اشاعتیں

مئی, 2014 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

تدبّر یا تکّبر؟

انتہا پسند ہندو‘جلد یا بدیر‘وزیر اعظم مودی سے بددل ہوں گے۔ اگر اس بددلی کا آغاز وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے دورے سے ہو گیا ہے تو اس میں پاکستان کو کیا گھاٹا ہے؟ میز کے اس طرف سائل ہو کر بیٹھنے میں‘ اور میز کے دوسری جانب حاکم ہو کر بیٹھنے میں بہت فرق ہے۔نظر کا زاویہ بدل جاتا ہے ۔اشیا کا حجم تبدیل ہو جاتا ہے۔ وہ جوپہلے انگور کا دانہ لگتا تھا ‘ اب تربوز دکھائی دیتا ہے۔ہم ماضی قریب میں اس کی مثال دیکھ چکے ہیں۔پنجاب کے وزیر اعلیٰ پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران ہر وقت علی بابا چالیس چور کا نعرہ لگاتے تھے۔یہاں تک کہا گیا کہ ہم زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹیں گے۔لوڈ شیڈنگ کے ایشو کو نمایاں کرنے کے لیے دفاتر خیموں میں منتقل ہوئے۔لیکن اقتدار میں آنے کے بعد سب کچھ بدل گیا۔کسی نے سڑکوں پر گھسیٹا نہ کوئی اور حساب کتاب ہوا۔یہاں تک کہ جن آئینی مناصب پر پیپلز پارٹی نے اپنے انتہائی متنازع افسروں کو فائز کیا تھا ‘انہیں ہٹانے کے لیے مسلم لیگ نواز کی حکومت نے خفیف سی حرکت تک نہ کی!اس لیے کہ اقتدار میں آنے کے بعد ترجیحات بدل گئیں۔ سیاہ سفید اور سفید سیاہ ہو گیا۔ اب لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاج تو کیا‘اس کا...

This country is going to.....

                                            وزیراعظم پاکستان نے پڑوسی ملک کے دورے کی دعوت قبول کی ہے۔ کچھ حلقوں کی طرف سے اسے متنازع بنایا جا رہا ہے۔ یہی آج کی تحریرکا موضوع ہونا تھا اور یہ بھی عرض کرنا تھا کہ یہ جو خبریں لگ رہی ہیں کہ 64 فیصد پاکستانیوں نے بھارت جانے کی مخالفت کی ہے تو ان خبروں کی حقیقت کیا ہے؟ لیکن کل شام کو دارالحکومت میں رہنے والے ایک نوجوان نے اپنے ساتھ ہونے والے جس واقعہ کا ذکر کیا‘ اُسے سننے کے بعد آہ و فغاں کے مقامات تبدیل ہو گئے ہیں!  یہ نوجوان جو آئی ٹی کا ماہر ہے اور جسے اُس کے بقول اس کے اساتذہ نے نصیحت کی تھی کہ بیرونِ ملک نہ سدھارنا اور اپنے وطن کی خدمت کرنا اور جس نے اس نصیحت کو قبول کر لیا تھا‘ دو دن پہلے ایک بازار میں کام سے گیا۔ ابھی اس نے اپنی ’’مڈل کلاس‘‘ گاڑی پارک ہی کی تھی کہ بھرے بازار میں ایک شخص نمودار ہوا۔ اس کے ہاتھ میں کلاشنکوف تھی۔ اس نے نوجوان سے کہا کہ یہاں سے گاڑی ہٹائو۔ نوجوان نے پوچھا‘ کیوں؟ اس پر مخصوص لسانی گروہ سے ت...

