیل رہی تھی۔ لوگوں کے دم گھٹ رہے تھے۔ ایک عینی شاہد نے اس زمانے میں کسی کو خط لکھا جو بعد میں ملا۔ کوئی ماں باپ کو پکار رہا تھا، کوئی بچوں کو اور کوئی بیوی کو! پھر مکان گرنے لگے اور گلیاں ملبے سے اٹ گئیں۔ ایک ہزار سات سو سال شہر مٹی کے نیچے دفن رہا، یہاں تک کہ 1748ء میں اس کی کھدائی شروع ہوئی۔ گزشتہ پونے تین سو برس سے یہ عبرت سرائے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچ رہی ہے۔ پچیس لاکھ افراد ہر سال یہاں آتے...
ڈھلوان کا سفر
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
’’زوال ہمیں زندگی کے تمام شعبوں ہی میں آیا ہے مگر جو حال ہم نے مذہبی رواداری کا کیا ہے، اس کی کوئی مثال نہیں! جس زمانے میں ہم بڑے ہو رہے تھے، مذہبی عدم برداشت کا وجود ہی نہ تھا۔ میں ایک کرسچین سکول میں پڑھتا تھا۔ وہاں بائبل پڑھائی جاتی تھی۔ میرے والدین نے اسے کبھی مسئلہ نہ بنایا۔ ہمارے گھر قرآن پاک پڑھانے جو قاری صاحب آتے تھے۔ وہ سنی تھے۔ انہوں نے ہمیں ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنا سکھائی۔ ابا جان کے نزدیک یہ کوئی مسئلہ ہی نہ تھا۔ ہم ہمیشہ سے سنیوں کی محبت میں مبتلا رہے۔ ابا جان نے سنی خاتون سے شادی کی۔ پھر میں نے بھی ایسا ہی کیا۔ میرے خیال میں تو ابا جان’’ شُنی ‘‘تھے (یعنی شیعہ اور سنی کا مجموعہ!) ۔ ابا جان محرم کی مجلس میں کبھی نہیں گئے۔ امی جان ضرور جاتی تھیں۔ اب میری بیگم اور بیٹیاں جاتی ہیں۔ اگرچہ میں کبھی نہیں گیا۔ محرم کے دنوں میں ہمارے محلے میں سبیلوں کا اہتمام سنی حضرات کیا کرتے۔ کرسچین سکول میں ہمارے عربی کے استاد مولوی عبدالعزیز تھے۔ کٹر سنی! بہت پارسا تھے۔ حد درجہ محتاط! ان کے عقیدت مندوں کی تعداد کثیر تھی۔ تعویذ دیتے تھے مگر معاوضہ نہیں لیتے تھے۔ مجھ پر بہت مہربان ت...
ہنری کسنجر کیا ہے؟ طفلِ مکتب!!
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
رشتے کے لیے پیغام بھیجا تو لڑکی والوں کا پہلا سوال تھا: لڑکا برسرِروزگار ہے یا نہیں؟ لیکن یہ پہلا سوال تھا، آخری نہیں تھا! جب بتایا گیا کہ لڑکا ماشاء اللہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے اور معقول ملازمت کر رہا ہے تو انہوں نے والد کا پیشہ پوچھا، پھر دادا کا، پھر خاندان کی مجموعی لحاظ سے مالی حیثیت کا پتا کیا، شہر کے کس حصے میں رہتے ہیں؟ گھر کیسا ہے؟ رشتہ دار کون کون ہیں؟ پھر اللہ کے بندوں نے یہ تفتیش بھی کرائی کہ لڑکے کے خاندان کی عمومی شہرت کیا ہے؟ جہاں رہ رہے ہیں، وہاں کے لوگوں کا ان کے بارے میں کیا تاثر ہے؟ کیا انہیں شریف، نجیب اور بھلے مانس سمجھا جاتا ہے؟ یا اکثر لوگوں کی رائے یہ ہے کہ فراڈ قسم کا خاندان ہے، چھچھورے ہیں، نمود و نمائش میں لگے رہتے ہیں، شیخی باز ہیں، ناقابل اعتماد ہیں، قرض مانگ کر غائب ہو جاتے ہیں، ان کے بوڑھے دوسروں سے الجھتے رہتے ہیں! کون بے وقوف ہو گا جو اپنی بیٹی کا رشتہ، یہ سب کچھ معلوم کیے اور کرائے بغیر دے دے؟ دُنیا بہت سیانی ہو چکی ہے۔ لوگ دیوار کے پار بھی دیکھنا سیکھ گئے ہیں۔ ذرائع مواصلات، الیکٹرانک میڈیا اور انٹرنیٹ نے علم اور عقل دونوں میں اضافہ کر دیا ہے! اب...
