طوطے ہی طوطے!
کیا خوبصورت شاہراہ تھی۔ ہریالی کا ایک جہان تھا جو دونوں طرف لہلہا رہا تھا اور جگمگا رہا تھا۔ ہر موڑ مڑنے کے بعد نظروں کو پہلے سے بھی زیادہ ٹھنڈک میسر آتی تھی۔ پھر ایک بورڈ نظر آیا۔ شیلانگ۔ چالیس میل۔ بارڈر پر جا کر ہم رک گئے۔ سامنے پہاڑ تھے اور آبشاریں۔ اُس طرف بھارت تھا۔ شیلانگ آسام کا دارالحکومت تھا۔ ہم سلہٹ سے چلے تھے۔ سرحد کی سیر کر کے واپس سلہٹ کا رُخ کیا۔ یہ سالہا سال پہلے کا قصہ ہے۔ کالم نگار ڈھاکہ یونیورسٹی میں اقتصادیات کا طالب علم تھا۔ جہاں گردی کا شوق تو تھا ہی‘ مشرقی پاکستان کا ہر گوشہ دیکھنے کی آرزو اس پر مستزاد تھی۔ کچھ عرصہ پہلے جب یادداشتیں کچھ ذہن میں الٹ پلٹ کر دیکھیں اور کچھ کاغذوں پر بکھری ہوئیں تلاش کیں تا کہ اس خودنوشت میں قیام ڈھاکہ کا باب باندھا جائے جو چیونٹی کی رفتار سے وجود پا رہی ہے تو معلومات تازہ کرنے کے لیے کچھ مطالعہ کیا اور کچھ فاصلے اٹلس پر چیک کیے۔ پتہ چلا کہ سب کچھ بدل چکا ہے۔ شیلانگ شیلانگ ہی ہے لیکن اب وہ آسام کا دارالحکومت نہیں بلکہ ایک اور ریاست میگھالایا کا صدر مقام ہے۔ میگھالایا آسام کو تقسیم کر کے تشکیل کی گئی۔ آسام کا د...