اشاعتیں
نومبر, 2014 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں
کالم
ڈرامہ
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
اِندر سبھا اردو کا پہلا مکمل ڈرامہ ہے۔ روایت ہے کہ آغا حسن امانت سے یہ ڈرامہ نواب واجد علی شاہ نے لکھوایا تھا۔ تاہم اردو ڈرامے کو اوجِ کمال تک لے جانے کا کریڈٹ آغا حشر کاشمیری کو جاتا ہے۔ حشر کاشمیری بنارس میں پیدا ہوئے۔ ڈرامہ نگاری کا شوق بمبئی لے گیا جہاں پارسی کمپنیاں سٹیج کی دنیا آباد کئے تھیں۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ حشر کاشمیری ڈرامے کی دنیا پر چھا گئے۔ ہر طرف ان کا شہرہ تھا۔ کلکتہ لاہور جہاں بھی گئے، ظفریابی کے جھنڈے گاڑ دیئے۔ اپنی تھیٹر کمپنیاں بھی بنائیں۔ رستم و سہراب، اسیرِ حرص، ترکی حور، آنکھ کا نشہ، یہودی کی لڑکی، خوبصورت بلا اور سفید خون آغا حشر کاشمیری کے مشہور ڈرامے ہیں۔ وہ اردو کے شیکسپیئر کہلائے۔ بے شمار تحقیقی مقالے ان کے فن اور شخصیت پر لکھے گئے اور لکھے جا رہے ہیں۔ ذاتی زندگی میں حشر کاشمیری دلچسپ تھے اور مجموعۂ اضداد بھی۔ گالیاں بہت دیتے تھے۔ فریدہ خانم کی بہن مختار بیگم سے شادی کی۔ مختار بیگم کو انہوں نے جس انداز میں خراجِ تحسین پیش کیا، وہ بہت مشہور ہوا۔ ’’میں ساری زندگی اپنے آپ کو مصرع سمجھت...
ریاست ؟ کون سی ریاست ؟
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
عورت جوان تھی۔ اس کے شوہر کو ملازم نے مار ڈالا۔ دو چھوٹے چھوٹے بچے تھے۔ مقدمہ عدالت میں گیا۔ گواہ پیش ہوئے جن کا کہنا تھا کہ انہوں نے ملزم کو قتل کرتے خود دیکھا ہے۔ فیصلہ یہ صادر ہوا کہ گواہوں کو دو دو سال قید بامشقت اور نقد جرمانے کی سزا ہو۔ ملزم کو بری کردیا جائے۔ مستغیثہ کا جو بے چاری بیوہ ہوگئی ہے، نکاح ملزم سے کردیا جائے۔ جرمانے سے حاصل شدہ رقم سے نکاح کے اخراجات پورے کیے جائیں۔ رہے بچے، تو ملزم کو کیا پڑی ہے کہ انہیں رکھے اوران کی کفالت کرے چنانچہ بچوں کو یتیم خانے بھیج دیا جائے۔مقدمے کی یہ روداد مرزا فرحت اللہ بیگ نے اپنی ایک کہانی میں لکھی ہے لیکن وقت وہ آن پڑا ہے کہ جو کچھ حکایات و لطائف میں ہوتا تھا آنکھوں کے سامنے ہورہا ہے اور جو نہیں ہورہا، اسے ہونا چاہئے! انبالہ، پٹیالہ، یا اسی قبیل کی کسی ریاست کے بارے میں مشہور ہے کہ والی ریاست سے پوچھا گیا قاضی القضاۃ چھٹی پر چلے گئے ہیں ان کی جگہ کسی کو لگایا جائے۔ پوچھا، کوئی چھٹی کاٹ کر واپس بھی تو آیا ہوگا؟ عرض کیا، جی سرکار! چیف میڈیکل آفیسر آئے ہیں۔ حکم ہوا انہیں قاضی لگا دیا جائے۔ قاضی صاحب واپس آئے تو چیف انجینئر کی جگہ ...
