اشاعتیں

اپریل, 2014 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

پانی کے چند گھونٹ اور

                                              ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان ( ٹی ڈی اے پی ) میں کی   جانے والی کرپشن کا منصوبہ یوسف رضا گیلانی کے جیل کے ساتھی کے ساتھ مل کر تیار کیا۔ کرپشن کی 65 فیصد رقم سابق وزیراعظم اور وفاقی وزیرکے گروہوں میں تقسیم ہوتی تھی اور باقی 35 فیصد ٹی ڈی اے پی کے افسروں میں۔ 2008ء میں سابق وزیراعظم کے جیل کے ساتھی نے بتایا کہ جیل میں اس کی ملاقات یوسف رضا گیلانی سے ہوئی اور یہ کہ دونوں کے درمیان اچھے مراسم ہیں۔ پھر گیلانی وزیراعظم بن گئے تو ان کے جیل کے ساتھی نے مجھے کہا کہ کوئی کام بتائو۔ میں نے بتایا کہ 2002-03ء کی فریٹ سبسڈی سکیم کے کچھ کلیم تعطل کا شکار ہیں ، اگر وزیراعظم رقوم ریلیزکر دیں تو برآمد کنندگان سے کمیشن کی مد میں اچھی خاصی رقم مل سکتی ہے۔ جیل کے ساتھی نے وعدہ کیا لیکن یہ بھی بتایا کہ پہلی قسط کے طور پر وزیراعظم کو کچھ رقم دینا ہوگی۔ میں نے 50 لاکھ روپے جمع کیے اور وزیراعظم کے جیل کے ساتھی کے ہمراہ وزیراعظم ہائوس گیا ج...

سول وار

دنیا کی سب سے بڑی خانہ جنگی جاری ہے۔ آپ بھی آیئے‘ اس میں حصہ لیجیے۔  اس خانہ جنگی‘ اس سول وار میں حصہ لینے کے لیے کسی خاص مذہب کا ہیرو ہونا ضروری نہیں۔ آپ مسلمان ہیں یا نصرانی‘ ہندو ہیں یا یہودی‘ بدھ ہیں یا لامذہب‘ آتش پرست ہیں یا سکھ‘ جو کچھ بھی ہیں‘ حصہ لے سکتے ہیں۔ بس آیئے‘ سول وار میں شامل ہو جایئے‘ انسانوں کو قتل کرتے جایئے۔  مسلک کی قید بھی کوئی نہیں۔ آپ شیعہ ہیں یا سنی‘ دیوبندی ہیں یا بریلوی‘ سلفی ہیں یا آغا خانی‘ امام ابوحنیفہؒ کے مقلد ہیں یا امام شافعیؒ کے پیروکار‘ امام مالکؒ کے عقیدت مند ہیں یا حنبلی ہیں یا امام جعفر صادقؒ کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں‘ آپ سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوگی۔ آیئے اور خون بہانے کا شوق پورا فرمایئے۔  آپ اگر یہ سوچ رہے ہیں کہ کوئی علاقائی‘ صوبائی یا لسانی مسئلہ اس سول وار کی تہہ میں ہے تو معاف کیجیے گا آپ غلط ہیں۔ یہ خانہ جنگی صرف اور صرف آپ کی اس قابلیت پر مبنی ہے کہ آپ کتنے لوگوں کو دنیائے فانی سے نجات دلا سکتے ہیں۔ بس اس کے علاوہ اگر کوئی اور معیار ہو تو جو چور کی سزا وہ اس لکھنے والے کو دیجیے۔ میرے بھائی! میری بہن! اس ملک ...

