اشاعتیں

جون, 2015 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

اونٹوں کو پکڑیے اونٹوں کو

تصویر

افتخار عارف کہاں ہے ؟

تصویر

چراغ تلے

یہ کوالالمپور تھا۔ پوری دنیا سے ممتاز سکالر آئے ہوئے تھے۔ لندن سے لے کر قاہرہ تک‘ اردن سے لے کر مراکش تک اور برونائی سے لے کر ریاض اور خرطوم تک کے علوم و فنون کے ماہرین جمع تھے۔ تقریب کا مقصد سوشل سائنسز‘ میڈیکل کے علوم اور سائنس اور ٹیکنالوجی کو اسلامی دنیا کے حوالے سے زیر بحث لانا تھا۔ اس حوالے سے یہ پہلی بین الاقوامی کانگرس تھی۔ میزبانی کا شرف ملائیشیا کو ملا تھا۔  اس انتہائی اہم عالمی فورم میں کلیدی خطاب کرنے کی دعوت جس سکالر کو دی گئی تھی اس کا تعلق پاکستان سے تھا۔ یہ اور بات اہل پاکستان میں سے کم‘ بہت ہی کم‘ افراد کو معلوم ہوگا کہ یہ اعزاز ان کے ملک کو ملا ہے۔  محمد اکرم خان اقتصادیات کے شعبے میں بین الاقوامی شہرت رکھنے والے عالم ہیں۔ چار عشروں سے مستقل مزاجی کے ساتھ اس میدان میں کام کرنے کا نتیجہ یہ ہے کہ آج مغربی دنیا کے سکالر ان کے نام سے بخوبی آشنا ہیں اور اقتصادیات پر اسلامی حوالے سے جہاں بھی کوئی مباحثہ ہو یا کانفرنس‘ اکرم خان کو ضرور مدعو کیا جاتا ہے۔ چراغ تلے اندھیرا‘ گھر میں یہ مرغی دال برابر ہے۔ ہمارے ہاں‘ یوں بھی انتھک اور بے غرض محنت‘ بالخصوص تخلیق...

گھٹ گئے انسان

تصویر

حدود کا تعین

تم آئے ہو۔ اہلاً و سہلاً ۔ میری خوش بختی ہے کہ ایک بار پھر تمہارا استقبال کر رہا ہوں۔ تمہاری تشریف آوری میرے لیے برکت‘ سعادت اور اعزاز کا باعث ہے۔  تمہاری آمد پر میں نے اپنے شب و روز کا سارا نظام تبدیل کر لیا ہے۔ صرف میں ہی نہیں‘ میری بیوی بچے‘ میرے ملازم‘ میرے ملاقاتی‘ سب کا اٹھنا بیٹھنا‘ سونا جاگنا‘ کھانا پینا‘ تمہارے گرد گھوم رہا ہے۔ تمہارے آنے کی خوشی میں ہم صبح صادق سے پہلے اٹھ بیٹھتے ہیں۔ نوافل ادا کرتے ہیں پھر سحری کھاتے ہیں۔ صبح کی نماز باجماعت ادا کرتے ہیں۔ پھر ہم سب گھر والے کلام پاک کی تلاوت کرتے ہیں۔ میرا ایک بچہ تو اس قدر خوش الحانی سے مقدس آیات کی تلاوت کرتا ہے کہ سننے والوں پر وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ جب تک تمہارا قیام ہے‘ ہم اشراق اور چاشت کے نوافل بھی ادا کر رہے ہیں۔ ظہر کے وقت میں اپنا کارخانہ بند کر دیتا ہوں۔ فیکٹری کی مسجد نمازیوں سے چھلک اٹھتی ہے۔ غریب خانے سے ہر شام چالیس پچاس روزہ داروں کے لیے افطاری محلے کے مسجد میں بھیجی جاتی ہے۔ پورا گھرانہ تراویح کی نماز باجماعت ادا کرتا ہے۔ مہینے کے آخر میں جب ختم قرآن کی تقریب ہوتی ہے‘ تو حافظ صاحب اور...