بند دروازہ اور اس پر پڑا قفل
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
SMS: #IHC(space) message & send to 8001 haq@izharulhaq.net قدرت اللہ شہاب ہماری ادبی اور سیاسی تاریخ کا ایک اہم باب ہیں۔ بہت کچھ اس حوالے سے لکھا گیا اور بہت کچھ سامنے آنے کا منتظر ہے۔ کچھ اہم حصے اس داستان کے جناب جمیل الدین عالی کے سینے میں محفوظ ہیں۔ خدا انہیں وقت اور صحت دئیے رکھے کہ وہ یہ کام کر ڈالیں۔شہاب صاحب کا ایک بڑا کارنامہ ادیبوں کو ایک تنظیم میں پرونا تھا۔ پاکستان رائٹرز گلڈ انہی کے زیر سایہ بنی۔ اس کے پہلے سیکرٹری جنرل بھی وہی تھے۔ آدم جی ادبی ایوارڈ جیسے انعامات قائم کئے جو ایک عرصہ تک وقیع رہے اور باعزت بھی! اس سارے قصے میں قدرت اللہ شہاب کا ایک ممتاز کارنامہ ادبی پیش منظر پرجعفر طاہر کی آمد تھی، اگر یہ کہا جائے کہ جعفر طاہر شہاب صاحب ہی کی دریافت تھے تو شاید غلط نہ ہو ۔جعفر طاہر فوج کے شعبہ تعلیم میں ایک عام سی سطح پر کام کررہے تھے مگر کمال کے شاعر تھے! کلام پر حیرت انگیز قدرت تھی۔ لغت سامنے دست بستہ کھڑی رہتی تھی۔ عالم اسلام کی تاریخ پر گہری نظر تھی۔ ’’ہفت کشور‘‘ کے نام سے معرکے کی کتاب لکھی جس کی نظیر کم از کم اردو ادب میں نہیں ہے۔ اس میں سات مسلمان ملکوں (...
مدعی سست
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
سچی بات یہ ہے کہ پطرس کے بعد اردو مزاح نگاری میں جو مقام شفیق الرحمن کا ہے وہ شاید ہی کسی اور کو نصیب ہو! شفیق الرحمن صاحب کی ایک تو افتاد طبع ایسی تھی کہ وہ تقاریب سے پرہیز کرتے تھے۔ جن دنوں اکادمی ادبیات کے سربراہ تھے‘ بیرون ملک سے آئے ہوئے مہمان ادیبوں کیلئے جو فنکشن منعقد ہوتے تھے، ان میں کچھ گفتگو کرتے تھے ورنہ نہیں! دوسرے اس زمانے میں ٹیلی ویژن کی دنیا سرکاری پردۂ سیمیں تک محدود تھی۔ ابھی یہ رواج نہیں پڑا تھا کہ ٹیلی ویژن والے ادیبوں کو دعوت دیں، وہ اپنے شاہکار پڑھ کر سنائیں‘ انہیں نشر کیا جائے اور لوگ دیکھیں بھی اور سنیں بھی۔ شفیق الرحمن صاحب نے اپنی تحریروں کو ثقیل حد تک مفرس (Persianised) کیا‘ نہ آورد اور تصنع کو نزدیک آنے دیا۔ نہ ہی ان کی تحریریں پڑھتے ہوئے، رخساروں کو ہاتھوں سے پکڑ کر کانوں کی طرف کھینچنا پڑتا ہے کہ ہنسی کا تاثر قائم ہو۔ مارچ 2000ء میں جب ان کا انتقال ہوا تو یہ قلم کار لاہور میں سٹاف کالج ’’کر‘‘ رہا تھا۔ پورے گروپ میں الحمدللہ کوئی رفیق کار ایسا نہیں تھا کہ اس کی ہم نشینی میں غم بٹ سکتا۔ ’’نیلی جھیل‘‘ کے عنوان سے کالم لکھا اور تنہائی میں بیٹھ ک...
پیرِمغاں
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
وزیر باتدبیر نے درست کہا کہ اللہ نے نوازشریف کو عزت دی ہے۔ یہ عزت پاکستان کی بدولت ہے۔ جو بھی پاکستان کا حکمران ہوگا وہ اس حوالے سے ہمارے لیے قابل عزت ہوگا کہ ہمارے ملک کا حکمران ہے۔ بھارت کئی گنا بڑا ملک ہے مگر ہم اس کے حکمران کی اتنی تکریم نہیں کرتے ۔اپنے ملک کی عزت اور محبت ہمارے دلوں میں ہے۔ اسی رشتے سے اس کا وزیراعظم ہمارے لیے معزز ہے۔ یہ عزت جنرل پرویز مشرف کو بھی ملی۔ پھر قسامِ ازل نے یہ عزت آصف زرداری کو بخشی۔ بطور آصف زرداری ان کی جو بھی شہرت تھی، وہ الگ قصہ ہے۔ لیکن جب تک وہ پاکستان کے صدر تھے، ملک کے حوالے سے اہل وطن کی تکریم کے سزا وار تھے۔ یہ اور بات کہ عزت اللہ ، اس کے رسول ؐ اور مسلمانوں کے لیے ہے۔ عزت دینے والا بھی خدائے قدوس ہے اور نہ دینے والی یا دے کر واپس لے لینے والی ذات بھی وہی ہے۔ تو کیا عزت اقتدار سے عبارت ہے؟ یا عزت وہ ہے جو دلوں میں ہو اورفرشتے کسی کے لیے ، جس کے بارے میں حکم ہو، فضا میں عام کردیں؟ اگر کوئی حکمران یہ سمجھے کہ چونکہ وہ معزز ہے اس لیے حکمران ہے تو یہ غلط فہمی ہے۔ ہر آمر یہی سمجھتا ہے کہ وہ مامور من اللہ ہے اور معزز ہے۔ سفید فام اق...