تاجرو! خدا کا خوف کرو

راجہ منصور احمد صاحب کی دختر نیک اختر لندن میں قیام پذیر تھی۔ اس نے اپنے والد کے لیے ایک کوٹ بھیجا۔ راجہ صاحب نے پہنا تو ان کے ماپ سے کوسوں دور تھا۔۔۔ بے حد کھلا اور لمبا۔ انہوں نے صاحبزادی کو سرزنش کی کہ ماپ لیا‘ نہ ہی یہ پوچھا کہ ضرورت بھی ہے یا نہیں! کوٹ اعلیٰ درجے کے برانڈ کا تھا۔ اپنی اولاد کا پیسہ خرچ ہو تو فیاض سے فیاض شخص کو بھی رنج پہنچتا ہے۔ صاحبزادی ہنسی اور کہنے لگی: ابا جان! جب بھی لندن آئیے گا یہ بدل لیں گے۔ راجہ صاحب کا موڈ اور بھی خراب ہو گیا۔ ان کا مستقبل بعید میں بھی لندن جانے کا پروگرام نہیں تھا۔ انہوں نے نئی نسل کے خرچیلے پن کی تضحیک کی۔ کوٹ صندوق میں بند کیا، صندوق سٹور میں رکھا اور بات آئی گئی ہو گئی۔ دو سال گزر گئے۔ اتفاق ایسا ہوا کہ راجہ صاحب کو امریکہ کا سفر درپیش ہوا۔ صاحبزادی نے اصرار کیا کہ واپسی پر اس کے پاس انگلستان میں کچھ دن رکیں۔ نواسوں کی مہک، گلاب اور یاسمین سے زیادہ مسحور کن ہوتی ہے۔ بیٹی نے یاد دلایا کہ وہ متنازع کوٹ بھی لیتے آئیے گا۔ بحر اوقیانوس کو پار کر کے راجہ صاحب ہیتھرو ایئرپورٹ پر اترے تو معلوم ہوا کہ بیٹی کی فیملی برمنگھم منتقل ہو گئی ...

مانو نہ مانو جانِ جہاں!!

محلے کی بیوہ کے گھر آئے دن غنڈے گھس آتے تھے۔ تنگ آکر اس نے چودھری کو بتایا جو محلے کا کھڑپینچ بنا ہوا تھا۔ چودھری نے اسے مشورہ دیا کہ ایک سلائی مشین خرید لو تاکہ تمہارے مالی حالات بہتر ہوجائیں ! آپ کا کیا خیال ہے کہ اس مشورے سے غنڈوں کا تدارک ہوگیا ہوگا؟ یقینا نہیں! مالی حالات بہتر ہو بھی گئے تو غنڈوں کے حملوں میں اضافہ ہوگا کیوں کہ پہلے وہ صرف عزت لوٹنے کی نیت سے آتے تھے۔ اب وہ روپیہ لوٹنے بھی آئیں گے! آپ اس سادہ اور عام فہم معاملے کی تہہ تک آسانی سے پہنچ گئے ہیں لیکن حکومت کے وزراء کرام ان معاملات کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اس کی وجہ خدانخواستہ یہ نہیں کہ یہ وزراء کرام غبی ہیں اور ان کے آئی کیو ان کے دماغوں کے پیندوں کو چھو رہے ہیں! یہ سب ہوشیار لوگ ہیں اور اپنے اپنے کاروبار، دفاتر ، بزنس ایمپائرز ،جاگیریں ، زمینداریاں ، صنعتیں کمال چابک دستی سے چلارہے ہیں۔ یہ عوامی یعنی سرکاری معاملات کو سمجھنے سے اس لیے ’’ قاصر ‘‘ ہیں کہ اصل مقصد کرسی کو قائم رکھنا ہے اور وقت پورا کرنا ہے۔ جس حکومت کے سربراہ کا نظریہ یہ ہو کہ باغیوں کو نہ چھیڑو، وہ چھیڑیں تو جواب دے دو ، اس حکومت کے کارندے ...