دربارِ وطن میں جب اک دن

بڑھیا سُوٹ کی انٹی لیے آئی تو بازارِ مصر کے امرا نے طعنہ دیا کہ کیا اس سے اس سراپا حُسن کو خریدو گی جس کا نام یوسف ہے؟ بڑھیا نے جواب دیا تھا کہ جانتی ہوں‘ اس انٹی سے خرید نہیں سکتی مگر کل خریداروں میں نام تو شامل ہو گا! مصر کا بازار ہے نہ یوسف کی خریداری مگر منظر کچھ کچھ وہی ہے۔ آٹھ سالہ یوسف معین کی کل بچت پانچ ہزار روپے تھی۔ اس سے ٹینک کا ایک چھوٹا سا پرزہ تک نہیں خریدا جا سکتا۔ مگر اُس کے پاس تو یہی کچھ تھا ۔ اس نے یہی اپنی قومی فوج کے حضور پیش کر دیا کہ دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے کچھ گولیاں تو اس میں آ جائیں گی۔ ہمارے وطن کی بھی کیا قسمت ہے ! ایک طرف لاہور کا یوسف معین اپنی آٹھ سالہ عمر کی کل کمائی وطن پر نثار کر رہا ہے اور دوسری طرف ایسے ابنائے حرص ہیں جو وطن کو نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں۔ بھنبھوڑ رہے ہیں۔ جہازوں کے جہاز ڈالروں سے بھر کر‘ دساور‘ خفیہ کمین گاہوں میں بھیج رہے ہیں‘ وطن ڈھانچہ بن کر رہ گیا ہے۔ ماس کھایا جا رہا ہے‘ گوشت کا ایک ایک ریشہ تنور ہائے شکم میں منتقل ہو چکا ہے مگر شکم ہیں کہ بھرتے نہیں‘ گندے ‘ زرد‘ دانت بدستور نکلے ہوئے ہیں‘ تاہم ایک وقت ایسا ضرور آئے گ...

پاندان کی فکر

سب سے پہلے حضرت عثمانؓ نے پہچانا  ’’یہ سائب بن اقرع ہے‘‘۔ سوار قریب آیا تو مدینہ سے باہر انتظار کرنے والے امیر المومنین نے پوچھا ’’کیا خبر ہے؟‘‘ سائب نے فتح کی خوش خبری دی۔ ’’نعمان کا کیا حال ہے‘‘۔ ’’وہ شہید ہو گئے‘‘۔ امیر المومنین حضرت عمرؓ کی ہچکی بندھ گئی۔  ایران کے شہنشاہ کسریٰ کے خلاف آخری فیصلہ کن معرکہ نہاوند میں لڑا گیا۔ اس میں مسلمانوں کو مالِ غنیمت بہت ملا کیونکہ ایرانی سب کچھ چھوڑ کر بھاگ لیے تھے۔ یہی وہ جنگ تھی جس کے بعد کسریٰ نے ایران چھوڑ دیا۔ غیر ملکیوں سے مدد مانگتے مانگتے دیارِ غیر ہی میں مرا۔ خزانے کا ایک خاص حصہ اس نے نہاوند میں آتش کدے کے مذہبی رہنما کے پاس رکھوا دیا تھا کہ کسی دن کام آئے گا۔ شکست فیصلہ کن ہوئی تو مذہبی رہنما نے زرو جواہر کے وہ خاص صندوق مسلمانوں کے حوالے کردیے۔ مسلمانوں نے انہیں امیر المومنین کے لیے مخصوص کردیا۔ سائب بن اقرع فتح کی نوید کے ساتھ یہ صندوق بھی مدینہ لائے تھے!  مدینہ پہنچ کر سائب نے خمس مسجد میں رکھ دیا۔ امیر المومنین نے اپنے رفقا کو پہرے پر بٹھایا اور حکم دیا کہ علی الصبح سارا مال مسلمانوں میں تقسیم کردیا جائ...

ایک خوش آیند آغاز

تصویر

جن

تصویر

یہ ناممکن تو نہیں

تصویر

زمینی حقیقت

تصویر

سبحان اللہ! سبحان اللہ!

