اشاعتیں

مئی, 2015 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

نافرمان لوگ!

شام ڈھل رہی تھی جب ہم قصبے میں پہنچے۔ کھانا کھایا۔ میزبان سے گپ شپ کی اور سو رہے! دوسرے دن علی الصبح اس کام کیلئے نکلے جس کیلئے بلائے گئے تھے۔ ساتھ ایک معروف معمار تھا جو اس قلمکار کا دوست تھا۔ ہمارے میزبان کی، جو دوست بھی تھا، آبائی حویلی کو معمار نے دیکھنا تھا۔ مالک چاہتا تھا کہ تھوڑی بہت مرمت ہو جائے اوررنگ روغن سے اس کی شان و شوکت پلٹ آئے۔ معمار دیکھتا رہا۔ ایک ایک دالان کو، ایک ایک راہداری کو، ایک ایک خواب گاہ کو، ایک ایک ستون کو، ایک ایک چھت کو، ایک ایک ڈیوڑھی کو۔ اس کا چہرہ سپاٹ تھا۔ بہت دیر کے بعد اس نے چائے کی فرمائش کی۔ ہم ڈیوڑھی میں بیٹھ گئے۔ بوسیدہ برقی پنکھے کو ایک طویل ڈنڈا چھت سے جوڑے ہوئے تھا! ’’جناب! یہ صرف معمولی مرمت اور رنگ روغن کا مسئلہ نہیں! سالہا سال آپ نے اس حویلی کو اپنی توجہ سے محروم رکھا۔ اس کی چھتیں سجدہ ریز ہونے والی ہیں۔ اس کے ستون ہل رہے ہیں۔ دیواروں کے پتھر باہر آنے کیلئے بے تاب ہیں۔ اب تو کوئی تجربہ کار مجرم بھی نقب لگائے تو دیوار اس کے اوپر آن گرے‘‘۔ پوری کی پوری حویلی خستہ اور شکستہ ہوچکی ہے۔ کیا دالان کیا برآمدے! تاجروں کو حکومت نے ...

ہے کوئی؟

پاکستان کو وجود میں آئے چھ ماہ ہوئے تھے‘ فروری کی چودہ تاریخ تھی جب میں نے اس فانی مگر پیچیدہ دنیا میں آنکھ کھولی۔ تاریخ کے اندراج میں غلطی کا امکان اس لیے نہیں کہ دادا جان روزانہ ڈائری لکھتے تھے اور واقعات فوراً قلم بند ہو جاتے تھے۔  نہیں معلوم پیدائش کی یہ ساعت سعید تھی یا اُس وقت ستارے نحوست کا اشارہ دے رہے تھے۔ یوں تو ان چیزوں پر یقین ہی نہیں! بلکہ یہ کہہ کر تمسخر اڑایا ہے کہ   ؎  ستارے دیکھتا ہوں، زائچے بناتا ہوں  میں وہم بیچتا ہوں، وسوسے بناتا ہوں  مگر لگتا ہے کہ ملک سے باہر خصوصاً اہلِ مغرب نے اپنے علم و دانش سے اور ترقی یافتہ ٹیکنالوجی سے معلوم کر لیا کہ ایک جوہرِ قابل پیدا ہوا ہے۔ مجھے خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے انہوں نے چودہ فروری کے دن کو محبت کا عالمی دن قرار دے دیا۔ تاہم وطن میں اس موتی کی قدر نہ ہوئی۔ اندازہ لگایئے‘ جس شخص کا یوم پیدائش پوری دنیا میں پھولوں‘ گلدستوں اور تہنیتی کارڈوں کے تبادلے سے منایا جاتا ہے‘ رقص و سرود اور مے نوشی کی محفلیں برپا کی جاتی ہیں‘ اپنے وطن میں اُس کی پیدائش سے ہی حالات نے وہ رُخ اختیار کرلیا کہ کسی زاوی...

