اشاعتیں

اگست, 2014 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

اگر……

اگر ظہیرالدین بابر کابل ہی میں رہتا۔ اگر ابراہیم لودھی کے پاس بھی توپ خانہ ہوتا، کیا خبر ہماری یعنی برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ مختلف ہوتی! شیر شاہ سوری نے پانچ سال میں جو کچھ کیا، بہت سے دوسرے حکمران چالیس سال میں بھی اتنا نہ کرپائے۔اگر اسے بھی بیس پچیس سال مل جاتے! اگر اورنگزیب کے بجائے دارا بادشاہ بنتا اور اکبر کی پالیسیاں جاری رکھتا! اگر اورنگزیب آخری پچیس سال دکن میں نہ گزارتا اور شمال میں رہ کر سلطنت کو مستحکم کرتا! اگر مغلوں کے پاس ایک طاقت ور نیوی ہوتی اور انگریز، فرانسیسی اور پرتگالی برصغیر کے ساحلوں پر قدم نہ جماسکتے۔ اگر بنگال‘ بہار اور اڑیسہ کی دیوانی (مالیات) ایسٹ انڈیا کمپنی کونہ دی جاتی! اگر برصغیر کے سارے حکمران انگریز ’’تاجروں‘‘ کے مقابلے میں متحد ہوجاتے! اگر ٹیپو کی پکار پر نپولین مصر سے آگے بڑھتا اور برصغیر تک پہنچ جاتا! اگر عثمانی ترک ٹیپو کی مدد کو پہنچ جاتے ! اگر نظام اور مرہٹے ٹیپو کا ساتھ دیتے ! اگز ولزلے انگریزوں کو ہندوستانیوں کے ساتھ معاشرتی اختلاط سے منع نہ کرتا، اگر انگریز اور ہندوستانی 1800ء کے بعد بھی سماجی رابطے رکھتے اور باہ...

عزت دار ملکوں میں

نیو سائوتھ ویلز آسٹریلیا کا مشرقی صوبہ ہے۔اس کا دارالحکومت سڈنی ہے۔سڈنی کی اہمیت آسٹریلیا میں وہی ہے جو نیو یارک کی امریکہ میں‘بمبئی کی بھارت میں اور کراچی کی پاکستان میں ہے۔صدر مقام تو آسٹریلیا کا کینبرا ہے لیکن مالی ‘تجارتی‘صنعتی اور ایک اعتبار سے سیاسی حوالے سے بھی‘سڈنی پہلے نمبر پر ہے۔نیو سائوتھ ویلز کے وزیر اعلیٰ کی بھی ملک میں بہت زیادہ اہمیت ہے کیونکہ وہ اہم ترین صوبے کا حاکم اعلیٰ ہے۔ اپریل 2011ء میں لبرل پارٹی کا ایک سیاستدان ’’او۔فیرل‘‘ صوبے کا وزیر اعلیٰ منتخب ہوا۔اپریل 2014ء میں اس کی حکومت کو تین سال مکمل ہوئے اور اسی مہینے اس پر ’’کرپشن‘‘ کا الزام لگ گیا۔آسٹریلیا کا محکمہ جو کرپشن کے خلاف تحقیقات کرتا ہے‘ آئی سی اے سی (INDEPENDENT COMMISSION AGAINST CORRUPTION)کہلاتا ہے ‘ اس محکمے نے وزیر اعلیٰ کو دھر لیا۔یہ کرپشن بیرون ملک جائیداد خریدنے کی تھی نہ اپنا بزنس بڑھانے کی۔نہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو سے ایک دن نئے قوانین جاری کرنے اور دوسرے دن فائدہ اٹھانے کے بعد ان قوانین کو منسوخ کرنے کی‘نہ اپنی فیکٹریوں کے بنے ہوئے لوہے کی فروخت کی‘ نہ الیکشن میں دھاندلی کی‘ نہ چودہ...

