اشاعتیں

اپریل, 2015 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

طوطے ہی طوطے!

کیا خوبصورت شاہراہ تھی۔ ہریالی کا ایک جہان تھا جو دونوں طرف لہلہا رہا تھا اور جگمگا رہا تھا۔ ہر موڑ مڑنے کے بعد نظروں کو پہلے سے بھی زیادہ ٹھنڈک میسر آتی تھی۔ پھر ایک بورڈ نظر آیا۔ شیلانگ۔ چالیس میل۔ بارڈر پر جا کر ہم رک گئے۔ سامنے پہاڑ تھے اور آبشاریں۔ اُس طرف بھارت تھا۔ شیلانگ آسام کا دارالحکومت تھا۔ ہم سلہٹ سے چلے تھے۔ سرحد کی سیر کر کے واپس سلہٹ کا رُخ کیا۔  یہ سالہا سال پہلے کا قصہ ہے۔ کالم نگار ڈھاکہ یونیورسٹی میں اقتصادیات کا طالب علم تھا۔ جہاں گردی کا شوق تو تھا ہی‘ مشرقی پاکستان کا ہر گوشہ دیکھنے کی آرزو اس پر مستزاد تھی۔  کچھ عرصہ پہلے جب یادداشتیں کچھ ذہن میں الٹ پلٹ کر دیکھیں اور کچھ کاغذوں پر بکھری ہوئیں تلاش کیں تا کہ اس خودنوشت میں قیام ڈھاکہ کا باب باندھا جائے جو چیونٹی کی رفتار سے وجود پا رہی ہے تو معلومات تازہ کرنے کے لیے کچھ مطالعہ کیا اور کچھ فاصلے اٹلس پر چیک کیے۔ پتہ چلا کہ سب کچھ بدل چکا ہے۔ شیلانگ شیلانگ ہی ہے لیکن اب وہ آسام کا دارالحکومت نہیں بلکہ ایک اور ریاست میگھالایا کا صدر مقام ہے۔ میگھالایا آسام کو تقسیم کر کے تشکیل کی گئی۔ آسام کا د...

بھارت کے جھاڑ جھنکار

’’ہندتوا بھارتی قومیت پرستی کی علامت ہے اور آر ایس ایس ہندتوا کی سچی پیروکار ہے‘‘۔  جھاڑکھنڈ کی ریاست بھارت کے مشرقی حصے میں واقع ہے۔ اس میں جنگلات بہت زیادہ ہیں؛ چنانچہ جھاڑ جھنکار اور جھاڑیوں کی نسبت سے نام جھاڑکھنڈ ہے۔ بہار کی ریاست کو 2000ء میں دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا اور جنوبی حصے کو ایک الگ ریاست قرار دیا گیا۔ یوں جھاڑکھنڈ کی ریاست وجود میں آئی۔ اس کا محلِ وقوع زبردست سیاسی اہمیت کا حامل ہے۔ مشرق میں مغربی بنگال اور مغرب میں یوپی کی طاقت ور ریاستیں ہیں۔ شمال میں بہار اور جنوب میں اڑیسہ کی ریاست واقع ہے۔ مشہور و معروف شہر رانچی اس کا دارالحکومت ہے۔ صنعتی شہر جمشید پور بھی‘ جہاں 1964ء میں اور دوبارہ 1979ء میں ہولناک مسلم کُش فسادات رونما ہوئے‘ جھاڑکھنڈ ہی میں ہے۔  راگھوبار داس ان دنوں اس ریاست کا وزیراعلیٰ ہے۔ کسی زمانے میں وہ ٹاٹا سٹیل مل میں نوکری کرتا تھا۔ پھر سیاست میں آ گیا۔ اس کا انتخابی حلقہ جمشیدپور ہی ہے۔ ذات کا وہ تیلی ہے۔ بی جے پی (بھارتیہ جنتا پارٹی) کا بانی رکن ہے۔ 2004ء میں اسے بی جے پی کی جھاڑکھنڈ شاخ کا سربراہ مقرر کیا گیا‘ بی جے پی نے ’’خدم...