مٹی
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
سفید فام یورپی شمالی امریکہ پہنچے تو ریڈ انڈین آبادی کے پاس انہوں نے ایک عجیب ہتھیاردیکھا۔ یہ اس شے سے ملتا جلتا تھا جسے ہمارے ہاں کلہاڑی کہتے ہیں‘ لیکن لکڑی کا ڈنڈا چھوٹا ہوتا تھا تاکہ اسے دشمن پر دور سے پھینکابھی جاسکے۔ لوہے کے استعمال سے ریڈ انڈین ناآشنا تھے۔ پتھر کو تیز دھار کرکے ڈنڈے کے سرے پر پھنسایا جاتا تھا۔ پتھر کے اوپر خشک چمڑا چڑھا دیا جاتا تھا۔ اس سے گوشت بھی کاٹا جاتا تھا اور دشمن کا گلا بھی۔ ایک خاص سٹائل سے دشمن پر پھینکا بھی جاسکتا تھا۔ اسے ٹوماہاک کہا جاتا تھا۔ یورپ سے آبادی کا طوفان امریکہ اور کینیڈا کے ساحلوں پر اترا تو لوہا بھی آگیا۔ آنے والوں نے ریڈ انڈین لوگوں کو پتھر کے بجائے لوہے کے تیز دھار بلیڈ والے ٹوما ہاک بنانے سکھائے۔ شروع شروع میں ریڈ انڈین قبیلوں کے سرداروں کو یہ تحفے میں دیا جاتا تھا تاکہ ’’ سفارتی‘‘ تعلقات خوشگوار رہیں۔ پھر لوہے کے مہلک ٹوما ہاک عام ہوگئے۔ اٹھارہویں صدی کے اواخر میں امریکیوں نے برطانوی آقائوں کے خلاف جنگ آزادی کا پرچم بلند کیا تو برطانیہ نے اپنے فوجیوں کو دوسرے ہتھیاروں کے ساتھ ٹوما ہاک بھی فراہم کیے۔ بھارت کا کوئی مسلمان پا...
حکومت ایک سو دس فیصد ذمہ دار ہے
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
امجد فاروق نہ صرف مسلمان تھا بلکہ قرآن پاک کا حافظ تھا۔ نیک اور پرہیزگار۔ مخالفین نے الزام لگایا کہ نعوذبااللہ اس نے کلام پاک کے نسخے کو نذرِ آتش کیا ہے۔ اسے گرفتار کر لیا گیا۔ پھر مسجدوں سے اعلانات ہوئے کہ لوگ گھروں سے باہر نکلیں اور اسے سنگسار کریں۔ ہجوم اکٹھا ہوا۔ تھانے پر حملہ کیا گیا۔ اینٹیں مار مار کر اسے موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ پھر اس کے جسم پر مٹی کا تیل انڈیلا گیا۔ پھر اسے آگ لگائی گئی۔ لیکن ’’سزا‘‘ ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔ اس کے سوختہ جسدِ خاکی کو موٹر سائیکل کے ساتھ باندھا گیا اور گلیوں میں گھسیٹا گیا۔ اس سینے کو گھسیٹا گیا جس میں تیس پارے رکھے تھے ؎ گلیوں میں میری نعش کو کھینچے پھرو کہ میں جاں دادۂ ہوائے سرِ رہگزار تھا حافظ امجد فاروق کا تعلق کسی اقلیت سے نہیں تھا۔ 22 دسمبر 2012ء کو دادو (سندھ) میں ایک شخص کو قرآنی اوراق جلانے کے الزام میں ہجوم نے تھانے سے گھسیٹ کر باہر نکالا اور زندہ جلایا۔ آگ لگانے سے پہلے اسے پیٹا گیا۔ ہجوم میں سے بہت سے لوگوں نے وڈیو بھی بنائی۔ یہ شخص کسی اقلیت سے تعلق نہیں رکھتا تھا۔ مسلمان تھا۔ مسافر تھا اور ...
