اشاعتیں

اکتوبر, 2014 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

ہم احتجاج کرتے ہیں

معاف کیجیے گا۔ یہ 2014ء ہے۔ بارھویں تیرھویں صدی کا عہد تاریک نہیں کہ دوسرے ملک کے اختیارات پر قبضہ کر لیا جائے۔ شرق اوسط کے ایک ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے اسے روکا جائے۔ ہم اہل پاکستان اس زیادتی پر احتجاج کرتے ہیں اور بین الاقوامی عدالت انصاف میں جانے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارا ملک اسلام کا قلعہ ہے۔ اقوام متحدہ سے لے کر تاریخ کے‘ کیا کہنہ اور کیا نئے‘ اوراق بے شک چھان لیے جائیں‘ ثابت یہی ہو گا کہ یہ اعزاز کسی اور ملک کو نصیب نہیں ہوا۔ دوسری بات یہ ہے کہ پورے عالم اسلام میں ہم واحد ایٹمی قوت ہیں اور یوں ایک اعتبار سے پورے عالم اسلام کے انچارج۔ تیسری حقیقت یہ ہے کہ اسلامی دنیا ہم چلا رہے ہیں۔ عراق اور شام میں ہمارے لوگ برسر پیکار ہیں۔ افغانستان میں ہمارا عمل دخل ہے۔ طالبان کی پیدائش اور پرورش پر ہمارا دعویٰ ہے۔ خوست اور قندھار کے مسلمان، پاکستان میں ایک قدم دھرے بغیر، پاکستانی دستاویزات کی بنیاد پر حج کر آتے ہیں۔ چیچنیا سے لے کر بوسنیا تک، معاملات ہم نے سنبھالے۔ مغربی ملکوں میں قائم مدارس کو، جہاں شلوار قمیض کا ’’اسلامی لباس‘‘ پہننا لازمی ہے‘ ہم چلا اور چلوا ر...

چوک پر پڑتے جوتے

تصویر

کھڑائوں اور چھتری

برصغیر کی جوشاہراہیں تاریخ کی گواہ ہیں، ان میں ایک بڑی گواہ ، ایک معتبر گواہ ، وہ شاہراہ ہے جو ٹیکسلا اور حسن ابدال کے سامنے سے گزر رہی ہے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ یہاں سے گزرتے وقت تاریخ کے ہجوم نے گھیر نہ لیا ہو۔ افغانستان پر جب بھی فوج کشی کی، اورنگزیب نے یہاں کیمپ کیا۔ کابل جاتے ہوئے اور واپسی پر، اکبر ضرور ٹھہرتا۔ برطانیہ نے سرحدی علاقہ پر قبضہ کرنے کے لیے ہیڈ کوارٹر یہیں رکھا۔ لیکن یہ تو قریب کے زمانے کی تاریخ ہے۔ ٹیکسلا نام ہی تاریخ کا ہے۔ بخارا اور سمرقند کو ’’شہر کا شہر عجائب گھر‘‘ (سٹی میوزیم) کہا جاتا ہے اور دنیا بھر سے سیاحوں کے غول کے غول آتے ہیں۔ اس قلم کار نے سینکڑوں امریکی طلبہ کے قافلے وہاں اترتے دیکھے۔ اس لیے کہ سیاحت کا محکمہ اس ملک میں اور بہت سے دوسرے ملکوں میں سیاحت کے فروغ کے لیے کام کرتا ہے۔ ہمارے ہاں سیاحت کا محکمہ مخصوص افراد کی مالی منفعت اور سیاست دانوں کی ’’ تالیف قلب‘‘ کے لیے کام کرتا ہے۔ اغوا برائے تاوان اور قتل کا دھڑکا اس کے علاوہ ہے۔ ورنہ ٹیکسلا کہ عجائب گھروں کا عجائب گھر ہے، سیاحوں کے قافلوں کا مستقل مستقر ہوتا! خدا مغفرت کرے افسانہ نویس اور ڈرامہ ن...