قبیلہ

قبیلہ دو دھڑوں میں بٹ گیا۔ معمولی سا جھگڑا تھا۔ پھیلتے پھیلتے لڑائی میں تبدیل ہو گیا۔ مارپیٹ ہوئی۔ سر پھٹول ہوا۔ لاٹھیاں چلیں۔ پھر بندوقوں کی نوبت آ گئی۔ کچھ مارے گئے۔ چند زخمی ہوئے۔ آپس میں بول چال بند ہو گئی۔ یہ حالات تھے جب ایک اور قبیلے نے دو دھڑوں میں بٹے ہوئے اس قبیلے پر حملہ کردیا۔حملہ کرنے کی دیر تھی کہ دونوں دھڑے اکٹھے ہو گئے۔ سارے جھگڑے بھلا دیے گئے۔ قتل تک معاف ہو گئے۔ اب مسئلہ دھڑوں کا نہیں‘ پورے قبیلے کا تھا۔ متحد ہو کر دوسرے قبیلے کا مقابلہ کیا گیا۔ وہی قبیلہ جو آپس میں لڑ رہا تھا‘ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑا ہو گیا۔ کوئی رخنہ رہا نہ جھگڑا۔  یہ جو میاں نوازشریف وزیراعظم پاکستان سابق صدر آصف زرداری کو ہیلی پیڈ سے خود ڈرائیو کر کے رائے ونڈ محل میں لے گئے‘ یہ جو ان کا ایسا استقبال ہوا جیسا بادشاہوں کا ہوتا ہے‘ یہ جو ان کے اعزاز میں فش کباب‘ مٹن کباب‘ چکن اچاری‘ آلو گوشت‘ آلو کی بھجیا‘ چاول ‘ملائی بوٹی‘ مٹن قورمہ‘ مٹن بریانی‘ سری پائے‘ پالک پنیر بھرے ٹینڈے‘ چار پانچ قسم کی سبزیاں‘ ہرن کا گوشت‘ قیمہ بھرے کریلے‘ بھنے بٹیر‘ افغانی پلائو‘ سندھی بریانی‘ سندھی...

روحوں کا انتظار

لطف اللہ خان 1916ء میں چنائی (مدراس) میں پیدا ہوئے۔ والد سائوتھ انڈین ریلوے میں ملازمت کرتے تھے۔ تلاش روزگار میںلطف اللہ خان نے بمبئی اور حیدرآباد کے سفر کیے۔ تقسیم ہوئی تو کراچی آ گئے۔ لطف اللہ خان نے کتابیں بھی تصنیف کیں۔ میوزک میں بھی کام کیا، درباری راگ کے ماہر تھے۔ لیکن ان کی وجہ شہرت آوازوں کا اکٹھا کرنا تھا۔1951ء میں انہوں نے 1046 روپے دس آنے میں ٹیپ ریکارڈر اور22 ٹیپیں خریدیں۔ اور سب سے پہلے اپنی والدہ کی آواز ریکارڈ کی۔ اس کے بعد انہوں نے پلٹ کر نہیں دیکھا۔ سیاست، شاعری، نثر، مذہب، موسیقی، ہر شعبے کے مشاہیر کی آوازیںریکارڈ کیں اور پھر اس طریقے  سے محفوظ کیں کہ کوئی آواز کسی بھی وقت چند منٹوں میں نکال کر سنوا سکتے تھے۔ قائداعظم، گاندھی، علامہ رشید ترابی، ابوالکلام آزاد سے لے کر سید عطاء اللہ شاہ بخاری اور مفتی محمد شفیع تک، فیض سے لے کر جگن ناتھ آزاد، اخترالایمان، جگر اور جوش تک، پطرس بخاری، امتیاز علی تاج، راجندر سنگھ بیدی، چراغ حسن حسرت، ڈاکٹر ذاکر حسین، صادقین، جمی انجینئر، کسی بھی شعبے کا کوئی قابل ذکر شخص انہوں نے نہ چھوڑا۔ 2012ء میں جب لطف اللہ خان کا انتقا...