مجاور

موسم خوشگوار ہے۔ آیئے‘ ڈرائیو کرتے ہیں۔  ہم آبادی سے باہر آ گئے ہیں۔ وہ دیکھیے‘ شاہراہ کے بائیں طرف ایک درخت کا کٹا ہوا تنا پڑا ہے۔ یہ کافی عرصہ سے یوں ہی رکھا ہے۔ کسی کام کا نہیں۔ جلانے کے کام آ سکتا ہے نہ اس سے کچھ بن ہی سکتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ اس پر بچے چڑھ کر چھلانگ لگا لیتے ہیں۔ رنگ اس کا بارشوں‘ ہوائوں اور موسموں کی سختیوں سے عجیب سا ہو گیا ہے۔ کچھ کچھ سیاہ‘ کچھ کچھ مٹیالا۔ ایسی لکڑی کو انگریزی میں ڈَیڈ وُڈ کہتے ہیں۔ کسی زمانے میں جب اردو‘ یونیورسٹیوں کے شعبہ ہائے اردو سے باہر بھی بولی اور سمجھی جاتی تھی‘ یعنی باعزت اور مکمل اردو تو ایسی لکڑی کے بارے میں کہتے تھے کہ سوختنی ہے نہ فروختنی۔ یعنی جلانے کے کام آ سکتی ہے نہ ہی اسے بیچا جا سکتا ہے!  ہم گاڑی چلائے جا رہے ہیں۔ وہ دیکھیے‘ ایک سبزپوش ملنگ شاہراہ کے کنارے کھڑا ہے اور سبز رنگ کا جھنڈا لہرا رہا ہے۔ اس نے ساتھ ہی ایک بینر آویزاں کیا ہوا ہے۔ ’’مزار زیر تعمیر ہے‘ صندوقچی میں کچھ ڈال کر آگے بڑھیے‘‘۔ یہ سبزپوش بابا مدتوں سے یہی کچھ کر رہا ہے۔ جانے مزار کب مکمل ہوگا۔  اور آگے بڑھتے ہیں۔ یہ دیکھیے‘ قبرست...

کچھ مہمانِ گرامی کے حوالے سے

جن دنوں پہچان دولت سے نہیں‘ وضعداری اور رکھ رکھائو سے ہوتی تھی‘ کسی کو دعوت دیتے تھے تو تشریف آوری کے لیے باقاعدہ سواری بھیجی جاتی تھی۔ واپسی کے لیے بھی سواری پیش کی جاتی تھی اور خدام پاپیادہ ہمراہ جاتے تھے۔ سلاطین دہلی کے زمانے میں عباسی خلیفہ کے ایک عزیز دہلی تشریف لائے تو بادشاہِ وقت کئی کوس شہر سے باہر استقبال کے لیے گیا۔ ہمارے معزز مہمان چین کے صدر ہماری سرزمین پر تشریف لائے۔ چشمِ ما روشن دلِ ما شاد۔ علم حاصل کرنے کے لیے چین جانے کی تلقین فرمائی گئی تھی۔ چین کے صدر کی تشریف آوری پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ علم سکھانے والے خود آ گئے۔ گویا کنواں چل کر پیاسے کے پاس آ گیا۔  مہمان نوازی کی قدیم روایت آج بھی زندہ ہوتی تو ہمیں اپنا جہاز بھیجنا ہوتا۔ اس میں بھی قدرت کی حکمت ہے کہ نہیں بھیجنا پڑا۔ ورنہ ہماری ’’پابندیٔ وقت‘‘ کا مہمانِ گرامی بھی شکار ہو جاتے۔  دوست ملک چین کے ہم پر بہت احسانات ہیں۔ مشکل وقت میں ہمیشہ کام آیا۔ دفاع ہو یا معیشت‘ بین الاقوامی سیاست ہو یا علاقائی مسائل‘ چین نے ہر موقع پر اپنا وزن پاکستان کے پلڑے میں ڈالا۔ تھنڈر جہاز ہم نے چین کے اشتراک سے بنائے۔ ک...