خنک پانیوں کا چشمہ

گجرات سے بارہا گزر ہوا ہوگا۔ اس شہر کا نام آتے ہی ذہن صنعت اور سیاست کی طرف چلا جاتا ہے۔ پنکھا سازی میں یہاں کے لوگوں نے شہرت حاصل کی۔ فرنیچر یہاں کا دنیا بھر میں پایا جاتا ہے۔ کفش سازی ایسی کامیاب ہوئی کہ ملک بھر میں آئوٹ لیٹ ہیں۔ سیاسی خاندانوں کی پارٹیوں پر اجارہ داری نے بھی اس شہر کو مشہور کیا لیکن اب کے جو گجرات دیکھا‘ وہ نیا ہی تھا۔ گجرات یونیورسٹی کا کیمپس دیکھ کر شکیب جلالی کا شعر یاد آ رہا تھا   ؎  ادھر سے بارہا گزرا مگر خبر نہ ہوئی  کہ زیرِ سنگ خنک پانیوں کا چشمہ تھا  کیمپس کی وسعت‘ عمارتوں کا پھیلائو اور خوبصورتی اور طلبہ و طالبات کی چہل پہل دیکھ کر بے پایاں مسرت ہوئی۔ اس مسرت کا اندازہ وہی لوگ لگا سکتے ہیں جن کی ترجیحِ اول دولت نہیں ہوتی! کیمپس میں اگرچہ درختوں کی کمی ہے اور ہریالی کم ہے لیکن یہ ایک دل نشین قریہ ہے جو دولت کمانے والوں اور اقتدار سے محبت کرنے والوں کے شہر کی بغل میں بسایا گیا ہے اور خوب بسایا گیا ہے۔ ضمیر جعفری نے کہا تھا   ؎  کوئی رومی، کوئی غالب، کوئی اقبال پیدا کر  کہ شہروں کی بڑائی اس کے میناروں سے ہوتی ہے ...

دلیل اور غلیل

شیخ رشید کے بہت سے رویوں سے اختلاف ہو سکتا ہے۔ خاص کر اُن کی اس خواہش سے کہ وہ ہر وقت پردۂ سیمیں پر رہیں اور مسلسل ایسی باتیں کرتے رہیں جنہیں سننے والا چار پر تقسیم کرتا رہے۔ ناصر کاظمی نے کہا تھا   ؎  کم نما ہم بھی ہیں بہت پیارے  خود نما تجھ سا پر کہاں دیکھا  لیکن راولپنڈی اسلام آباد کے جڑواں شہروں کی سکیورٹی کے متعلق جب وہ خطرات کی نشان دہی کریں تو اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اپنے شہر اور شہریوں سے شیخ صاحب کی وفاداری پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ گراس روٹ سے اٹھنے والے سیاست دان اور اوپر سے آ کر یک دم رہنما بن جانے والے شخص میں یہی فرق ہوتا ہے جو شیخ رشید اور عمران خان میں ہے۔ شیخ رشید نے دو دن پہلے ٹیلی ویژن پر آ کر وارننگ دی کہ روات سے بارہ کہو تک (انہوں نے درمیان میں واقع ایک علاقے کا نام بھی لیا) کوئی حکومت ہے نہ گورننس۔ وزیراعظم‘ عمران خان سے ملنے گئے تو انہوں نے پارک پر قبضہ گروپ کے تسلط کا ذکر کیا حالانکہ اُن کے گھر سے بچہ بھی کنکر پھینکے تو اس آبادی پر آ گرے جو ان کے وسیع و عریض مکان کی بالکل پشت پر ہے اور جہاں کچھ عرصہ پہلے حقانی گروپ کا ایک ا...