جنگل میں دندناتے نہ پھریے

یہ کالم نگار اپنے اس موقف پر قائم ہے کہ ’’گلستانِ سعدی‘‘ ہر سکول اور ہر کالج میں‘ ہر نظامِ تعلیم کا‘ جزو لاینفک ہونی چاہیے۔ پرسوں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کا اجلاس منعقد ہوا۔ روداد پڑھی تو سعدی یاد آ گئے ؎  تا مرد سخن نگفتہ باشد  عیب و ہنرش نہفتہ باشد  ہر بیشہ گماں مبر کہ خالی ست  شاید کہ پلنگ خفتہ باشد  انسان کے عیب و ہنر اس کے بات کرنے ہی سے کھلتے ہیں! جنگل میں دندناتے نہ پھریے‘ چیتا کسی بھی گوشے میں سویا ہوا مل سکتا ہے!  چیتے کو پلنگ کہتے ہیں۔ اب اگر کوئی اس کا مفہوم یہ سمجھے کہ پلنگ کے نیچے کوئی سویا ہوا ہے تو ایسی ہی باتیں کرے گا جیسی قائمہ کمیٹی کے معزز ارکان کر رہے تھے۔ جائے عبرت ہے!  کمیٹی کے چیئرمین جناب مشاہد حسین دفاعی بجٹ کی طرف اشارہ کر کے لاکھ کہتے رہیں کہ یہاں اب کوئی مقدس گائے نہیں‘ خلقِ خدا اسے تفنن طبع پر ہی محمول کرے گی! جناب مشاہد حسین آٹھ سال… پورے آٹھ سال مقدس گائے کی سرپرستی فرماتے رہے۔ ان کی جماعت آٹھ سالہ فوجی حکومت کی نقیب تھی اور نقیب کا کام ہی شاہی سواری کی آمد کی خبر دینا ہوتا ہے! لیکن تعجب جناب فرحت الل...

نقش برآب

کہتے ہیں جاپانی ایک بار پاکستان آئے اور ایک دور افتادہ قصبے میں جب انہوں نے اپنی بنائی ہوئی سوزوکی پک اپ کے اندر بیس آدمی بیٹھے ہوئے اور بیس ہی باہر لٹکے ہوئے دیکھے تو انہیں معلوم ہوا کہ انہوں نے کیا زبردست سواری بنائی ہے۔اسی طرح شاعر مشرق آج ہوتے تو اپنی شاعری کی نئی تفسیریں دیکھ کر ضرور کہتے کہ وہ جتنے بھی بڑے شاعر تھے ‘اہل پاکستان نے انہیں اس سے بھی بڑا شاعر بنا دیا ہے۔یہی مصرع دیکھیے     ؎   جہانِ نو ہو رہا ہے پیدا وہ عالم پیر مر رہا ہے ہم اہل پاکستان نے جو جہان نو پیدا کیا ہے اس میں صدیوں پرانے محاورے‘ضرب الامثال ‘کہاوتیں ،بجھارتیں ‘ سب کچھ بدل چکا ہے۔یہ جو کہا جاتا تھا کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سال کی زندگی سے بہتر ہے تو یہ غلط ثابت ہو چکا۔ہمارے ٹائیگر جنرل نیازی نے ڈھاکہ میں اس محاورے کو بدل کر دکھایا اور اب اس میں ذرہ بھر اشتباہ نہیں کہ گیدڑ کی سو سال کی زندگی شیر کی ایک دن کی بیکارلڑائی سے بھر پور زندگی سے کئی درجے بہتر ہے۔پہلے اصول کی خاطر زندگیاں قربان کر دی جاتی تھیں اب اصول وہ ہے جس سے کچھ وصول ہو۔قائد اعظم کے زمانے میں ہماری قومی عمارت کے بن...