یہ گھڑی ہے دن کے زوال کی

بادشاہ ننگا تھا۔ سر سے پیر تک الف ننگا۔ لیکن جلوس میں شامل عمائدین اور دو رویہ کھڑے امراء اس کے لباس کی تعریف کررہے تھے۔ واہ واہ ! کیا دیدہ زیب شاہی لباس ہے ! تعریف کرنے والے وہ تھے جن کے مفادات بادشاہ سے وابستہ تھے۔ ثابت ہوا کہ لغت مفادات کی محتاج ہے۔ اگر مفاد کا معاملہ ہے تو برہنگی کا معنی بدل جائے گا۔ اگر درباری امراء برہنگی کو برہنگی کہہ دیتے تو عہدے چھن جاتے۔ ہاتھی گھوڑے لے لیے جاتے۔ محلات خالی کرالیے جاتے۔ چنانچہ لغت تبدیل کرلی گئی۔ برہنگی کا معنی دیدہ زیب لباس ہوگیا۔  لغت کے ساتھ یہ ’’ حسنِ سلوک‘‘ آج کل بھی زوروں پر ہے۔ بار بار اعلان ہورہے ہیں کہ ساری اپوزیشن حکومت کے ساتھ ہے۔ گویا جو لوگ حکومت کی پالیسیوں کے خلاف دھوپ اور بارش میں کھلے آسمان تلے دھرنا دے رہے ہیں‘ وہ اپوزیشن میں نہیں ہیں اور پارلیمنٹ میں بیٹھا ہوا طبقہ جو سر سے پائوں تک مفادات کی زرہ میں محفوظ و مامون ہے، اپوزیشن ہے۔ ہمیشہ اپنی پسند کی وزارتوں پر اصرار کرنے والی جے یو آئی بھی اپوزیشن میں شمار کی جارہی ہے اور پیپلزپارٹی بھی !   ؎ لغت میں ہجر کا معنی بدل ڈالا کسی نے  کہ اب کے وصل میں اظہار ت...

بہت میلی کچیلی

جناب وزیراعظم!  گزشتہ دو ہفتے شدید ذہنی دبائو کا شکار رہا۔ اپنے آپ کو اس افسوسناک واقعے کا ذمہ دار سمجھتا ہوں۔ مجھے اس کی ذمہ داری قبول کرنا ہوگی! ایک باعزت مشرقی جنٹل مین کی حیثیت سے میں سمجھتا ہوں کہ مجھے اس غلطی کی بھاری قیمت ادا کرنی چاہیے اور اس کی صرف ایک ہی صورت تھی کہ میں اپنی زندگی ختم کردوں۔ سو کر رہا ہوں۔  آپ کا مخلص  وزیر قومی ترقی  جون کے ایک گرم دن جب 1959ء میں لی کوان ییو اور اس کے ساتھیوں نے سنگاپور کی کابینہ کا حلف لیا تو سب نے سفید قمیضیں اور سفید پتلونیں پہنی ہوئی تھیں۔ یہ علامت تھی اس ارادے کی کہ یہ حکومت صاف ستھری ہوگی اور کرپشن سے یکسر پاک۔ لوگ بھی یہی توقع کر رہے تھے کہ یہ کابینہ ذاتی اور پبلک دونوں زندگیوں میں دیانت دار ہوگی۔  لی نے سب سے پہلے سی پی آئی بی (Corrupt Practices Invenstgation Bureau) کی تنظیم نو کی۔ یہ ادارہ انگریز حکومت نے بنایا تھا لیکن یہ تھانیداروں اور انسپکٹروں کے پیچھے پڑا رہتا تھا۔ لی کی حکومت نے فیصلہ کیا کہ نچلی سطح پر کرپشن ختم کرنے کے لیے قوانین تبدیل کریں گے‘ صوابدیدی اختیارات ختم کریں گے اور بہت سی...