فری لنچ

’’فری لنچ‘‘ کا محاورہ امریکہ سے شروع ہوا اور ساری دنیا میں پھیل گیا۔ مارکیٹنگ ایک باقاعدہ مضمون تو ماضی قریب میں بنا ہے‘ جس میں ایم بی اے سے لے کر پی ایچ ڈی تک ہو رہی ہے۔ مگر انسان نے جب سے کاروبار کا آغاز کیا‘ مارکیٹنگ (یعنی اشیا یا خدمات فروخت کرنے کا فن) ہمیشہ سے سرگرمِ کار رہا ہے۔ 1870ء میں امریکہ کے ریستورانوں نے ’’فری لنچ‘‘ کا نسخہ ایجاد کیا۔ ان ریستورانوں میں خوراک کے ساتھ انواع و اقسام کی شرابیں بھی میسر ہوتی تھیں۔ پیش کش یہ ہوتی تھی کہ اگر آپ مشروب خریدیں تو لنچ فری ملے گا۔ یہ لنچ سادہ اور برائے نام بھی ہوتا تھا اور بعض اپنی ساکھ قائم کرنے کے لیے اچھا خاصا بھی مہیا کرتے تھے۔ عملی طور پر یہ ہوتا تھا کہ اکثر گاہک ایک گلاس مشروب پر اکتفا نہیں کرتے تھے۔ یوں مشروبات خوب بکتے تھے۔ گاہکوں کی ریل پیل‘ شہرت‘ اشتہار بازی‘ کئی ضمنی فوائد اس کے علاوہ تھے۔ اسی زمانے میں عقل مندوں نے یہ محاورہ تراشا کہ کوئی لنچ مفت نہیں ہوتا:  There is no such thing as a free lunch!! یعنی ع  نظر آتا ہے جو کچھ اصل میں ایسا نہیں ہے  یہ دنیا دارالاسباب ہے۔ غور کیجیے تو اس نتیجہ پر پہ...

اس گرم ماحول میں

شادی کے بعد پہلا رمضان آیا تو شہر سے تعلق رکھنے والی نئی نویلی بیگم صاحبہ پر حیرتوں کے جو باب وا ہوئے ان کا ذکر وضعدار خاتون نے کئی برس بعد کیا۔ بودوباش تو ہماری بھی اُس وقت شہر ہی میں تھی لیکن بابے ظفر اقبال نے کہا ہے   ؎  ظفر میں شہر میں آ تو گیا ہوں  مری خصلت بیابانی رہے گی  بابے کا جو پیار اس نابکار سے ہے‘ اس کے پیش نظر کیا عجب یہ شعر زیر دستخطی ہی کے لیے کہا گیا ہو! شہر کی بودوباش میں بھی اصلیت گائوں کی جھلک جھلک پڑتی تھی۔ سحری کے وقت‘ گھی میں تلے ہوئے دو پراٹھے۔ ایک معقول سائز کی قاب میں کناروں تک ڈالا گیا پگھلا ہوا گھی‘ اس کے درمیان میں شکر کی بڑی سی ڈھیری‘ یوں کہ اس کے اردگرد گھی‘ جیسے گول ناند میں بہہ رہا ہے‘ ساتھ ایک جگ لسّی کا‘ یاد رہے کہ اس جگ میں پورے چھ گلاس ہوتے تھے۔ یہ توند اُس وقت ظہور پذیر نہیں ہوئی تھی۔ دھان پان جسم تھا۔ ہڈیاں زیادہ اور ماس کم۔ کانگڑی پہلوان۔ عفیفہ حیران کہ آخر یہ چھ گلاس لسی کے جاتے کہاں ہیں!  رمضان میں سحری کا یہ معمول چلتا رہا۔ پھر بچے بڑے ہوتے گئے۔ گھریلو ذمہ داریوں میں اضافہ۔ ساتھ سرکاری کلرکی کا بوجھ بڑھتا...