دانش سکولوں کی اصل قسم

گاڑی چلاتے ہوئے دو گھنٹے ہو چکے تھے۔خستگی اور ضعف غالب آ رہے تھے۔بائیں طرف ایک سبزہ زار تھا‘درختوں میں گھرا ہوا۔گاڑی ایک طرف کر کے روکی۔ایک چٹان نما پتھر سائے میں تھا۔اس پر بیٹھا اور بوتل سے پانی پینے لگا جو گرم ہو چکا تھا۔سہ پہر ابھی شام میں نہیں ڈھلی تھی لیکن درختوں کی چھائوں اور مسلسل چلتی ہوا نے خنکی پیدا کر دی تھی۔سبزہ زار کے دائیں طرف پہاڑیاں تھیں‘ ابر پارے آ جا رہے تھے۔دھوپ چھائوں کا منظر نامہ لحظہ لحظہ تبدیل ہو رہا تھا۔دفعتاً ایک خواہش نے دل میں انگڑائی لی۔ایک بان کی چارپائی ان درختوں کے نیچے ہوتی اور میں اس پر دراز ہو جاتا۔میں شہر میں بسنے والوں کی اس نسل سے تعلق رکھتا ہوں جنہوں نے بچپن‘درختوں کی چلتی چھائوں کے ساتھ ساتھ ‘بان کی کھردری چارپائیاں گھسیٹتے گزارا ہے۔ پیڑوں کے پتے ہل ہل کر سایہ بُنا کرتے تھے۔دھوپ میں بھی برکت ہوتی تھی۔درست ہے کہ اس وقت ہماری بستیوں میں برقی روشنی اور پنکھے نہیں تھے لیکن کسانوں کے پاس نقدی تو ہوتی تھی۔اب برقی روشنی ہے جو لوڈشیڈنگ کے عذاب میں دکھائی نہیں دیتی۔ہاں بِل آتے ہیں اور نقدی کسانوں کی جیب سے غائب ہو جاتی ہے۔  یوں آواز آئی جیسے موی...

زلیخا کی آنکھوں میں روشنی کس کی ہے؟

چودہ سو سال سے اسلام کے دشمن جو خواب دیکھ رہے تھے‘ وہ خواب اب انہیں جیتی جاگتی شکل میں نظر آنے لگا ہے۔  چودہ صدیوں سے پروپیگنڈہ ہو رہا تھا کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا۔ اسلام قتل و غارت کا مذہب ہے۔ اسلام میں عورتوں کا کوئی مقام نہیں۔ مسلمان عورتوں کی تعلیم کے دشمن ہیں۔ اسلام میں غلامی ایک باقاعدہ ادارہ ہے۔ لونڈیوں کی ریل پیل ہوتی ہے۔ ہر بات کا فیصلہ تلوار کرتی ہے۔ اختلافِ رائے کو برداشت نہیں کیا جاتا۔ اقلیتوں کو مار دیا جاتا ہے۔  چودہ صدیوں سے اسلام کے سکالر ان اعتراضات کا جواب دے رہے تھے۔ تقریروں‘ خطبوں‘ کتابوں کے ذریعے پروپیگنڈے کا توڑ کر رہے تھے۔ ثابت کر رہے تھے کہ اسلام میں قتل و غارت کیسے جائز ہو سکتی ہے جب کہ لشکروں کو اجازت ہی نہیں کہ بچوں‘ عورتوں اور لڑائی میں شریک نہ ہونے والے دشمنوں کو قتل کریں۔ انسانوں کا قتل تو دور کی بات ہے‘ درختوں‘ فصلوں اور روئیدگی تک کو نقصان نہیں پہنچایا جا سکتا۔ کھیت سے خوشہ توڑنے والے لشکری کا کان شیر شاہ سوری نے کاٹ کر‘ کان کٹے لشکری کو پورے پڑائو میں پھرایا تھا۔ ترک سلطان نے بغیر اجازت شلغم نکالنے والے سپاہی کو پھانسی دے دی تھی اور پ...