شرم کی باریک سی جھِلّی
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
یہ کیسے لوگ ہیں! ان کی حاملہ عورتیں بھوک سے نڈھال ہیں! ان کے بچوں کی پسلیاں دور سے گِنی جا سکتی ہیں! مگر ان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ گائے کا گوشت کوئی نہ کھائے! شرم کی باریک سی جھلی چہرے سے ایک بار اتر جائے تو دوبارہ نہیں چڑھتی۔ پھر بے شرمی کا کوئی کنارہ نہیں نظر آتا۔ ہریانہ کا وزیر اعلیٰ منوہر لال کہتا ہے کہ مسلمانوں کو بھارت میں رہنا ہے تو گائے کا گوشت نہ کھائیں۔ بھارت جیسے جاگیر ہے جو منوہر لال کو اس کے باپ نے وراثت میں دی ہے۔ منوہر لال کو چاہیے کہ جب تک بھارت اُن تمام ملکوں سے سفارتی تعلقات ختم نہیں کر دیتا جہاں جہاں گائے کا گوشت کھایا جاتا ہے، مرن برت رکھے اور اس دُکھوں بھری دنیا سے کوچ کر جائے! آہ! یہ دُکھوں بھری دنیا! جہاں جاپان سے لے کر چلی تک اور سائبیریا سے لے کر نیوزی لینڈ تک ہر جگہ ظالم لوگ گائے کا گوشت کھاتے ہیں! ایک امریکی یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق بھارت کے 39 فیصد بچے کم خوراکی کا شکار ہیں۔ لیکن بھارت کے بے شمار علاقے ایسے ہیں جہاں تحقیق کرنا، اعداد و شمار حاصل کرنا ممکن ہی نہیں! گویا یہ 39 فیصد کا ہندسہ حقیقت سے بہت کم ہے۔ بھارت کے کچھ علاقے تو پتھر کے زمانے ...
محرم! اے محرم!
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
امیرالمومنین بازار گشت کو نکلے۔ راستے میں ابولولوء ملا۔ یہ حضرت مغیرہ بن شعبہ کا نصرانی غلام تھا۔ ایرانی تھا۔ جنگ نہاوند میں قیدی بنا اور اس زمانے میں جو رسم و رواج تھا، اس کے مطابق حضرت مغیرہ کی غلامی میں آ گیا۔ امیرالمومنین سے کہنے لگا، مغیرہ مجھ سے بہت زیادہ خراج لیتے ہیں، میری مدد کیجئے۔ امیر المومنین نے پوچھا، تم کتنا خراج ادا کر رہے ہو۔ اس نے بتایا دو درہم روزانہ۔ ’’اورکام کیا کرتے ہو؟‘‘ ’’لوہار ہوں‘ بڑھئی بھی ہوں اور نقاشی بھی کرتا ہوں‘‘۔ ’’تمہارے پیشوں کو دیکھا جائے تو خراج کی رقم زیادہ نہیں لگتی۔ میں نے سنا ہے تم ہوا سے چلنے والی چکی بنا سکتے ہو‘‘۔ ابولولوء نے جواب میں کہا‘ ہاں بنا سکتا ہوں۔ فرمایا تو پھر مجھے ایک چکی بنادو۔ ابولولوء نے بہت پُراسرار جواب دیا:’’اگر میں زندہ رہا تو آپ کے لئے ایسی چکی بنائوں گا جس کا چرچا مشرق سے مغرب تک ہوگا‘‘۔ پھر وہ چلا گیا۔ امیر المومنین حضرت عمرؓ نے کہاـ: ’’یہ غلام مجھے دھمکی دے کر گیا ہے‘‘۔ فجر کی نماز کھڑی ہو رہی تھی۔ جب ابولولوء سامنے سے آیا اور اس خنجر سے جس کے درمیان دستہ تھا اور دونوں طرف تیز دھار پھل، امیر المومنین پر مسلسل وار...