ملازم شاہی

آپ کا ملازم درست ہی تو کہتا ہے۔ آپ چپ چاپ اس کی بات مان لیجیے۔ اسی میں آپ کی عافیت ہے!  آپ نے اسے اپنے گھر میں ملازم رکھا تھا۔ ایک تنخواہ مقرر ہوئی تھی۔ اسے بتایا گیا تھا کہ اس نے فلاں فلاں کام کرنا ہوگا۔ کچھ کام باورچی خانے کا ہوگا‘ کچھ خواب گاہوں کی صفائی کا ہوگا۔ بازار سے سودا سلف لانا ہوگا وغیرہ وغیرہ۔  کچھ عرصہ یہ معاہدہ چلتا رہا۔ آہستہ آہستہ اُس نے پالیسی امور میں حصہ لینا شروع کردیا۔ فلاں کمرے میں پلنگ اسی طرح بچھانا ہے جیسا کہ وہ چاہتا ہے۔ چھوٹے صاحب بالائی منزل پر منتقل ہو جائیں۔ آج کریلے نہیں‘ شلغم پکیں گے۔ مہمان کے لیے مرغی کا نہیں‘ بکرے کاگوشت منگوایا جائے۔ کچھ دن آپ نے صبر کیا۔ پھر ہمت جواب دے گئی۔ ایک دن آپ نے اُسے آنے والے مہینے کی تنخواہ بھی دی اور بتایا کہ تم آج سے فارغ ہو۔ ایک ماہ کا معاوضہ زائد اس لیے دیا ہے کہ بندوبست کرنے کے لیے وقت مل جائے۔ آپ کے تعجب کی انتہا نہ رہی جب دو گھنٹے بعد ا ٓپ کے دروازے کی گھنٹی بجی۔ آپ باہر گئے تو دس بارہ افراد کھڑے تھے۔ یہ سب وہ تھے جو آپ کی گلی کے مختلف گھروں میں ملازم ہیں۔ وہ سب بیک زبان ہو کر آپ سے ک...

دو زبانیں بولنے والا ٹائپسٹ پ

یدائشی نام اس کا ’’لاج رے منڈ‘‘ تھا۔ قلمی نام بہت سے تھے لیکن جس نام سے وہ دنیا میں مشہور ہوا‘ ہَیڈ لے چیز تھا۔ جیمز ہیڈلے چیز۔ اس کے پچاس ناول ایسے تھے جن پر فلمیں بنائی گئیں۔ 1906ء میں لندن میں پیدا ہوا۔ باپ ہندوستانی فوج میں حیوانات کا ڈاکٹر تھا۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ ہیڈلے چیز امریکہ کبھی نہیں رہا۔ صرف دو بار چند ایام کے لیے گیا۔ مگر شکاگو کی زیر زمین جرائم کی دنیا پر اس کے ناول شہرۂ آفاق ہوئے۔ اُس نے نقشوں کی مدد سے ایک ایک شہر کے حصے سمجھے اور امریکیوں کی مخصوص مقامی زبان  (Slang)  کے لغات دیکھے۔ لندن کی جرائم کی دنیا پر اس نے ایک اور قلمی نام سے لکھا۔ جن دنوں اس کالم نگار کو ہیڈلے چیز کے ناول پڑھنے کا خبط ایک مرض کی طرح لاحق ہوا‘ راولپنڈی کی آرمی لائبریری میں اس کے ناولوں کا سب سے بڑا ذخیرہ تھا۔ (آج کی صورت حال معلوم نہیں)۔ باقی کسر پرانی کتابوں کی دکانوں سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر پوری کی۔ یارِ دیرینہ عارف منصور مرحوم نے ڈانٹا کہ وقت اور صلاحیت دونوں ضائع کرنے پر تُلے ہو۔ عارف منصور کی یاد آئے تو دل میں کسک اٹھتی ہے۔ اتنا ذہین اور خوبصورت انگریزی لکھنے والا بیوروکریٹ ...