خانہ بندوشوں کے خلاف سازش

جو لوگ اس خوش فہمی میں ہیں کہ آزادی مارچ اور انقلاب مارچ تبدیلی لانے کے لیے کیے جا رہے ہیں وہ اس کہانی کو یاد کریں جس میں ایک کمبل پوش دیہاتی میلہ دیکھنے گیا تھا۔ میلے میں کمبل چوری ہو گیا۔ واپس آ کر اُس نے دہائی دی کہ میلے کا یہ سارا کھڑاک اُس کا کمبل چرانے کے لیے برپا کیا گیا تھا۔ عمران خان کا آزادی مارچ اور ڈاکٹر طاہرالقادری کا انقلاب مارچ بھی چند مخلصین کو پراگندہ خاطر کرنے کے لیے برپا کیا جا رہا ہے۔ یہ مخلصین وہ سیاسی مسافر ہیں جو بستر سروں پر رکھے‘ پوٹلیاں بغل میں دبائے‘ بقچیاں ہاتھوں میں اٹھائے نون لیگ کے خیمے میں ابھی ابھی آئے تھے۔ انہیں جیسے ہی معلوم ہوا کہ نون لیگ قوم کی بقا کے لیے اشد ضروری ہے‘ وہ ایک لمحہ کی تاخیر گوارا کیے بغیر اس میں شامل ہو گئے۔ ہمارے ایک دوست شہاب ہاشمی نے سوشل میڈیا کی دیوار پر پانچ تصویریں آویزاں کی ہیں۔ پہلی تصویر میں محترمہ ماروی میمن جنرل پرویز مشرف کے ساتھ کھڑی ہیں۔ جنرل صاحب بادامی رنگ کی پتلون اور نیلی قمیض زیب تن کیے‘ جیبوں میں ہاتھ ڈالے کھڑے ہیں۔ دوسری تصویر میں محترمہ ہنزہ کی ٹوپی پہنے آسمانی رنگ کے دوپٹے میں ملبوس چودھری شجاعت ک...

لیکن اُسے جتا تو دیا‘ جان تو گیا

’’پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے اعتماد کا ووٹ لیں‘‘۔ یہ ہے وہ مشورہ جو اسفند یار ولی خان نے وزیراعظم کو دیا ہے۔ یہ ایک خالص ’’جمہوری‘‘ مشورہ ہے جو مفت دیا گیا ہے۔ اسفند یار ولی خان کی اپنی پارٹی میں بھی مثالی جمہوریت ہے۔ آپ پارٹی کے مرکزی انتخابات میں پانچویں بار پارٹی کے ’’بلا مقابلہ‘‘ صدر منتخب ہوئے ہیں۔ ایسے ہی انتخابات کے نتیجہ میں حسنی مبارک، حافظ الاسد ان کے صاحبزادے بشار الاسد اور صدر قذافی سالہا سال کیا، عشروں تک ’’بلا مقابلہ‘‘ منتخب ہوتے رہے۔ ہارون الرشید جب لکھتے ہیں کہ اے این پی ایک صدی سے پختونوں کو لسانی اور نسلی تعصب کا سبق پڑھا رہی ہے تو سو فی صد سچ ہے۔ ایک با صلاحیت کمیونٹی کو، جو پورے برصغیر میں صدیوںسے ٹیلنٹ ثابت کر رہی ہے، ایک صوبے میں کیا، ایک صوبے کے چند حصوں میں مقید کر کے رکھ دیا۔ یہاں تک کہ صوبے کا چیف منسٹر لگانا ہو یا کراچی سے سینیٹر بنوانا ہو، اپنے ہی خاندان کو فوقیت دیتے رہے ہیں۔ یہ سانحہ بھی ماضی قریب ہی میں ہوا کہ ان کے کارکنوں نے اردو میں بات سننے سے انکار کر دیا، اس لیے کہ پنجاب ہائی کورٹ نے کوئی بات کالا باغ ڈیم کے بارے میں کہہ دی تھی، اس کا غصہ بی...

کھیل کا منطقی انجام

غالب کو کیا علم تھا کہ سو ڈیڑھ سو سال بعد قسمت اس سے مذا ق کرے گی۔ جس فارسی کلام پر اسے ناز تھا اور جسے اس نے ’’نقش ہائے رنگ رنگ‘‘ کہا تھا ، کتاب فروشوں کے پاس ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے گا اور جس ’’ مجموعہ اردو ‘‘ کو بے رنگ کہا تھا وہ بیسٹ سیلر رہے گا۔ سو ڈیڑھ سو صفحات کا دیوان غالب (اردو) ادبی پیش منظر پر چھاپا ہوا ہے۔ لیکن ایک اور بھی کتاب ہے، سو ڈیڑھ سو صفحوں کی…یا شاید اس سے بھی ذرا مختصر، جس نے اپنے مصنف کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ پطرس بخاری نے انگریزی میں بھی بہت کچھ لکھا، لیکن مختصر کتاب مضامین پطرس، مزاح نگاروں میں پطرس کو سرفہرست رکھے ہوئے ہے اور رکھے رہے گی ! عمران خان اور طاہرالقادری کے عوامی جلوسوں پر بھانت بھانت کے تبصرے سن کر اور پڑھ کر پطرس یاد آگئے۔ مرزا نے بائیسکل کے بارے میں کمال کا فقرہ لکھا جو پامال اور زبان زد خاص و عام ہونے کے باوجود ہمیشہ تازہ رہتا ہے۔ سائیکل کی ہر شے بجتی ہے سوائے گھنٹی کے !! یہی کچھ ہمارے تجزیہ کار بھی کررہے ہیں۔ فوجی مداخلت یا عدم مداخلت کی بات بھی ہورہی ہے۔ جاوید ہاشمی کی رخصتی اور مراجعت پر بھی تبصرے ہورہے ہیں۔ طاہرالقادری کے ماضی اور یوٹرن لی...