ہے کوئی ؟؟

                                                              مارگلہ کے کوہستانی سلسلے پربادل ہیں۔بارش تھم بھی جائے تو ہوا ان دنوں خوشگوار ہے۔ کیا خوبصورت شہر تھا جسے ہوس پرست سیاست دانوں اور بے ضمیر بیورو کریسی نے برباد کرکے رکھ دیا۔ حافظ شیرازی نے محبوبہ سے التماس کی تھی۔   ع زلف بر باد منہ تا نہ کنی بربادم زلف ہوا کے دوش پر نہ اڑا۔ میں برباد ہوجائوں گا۔ یہاں تو ظلم کی انتہا یہ ہوئی کہ زلف بھی نہ اڑی اور بربادی بھی ہوگئی۔ ایوب خان کے زمانے میں صدر مقام کراچی سے شمال کو منتقل ہوا تو کسی دل جلے نے کہا ۔ سمندر بھی اٹھا کے لے جائو !آج کے اقتدار کے بس میں ہوتا تواسلام آباد سے مارگلہ اور بادل تک چھین لیتے۔ نااہلی، انتہا کی نااہلی، کوتاہ اندیشی ، وژن کی کمی اور ابتذال کے لیے معذرت، دھنیا پی کر سوجانے کی لت ! عمران خان الیکشن کمیشن کو رو رہے ہیں۔ صاحب! الیکشن کمیشن کا ارتقا، ارتفاع اور نظافت تو دور کی بات ہے بہت دور کی بات ! جن ار...

فریب

                                                               لطیفہ پامال ہو چکا ہے لیکن مجبوری یہ ہے کہ صورت احوال پر اطلاق اسی کا ہو رہا ہے۔میرا سی کا لڑکا شہر سے پڑھ لکھ کر آیا تو اعلان کر دیا کہ شادی چودھری کی بیٹی ہی سے کرے گا ورنہ نہیں کرے گا۔مرتا کیا نہ کرتا‘میراسی چودھری کی خدمت میں حاضر ہوا اور بیٹے کو فرزندی کے لیے پیش کر دیا۔چودھری غصے سے لال بھبوکا ہو گیا۔خاص کارندوں کو بلایا اور حکم دیا کہ میراسی کا دماغ ٹھکانے لگایا جائے۔مکے‘ٹھڈے اور چانٹے پڑ رہے تھے تو میراسی کی پگڑی گر کر کھل گئی ۔مار پیٹ ختم ہوئی تو میراسی اٹھا اور پگڑی لپیٹتے ہوئے بولا ’’تو پھر چودھری صاحب!آپ کی طرف سے میں انکار ہی سمجھوں؟‘‘ پیپلز پارٹی پہلی بار اقتدار میں آئی تو چند دن کے بعد ہی اس کا بائیں بازو سے تعلق ٹوٹ گیا؛ تاہم ہماری ایک سینئر بی بی کو‘ کہ لکھاری ہیں‘ اس کے بارے میں اب معلوم ہوا ہے۔پیپلز پارٹی‘ کے فیصلہ سازوں نے حال ہی میں اعلان کیا ...

صحرا میں اذان

پنجاب کے موجودہ گورنر جناب محمد سرور 1952ء میں فیصل آباد کے ایک چھوٹے سے گائوں میں پیدا ہوئے۔ یہ گائوں پاکستان کی لاکھوں بستیوں کی طرح نکاس اور پینے کے صاف پانی سے محروم تھا۔1976ء میں محمد سرور برطانیہ ہجرت کرگئے اور سکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں مقیم ہوگئے۔ ہزاروں لاکھوں پاکستانیوں کی طرح وہ بھی خالی ہاتھ گئے تھے۔ انہوں نے کاروبار شروع کیا۔ خدا نے برکت ڈالی۔ ان کا ’’کیش اینڈ کیری‘‘ کا بزنس چمک اٹھا۔ پھروہ سیاست میں آئے۔ لیبر پارٹی میں شامل ہوگئے۔ کونسلر منتخب ہوئے اور پھر ایک دن برطانیہ کی پارلیمنٹ میں پہنچ گئے۔ یہ پہلے مسلمان رکن تھے اور پہلے رکن تھے جنہوں نے قرآن پاک پر حلف اٹھایا۔ یہ گلاسگو کے دو مختلف حلقوں سے چودہ سال تک پارلیمنٹ کے ممبر رہے۔ 1997ء سے 2005ء تک اور پھر 2005ء سے 2010ء تک۔ اسی اثناء میں ان کی سیاسی جماعت (لیبر پارٹی) پر دو سیاست دانوں کی قیادت کارفرما رہی۔ 1994ء سے 2007ء تک ٹونی بلیئر لیبر پارٹی کے سربراہ رہے ۔پھر گورڈن برائون نے لیبر پارٹی کی قیادت سنبھالی اور 2010ء تک پارٹی کے لیڈر رہے۔ کچھ عرصہ پہلے جب محمد سرور، برطانوی شہریت تیاگ کر پاکستان کے سب سے بڑے صوبے ...