اُٹھو! غم کے مارو! اُٹھو‘ وہ دیکھو‘ بالآخر سویرا طلوع ہو رہا ہے‘ طویل رات ختم ہونے کو ہے!  ملامت کے تیروں سے تمہارے جسم چھلنی ہو چکے ہیں۔ کیا یار کیا اغیار! طعنہ زنوں نے نشتر چبھو چبھو کر تمہیں ہلکان کر دیا ہے‘ جمود تمہارا نشانِ امتیاز بن چکا ہے۔ پس ماندگی کو تمہارے نام کا حصہ قرار دیا جا چکا ہے۔ الزام یہ ہے کہ چھ صدیوں سے تم نے علم سے‘ سائنس سے‘ ٹیکنالوجی سے‘ روشن خیالی سے‘ رشتہ توڑ رکھا ہے۔ حریف ایک زہر خند کے ساتھ تمہیں بتاتے ہیں کہ دیکھو‘ دنیا مریخ پر پہنچ گئی ہے۔ سمندر فتح کیے جا چکے‘ خلا سرنگوں ہو چکا‘ کرۂ ارض سمٹ کر ’’ناسا‘‘ کے سامنے ایک ذرہ بے بضاعت بن چکا ہے۔ پہاڑوں جتنے گلیشئر‘ کھینچ کر‘ مطلوبہ مقام پر منتقل کیے جا چکے۔ قطبین پر پرچم لہرا دیے گئے۔ جزیروں کے جزیرے‘ ملکوں کے ملک‘ براعظموں کے براعظم‘ دوسروں نے دریافت کیے اور اپنی اقلیموں میں شامل کر لیے اور تم ہو کہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہو۔ سیاسی غلامی‘ ذہنی غلامی‘ جذباتی غلامی‘ اقتصادی غلامی‘ غلامی کی جتنی شکلیں ہیں‘ تم پر طاری ہیں!  مگر نہیں! اب مزید نہیں! وقت کروٹ لے چکا ہے! تاریخ کا دھارا موڑ مڑ ...

تیرے سب خاندان پر عاشق

چینی کھانے چین جا کر دیکھے اور کھائے‘ بلکہ کھانے کی کوشش کی تو معلوم ہوا ہمارے ہاں جو چینی کھانوں کا غلغلہ ہے‘ اس کا چینی کھانوں سے کوئی خاص تعلق نہیں۔ یہ چینی کھانوں کی مسخ شدہ شکل ہے۔ چین میں چاول‘ ضیافت کا غالب حصہ ہوتے ہی نہیں۔ کئی ڈشوں کے بعد پیالوں میں نیم سخت سے چاول دکھائی دیتے ہیں۔ اسی طرح وہاں سوپ سے کھانے کا آغاز نہیں کیا جاتا۔ ہمارے ہاں انگریزی لنچ یا ڈنر کا آغاز سوپ سے ہوتا تھا۔ یہی روایت چینی کھانے میں بھی پڑ گئی۔  ہر شے‘ درآمد کر کے‘ اس کا حلیہ بگاڑنے کی ایک اور مثال چینی نوڈل یا اطالوی سپے گتی کی بھی ہے۔ اگر چینی یا اطالوی اپنے نوڈل یا سپے گتی کا حشر دیکھیں جو گوشت مصالحے اور مرچیں ڈال کر کیا جاتا ہے تو کانوں کو ہاتھ لگائیں۔ پلائو میں مرچوں کے انبار ڈال کر اسے بریانی کی شکل دے دی گئی اور اب وہ نہاری اور حلیم کی صف میں بیٹھی نظر آتی ہے۔ ایک زمانے میں نکٹائی کے ساتھ بھی یہی سلوک روا رکھا گیا۔ سنا ہے چھیاسی ناولوں کے مصنف ایم اسلم شلوار قمیض پر کوٹ اور نکٹائی پہنتے تھے!  شکل مسخ کرنے کی یہ روایت برقرار رکھتے ہوئے جو سلوک یہاں جمہوریت کے ساتھ روا رکھا جا ...

غالب کے طرفدار نہیں

تصویر