ایک تازہ بلا

امتیاز خان کی بیگم نے اپنے کچھ زیورات بینک کے لاکر میں رکھے ہوئے تھے۔ لاکر کسی زمانے میں معقول کرائے پر ملتے ہوں گے۔ آج کل نہیں۔ مختلف بینکوں کے مختلف سسٹم ہیں۔ کچھ سالانہ کرایہ لیتے ہیں اور کچھ اچھی خاصی بھاری رقم ’’سکیورٹی‘‘ کے نام پر رکھ لیتے ہیں۔ یہ رقم لیتے وقت کہا جاتا ہے کہ لاکر واپس کریں گے تو رقم واپس مل جائے گی۔ گویا لاکر کے ساتھ یہ رقم بھی ’’لاک‘‘ ہو جاتی ہے۔ سسٹم جو بھی ہو‘ مجموعی طور پر لاکر ان دنوں بہت مہنگے ہیں۔ امتیاز خان نے ایک دن بیگم سے مشورہ کیا کہ ہمارے زیورات چھوٹے لاکر میں بھی سما سکتے ہیں۔ خواہ مخواہ بڑا لاکر لے کر‘ اتنی بڑی رقم سکیورٹی کے نام پر پھنسا دی ہے۔ بیگم نے اتفاق کیا۔ دونوں بینک چلے گئے۔ زیورات نکالے اور لاکر واپس کردیا۔  اب یہاں راوی بھول رہا ہے۔ کیا بڑا لاکر واپس کرنے سے پہلے انہوں نے بینک کو بتایا تھا کہ انہیں چھوٹا لاکر چاہیے؟ یا زیورات نکالنے کے بعد چھوٹا لاکر مانگا؟ بہرحال بینک کو پہلے بتایا‘ یا بعد میں‘ بینک نے کہا کہ جس سائز کا لاکر آپ مانگ رہے ہیں‘ وہ دو تین کے بعد دستیاب ہوگا۔ بیگم نے زیورات لیے اور دونوں میاں بیوی گھر چلے گئے۔ ...

خونِ جگر کے بغیر

’’پلائو ہسپتال ہی میں پکائوں گا۔ اور تمہارے کمرے ہی میں پکے گا‘‘۔  دادا خان نوری نے پرعزم لہجے میں اعلان کیا۔  یہ 1997ء یا 98ء کی بات ہے۔ میں بیمار ہوا۔ اتنا کہ ہسپتال میں داخل ہونا پڑا۔ دادا خان نوری اُن دنوں یونین آف جرنلسٹس ازبکستان کے سربراہ تھے۔ صحافی کے علاوہ بطور ناول نگار بھی ان کی حیثیت مسلمہ تھی۔ 1992ء میں وسط ایشیائی ریاستیں آزاد ہوئیں تو وہاں پہنچنے والے اولین پاکستانیوں میں‘ میں بھی شامل تھا۔ ادب و شعر کے وابستگان کے درمیان ایک عجیب طلسماتی اور مقناطیسی رابطہ ہوتا ہے جو بہرطور قائم ہو کر رہتا ہے۔ ازبکستان کے شاعروں‘ ادیبوں اور صحافیوں سے تعلقات قائم ہوئے تو فوکل پوائنٹ دادا خان ہی تھے۔ تاشقند یونیورسٹی سے انہوں نے ہندی کی تعلیم حاصل کی تھی۔ اس لیے کہ بھارت کی سرگرمیاں سوویت یونین میں پاکستانی سرگرمیوں سے کئی گنا زیادہ تھیں۔ دادا خان اردو بولتے تھے مگر لکھ نہیں سکتے تھے۔ سوویت یونین کا طلسم چاک ہوا اور پاکستانیوں کا آنا جانا شروع ہوا تو دادا خان پاکستان ہی کے ہو کر رہ گئے۔ وفود لے کر آتے۔ ثقافتی تبادلوں میں بھرپور حصہ لیتے اور ازبکستان آنے والے پاکستانیو...