نصاب

’’آج میں سمجھتا ہوں کہ مجھے اس سینیٹ میں تقریباً دس سے بارہ سال ہو چکے ہیں۔ لیکن جتنا شرمندہ میں آج ہوں شاید اس سے پہلے کبھی نہیں تھا۔ یہ ووٹ پارٹی کی امانت تھی جو میں نے پوری کی۔ ……… میں نے آج اپنے ضمیر کے خلاف ………‘‘  یہاں پہنچ کر جناب رضا ربانی کی آواز بھرا گئی۔ اور وہ سینیٹ میں اپنی نشست پر بیٹھ گئے۔ اپنے ضمیر کے خلاف یہ ووٹ انہوں نے اکیسویں ترمیم کے حق میں دیا تھا اس لیے کہ پارٹی کا حکم یہی تھا۔  رضا ربانی آئین کا دفاع کرنے والے نڈر سپاہی ہیں۔ آئین کی روح جب بھی کچلی جائے‘ ان کی آواز بھرا جاتی ہے۔ دلگیر ہو جاتے ہیں۔ آنکھیں چھلک چھلک اٹھتی ہیں۔ دستور کے لیے اتنی محبت‘ اتنا خلوص‘ اتنا سوزوگداز آج شاید ہی کسی اور دل میں ہو؟ انہیں اٹھارہویں ترمیم کا خالق سمجھا جاتا ہے جس نے بہت سے اختیارات مرکز سے لے کر صوبوں کو سونپ دیے‘ یہ ان کی بڑائی ہے کہ وہ اس کا کریڈٹ اپنے آپ کے بجائے ستائیس رکنی کمیٹی کو اور پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتوں کی قیادتوں کو دیتے ہیں!  پرسوں ایک میڈیا ٹریننگ ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ انہوں نے وزیراعظم اور چاروں وزرا...

سودا بازی

شہر میں میٹرو بس متعارف ہو رہی تھی۔ یہ ٹرانسپورٹ کا جدید ترین نظام تھا۔ آمدو رفت کا‘ نقل و حمل کا سارا سسٹم ماڈرن خطوط پر ڈھالا جا رہا تھا۔ اب کوئی بھی شخص تھری پیس سوٹ پہن کر نکٹائی لگا کر بریف کیس ہاتھ میں لیے راولپنڈی صدر سے اسلام آباد اور نیشنل اسمبلی سے صدر تک ‘باعزت طریقے سے آ جا سکتا تھا۔ اب اس روٹ پر رہنے والوں کو اپنی گاڑی سے سفر کرنے کی ضرورت ہو گی نہ بسوں‘ ویگنوں اور سوزوکیوں میں دھکے کھانے پڑیں گے۔ لیکن ڈاکٹر نعیم خواجہ کے لیے یہ سہولت بے معنی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کے کلینک میں پہلی بار ڈاکہ پڑا تو وہ کئی دن خاموش رہے۔ جس زمانے میں ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کر رہے تھے‘ ان کے اکثر ہم جماعت بیرون ملک چلے جانے کی منصوبہ بندی اسی مرحلے پر کر چکے تھے۔ اکٹھے بیٹھتے تو یہی موضوع زیر گفتگو رہتا۔ کوئی امریکہ جانے کے لیے وہاں کے امتحان یو ایس ایم ایل ای کی تیاری کر رہا تھا‘ کوئی برطانیہ کا عزم رکھتا تھا اور اس امتحان کے پاس کرنے کی فکر میں تھا جو برطانیہ ہجرت کرنے والے ڈاکٹروں کے لیے لازمی تھا۔ جب وہ کہتے کہ انہوں نے یہیں رہنا ہے‘ اسی دھرتی پر جینا اور مرنا ہے‘ یہیں کے مریضوں کا علاج کرنا ...