کھڑکی جو آخر کار کھل رہی ہے

’’ حکمرانوں کی کرپشن ملک کے لیے بھارت سے زیادہ خطرناک اور تباہ کن ہے۔ ملک میں غربت اور بے روزگاری کیوں ہے ؟55لاکھ بچے سکول نہیں جاتے۔ بچہ بچہ ورلڈ بینک کا مقروض کیوں ہے؟ انسان نے چاند پر قدم رکھ دیا ہے مگر پھول جیسے لاکھوں بچے غربت کی وجہ سے سائیکلوں کی دکانوں پر پنکچر لگارہے ہیں۔ ہمارے پاس پانچ دریا ہیں پھر بھی ملک میں اندھیرا اور لوڈشیڈنگ ہے۔ ملک میں سونا موجود ہے تو غربت کیوں ہے ؟ بجلی کا بل ادا نہ کرنے پر میٹر اتارکر لے جاتے ہیں مگر کارخانہ دار اور مل مالکان کروڑوں روپے کے بل ادا نہ کریں تو واپڈا کچھ نہیں کہتا۔ ہم امیر غریب کے لیے ایک نظام چاہتے ہیں۔ اس وقت پانچ فیصد اشرافیہ 95فیصد وسائل پر قبضہ کیے ہوئے ہے جو عوام کو مزارع اور غلام سمجھتی ہے اور ان سے کیڑے مکوڑوں جیسا سلوک کرتی ہے۔ اشرافیہ نے انگریز کی حکومت کی خدمت کے عوض بڑی بڑی جاگیریں لیں اور محنت کے بغیر بڑی سیٹوں پر قبضہ کیا اور پھر اثرورسوخ سے بنکوں سے اربوں کے قرضے لے کر بیرون ملک منتقل کردیے۔ ہم حیران ہیں کہ ڈالر اوپر جائے تو ان کے وارے نیارے اور کمی آئے تو بھی ان کے وارے نیارے ۔ پھر کہتے ہیں کہ مزید کم نہ کریں سرخ بتی ...

اصل چہرہ

                                                                                   بس چل رہی تھی۔ شکاری اپنی بہادری کے واقعات سنا رہا تھا۔ سننے والے دم بخود تھے۔ ’’میں رات بھر مچان پر بیٹھا رہا۔ جنگل سائیں سائیں کر رہا تھا۔ خوف نام کی کسی شے کو میں جانتا ہی نہیں‘ جیسے ہی شیر سامنے آیا‘ میں نے گولی چلا دی۔ ایک بار میں چیتے سے بھِڑ گیا۔ ایک دفعہ آدم خور بھیڑیے کے نزدیک پہنچ کر‘ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور تلوار سونت لی‘‘۔ بس کے مسافروں کو اس کی بہادری میں کوئی شک نہ رہا۔ اتنے میں شکاری کے ساتھ بیٹھے ہوئے مسافر نے خربوزہ کاٹنے کے لیے چاقو نکال کر کھولا۔ شکاری کا رنگ پیلا پڑ گیا۔ اس نے چاقو والے بھائی سے کہا‘ یار‘ ذرا اِسے دور ہی رکھنا‘ مجھے ڈر لگ رہا ہے‘‘۔  یہ کہانی شفیق الرحمن نے لکھی ہے جسے اس وقت لکھنے والے نے اپنے الفاظ میں دہرایا ہے۔  بھارت‘ امریکہ اور اسرا...

تقسیم کی لکیر

لال مسجد کے جامعہ حفصہ کی لائبریری کو اسامہ بن لادن سے منسوب کر دیا گیا ہے۔  کوئی پسند کرے یا نہ کرے‘ زمینی حقیقت یہ ہے کہ اس ملک کی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ اس فیصلے کو سراہے گا۔ مولانا عبدالعزیز‘ سید منور حسن اور کئی اور بزرگ‘ کسی جزیرے میں نہیں رہ رہے، وہ اسی معاشرے کا حصہ ہیں، ہمارے درمیان ہی چلتے پھرتے ہیں۔ ان کے ہزاروں لاکھوں متفقین ہیں، پیروکار ہیں جو ان کے نظریات کو اہمیت دیتے ہیں۔  ہم میں سے جو لوگ ان حضرات کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے‘ وہ اپنی دنیا میں رہتے ہیں۔ تسلیم نہ کرنے کے رویے سے تکبر کا اظہار ہوتا ہے یا یکسر لاعلمی کا۔ ہمیں یہ ماننا ہو گا کہ معاشرہ دو عمودی حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔ عمودی اس لیے کہ اگر آپ کاغذ پر ایک مربع یا مستطیل شکل بنائیں تو معاشرے کو سمجھنے کے لیے اس کے درمیان لکیر یوں کھینچیں جو اوپر سے نیچے آ رہی ہو، دائیں سے بائیں نہ جا رہی ہو۔ مستطیل یا مربع دو برابر کے متوازی حصوں میں بٹ جائے گا۔ یہ دونوں حصے برابر ہیں۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ جو حصہ اسامہ بن لادن کو اپنا ہیرو سمجھتا ہے وہ سماجی لحاظ سے کم تر ہے یا طاقت کے لحاظ سے دوسرے حصے کا ہم سر ...