دیمک

دیمک دروازوں کو کھا رہی ہے۔ لکڑی آٹا بن بن کر فرش پر گر رہی ہے۔ چوکاٹھ کسی معجزے ہی سے کھڑے ہیں۔  الماریوں کو دیمک لگ چکی ہے۔ کپڑوں کے اوپر ہر روز لکڑی کا سفوف پڑا ہوا ہوتا ہے۔ بیڈ کھائے جا رہے ہیں۔ کھڑکیوں کے کواڑ گرنے کو ہیں۔  دیمک گھروالوں کے ساتھ اسی چاردیواری میں رہ رہی ہے۔ دن بدن اس کا زور بڑھتا جا رہا ہے۔ گھروالوں نے یہیں رہنا ہے۔ جہاں جہاں لکڑی کا آٹا نظر پڑتا ہے‘ صاف کر دیتے ہیں۔ کھانا کھا لیتے ہیں۔ سوتے ہیں۔ اُٹھ کر اپنے کام دھندوں میں لگ جاتے ہیں۔ دیمک ہر شے کو چاٹے جا رہی ہے۔  خالد حفیظ پڑوس میں رہتے ہیں۔ ریٹائرڈ فوجی افسر ہیں۔ انہیں ڈرائیور کی ضرورت تھی۔ اخبار میں اشتہار دیا۔ سابق سرکاری ملازم یا ریٹائرڈ فوجی کو ترجیح دینے کا ذکر تھا۔ ایک صاحب نے انہیں فون کیا۔ کسی کے لیے بات کر رہے تھے۔ پڑھے لکھے لگ رہے تھے۔ اشتہار دینے والے صاحب نے پوچھا ’’کسی سرکاری دفتر میں یا فوج میں ڈرائیور رہا ہے؟‘‘ جواب ملا کہ اب بھی سرکاری دفتر ہی میں کام کر رہا ہے۔ عجیب چکرا دینے والا جواب تھا۔ ’’بھائی‘ جب سرکاری دفتر میں ملازمت کر رہا ہے تو ہماری گاڑی کیسے چلائے گا۔ ہمی...

ہم اور ہماری عزت

مانگے کا تھری پیس سوٹ پہن کر خوش لباسی کا رنگ ہر جگہ جمایا جا سکتا ہے مگر اُس کے سامنے نہیں‘ جس سے مانگا تھا۔ جس طرح انفرادی سطح پر دوستوں کے مسلسل زیرِ احسان رہنا‘ دوستی کے لیے مقراض بن جاتا ہے‘ اسی طرح جن ملکوں سے صرف اور صرف کرم فرمائیاں درآمد کی جائیں‘ ان سے برابر کے تعلقات قائم نہیں رہتے۔ ایک دعا کی تعلیم دی گئی ہے: یا رَبِّ لَا تَضْطَرَّنی اِلیٰ امتحانِ اَصْدِقَائی لِاَنَّ لَا اُرِیْدُ اَنْ اَفْقَدَ واحِدً مِنْہم۔ پروردگار! دوستوں کے امتحان کی نوبت نہ لائیو کہ میں ان میں سے کسی کو بھی کھونا نہیں چاہتا۔ چودھری نثار علی نے یو اے ای کے وزیر کے تلخ بیان کا جواب دے کر فرضِ کفایہ ادا کیا۔ سب منقار زیرِ پر رہے۔ صرف انہوں نے بات کی۔ جرأت لائق تحسین ہے مگر سوچنے کا مقام ہے کہ کیا اس لہجے میں شرقِ اوسط سے امریکہ کو للکارا جا سکتا تھا یا ترکی کو؟ یا برطانیہ کو؟ امریکہ نے تو عشروں کی رفاقت پر پانی پھیر دیا اور سوائے زبانی جمع خرچ کے کچھ بھی نہیں کر رہا۔ اس سے بھی پہلے جب شام میں لوہا گرم تھا اور شرقِ اوسط کے بادشاہ توقع کر رہے تھے کہ امریکہ ایک ہی ضرب سے بشارالاسد کا دھڑن تختہ کردے گا‘ ا...

