اشاعتیں

فروری, 2015 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

وجوہات تلاش کرو

نظام الملک طوسی سلجوقی بادشاہوں کا وزیراعظم رہا۔ الپ ارسلان کے نو سال اور ملک شاہ کے بیس سال وہ سیاہ و سفید کا مالک تھا۔ روایت ہے کہ تین دوست نظام الملک (اصل نام جس کا ابو علی حسن تھا)‘ عمر خیام اور حسن بن صباح مکتب میں ہم جماعت تھے۔ تینوں نے ایک دوسرے سے پیمان کیا کہ جو کوئی بھی کسی بلند مقام پر پہنچے گا‘ دوسرے دو کا خیال رکھے گا۔ ابو علی حسن وزیر بنا اور نظام الملک کا خطاب پایا۔ اس نے دونوں کو دربار میں عہدے پیش کیے۔ عمر خیام نے انکار کر کے پڑھائی کو ترجیح دی۔ نظام الملک نے اسے رصدگاہ تعمیر کرا دی۔ حسن بن صباح نے عہدہ قبول کر لیا مگر اپنے ہی دوست کے خلاف سازش کی۔ معاملہ کھلا تو بھاگ گیا۔ پھر اس نے فدائی کھڑے کیے۔ قلعہ الموت فتح کیا۔ ایک فدائی ہی نے نظام الملک کو خنجر سے اُس وقت قتل کیا جب وہ اصفہان سے بغداد جا رہا تھا۔  فتوحات اس کی بے شمار تھیں۔ غزنی سے لے کر شام تک پھریرا لہراتا رہا۔ جارجیا کو اس نے خراج دینے پر مجبور کیا لیکن اصل کارنامہ نظام الملک طوسی کا فتوحات نہیں تھیں‘ اصل کارنامہ تعلیمی اداروں کا جال تھا جو اس نے سلطنت کے طول و عرض میں پھیلا دیا۔ نیشاپور سے موصل تک او...

واہ! کیا ترجیحات ہیں!

جہازی سائز کی پجارو ہوٹل کے سامنے رکی۔ ہوٹل کے منیجر نے خود آگے بڑھ کر دروازہ کھولا۔ ہوٹل پانچ ستارہ نہیں‘ سیون سٹار تھا! منیجر وڈیرے کو ادب و احترام سے ریستوران میں لایا اور بٹھا کر‘ ویٹر کو بلا کر واپس اپنی سیٹ پر گیا۔ وڈیرے نے ویٹر سے پوچھا‘ کھانے میں کیا ہے۔ ویٹر نے ایک لمبی فہرست سنائی۔ تقریباً سارے ہی کھانوں کے نام اس نے انگریزی میں بتائے۔ ولایتی کھانے تھے۔ آخر میں سائیں کو بھنڈی کا لفظ سنائی دیا۔ یہ واحد ڈش تھی جو اس کی سمجھ میں آئی۔ چنانچہ اس نے بھنڈی کا آرڈر دے دیا!  پاکستانی عوام کی مثال اسی ان پڑھ وڈیرے کی ہے۔ بھارت کے مقابلے میں پاکستان ہر شعبے میں پیچھے ہے۔ معیشت‘ جمہوریت‘ لا اینڈ آرڈر‘ تعلیم‘ ڈیموکریسی‘ الیکشن کمیشن کے اختیارات‘ درآمدات و برآمدات‘ آئی ٹی‘ ریورس برین ڈرین (یعنی اعلیٰ تعلیم یافتہ تارکینِ وطن کی بیرونِ ملک سے واپسی) مگر یہ وہ شعبے ہیں جو عوام کی بھاری اکثریت کی سمجھ سے باہر ہیں۔ انہیں اعداد و شمار کی خبر ہے نہ ان شعبوں کی نزاکتوں‘ باریکیوں اور پیچیدگیوں کی۔ کرکٹ واحد شعبہ ہے جس میں بھاری اکثریت کو دلچسپی ہے اور وہ اس کی جزئیات تک سے پوری طرح ب...