صرف استعفیٰ؟

پیر کے دن کچہری ایک افسر کو ٹیلی فون کیا کہ ایک جائز کام کے لیے راستہ سہل کر دیں۔ معلوم ہوا کہ کنونشن سنٹر ڈیوٹی پر مامور ہیں۔ بات آئی گئی ہوگئی۔ یہ تو شام کی خبروں میں اور دوسرے دن کے اخبارات سے معلوم ہوا کہ کنونشن سنٹر میں وزیراعظم ’’ویژن 2025ء‘‘ کے سلسلہ میں تقریب سے خطاب کرنے آئے ہوئے تھے۔ چند دن پہلے ہمارے ایک قاری نے انگلستان سے شکوہ کیا کہ کالم نگار ’’چھوٹے چھوٹے‘‘ مسائل میں الجھ جاتے ہیں۔ یہ بھی ایک ’’چھوٹا‘‘ ہی مسئلہ ہے۔ حکومت کے سربراہ جہاں تشریف لاتے ہیں وہاں شاہراہیں تو بند ہوتی ہی ہیں۔ خلجی‘ تغلق اور شاہ جہان کے زمانوں کی یاد تازہ کرتے ہوئے حاجب اور نقیب چاروں طرف پھیل تو جاتے ہی ہیں اور ہٹو بچو کے شور سے کان تو پھٹتے ہی ہیں۔ ویژن 2025ء کا کمال دیکھیے کہ کچہریوں‘ تھانوں‘ دفتروں سے افسر اور اہلکار بھی‘ جائے ’’واردات‘‘ پر مامور کر دیے جاتے ہیں۔ سائل جائیں بھاڑ میں اور حکومت کا کاروبار جائے جہنم میں۔ یہ تو ’’ویژن‘‘ کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ اگر ویژن نہ ہو تو کیا ہوگا!  اب دوسری طرف انقلاب کے ضمن میں بھی ایک ’’چھوٹی‘‘ سی خبر دیکھ لیجیے تاکہ انقلاب کی حقیقت بخوبی سمجھ می...

پیٹ خلقت کا

بوکھلاہٹ طاری ہو جائے تو ہر قدم الٹا پڑتا ہے۔ ہر کام غلط ہوتا ہے۔ ابھی تو یہی طے نہیں ہوا کہ ماڈل ٹائون میں چودہ لاشیں گرانے کا ذمہ دار کون ہے۔ اس سے زیادہ ضروری کام حکمرانوں کو یہ لگ رہا ہے کہ کینیڈا کی حکومت کے ساتھ ڈاکٹر طاہرالقادری کی غیر ملکی شہریت کا معاملہ اٹھائیں اور یہ تفتیش کریں کہ اس مذہبی لیڈر کے ٹیکس کے کیا واجبات ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ٹیکس ادا کرنے والوں سے ایک ایک پائی واجبات وصول کرنا تو آپ کی ذمہ داری ہے۔ اس کے لیے آپ نے پہلے طاہرالقادری کو چھوٹ کیوں دی؟ اور اس بات کا انتظار کیوں کیا کہ وہ لاہور پر چڑھائی کریں پھر آپ کی ٹیکس وصول کرنے والی مشینری حرکت میں آئے؟ رہی غیر ملکی شہریت تو اگر آپ کی حکومت کو اس بات پر اعتراض نہیں کہ آئینی مناصب پر غیر ملکی شہریت رکھنے والے افراد متمکن ہیں جن کے سامنے حساس دفاعی اداروں کے مکمل کوائف پیش کیے جاتے ہیں تو کسی اور پر اس حوالے سے کیا اعتراض کر سکتے ہیں!  پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ جو بھی حکومتِ وقت ہو گزشتہ حکومتوں سے سبق نہیں سیکھتی۔ ہر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ کنٹینر اور پولیس اسے بچا لیں گے۔ کراچی میں کنٹینروں سے شہر کو ...