حکومت ڈٹ جائے !

آپ سے اگر پوچھا جائے کہ اس ملک میں سب سے زیادہ طاقتور طبقہ کون سا ہے تو آپ کیا جواب دیں گے؟  آپ کا فوری جواب ہوگا، فوج۔ لیکن طاقت ور طبقہ تو وہ ہوتا ہے جس کا کوئی بال بیکا نہ کر سکے۔ یہاں تو جنرل پرویز مشرف مقدموں پر مقدمے بھگت رہے ہیں۔ جنرل مرزا اسلم بیگ بارہا عدالتوں میں پیش ہوکر فیصلے سن چکے۔ ایوب خان سے لے کر ضیاء الحق تک کے خلاف کتابوں کی کتابیں لکھی جا چکیں۔ فوج کا اندرونی نظام ایسا ہے کہ کوئی جرم کرکے بچ ہی نہیں سکتا۔  تو پھر سیاست دان؟ نہیں! وہ تو پھانسی بھی چڑھ چکے۔ نوازشریف سے لے کر یوسف رضا گیلانی تک‘ شیخ رشید سے لے کر جاوید ہاشمی تک‘ سب قیدوبند کی صعوبتیں سہتے رہے۔ سیاستدان جلاوطن ہوئے۔ میڈیا نے ہر سیاست دان پرکیمرے فکس کیے ہوئے ہیں۔  تو پھر بیوروکریسی طاقتور ترین ہے؟ بالکل نہیں۔ یحییٰ خان اور بھٹو نے سیکڑوںکو برطرف کردیا۔ نیب نے کئی افسروںکو سلاخوں کے پیچھے بندکیا۔ آئے دن عدالتوں میں بیوروکریٹ دھکے کھا رہے ہوتے ہیں۔ محمد علی نیکوکارا کے ساتھ جو کچھ ہوا‘ آپ کے سامنے ہے۔ قانونی تحفظ انہیں حاصل نہیں۔ جو حکومت آتی ہے‘ انہیں ذاتی ملازم سمجھ کر الٹے...

نادان دوست

باپ کا رویہ عجیب تھا۔ اسے کسی طور بھی نارمل نہیں کہا جا سکتا تھا۔ تین بچوں میں سے منجھلے بیٹے کے ساتھ وہ ترجیحی سلوک کرتا تھا۔ ’’انور نے ناشتہ کیا؟ کیا انور کے لیے عید کے نئے کپڑے آ گئے؟ کیا انور نے ہوم ورک کر لیا؟ کیا انور کے کمرے کی صفائی ہو گئی؟ فلاں شے انور کے لیے الگ کر کے رکھ دو‘‘… اس قسم کے سوالات اور ہدایات تھیں جن سے گھر کے تمام افراد چڑنا شروع ہو گئے۔ بیوی نے کئی بار سمجھایا کہ تینوں بچے تمہارے نزدیک یکساں سلوک کے مستحق ہونے چاہئیں۔ اس نے بتایا کہ وہ تینوں میں سے کسی کے ساتھ ترجیحی سلوک روا نہیں رکھ سکتی اس لیے کہ باقی دو کی دل آزاری ہوگی۔ لیکن ’’عقل مند‘‘ باپ کے بھیجے میں یہ نکتہ نہ سما سکا۔ اس نے انور کے ساتھ خصوصی برتائو جاری رکھا۔  انور کو اس احمقانہ امتیاز کا فائدہ تو کیا ہونا تھا‘ نقصان بہت ہوا۔ باقی دونوں بچے اس سے کھنچنے لگے۔ وہ انہیں بھائی کم اور حریف زیادہ نظر آنے لگا۔ حسد کا عنصر زہر کی طرح سرایت کرنے لگا۔ دونوں‘ نادانستہ طور پر‘ مخالف فریق بن گئے۔ وہ ہر معاملے میں مخالفت کرنے لگے۔ باپ کے غیر دانشمندانہ رویے کی سزا انور کو ملنے لگی… اور تو اور‘ ماں بھی...