جو تڑکے شہر میں داخل ہو

قندھار کے نواح میں ڈھلتی عمر کے ساتھ چمٹتا میوہ فروش‘ غزنی کے مین بازار میں خریداروں کے انتظار میں اونگھتا کبابچی اور بامیان کی نامہربان چراگاہوں میں عناصر کی سختیاں سہتا گڈریا… تیس سال یورپ اور امریکہ کی عشرت گاہوں میں گزارنے والے حکمران کو کیا علم کہ یہ لوگ زندگی کس طرح بسر کر رہے ہیں۔ بسر کر بھی رہے ہیں یا نہیں! یا زندگی انہیں گزار رہی ہے۔ فراز صاحب یاد آ گئے   ؎  سلوٹیں ہیں مرے چہرے پہ تو حیرت کیسی  زندگی نے مجھے کچھ تم سے زیادہ پہنا  جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کا بخت عجیب ہے۔ اول تو ستارہ بن کر چمکتا ہی نہیں‘ دمکنا نصیب بھی ہو تو پیشانی تنگ ملتی ہے۔ جمہوریت آتی ہے تو ایسے حکمران گلے پڑتے ہیں جو ملک میں صرف راج کرنے آتے ہیں۔ زندگی کے زیادہ شب و روز انہوں نے باہر گزارے ہوتے ہیں۔ کچھ تو معین قریشی اور شوکت عزیز کی طرح بازار میں صرف خریداری کرنے آتے ہیں۔ معین قریشی کے مقابلے میں شوکت عزیز کا مذاق‘ زیادہ سنگدلی سے کھیلا گیا۔ موصوف فتح جنگ سے عوامی نمائندے ’’منتخب‘‘ ہوئے۔ اپنے حلقے کا‘ یعنی فتح جنگ کا نام سنتے ہی چہرہ سپاٹ ہو جاتا تھا۔ کسی بھی قسم کے تاثر سے عاری...

اوپر کی منزل والے

اس وقت موبائل فون تھا‘ نہ لینڈ لائن۔ فیکس تھا‘ نہ ای میل۔ انٹرنیٹ تھا‘ نہ ٹیلی ویژن‘ ہوائی جہاز تھے‘ نہ برق رفتار گاڑیاں۔ کچھ بھی نہ تھا۔ بس گھوڑے تھے‘ دوڑتے گھوڑے اور ان پر سوار ایلچی۔ ہاتھی تھے‘ آہستہ رو‘ لیکن تعجب تھا اور معجزہ تھا اور حریت تھی کہ اِدھر قتل ہوتا تھا‘ اُدھر خبر حکمران کو پہنچ جاتی تھی۔ ڈاکہ پڑتا تھا اور ہزاروں کوس دور بیٹھے ہوئے بادشاہ کو معلوم ہو جاتا تھا۔ مُکھیا تھر تھر کانپنے لگتا تھا۔ بدن کھال سے باہر آتا ہوا محسوس ہوتا۔ ڈاکہ پڑا کیسے‘ مُکھیا تو رات بھر گائوں میں خود پہرا دیتا‘ اس کے بیٹے پہرہ دیتے اس لیے کہ بیٹوں کو معلوم تھا کہ قتل ہوا اور قاتل نہ پکڑا گیا تو مُکھیا‘ اُن کا باپ‘ پھانسی پر چڑھ جائے گا۔ ڈاکہ پڑا‘ ڈاکو نہ پکڑا گیا تو سارا نقصان باپ کو بھرنا پڑے گا۔  شاہراہیں بھی بن رہی تھیں‘ سرائیں بھی تعمیر ہو رہی تھیں‘ شاہراہوں کے کنارے شجرکاری بھی ہو رہی تھی۔ ریونیو بھی اکٹھا ہو رہا تھا۔ مگر یہ سب کچھ ثانوی حیثیت رکھتا تھا۔ اولین ترجیح رعایا کی حفاظت تھی اور رعایا کے مال کی حفاظت۔ یہ واقعہ ہم سب نے بارہا پڑھا ہوا ہے کہ ایک مسافر کے قتل کا علم ہوا تو شی...