ہوا کے حاکم اور موم کے گواہ
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
میری اگر کوئی فیکٹری ہو تو میں اس میں ایک منیجنگ ڈائریکٹر رکھوں گا۔ اس کے نیچے ایک منیجر بھی ہوگا۔ یہ دونوں تنخواہ لیں گے۔ ہوسکتا ہے کہ فیکٹری کے احاطے میں ان کے لئے معقول رہائش گاہوں کا بھی بندوبست کرنا پڑے۔ بصورت دیگر یہ کرائے کی مد میں علیحدہ الائونس لیں گے۔ تنخواہ اورمراعات کے بدلے میں یہ میری فیکٹری کو چلائیں گے۔ مزدوروں اور سپروائزروں کی نگرانی کریں گے اور ان کے مسائل سے بخیروخوبی نمٹیں گے۔ فرض کیجئے ایک شام مجھے اطلاع ملتی ہے کہ فیکٹری میں کوئی مسئلہ درپیش ہے، جا کر دیکھتا ہوں تو حالات دگرگوں نظر آتے ہیں۔ مشینیں بند پڑی ہیں۔ مزدور غیر حاضر ہیں۔ سپروائزر حضرات چائے پی رہے ہیں اور سیاست پر بحث کر رہے ہیں۔ صفائی کا انتظام کلی طور پر ناقص ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے مجھے کیا ایکشن لینا چاہیے؟ کیا یہ عقل مندی ہے کہ میں مزدوروں کو نکال دوں۔ سپروائزروں کو ڈانٹ پلا دوں اور پھر گھر واپس آ جائوں؟ یا میں ایم ڈی کو بلا کر وارننگ دوں کہ تین دن کے اندر اندر معاملات سوفیصد درست ہونے چاہئیں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو چوتھے دن تم فارغ ہو اوراسی دن دوپہر تک رہائش گاہ خالی ہونی چاہئے! یہ ہے وہ نکتہ جو...
فکرِ ہر کس…
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
لاہور کے عوام اگر شعور سے محروم ہوتے تو حکومتی امیدوار کو ڈیڑھ لاکھ یا سوا لاکھ ووٹ ملتے! اس میں کیا شک ہے کہ شریف برادران کی حکومت نے لاہور شہر کو خوبصورت بنانے کی بھرپور کوشش کی ہے اور اسے آرام دہ بھی بنا دیا ہے۔ آدھے سے زیادہ شہر سگنل فری ہو گیا ہے۔ پلوں، انڈرپاسوں اور معیاری شاہرائوں کا جال بچھ گیا ہے۔ ابھی بہت کچھ ہو رہا ہے جو پایہ تکمیل کو پہنچا تو شہر کی حالت اور بھی بدل جائے گی!یہ خدمت کئی عشروں سے ہو رہی ہے۔ سالہا سال کی ریاضت ہے جو جاری ہے۔ مگر اہل لاہور کو تحفظات ہیں۔ لاہور کے تعلیم یافتہ طبقات کے ذہنوں میں اعتراضات ہیں۔ وہ موم کے پتلے نہیں۔ وہ جنوبی پنجاب کے مزارع ہیں نہ اندرون سندھ کے ہاری! اہل لاہور اہل لاہور ہیں! وہ ہر بات پر آمنّا و صدّقنا نہیں کہتے۔ اگر ایسا ہوتا تو نتیجہ وہ نہ ہوتا جو نکلا ہے۔ پاکستانی عوام عام طور پر اور لاہور کے لوگ خاص طور پر۔ آمریت کی کس شکل کو نہیں مانتے نہ ہی فریب کھانے کے لئے تیار ہیں! جنرل ضیاء الحق ٹیلی ویژن پر آ کر غریبوں کے غم میں روہانسے ہو گئے تھے۔ اسلام بظاہر ان کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ سائیکل پر سوار ہو کر دکھایا، نمازیں پڑھیں، ...
فارغ! مکمل طور پر فارغ!
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
بلا کا رش تھا۔ ٹریفک اندھادھند تھی اور بے ہنگم گاڑیوں کا دھواں‘ پیں پیں کی آوازیں‘ چلتی رکتی بسوں کے کنڈکٹروں کی مسافروں کو بلاتی صدائیں‘ پیدل چلنے والوں کا ازدحام‘ سب کچھ بھیڑ میں اضافہ کرنے والا تھا۔ گاڑیاں اِنچوںکے حساب سے رینگ رہی تھیں۔ ایسے میں زور کی دھماکہ نما آواز آئی۔ ہماری گاڑی کو پچھلی گاڑی نے ٹکر ماری تھی۔ میں نے گاڑی ایک طرف کرلی۔ پیچھے والی گاڑی بھی ایک طرف ہو کر رک گئی۔ جتنی دیر میں‘ میں گاڑی سے نکل کر چند قدم پیچھے کی طرف چلا اور جتنی دیر میں پچھلی گاڑی کا ڈرائیور باہر نکل کر چند قدم آگے کی طرف چلا کم از کم چھ افراد جمع ہو چکے تھے۔ ابھی میں نے اور پچھلی گاڑی والے نے آپس میں کوئی بات ہی نہیں کی تھی کہ یہ تعداد چھ سے آٹھ اور پھر بارہ ہوگئی۔ دو سفید ریش اشخاص بار بار کہے جا رہے تھے: ’’چھوڑیں جی‘ جانے دیں‘‘۔ ایک نوجوان بلند آواز سے بولا: ’’غلطی پچھلی گاڑی کی ہے‘‘۔ ایک اور آواز آئی: ’’اگلی گاڑی والے نے بھی تو کچھ کیا ہی ہوگا نا‘‘۔ خوش قسمی سے پچھلی گاڑی والا شریف آدمی تھا۔ اس نے اپنا کارڈ مجھے دیا اور کہا کہ غلطی اُس کی تھی۔ گاڑی کی مرمت پر جتنا خرچ آئے گا‘ وہ ا...