جانِ جہاں!!

بہت سوں کو وہ زمانہ یاد ہوگا جب گرمیوں میں چھت پر سویا جاتا تھا۔ تب یہ ’’کوٹھیاں‘‘ نہیں تھیں جو آج کل امرا لوٹ کھسوٹ کر کے اور غربا قرضے لے کر بنواتے ہیں‘ جو گرمیوں میں بھٹی کی طرح تپتی ہیں اور سردیوں میں زمہریر بن جاتی ہیں۔ آنگن ہوتا تھا جس کے دو طرف یا تین طرف کمرے ہوتے تھے۔ تب ہر گھر میں نردبان کا ہونا ضروری تھا۔ نردبان لکڑی کی بنی ہوئی وہ سیڑھی تھی جسے پنجابی میں پٹرسانگ کہتے ہیں۔ شاعر نے کہا تھا  ؎  نہ سنھ لگی موریوں‘ نہ پوڑی‘ نہ پٹرسانگ  صاحباں مرزا لے گیا جا رکھی سو چوتھے اسمان  (سوراخ سے نقب لگی‘ نہ ہی کوئی سیڑھی تھی نہ نردبان۔ پھر بھی مرزا صاحباں کو لے اڑا اور کہیں چوتھے آسمان پر چھپا دی)  بچوں کے لیے نردبان پر چڑھنا آسان نہ تھا۔ آخری ڈنڈے سے چھت پر پائوں رکھنا مشکل ہوتا تھا۔ ڈر بھی بہت لگتا تھا۔  اُس شخص کی ’’عقل مندی‘‘ پر ماتم کیجیے جس کے لیے چھت پر آرام دہ بستر بچھا ہے۔ شام ڈھل رہی ہے۔ چھت پر ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے۔ وہ نردبان پر چڑھنا شروع کرتا ہے۔ نردبان جس زمین پر رکھا ہے وہاں پھسلن ہے۔ لکڑی کے ڈنڈوں کے درمیان‘ فاصلہ بھی زیادہ...

سفاری پارک

سفاری پارک کے عین درمیان میں پکی سڑک تھی‘ یہ سڑک‘ جو کسی بھی شاہراہ کا مقابلہ کر سکتی تھی‘ عالی شان اور تعمیر میں اعلیٰ معیار کی تھی گویا سڑک نہ تھی کارپٹ تھی۔ سڑک کے دونوں طرف درندے گھوم رہے تھے۔ افریقہ سے آئے ہوئے خونخوار شیر اور چیتے‘ تھائی لینڈ اور برما کے جنگلوں سے لائے گئے طاقتور ہاتھی‘ جو بڑے سے بڑے درخت کو اکھاڑ پھینکیں۔ جان لیوا ٹکر مارنے والے گینڈے‘ لمحوں میں چیر پھاڑ دینے والے بھیڑیے۔ ستم ظریفی یہ تھی کہ کروڑوں اربوں روپے کی بنی ہوئی بین الاقوامی معیار کی عالی شان شاہراہ‘ تماشائیوں کو اِن چیتوں‘ بھیڑیوں‘ ہاتھیوں اور گینڈوں سے بچا نہیں سکتی تھی۔ اس لیے سفاری پارک میں جگہ جگہ جلی حروف میں ہدایات لکھی تھیں کہ گاڑی سے نیچے نہ اتریں اور شیشے بند رکھیں۔ بعض سفاری پارکوں میں گاڑیوں کو سیر کے دوران رُکنے کی اجازت بھی نہیں ہوتی۔ مسلسل چلتی ہوئی گاڑیوں پر جانور حملہ کرنے سے شاید ہچکچاتے ہیں!  زین جس شہر میں ہلاک کیا گیا‘ وہ شہر بھی سفاری پارک ہی ہے۔ اس شہر میں ایسی ایسی عظیم الشان پختہ شاہراہیں تعمیر کی گئی ہیں اور مسلسل تعمیر کی جا رہی ہیں کہ بین الاقوامی معیار سے ایک ذرہ ...