پیدائش کا حادثہ

گھر بیٹھے بیٹھے برس ہا برس گزر گئے۔ کتابیں پڑھتے‘ باورچی خانے میں کام کرتے‘ سویٹر بنتے ‘کشیدہ کاری کرتے جوانی ڈھل گئی   ؎  رنگ دکھلاتی ہے کیا کیا عمر کی رفتار بھی  بال چاندی ہو گئے سونا ہوئے رخسار بھی  رشتے آئے‘ نامنظور ہوتے گئے۔ لڑکی کی‘ جو کسی زمانے میں واقعی لڑکی تھی‘ بدقسمتی یہ ہوئی کہ ذات برادری سے رشتہ نہ آیا۔ ابا کا اٹل فیصلہ تھا‘ دوسری ذات میں شادی کرنے کا سوال ہی نہ تھا۔ انتظار کرتے کرتے ابا کو اجل نے آ لیا۔ مسائل پیچیدہ ہو گئے۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ لڑکی کو غیر شادی شدہ بڑھیا کہا جانے لگا۔  یہ ہماری معاشرتی زندگی سے ایک عام مثال ہے۔ اسے عصبیت کہتے ہیں۔ عصبیت ایک بیماری ہے۔ جو مثال اوپر دی گئی ہے‘ یہ اس بیماری کا نرم ترین حملہ ہے۔  اس سے زیادہ سخت حملہ یہ ہے کہ ذات برادری کی بنیاد پر فرائض منصبی ادا کرتے وقت بددیانتی کا ارتکاب کیا جائے۔ یہ اس معاشرے میں عام ہے۔ ایک دوست نے عرصہ ہوا‘ تجویز پیش کی تھی کہ ناموں سے سابقے اور لاحقے ہٹا دیے جائیں‘ لیکن ظاہر ہے تجویز قابلِ عمل نہ تھی۔ ہوتا یہ ہے کہ باجوہ صاحب یا اعوان صاحب یا مغل صاحب یا شاہ صاح...

کارٹون ، تصویر اور آنسو

تصویر

سراب کا بیوپار

یہ بارہ بھائی تھے۔ الگ الگ گھروں میں رہتے تھے۔ کوئی گھر کسی گلی میں تھا‘ کوئی کسی کوچے میں‘ کچھ کی دیواریں مشترک تھیں‘ مگر سب کی بجلی‘ گیس‘ پانی اپنا اپنا تھا۔ یہ سب آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے تھے۔ کبھی بیویوں کے کہنے سننے پر‘ کبھی بچوں کی وجہ سے‘ کبھی دو تین بھائیوں نے کسی مشترکہ کاروبار کا آغاز بھی کیا تو ابتدا ہی سے رخنے پڑنا شروع ہو گئے‘ جلد ہی کاروبار بھی ٹھپ اور بول چال بھی بند۔ اس صورت حال میں بھی بوڑھے والد کو ایک ہی دھن تھی کہ یہ سب بھائی ایک گھر میں اکٹھے رہیں۔ ان کا باورچی خانہ ایک ہو‘ ان کا بجلی‘ پانی‘ گیس‘ ٹیلی فون کا ایک بل ہو۔ ان کے بچے ایک صحن میں کھیلیں اور ان کے کنبے ایک ساتھ رہیں۔ بابے کو جب بھی کوئی مشورہ دیتا کہ بزرگو! ایک گھر میں یہ اکٹھے کیا رہیں گے‘ یہ تو الگ الگ گھروں میں رہ کر بھی ایک دوسرے کو برداشت نہیں کر پا رہے۔ پہلے یہ تو کرو کہ یہ اپنے اپنے گھروں میں رہتے ہوئے ہی آپس میں ملنا جلنا شروع کریں۔ عید محرم کے موقع پر ہی اکٹھے ہو جائیں۔ بیماری ہی میں ایک دوسرے کا خیال رکھ لیں۔ ان میں جو بھائی سب سے زیادہ غریب ہے‘ آسودہ حال بھائی اسی کی مدد کردیں۔ مگر بابا اس...