سنتا جا‘ شرماتا جا

شریف گھرانے کی لڑکی کو ورغلا کر‘ بہلا پھسلا کر‘ ڈرا دھمکا کر‘ خالی مکان میں لے گئے۔ نشہ آور دوائیں پلائیں۔ ڈانس کرنے پر مجبور کیا‘ پھر قابلِ اعتراض حالت میں تصویریں کھینچیں‘ یہ تصویریں لڑکی کے لیے اور اس کے شریف گھرانے کے لیے سوہانِ روح بن گئیں۔  بلیک میلنگ کی یہ قسم مکروہ ترین ہے اور پوری دنیا میں عام ہے‘ لیکن بلیک میلنگ کی جو اقسام ہمارے ہاں رائج ہیں اور بدقسمتی سے ’’مقبول‘‘ بھی ہیں‘ وہ عجیب و غریب ہیں۔ ان پر ہنسی بھی آتی ہے اور رونا بھی۔ متشرع شکل و صورت کا کوئی آدمی جھوٹ بولے یا دھوکا دے اور اسے کہا جائے کہ بھائی! اس شکل و صورت کے ساتھ دروغ گوئی اور فریب کاری کر رہے ہو تو وہ شور مچا دے گا کہ مذہبی شکل و صورت پر اعتراض کر رہے ہو؟ اس نکتے کو وہ اس قدر اچھالے گا کہ آپ کو معذرت کرنا پڑے گی۔ ایک صاحب بتا رہے تھے کہ ان کی والدہ بیمار تھیں اور بے خوابی سے تنگ۔ پڑوس میں مسجد تھی۔ لائوڈ سپیکر کی توپ کے دہانے کا رُخ عین مریضہ کے کمرے کی کھڑکی کی طرف تھا۔ ان صاحب نے ایک دن مولوی صاحب کو خوشگوار موڈ میں دیکھ کر عرضِ مدعا کیا کہ ازراہِ کرم توپ کے دہانے کا رُخ تھوڑا سا پھیر دیں۔ دو دن...

یہ بھی وہی ہے

’’شرم کرو بے غیرتو! ڈوب مرو‘‘  میں نے چیختے ہوئے کہا۔ جی چاہتا تھا ان کے چہرے نوچ لوں۔ ان کے جسم ٹکڑے ٹکڑے کردوں۔ ان کے گلے گھونٹ ڈالوں۔ انہیں دوبارہ زندگی ملے۔ دوبارہ مار دوں۔ انہیں قیامت تک کے لیے نشانِ عبرت بنا دوں۔ لیکن بے شرمی کی حد یہ تھی کہ آٹھوں کے آٹھوں ہنس رہے تھے۔ پیلے گندے دانت نمایاں نظر آ رہے تھے۔ ان میں سے ایک نے باقی سات کو مخاطب کیا اور کہا۔ ’’اوئے! یہ بھی وہی ہے‘‘۔ باقی سات نے میری طرف دیکھا۔ پھر ایک دوسرے کو دیکھا۔ یوں لگتا تھا آنکھوں ہی آنکھوں میں یہ بدبخت بہت کچھ ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے۔ پھر سب نے مل کر قہقہہ لگایا۔ غلیظ قہقہہ‘ جو غنڈے‘ بدمعاش اور اوباش لگاتے ہیں۔ پھر سب نے بیک آواز کہا۔ ’’اوئے‘ یہ بھی وہی ہے‘‘۔  میرے ذہن میں فلم چلنے لگی۔ فلیش بیک۔ سِن اس وقت میرا چھوٹا تھا۔ گائوں کی گلیوں میں کھیلتا پھرتا تھا۔ دن کھیتوں کھلیانوں پہاڑیوں پر ہم جولیوں کے ساتھ گزرتا تھا اور رات کہانیاں سنتے سناتے۔ انہی دنوں گھر میں رشتے کی ایک دادی آئی ہوئی تھی۔ دادی کی رشتہ دار۔ ایک شام‘ جب جھٹپٹے کی ملگجی روشنی غائب ہو چکی تھی اور ستارے پوری چمک کو پہنچ کر اِت...