…کام دنیا کی امامت کا

ٹرین چل رہی تھی۔ خالد فضل ساتھ بیٹھا تھا اور میں شرمندہ ہور ہا تھا۔  خالد فضل والدہ کی طرف سے ملائیشیا کا ہے اور والد کی طرف سے پاکستانی۔ یوں والد کے حوالے سے ہمارے ساتھ عزیز داری ہے۔ اُس کے والد‘ طویل قامت‘ کشمیری النسل‘ سرخ و سفید‘ فضل الرحمن‘ دوسری جنگ عظیم میں موجودہ ملائیشیا اور انڈونیشیا کے علاقوں میں برطانوی ہند کے فوجی کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے‘ جاپانیوں کی قید سے گزرے۔ واپس وطن آئے تو ملائیشیا کا لینڈ سکیپ اور ملائیشیا کے لوگ مسلسل یاد آتے رہے۔ پھر بزرگوں سے اجازت لی اور دوبارہ وہاں جا کر اسی کو وطن بنا لیا۔ شاہی خانوادے کی ایک خاتون سے شادی کی۔ قبر بھی کوالالمپور ہی میں بنی۔ کئی سال پہلے جب ہم میاں بیوی کوالالمپور میں خالد فضل کے مہمان تھے تو چند دن کے قیام کے دوران اس نے کتنی ہی بار ٹھنڈی سانس بھر کر کہا کہ وہ پاکستان میں‘ اپنے اجداد کے علاقے میں‘ آ کر بزنس کرنا چاہتا ہے۔ اس خواہش کا اظہار وہ اتنے سوز اور کرب سے کرتا تھا کہ یہ بتانے کی ہمت نہیں پڑتی تھی کہ راست گوئی‘ سادگی اور صدق و امانت تمہارے اجداد کے علاقے میں زیادہ بار آور ثابت نہ ہوگی! لیکن پھر ایک...

پس چہ باید کرد؟

’’سرسید احمد خان مسلمانوں کے محسن تھے۔ انہوں نے بے غرض ہو کر رات دن مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لیے کام کیا۔ اپنا گھر اور اثاثے فروخت کیے اور لندن جا کر ولیم میور کی قابلِ اعتراض تصنیف ’’لائف آف محمدؐ‘‘ کے جواب میں مدلل کتاب لکھی‘‘۔  ’’سرسید غدار تھے۔ انگریز کے ایجنٹ تھے۔ نیچری تھے۔ انہوں نے جدید تعلیم متعارف کرا کے ہمیں اسلام سے دور کیا‘‘۔  موضوعِ گفتگو سرسید احمد خان نہیں! بتانا یہ مقصود ہے کہ اکثر و بیشتر حالات میں ہم انتہا پسند ہیں۔ سرسید احمد خان اس کی ایک مثال ہیں۔ ایک گروہ کے نزدیک وہ ہیرو ہیں۔ دوسرے کی نظر میں ولن۔ بہت کم ایسے ہیں جو معتدل رائے رکھتے ہیں۔ سیدھی سی بات ہے۔ تعلیمی اور تحقیقی میدان میں ان کی خدمات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ احسان ان کا برصغیر کے مسلمانوں پر عظیم ہے۔ تاہم مذہبی پہلوئوں پر اور قرآن کی تفسیر کے ضمن میں ان سے اتفاق کرنا ہرگز ضروری نہیں۔  سیاست‘ مذہب‘ معاشرت اور زندگی کے تمام شعبوں میں یہ انتہا پسندی ہمارا ٹریڈ مارک بن گئی ہے۔ یہ بھی طرفہ تماشا ہے کہ عسکریت پسندوں کو ہم انتہا پسند کہتے ہیں جب کہ سچی بات یہ ہے کہ ہم من حیث القوم...