خودکفیل

سناندو سَین بھارت سے ہجرت کر کے امریکہ آن بسا۔ اس کی زندگی نئے ملک میں آسان نہ تھی۔ مزدوری کی۔ فاقے کاٹے۔ حالات بعض اوقات اتنے حوصلہ شکن تھے کہ واپس جانے کا خیال آ جاتا مگر اس نے ہمت نہ ہاری۔ کئی عشروں کی طویل جانکاہ محنت کے بعد آخر وہ اس قابل ہو گیا کہ مین ہیٹن نیویارک میں ایک چھوٹے سے کاروبار کا مالک بن سکے۔ ابھی چند دن ہی اس کامیابی کو ہوئے تھے کہ 27 دسمبر کی شام کو‘ جب وہ زیرِ  زمین ریلوے سٹیشن پر کھڑا تھا‘ کسی نے اسے دھکا دیا۔ وہ منہ کے بل ریلوے لائن پر جا گرا۔ اوپر سے سوں سوں کرتی‘ چنگھاڑتی ٹرین آئی اور اسے ٹکڑے ٹکڑے کر گئی۔  چوبیس گھنٹوں کے ا ندر اندر پولیس نے دھکا دینے والی عورت کو گرفتار کر لیا۔ کیمرے کی فوٹیج پر یہ جائے واردات سے فرار ہوتی صاف نظر آ رہی تھی۔ 31 سالہ ایریکا نے بتایا کہ ’’اسے مسلمان ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ جب سے نائن الیون ہوا ہے‘ میں انہیں مارتی پیٹتی آئی ہوں‘‘۔  سناندو سَین مسلمان نہیں تھا۔ غیر مسلم تھا مگر جنوبی ایشیا سے تھا۔ ایریکا نے اسے مسلمان سمجھا اور قتل کردیا۔ مسلمانوں کے خلاف تسلسل کے ساتھ جو مہم امریکہ میں چلائی جا رہی ہے‘ وہ ا...

رومان! مگر کب تک!

رومان! مگر کب تک! لکڑی کا شیشہ‘ پرانا ٹیبل تھا اور دونوں طرف بان کی کھردری چارپائیاں۔ میز پر شیشے کے جگ میں نہیں‘ مٹی کے صراحی نما گھڑے میں پانی تھا۔ یہ ایک ٹرک ہوٹل تھا۔ ساتھ پرانا ساتھی اللہ بخش تھا۔ جب بھی گائوں یا اپنے علاقے میں جانا ہوتا ہے‘ گاڑی وہی چلاتا ہے۔ ہم نے ایک پلیٹ سبزی کی منگائی‘ ایک دال کی‘ تنور کی تازہ خستہ روٹیاں تھیں جو گرم گرم‘ چنگیر میں رکھی جا رہی تھیں۔ مانا کہ ایک طرف شاہراہ تھی جس پر مہیب ٹرک اور دیو آسا بسیں گزر رہی تھیں مگر دوسری طرف تو کھیت تھے۔ حدِ نظر تک‘ وسعت کو اپنے اوپر تانے‘ گندم کی فصل‘ سبز چادر سر پر اوڑھے‘ اپنے حساب سے اونچی ہو رہی تھی۔ درخت تھے‘ سنہری نرم دھوپ جیسے ان کی ٹہنیوں سے بور کی طرح اتر رہی تھی ؎  اتاری ہم نے سرما کی سنہری دھوپ دل میں  مگر اس سیرگہ میں کوئی آیا ہی نہیں ہے  پرندے تھے‘ بادلوں بھری فضائوں کے معصوم مسافر۔ کھانے تو اس کرۂ ارض پر‘ ملک ملک‘ بہت کھائے۔ بحرالکاہل کے جنت نظیر کناروں پر آباد ریستورانوں میں سی فوڈ سے لے کر‘ ٹھٹھرتے وسط ایشیا کے سر بہ فلک فائیو سٹار ہوٹلوں میں گراں بہا  Caviar  تک۔ م...