ایک درخواست
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
کرزن، لارنس، میکالے، ریڈنگ، ویول، مائونٹ بیٹن ہمارے حکمران تھے۔ ہم ان کی رعایا تھے۔ ان کی اپنی دنیا تھا۔ ہماری دنیا الگ تھی۔ دونوں دنیائیں کسی مقام پر ایک دوسرے سے ملتی نہیں تھیں‘ نہ کراس کرتی تھیں۔ ان کے کلب اپنے تھے۔ ریستوران الگ تھے۔ ریل میں ڈبلے الگ الگ تھے۔ جن بازاروں میں عبدالکریم‘ رشید احمد لاجپت رائے اورمیٹھا سنگھ دال‘ چاول‘ گھی‘ ہلدی اور مرچ خریدتے تھے ان بازاروں میں کرزن‘ لارنس اور ریڈنگ کا کبھی گزر نہیں ہوتا تھا۔ جن سکولوں میں رعیت کے بچے تعلیم پاتے تھے‘ حکمرانوں کے بچے اور پوتے ان کے قریب سے بھی نہیں گزرتے تھے۔ جن ہسپتالوں میں عام لوگ علاج کے لئے جاتے تھے، وہاں حکمران نہیں جاتے تھے۔ حکمرانوں کے ڈاکٹر، شفاخانے، سب کچھ الگ تھا۔ یہاں تک کہ قبرستان بھی الگ الگ تھے۔ آپ نے اکثر شہروں میں ’’گورا قبرستان‘‘ دیکھے ہوں گے۔ یہاں حکمران اور ان کے ہم پایہ لوگ دفن ہوتے تھے۔ رعایا کے قبرستان الگ تھے۔ آج آصف علی زرداری‘ میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف، چودھری شجاعت حسین، مولانا فضل الرحمن، سید خورشید شاہ، سید قائم علی شاہ، اعتزاز احسن، الطاف حسین، ڈاکٹر فاروق ستار ہمارے حکمران...
مورا جوبن گروی رکھ لے
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
ہری پور سے ایبٹ آباد کا رُخ کریں تو شہر سے نکلتے ہی بائیں طرف شاہراہ کے کنارے وہ آدھی اجاڑ اور آدھی آباد خانقاہ تھی جس میں پُرنم الٰہ آبادی مقیم تھے۔ سب سے پہلے پروفیسر رئوف امیر نے بتایا آتشِ شوق بھڑکی اور میں خانقاہ میں حاضر ہوگیا۔ رئوف امیر ساتھ تھے اور پُرنم صاحب کو میرے بارے میں پہلے بتا چکے تھے۔ ایک چھپر نما برآمدہ تھا جہاں چٹائی بچھی تھی۔ شفقت سے ملے‘ مسرت کا اظہار کیا‘ ایک پلیٹ میں جلیبی رکھی تھی‘ جو شاید ہمارے لیے ہی انہوں نے منگوائی تھی۔ ہم نے کھائی‘ چائے پی‘ سارے چھپر میں عجیب خوشبو تھی۔ فضا میں سوندھا سوندھا تاثر تھا۔ کچی دیواریں‘ چھپر نما برآمدے میں چٹائی۔ غالباً چٹائی پر سفید چادر بچھی تھی۔ سازوسامان سے بے نیاز یعنی بے سروسامانی‘ پُرنم صاحب کے کھچڑی بال جو مانگ کے بغیر‘ سامنے سے پیچھے کی طرف جا رہے تھے۔ بہت ہی سادہ اور عام شلوار قمیض میں ملبوس! یوں لگتا تھا یہ شخص دنیا و مافیہا سے بے نیاز ہے۔ اُس کے بعد معمول بن گیا۔ میں اسلام آباد سے نکلتا‘ راستے میں واہ سے پروفیسر رئوف امیر کو لیتا اور ہم خانقاہ میں پُرنم صاحب کے ہاں حاضر ہو جاتے‘ گھنٹوں بیٹھتے‘ انتہائی بے تکلفی م...