جھکی ہوئی ٹہنی سے ٹپکتے قطرے

  بریگیڈیئر نیاز احمد سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی‘ ان کا دائرہ الگ تھا۔اس دائرے میں داخل ہوئے نہ کبھی کوشش ہی کی۔ہاں‘جب بھی سنا‘ ان کا نام طاقت ور لوگوں کے حوالے سے سنا۔شریف برادران! جنرل پرویز مشرف!بشری کمزوری ہے اور عین انسانی فطرت کے مطابق کہ جو افراد طاقت ور اصحاب سے وابستہ ہیں ‘ ان سے مرعوب ہوا جائے۔بریگیڈیئر صاحب ایمبیسی روڈ پر رہتے تھے اور ایک ایسے گھر میں رہتے تھے جس کا‘ ان کے اکثر ہم مرتبہ سرکاری ملازم بھی بس خواب ہی دیکھ سکتے تھے۔ ان کے پڑوس میں لتھوانیا کے اعزازی سفیر مسعود خان رہتے ہیں۔ دوست ہیں اور کرم فرما۔ ان کی بیگم‘بھابھی ڈاکٹر اسمارا جب بھی ہمارے ہاں آتیں‘ والدِ مرحوم کو‘ کہ ضعف کا ان پر غلبہ رہنے لگا تھا‘اصرار کر کے کھانا کھلاتیں۔ ایک بار مسعود خان کے ہاں بیٹھے تھے کہ انہوں برسبیل تذکرہ بتایا کہ صدرِ مملکت ان کے پڑوس میں بریگیڈیئر صاحب کے گھر آتے ہیں۔بریگیڈیئر صاحب کے داماد عمار‘ جو ٹی وی کے جانے پہچانے کمپیئر ہیں‘ محبت سے پیش آتے ہیں۔ایک کالم بہت زیادہ پسند آیا تو کہیں سے ٹیلی فون نمبر حاصل کر کے بیرون ملک فون کیا اور داد دی۔بس یہ ہے سارا حدود اربعہ بریگیڈیئر...

سسٹم چلتا رہے

تصویر

نوحہ

کباب کھانے کو دل کر رہا ہے ۔ اور وہ بھی شیر کی ران کے ۔پکانے کے لیے ایندھن بھی درکار ہے۔یہ ایندھن جمشید اور کیقباد کے تخت کی لکڑی سے ہونا چاہیے! سناہے قُم میں شراب میسر نہیں۔ خدا کے لیے تیز تیز قدم اٹھائو اور مجھے رَے سے شراب لا کر دو۔ اگر شراب کا ساغر اژدہا کے منہ میں بھی ہے تو بس‘ہمت کرو اور نکال کر لے آئو۔ اور ہاں!غلام! سن‘ گھوڑے سے زین اتار کہ آج شکار پر نہیں جانا۔ اور اس بات کا بُرا نہ منا کہ آج ہم سوار نہیں ہو رہے کیوں کہ اصل میں تو پیادہ وہ ہے ‘جو مے نوشی پر سوار نہیں۔ اور ہاں!آسمان نیاز مندی کے لیے حاضر ہو تو اسے اشارہ کر دینا کہ آج حاضری کی اجازت نہیں۔ یہ شاعری قاآنی کی ہے جو شیراز میں 1808ء میں پیدا ہوا اور تہران میں 1854ء میں وفات پا گیا۔نام حبیب اللہ تھا ۔نقاد کہتے ہیں کہ جامی کے بعد اتنا قادر الکلام شاعر کوئی نہیں پیدا ہوا اورجامی تو ساڑھے تین سو سال قبل 1492ء میں (سقوط غرناطہ کے سال) وفات پا گئے تھے۔قاآنی کو پڑھیں تو انسان حیرت میں گم ہو جاتا ہے کہ الفاظ کس طرح اس شخص کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہیں۔ یہاں ہم قاآنی کے ایک مرثیہ کا ذکر کرنا چاہتے ہیں جو ایک ...