معاملہ جو دو وقت کی روٹی سے شروع ہئوا

تصویر

اور کوئی دوسرا اس خواب کو دیکھے تو…

سناٹا ہے۔ آسمان سے زمین تک چھایا ہوا۔ چاروں سمت پھیلتا‘ امڈ امڈ کر آتا! گھر میں آوازیں تو ہیں مگر سنائی نہیں دے رہیں۔ وہی کمرے ہیں‘ وہی دیوار و در مگر سب کچھ بدل گیا ہے  ؎ نشاں کہیں بھی نہیں اس کی انگلیوں کے مگر میں گھر کی دیکھ کے ایک ایک چیز روتا ہوں اب یہ گھر کبھی بھی ویسا نہیں ہو پائے گا‘ جیسے تھا۔ ایک زمانہ لد چکا۔ ایک اور زمانہ آ پہنچا۔ اس کے کمرے میں جھانکتا ہوں۔ خالی پلنگ۔ جو الماری اس کے ملبوسات سے اٹی رہتی تھی‘ خالی ہے۔ ضبط چھوٹ جاتا ہے۔ آنکھوں میں ستارے ٹوٹتے ہیں‘ ہچکیاں لینے لگتا ہوں ع دل صاحبِ اولاد سے انصاف طلب ہے۔ پالتے ہیں‘ پوستے ہیں۔ رومی نے کہا تھا   ؎ طفل کنم‘ سوئے دبستاں شوند کھیلتی ہیں‘ سکول جاتی ہیں‘ کچن کو آباد کرتی ہیں‘ یوں کہ میٹھی خوشبوئیں‘ بیکنگ کی رنگا رنگ بہاریں گھر پر چھا جاتی ہیں۔ خریداریاں کرتی ہیں‘ مائوں کے ساتھ دنیا بھر کی باتیں کرتی ہیں‘ پوشاکوں کی‘ بوطیقوں کی‘ کیا پہننا ہے‘ کیا پکانا ہے‘ پھر ایک صبح آتی ہے تو نظر نہیں آتیں۔ ایک اور گھر کو جا چکی ہوتی ہیں۔ عجیب دنیا ہے۔ جدائی کا پہاڑ جتنا وزن سینے پر اٹھائے‘ کرب سے ...

پن چکیوں پر حملے

ڈان کو ایگزوٹ یوں تو ہسپانوی زبان کا ناول ہے لیکن اسے جدید مغربی ادب کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ بائبل کے بعد سب سے زیادہ اسی کے دنیا میں تراجم ہوئے۔ اس کا مصنف سروانتے تھا جو کچھ عرصہ الجزائر میں قید رہا۔ یوں وہ عربی ادب سے شناسا ہوا۔ ایک روایت یہ ہے کہ ڈان کو ایگزوٹ ایک عرب سید احمد کی تصنیف ہے لیکن یہ ایک الگ بحث ہے۔ ہماری زبان اردو کے حوالے سے اس کا تلفظ بھی مشکل اور متنازعہ ہے۔ ہسپانوی اسے ڈان کیو ہاٹی کہتے ہیں۔ انگریزی میں یہ کو اگزوٹ ہو گیا۔ اس ناول کا شہرۂ آفاق مرکزی کردار خود ڈان کو ایگزوٹ ہی ہے۔ مہماتی ناول پڑھ پڑھ کر وہ ایک تخیلاتی دنیا میں رہنے لگا تھا۔ اس زمانے کے بہادر تلوار ڈھال اور نیزہ لے کر مہمات سر کرتے تھے۔ وہ بھی گھر سے نکل پڑا۔ زرہ پہن لی۔ پڑوسن لڑکی کو محبوبہ تصور کیا جس کا لڑکی کو بالکل علم نہیں تھا۔ راستے میں پڑنے والی سرائے کو محل اور اس کے مالک کو محل کا نواب قرار دیا۔ یوں وہ...