چارپائی پر پڑا مردہ

قمار بازی زوروں پر تھی۔ ایک طرف گائوں کا وہ شخص جس کی ذات برادری ،لطیفوں ،طعنوں اور ضرب الامثال کا باعث بنتی ہے، مثلاً یہ لطیفہ کہ چارپائی پر گائوں کا چودھری لیٹا ہوا تھا۔ نوکر اس کی ٹانگیں دبا رہا تھا۔ سامنے سے ایک میراثی گزرا۔ چودھری نے ٹانگیں دباتے نوکر کو حکم دیا کہ میراثی پر بھونکو۔ نوکر بھونکا تو میراثی نے کہا کہ مجھ پر کیوں بھونک رہے ہو، جو مردہ تمہارے سامنے چارپائی پر پڑا ہے، پہلے اسے تو کھالو۔قمار بازی ہورہی تھی۔ میراثی مسلسل ہار رہا تھا۔ پیسے ، غلہ ، مال مویشی، زمین سب دائو پر لگا دیے اور سب کچھ ہار گیا۔ آخر میں بیوی کو دائو پر لگادیا ۔بیوی نے سنا تو کہا ’’ بے غیرت ! ہار گئے تو یہ جیتنے والے مجھے لے جائیں گے‘‘۔ میراثی ہنسا۔ ’’میں ہارمانوں گا تو تب تمہیں لے جائیں گے! میں تو ہار مانوں گا ہی نہیں !‘‘۔ یہی کچھ ملتان کے ضمنی الیکشن کے بعد ہورہا ہے۔ پہلے تو یہ پیش گوئیاں تھیں کہ تاریخ کا اور کرۂ ارض کا سب سے عظیم باغی ہار ہی نہیں سکتا۔ باغی ہار گیا تو اب ایسی ایسی دلیلیں دی جارہی ہیں اور ایسے ایسے نادر نکتے نکالے جارہے ہیں کہ ہنسی تک نہیں آتی۔ ایک صاحب دور کی کوڑی لائے ہیں کہ...

ایک مختلف قسم کا قیدی

تصویر

2035ء یا 2135ء ؟

پستہ قد، جسمانی اعتبار سے بے بضاعت، ٹھیک سے انگریزی بول پاتے ہیں نہ سمجھ ہی سکتے ہیں‘ لیکن تھائی لینڈ کے ان بونوں نے کمال کردیاہے۔ ایسا عظیم الشان ایئرپورٹ بنایا ہے اور زبردست خوش انتظامی سے اس طرح چلا رہے ہیں کہ اسے آدھی دنیا کا مرکز بنادیا ہے۔ ہر چندمنٹ کے بعد ایک جہاز اڑان بھرتا ہے اور ایک اترتا ہے۔ نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، جاپان، فلپائن، ملائشیا، انڈونیشیا، برونائی، ہانگ کانگ، چین، ویت نام، فجی اور ہوائی سمیت بحرالکاہل کے درجنوں جزیرے … ان تمام ملکوں میں جانے والے اور وہاں سے آنے والے بنکاک کو سلام کرنے پر مجبور ہیں۔ ہوائی اڈہ دکان ہوتا ہے اور ایئرلائنیں گاہک۔ گاہک وہیں جاتا ہے جہاں اسے سودا اچھاملے، جہاں دکاندار خوش اخلاقی سے معاملہ کرے اور دیانت دار بھی ہو۔ بنکاک یہ ساری ضروریات پوری کررہا ہے۔ یہی حال سنگاپور اور کوالالمپور کے ہوائی اڈوں کا ہے۔ کوالالمپور کا ایئرپورٹ تو پورا شہر ہے۔ ایک حصے سے دوسرے تک جانے کے لیے بسیں اور ٹرینیں چلائی گئی ہیں۔ ان ٹرینوں کو ایرو ٹرین کہا جاتا ہے۔ ہر ٹرین میں اڑھائی سو مسافر سوار ہوسکتے ہیں اور یہ ایک گھنٹے میں تین ہزار مسافروں کو اٹھاتی ہے۔ ایئ...