چارہ اور دودھ
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
نہیں ! یہ کھیل لمبے عرصے کے لیے نہیں چل سکتا۔ کھیل کے اصول پامال ہورہے ہیں۔ ایک طرف تابوت آرہے ہیں۔ سبز ہلالی پرچم میں لپٹے تابوت۔ تابوتوں سے بچے لپٹ لپٹ کر سسکیاں بھررہے ہیں۔ مائوں کو غش آرہے ہیں۔ سفید ریش مردوں کے صبر کے پیمانے چھلک رہے ہیں۔ سبز ہلالی پرچم میں لپٹے تابوتوں کو غم زدہ سپاہی سلامی دے رہے ہیں۔ اپنے ساتھیوں کو اپنے ہاتھوں لحد میں اتار کر اوپر مٹی کی چادر تان رہے ہیں۔ پھر نئے تابوتوں کو بھرنے کے لیے مزید جاں بکف نوجوان مغربی سرحدوں کا رخ کررہے ہیں۔ دوسری طرف بیانات ہیں۔سیاسی بیان۔ کھوکھلے بیان۔اندر سے خالی بیان۔اخبارات کا پیٹ بھرنے والے بیان، الیکٹرانک میڈیا پر مکڑی کا جالا تاننے والے بیانات۔ مسکراتے بیان۔ ’’ دہشت گردی برداشت نہیں کریں گے۔ قوم جاگ رہی ہے۔ کوئی کارروائی مورال کو کمزور نہیں کر سکتی۔ آپریشن ضرب عضب کامیابی سے جاری ہے۔‘‘ جس دن اس قبیل کا بیان وزیر اطلاعات نے جاری کیا، اسی دن میڈیا نے خون میں ڈوبی خبریں سنائیں۔ جاں بحق ہونے والے 59ہوچکے تھے۔ سپردخاک کرتے وقت آہوں اور سسکیوں کے طوفان امڈے ہوئے تھے۔ لاشیں تاخیر سے دی گئیں تو مردہ خانے کے باہر پسماند...
چونے والی کٹوری
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
چودھری جہاں داد نے ملک دین محمد سے بدلہ لینا تھا۔ جاگیریں ساتھ ساتھ تھیں۔ دشمنیاں بھی جاگیروں کی طرح نسل در نسل منتقل ہو رہی تھیں۔ چودھری جہاں داد نے اپنے ایک کارندے کو، جس کا خاندان کئی پشتوں سے اس کے کھیتوں سے غلہ اور حویلی کے تاریک کمروں سے گناہ سنبھال رہا تھا‘ حکم دیا کہ ملک دین محمد کے بھتیجے کو قتل کردے۔ یہ کہنے کی ضرورت ہی نہیں تھی کہ پولیس اور ضلعی انتظامیہ چودھری کی جیب میں تھی۔ کارندے نے قتل کردیا۔ تھانوں، کچہریوں کا سلسلہ چلا، دو اڑھائی سال جیل میں گزارنے کے بعد کارندہ باہر آ گیا۔ ملک دین محمد نے قتل کا بدلہ کارندے سے نہیں، چودھری سے لینا تھا اور یہ کام اس کے اپنے کارندے نے کرناتھا۔ پولیس کارندوں کو پکڑتی تھی۔ چودھریوں یا ملک خاندان کو کوئی نہیں پوچھتا تھا۔ یہ قصہ ہم مکمل کرتے ہیں لیکن درمیان میں شاہ عالم یاد آ رہا ہے۔ اس ’’ہمہ مقتدر‘‘ مغل بادشاہ شاہ عالم کے اقتدار کا یہ عالم تھاکہ مرہٹے شاہی قلعے کے اردگرد دندناتے پھرتے تھے اور جگا ٹیکس، جسے وہ چوتھ کہتے تھے‘ کھلم کھلا وصول کر رہے تھے۔ تب یہ محاورہ بنا کہ ’’سلطنت شاہ عالم۔ ازدلی تا پالم‘‘۔ پالم دلی کا نواحی علاقہ تھا ...