پھانسی سے پہلے اور پھانسی کے بعد

نائن الیون سے پہلے کی دنیا اور تھی۔ نائن الیون کے بعد کی دنیا اور ہے۔ بعض واقعات ایسے ہوتے ہیں جوتاریخ کی دھرتی پر مینار کی طرح نصب ہو جاتے ہیں۔ دور سے نظر آتے ہیںاور عام گفتگو سے لے کر دانشوروں کی تقریروں تک… ہر موقع پر ریفرنس کا مقام حاصل کرلیتے ہیں۔ صولت مرزا کی پھانسی عالمی تاریخ کے تناظر میں کسی خاص کیا، عام اہمیت کی بھی حامل نہیں… کہاں نائن الیون، کہاں انقلاب فرانس، کہاں 1917ء کا بالشیویک انقلاب، کہاں 1526ء میں مغلوں کی آمد کہ سلاطین دہلی کے تین سو سالہ اقتدار کی تدفین ہو گئی، کہاں پلاسی کی لڑائی جس نے فیصلہ کر دیا کہ اب کے حکومت کرنے والے درہ خیبر سے نہیں، کلکتہ کے راستے آئیں گے۔ کراچی کی حد تک اور پاکستان کی حد تک صولت مرزا کی پھانسی جس اہمیت کی حامل ہے وہ بظاہر ابھی تک ایک چھوٹے سے نقطے سے زیادہ نہیں۔ مگر ساحل پر کھڑے ہو کر دیکھنے والوں کو دور سے جو نقطہ نظر آتا ہے، وہ آہستہ آہستہ بڑا ہوتا ہے یہاں تک کہ ایک طویل و عریض اور بلند و بالا جہاز کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ سیاسی مسخروں کے وہ بیانات جوان کی اپنی پاکیزگی اور ان کی سیاسی پارٹیوں کی معصومیت کے بارے میں آئے...

ہے کوئی زینل بیگ؟

اگرآپ برصغیر پاک و ہندکا نقشہ غور سے دیکھیں تو جنوبی حصے کے مغربی ساحل پر ایک ننھی منی ریاست نظر آئے گی جو پورے نقشے پر ایک نقطے سے زیادہ نہیں! رقبے کے اعتبار سے یہ سب سے چھوٹی بھارتی ریاست ہے۔ اس کے ایک طرف مہاراشٹر اور دوسری طرف کرناٹک ہے۔ یہ گوا ہے۔ گوا کی تاریخ دلچسپ ہے۔ کبھی اس پر دہلی کے سلاطین کا قبضہ تھا۔ پھر یہ جنوب کی دو طاقتوں کے درمیان فٹبال کی طرف لڑھکتا رہا۔ کبھی وجیانگر کی ہندو ریاست کا حصہ رہا اور کبھی بہمن مسلمان حکومت کا۔1510ء میں پرتگال کے بحری بیڑے نے اسے بیجاپور کے سلطان عادل شاہ سے چھین لیا۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ پرتگال کا قبضہ اس پر ساڑھے چار سو سال رہا۔ انگریزوں نے برما سے لے کر وزیرستان تک اور نیپال سے لے کر سری لنکا تک ایک ایک انچ پر قبضہ کرلیا مگر گوا کی پرتگالی ریاست کو نہ چھیڑا۔ یہاں تک کہ برصغیر تقسیم ہوگیا۔ 1961ء میں بھارت نے لشکر کشی کرکے اسے ضم کرلیا۔  ساڑھے چار سو سال تک گوا نصرانیوں کی تبلیغی سرگرمیوں کا مرکز بھی رہا اور جہاںتک ہوسکا ، جب بھی ہوسکا، علاقے کی سیاست میں بھی دخیل رہا۔ سترہویں صدی کا آغاز ہوا تو ایران کے شاہ عباس صفوی...