ایشوز

تصویر

تنویر ملک ہجرت کر جائو

تصویر

احمدی نژاد کو بُلالو

سوئے تو مطلع صاف تھا۔ صبح اٹھ کر دیکھا تو ہر شے چھپ چکی تھی۔ درخت، گاڑیاں ، مکان، سب برف سے ڈھکے ہوئے تھے۔ لوگ سوئے رہے اور برف کے گالے اپنا کام کرتے رہے۔ اس مضمون کی ایک انگریزی نظم‘ عرصہ ہوا‘ پڑھی تھی۔ یاد اس لیے آرہی ہے کہ اہلِ پاکستان کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ اتنا بڑا المیہ… کیسے ہوا، کیونکر ہوا، کچھ خبر نہیں۔ لوگ سوئے رہے اور بدعنوانی، کرپشن، نااہلی کے گالے اپنا کام کرتے رہے۔ گزشتہ ہفتے عدالت عظمیٰ نے احساس دلایا کہ سب کچھ کالک کی پرتوں کے نیچے چھپ چکا ہے۔ کیا اہلِ وطن کو احساس ہے کہ دارالحکومت جو کبھی وجہ افتخار تھا‘ باعثِ ندامت بن چکا ہے۔ کبھی اسے انقرہ اور کینبرا کی صف میں رکھا جاتا تھا۔ یہ ابھی بارہ سال پہلے کی بات ہے جب کینیڈا سے آئے ہوئے ایک صاحب نے تعریف کی کہ چندی گڑھ بھی نیا شہر ہے لیکن صفائی میں اسلام آباد بہت آگے ہے۔ اب کے وہ صاحب پھر آئے تو پریشان اور حیران، ایک عشرے میں اسلام آباد ان سینکڑوں قصبوں کی طرح غلاظت اور بدانتظامی کا گڑھ بن چکا ہے جو ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہیں۔ گرد کی چادریں پائوں سے سر تک لپٹے ہوئے ۔ اونگھتے اہلکاروں اور بدعنوان افسروں کے رحم ...

کائونٹر

توپھر تعجب کی بات ہی کیا ہے اگر آسمان سے پتھر برسنے لگیں! قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قواعد و ضوابط نے ملک کے تمام ہوائی اڈوں پر ارکان پارلیمنٹ کیلئے خصوصی کائونٹر بنانے کا مطالبہ کیا ہے! اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو! تم باقی پاکستانیوں کے ساتھ قطار میں کیوں نہیں کھڑے ہوسکتے؟ کیا تم پیدائش کے حوالے سے برتر ہو؟ کیا پیدا کرنے والے نے تمہاری تخلیق اس طرح کی ہے کہ تم باقی اہل وطن سے دیکھنے میں ممتاز ہو؟ کیا تم جہاز کی نشستوں کیلئے دوسروں سے زیادہ کرایہ دیتے ہو؟ تو پھرکیا تم جہازوں کے اندر بھی الگ رقبہ مانگو گے؟ پھر تم ریلوے سٹیشنوں اور بسوں کے اڈوں پر اپنے کائونٹرالگ بنوائو گے؟ سپرسٹوروں پر، پٹرول پمپوں پر، ڈاکٹروں کے کلینکوں میں ہر جگہ تمہارے کائونٹر الگ ہوں گے؟ تمہارے بچوں اور پوتوں نواسوں کیلئے الگ تعلیم گاہیں بنیں گی؟ یونیورسٹیوں میں ان کیلئے الگ استاد، الگ ٹائم ٹیبل اور الگ کلاس روم ہوں گے؟ کیا دنیا کے کسی مہذب ملک میں جہاں پارلیمنٹ ہے، ارکان پارلیمنٹ کیلئے ایسے الگ کائونٹر بنے ہوئے ہیں؟ کیا ان پر بھی اسلحہ کے قوانین، ٹریفک کے قوانین اور ٹیکس کے قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا؟ کیا ...