تارکین وطن کی خدمت میں

پچاس پچپن کے پیٹے میں یہ شخص حواس باختہ تھا۔ جس ادارے میں اس کا بیٹا افسر تھا‘وہ ادارہ اپنے ملازموں کو غائب ہونے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔یہ جرم تھا اس کی سزا ملتی تھی۔امریکہ سے واپس آیا تو انہوں نے پکڑ لیا۔اب باپ پریشان تھا۔مقدمہ چلے گا اور سزا کچھ بھی ہو سکتی ہے۔پراگندہ خاطر باپ سے پوچھا:   ’’کیا آپ کو معلوم نہ تھا کہ لڑکی امریکہ میں مقیم ہے اور آپ کے بیٹے کا کیریئر حساس ہے اور قیمتی بھی۔‘‘ مجبور شخص کی آنکھوں میں ستارے جھلکنے لگے۔  ’’مجھ بدبخت کو تو معلوم ہی نہ تھا کہ و ہ شادی کر رہا ہے۔ امریکی لڑکی دیکھ کر وہ سب کچھ بھول گیا۔لڑکی والوں کو تو پاکستانی لڑکا مطلوب تھا۔شادی کے بعد یہ وہاں دو سال رہا۔ یہاں غیر حاضری لگتی رہی!‘‘ دوسرا واقعہ اس سے بھی زیادہ دلدوز ہے۔حمید (اصل نام نہیں)ہجرت کر کے شکاگو گیا تو بیٹی تین چار سال کی تھی۔وہیں پلی بڑھی‘ وہیں یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی۔ماں باپ بہلا پھسلا کر پاکستان لائے اور خالہ زاد سے شادی کر دی۔کچھ دن تو اس نے گزار لیے پھر واپس جانے کے خواب دیکھنے لگی۔احمق باپ نے داماد کو ’’نصیحت‘‘ کی کہ اس کا پاسپورٹ لے کر چھپا دو۔لڑکی کا پیمان...

دعائیں میرے نبیؐ کی

                                                      بینردیکھ کرآنکھیں چھلک اٹھیں ’’ہم اپنی مسلح افواج کے ساتھ ہیں‘‘سوچا، ان اہل تجارت کی کیا دلچسپی ہے مسلح افواج کے ساتھ ! یہ بازار میں بیٹھے لوگ جو ہر وقت کیلکولیٹر پر جمع اور تفریق کرتے رہتے ہیں اور زیادہ دلچسپی ضرب دینے میں رکھتے ہیں، انہیں کسی نے مجبور تو نہیں کیا کہ افواج پاکستان کے حق میں بینر لگائیں! لیکن جس بازار سے گزریں جڑواں شہروں میں بینر بہار دکھا رہے ہیں۔ اس خدا کی قسم ! جو عالم اسلام کی سب سے بڑی فوج کی حفاظت کرنے والا ہے، سینکڑوں بار یہ سطرسنی ہوگی   ع عدو شری بر انگیز کہ خیر ما درآن باشد مخالف شر انگیزی کرتا ہے لیکن خدا اس میں ہمارے لیے خیر کا سامان رکھ دیتا ہے۔ سینکڑوں بار یہ مصرع سنا، بیسیوں بار لکھا لیکن مفہوم اب سمجھ میں آیا۔ میڈیا گروپ سے غلطی ہوئی یا اس نے غلط حساب (Miscalculate)کیا، جو کچھ ہوا، اللہ نے اس میں خیر کا سامان رکھا۔ اس سانحہ سے ایک بار پھر ثابت ہوگیا کہ قو...