بھنگی

نام نہ جانے اس کا کیا تھا۔ سب ڈوری کہہ کر پکارتے تھے۔ شاید بہری تھی اس لیے ڈوری کہلاتی تھی۔ چھوٹا سا قد‘ چہرے پر جھریوں کا جال۔ دائیں طرف ٹوکرے کو کمر اور بازو کے درمیان رکھے‘ بائیں ہاتھ میں جھاڑو۔ ڈوری صبح صبح آتی تھی۔ قصبے کی جس گلی میں ہم رہتے تھے‘ اُس کے سارے گھر اُسی کے ذمے تھے۔ میرا سِن کچا تھا۔ بہت سی باتیں اُس زمانے کی یادداشت کی گرد میں کھو گئی ہیں۔ مگر اُس بڑھیا کا ہر روز آنا‘ خاموشی سے سیڑھیاں چڑھ کر بالائی منزل پر جانا‘ دور ایک کونے میں واقع بیت الخلا کو صاف کرنا اور پھر قدموں کی آواز پیدا کیے بغیر سیڑھیاں اُتر کر باہر چلے جانا آج بھی یوں یاد ہے جیسے کل کی بات ہے۔  آج کے بہت سے بچوں‘ بلکہ شاید نوجوانوں کو بھی نہیں معلوم کہ فلش سسٹم سے پہلے کون سا ’’سسٹم‘‘ تھا اور اُس سسٹم میں بھنگی کی کیا اہمیت تھی۔ دو دن… صرف دو دن… بھنگی ہڑتال کرتے تو قیامت آ جاتی۔ سب معتبروں کو‘ اکڑی ہوئی گردنوں کو اور پھولی ہوئی توندوں کو دن میں تارے نظر آ جاتے۔ بھنگی کا کوئی نعم البدل نہ تھا۔ وہ معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی جیسا اہم تھا۔  کفار کی ایجاد‘ فلش سسٹم‘ ہم مسلمانوں کے ہاں بھ...

کراس کیجیے یا برداشت کیجیے!

’’بھارت کے جھاڑ جھنکار‘‘ کے عنوان سے چند روز پیشتر جو کالم لکھا اس کا ردعمل دلچسپ تھا اور متنوع بھی۔ اختلاف کرنے والوں کا انداز یلغار کا تھا۔ سوشل میڈیا پر اچھی خاصی بحث ہوئی۔ لکھنے والے میں تعصبات’’ دریافت‘‘ کیے گئے۔ تجارت میں سیلز مین شپ کا اولین اصول ہے کہ ’’گاہک ہمیشہ درست کہتا ہے‘‘ تو کیا اب لکھنے والے بھی یہ کہیں کہ قارئین ہی درست ہوتے ہیں؟ نہیں! اس لیے کہ یہ تجارت کا میدان نہیں۔ حوالوں اور دلائل کی دنیا ہے۔ بحث کا مرکزی نکتہ کالم کا یہ فقرہ تھا کہ ’’عملی طور پر بھارت تھیو کریسی کی تحویل میں ہے‘‘۔  پس منظر اس فقرے کا جھاڑکھنڈ کے وزیراعلیٰ رگھوبار داس کا یہ حالیہ بیان تھا کہ ہندوستانی قومیت کی بنیاد ہندوتوا ہے اور آر ایس ایس ہندوتوا کی سچی پیروکار ہے۔ رگھوبارداس صرف ایک ریاست کا وزیراعلیٰ نہیں‘ آر ایس ایس کی قومی یعنی مرکزی کمیٹی کا نائب صدر بھی ہے۔  اختلاف کرنے والوں کا یہ سوال بہرطور منطقی تھا اور وزنی تھا کہ بھارت میں آخر کتنے لوگ ہندوتوا کے علم بردار ہیں؟ اور کیا واقعی غیر ہندوئوں کو ختم کیا جا رہاہے؟ تاہم یہ حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ اس وقت برسراقتدار جماع...