من و سلویٰ

2005 ء میں زلزلہ آیا تو دنیا کی باقی طبی امداد کے ساتھ ساتھ ‘کیوبا سے بھی ڈاکٹر آئے۔ ان کی تعداد دو ہزار کے لگ بھگ تھی۔نامساعد حالات اور دشوار گزار علاقوں میں ان ڈاکٹروں نے جانفشانی کے ساتھ کام کیا۔ان کی کارکردگی پاکستان بھر میں اور بیرون ملک بھی سراہی گئی۔رابطے کا سلسلہ چلا تو کیوبا نے پاکستانی طلبہ کے لیے میڈیکل تعلیم کی پیشکش بھی کی۔چنانچہ کثیر تعداد میں ہمارے ہاں سے طلبہ ڈاکٹری کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے وہاں گئے۔ اس سال مئی میں تین سو ڈاکٹروں پر مشتمل پہلا گروہ تعلیم مکمل کر کے واپس آیا۔ ان میں سے 145طلبہ نے گولڈ میڈل حاصل کیا تھا۔ کچھ عرصہ سے کیوبا میں زیر تعلیم یہ ڈاکٹر مسلسل رابطہ کر رہے ہیں۔واپس آنے کے بعد ہائر ایجوکیشن کمیشن اور پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل(پی ایم ڈی سی) کی طرف سے ان ڈاکٹروں کو مشکلات کا سامنا ہے۔کیوبا سے ڈگری حاصل کرنے والے یہ ڈاکٹر نیشنل ایگزامی نیشن بورڈ کے ٹیسٹ سے استثنیٰ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔متعلقہ حلقوں پر لازم ہے کہ اس ضمن میں ان ڈاکٹروں کے نمائندوں سے مذاکرات کریں۔ مثبت رویے اور فراخ دلی کا مظاہرہ کریں اور جس رعایت کی بھی قانون اجازت دیتا ہے وہ...

عزت؟ مائی فٹ!

یہ ہم میں سے نہیں ! بخدا یہ ہم میں سے نہیں! ہم ان میں سے نہیں ! ہمارا ان سے کوئی تعلق ہے نہ ان کا ہم سے۔ جانے پہچانے مشہور و معروف سیاست دان کے فرزند نے یونیورسٹی کے انٹری ٹیسٹ میں اپنی جگہ کسی اور کو بٹھایا۔ پوچھ گچھ ہوئی۔ یونیورسٹی سے نکال دیے گئے۔ پریس نے ’’ دونمبری‘‘ کی سرخی جمائی۔ایک آدھ دن میں اس واقعے کی پشت پر گہری سازش کا واویلا کیاجائے گا۔ چند دن مزید گزریں گے۔ دونمبری فراموش کردی جائے گی۔ جو معزز ہیں وہ معزز ہی رہیں گے۔ کسی کو اچھا لگے یا مرچیں لگیں، کوئی مانے یا نہ مانے ، کوئی تیوری چڑھائے یا آستینیں چڑھا کر میز پر مکہ مارے ، منہ سے جھاگ نکالے اور گلے کی رگیں سرخ کرلے، سچ جو دلوں میں ہے، زبانوں پر آئے یا نہ آئے ، یہ ہے کہ یہ کلاس کا مسئلہ ہے۔ سیاست دان ایک کلاس بن چکی ہے۔ غضب خدا کا ، یہ اپنا پیشہ بھی سیاست بتاتے ہیں۔ گویا ذریعہ معاش ہے۔ ’’ہم سیاسی لوگ ہیں‘‘ تکیہ کلام ہے۔ قانون تو وہ قالین ہے ہی جس پریہ چمکتے دمکتے پالش شدہ جوتے لے کر چلتے ہیں۔ آئین تو وہ چھڑی ہے ہی، جسے یہ ہاتھ میں رکھتے ہیں اور تشریف فرمایا دراز ہوتے وقت کسی بھی کونے میں دیوار کے ساتھ کھڑا کردیتے ...