ٹوٹا ہوا تختہ‘ جانگیہ اور مگرمچھ

                                            ٹوٹی ہوئی کشتی کا صرف ایک تختہ بچا ہے جس پر وہ بیٹھا ہے۔ بدن پر جانگیہ رہ گیا ہے۔ باقی سب کچھ سمندر کی نذر ہو گیا ہے۔ تختہ بہہ رہا ہے۔ اسے یقین نہیں کہ وہ خشکی تک پہنچ پائے گا۔ سمندر کا پانی ایک لمبی پٹی کی صورت زمین کے اندر تک چلا گیا ہے۔ پٹی کے دونوں طرف ویرانہ ہے۔ جنگلی جانور صاف نظر آ رہے ہیں   ؎  آبنائے خوف کے چاروں طرف ہے دشتِ مرگ  اب تو چارہ جان دینے کے سوا کچھ بھی نہیں  کون ہے یہ شخص؟ آپ اگر ابھی تک اسے نہیں پہچان پائے تو یا تو آپ تارکینِ وطن میں سے ہیں یا آبادی کی اس دو فی صد خوش قسمت اقلیت میں سے جو مراعات یافتہ تو ہے ہی‘ اس کے اردگرد حفاظتی حصار بھی قائم ہے۔ تارکینِ وطن کی اکثریت جسمانی طور پر دساور میں اور ذہنی طور پر پاکستان میں قیام پذیر ہے۔ جب پاکستان کے مسائل کا ذکر کیا جائے تو انہیں برا لگتا ہے اس لیے کہ جس جنت میں وہ رہتے ہیں‘ وہاں صرف خوشگوار ہوا‘ بہتے پانی اور رنگین پھولوں کی باتیں دل کو...

تبدیلی… افقی یا عمودی؟

                                                              روفی سے عزیز داری تھی۔ لائق لڑکا تھا۔ پڑھنے لکھنے والا۔ خطاط بھی تھا اور یہ طے ہے کہ خطاط اور کچھ ہو نہ ہو‘ ذہین ضرور ہوتا ہے۔ اس کے گھر میں زیادہ پڑھنے لکھنے کی روایت نہیں تھی لیکن جب ایک دن معلوم ہوا کہ روفی ماشاء اللہ لاہور کے ہیلی کالج آف کامرس میں پہنچ گیا ہے تو متاثر ہونا لازم تھا۔ وہ کامرس میں ماسٹرز کی ڈگری کے لیے پڑھ رہا تھا۔ ملاقات ہوئی تو اسے ایک ہی بات کہی۔ دیکھو… ٹارگٹ بلند رکھنا۔ لیکچرر شپ سے کم کا کبھی نہ سوچنا۔ ساری راہیں اسی سے پھوٹتی ہیں۔ مقابلے کا امتحان وہیں سے دیا جاتا ہے۔ پی ایچ ڈی کی صورت وہیں سے نکلتی ہے۔ نجی شعبے میں جانا ہو تو کمپنیوں والے جوہرِ قابل کو وہیں تلاش کرتے ہیں۔  ایک دن معلوم ہوا کہ روفی نے ماسٹرز کی ڈگری ادھوری چھوڑ دی اور ملازمت اختیار کرلی۔ پوچھنے پر وحشت اثر خبر یہ ملی کہ اکائونٹنٹ جنرل پنجاب کے دفتر نے آڈیٹر (کلرک) کی اسامی...