خودکشی کا ایک اور طریقہ

اس ملک کی قومی آمدنی کا جو حصہ سائنس کی ریسرچ اور ترقی پر خرچ کیاجارہا ہے‘ اس کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ ہر دس لاکھ افراد میں سائنسی مطبوعات کے حوالے سے یہ ملک دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔ اس کے ہر دس ہزار ملازمین میں ایک سو چالیس سائنس دان ہیں یا انجینئر۔ یہ تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ امریکہ میں یہ تعداد 85 اور جاپان میں 83ہے۔ ہفتہ روزہ ’نیوزویک‘ نے اس ملک کے ایک شہر کو ٹیکنالوجی کے اعتبار سے دس با اثر ترین شہروں میں شمار کیا ہے۔ اس کی سات یونیورسٹیاں صرف ریسرچ کے لیے مخصوص ہیں۔ پانچ یونیورسٹیاں دنیا کی ٹاپ کی پچاس یونیورسٹیوں میں شمار ہورہی ہیں۔ اس ملک کے نصف درجن سائنس دان کیمسٹری میں نوبیل انعام حاصل کر چکے ہیں۔ اقتصادیات اور دیگر شعبوں میں انعام اس کے علاوہ ہیں۔ صرف ملٹری کے حوالے سے دس ہائی ٹیک کمپنیاں رات دن کام کررہی ہیں۔ آئی ٹی، ٹیلی کمیونی کیشن، میڈیسن اور دوسرے شعبوں میں مصروف ہائی ٹیک کمپنیاں اس کے علاوہ ہیں۔ 2012ء میں یہ ملک دنیا بھر میں دوسرا تعلیم یافتہ ترین ملک قرار دیاگیا ۔ تعلیم کے شعبے میں جتنی بھی سرمایہ کاری ہورہی ہے اس کا 78فیصد اس ملک کی حکومت مہیا کرر...

روٹی اور سیب

26ستمبر۔ نیو یارک میں آمد۔ نیویارک کے میئر بل ڈی بلاسیو سے ملاقات۔ نیشنل کینسرانسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر نوبل انعام یافتہ سائنسدان ہیرلڈ ایلیٹ وارمس سے ملاقات۔ 27ستمبر۔ گرائونڈ زیرو اور نائن الیون کی یادگار پر آمد۔ جنرل اسمبلی کے69ویں سیشن سے خطاب۔ سری لنکا، نیپال اور بنگلہ دیش کے سربراہان حکومت سے دو طرفہ ملاقاتیں۔ نیویارک کے سابق میئر مائیکل بلوم برگ سے ملاقات، سنٹرل پارک میں سالانہ گلوبل سٹیزن فیسٹیول سے خطاب۔ نمایاں بھارت نژاد امریکیوں سے ملاقات۔ نیویارک سائوتھ کیرولینا اور میری لینڈ کی ریاستوں کے گورنروں سے الگ الگ ملاقاتیں۔ 28ستمبر۔ مین ہٹن کے وسط میں واقع میڈلین سکوائر میں منعقدہ بھارتی امریکیوں کے اجتماع سے خطاب۔ امریکہ اورکینیڈا میں سکھ برادری کے نمائندوں سے ملاقات۔ دس ممتاز بھارت نژاد امریکیوں سے ملاقات۔ امریکی یہودی برادری کے نمائندوں سے ملاقات۔ بھارتی سفیر کی طرف سے دیے گئے ڈنر میں شرکت جس میں تمام ممتاز بھارت نژاد امریکی موجود تھے۔ 29ستمبر۔ گیارہ بڑی ا مریکی کمپنیوں کے سربراہوں کے ساتھ ناشتہ ۔ چھ بڑی کمپنیوں کے سربراہوں کے ساتھ الگ الگ (ون ٹو ون) ملاقاتیں۔ ان کمپنیوں میں...