سطح

ایک عذاب تھا جس سے یہ لوگ گزر رہے تھے۔  کچہری چوک سے ہارلے سٹریٹ جاتے ہوئے یہ مشہور اور تزک و احتشام والا تعلیمی ادارہ راستے میں پڑا۔ ایک زمانے میں وزیراعظم کی بیٹی یہاں پڑھتی تھی۔ بعد میں وہ خود بھی وزیراعظم بنی۔  ایک عذاب تھا جس سے لوگ گزر رہے تھے۔ گیٹ بند تھا۔ گیٹ کے سامنے لوگ ایک دوسرے کے یوں لگتا تھا اوپر چڑھے ہوئے تھے۔ سڑک پر ٹریفک معطل تھی۔ گاڑیاں اور موٹر سائیکل گیٹ کے اردگرد‘ نزدیک اور دور ہر طرف ہر جگہ کسی ترکیب کسی قاعدے کے بغیر پارک کیے گئے تھے۔ گیٹ کے سامنے ہجوم اس قدر تھا کہ ڈرائیور اور رشتہ دار ایڑیاں اٹھا اٹھا کر دیکھ رہے تھے کہ ان کا بچہ باہر نکلا ہے یا نہیں۔ سڑک اور گیٹ کے درمیان جو تنگ سی جگہ تھی‘ اس پر حشر برپا تھا۔ یہ حشر سڑک کے اوپر تک آ گیا تھا‘ جبھی تو ٹریفک رُک گئی تھی۔ اس عذاب میں دو فریق شامل تھے۔ ایک وہ جو گیٹ کے باہر تھا۔ اسے قاعدے قانون‘ قطار بندی‘ پارکنگ کے طور طریقے کی کچھ پروا نہ تھی۔ دوسرا فریق گیٹ کے اندر تھا۔ اُسے باہر سے کچھ غرض نہ تھی۔ پولیس یا انتظامیہ بھی ایک فریق تھی‘ لیکن غائب تھی۔ اس عذاب سے نمٹنے کے بلکہ چھٹکارا پانے کے کئی طریقے ...

قہرِ الٰہی کی شکل

مالٹے کے چھلکے کی کترنیں تو اس میں تھیں لیکن اس کے ساتھ جو کچھ تھا، ایک لیس دار جیلی نما مادہ، اس لائق نہیں تھا کہ کھایا جائے لیکن یہ سوچ کر کہ یہی کچھ تو کھاتے آئے ہیں، جو وقت باہر گزرتا ہے، وہ تو سمندر میں ایک چھوٹے سے ٹاپو سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ ٹوسٹ پرلیس دار جیلی نما مادہ پھیلایا۔ پورے ٹوسٹ کے حصے میں چھلکے کی صرف ایک کترن تھی، کھایا، چائے کا گھونٹ بھرا اور اُن کارخانے داروں کی ہدایت کے لیے دعا کی جو اچھی طرح جانتے ہیں کہ مار ملیڈ اور جام خوش نیتی سے بنایا جائے تو کیسا ہو گا! صرف مار ملیڈ، جام اور ڈبل روٹی کی کوالٹی کا رونا نہیں، خوراک کے ہر آئٹم کا آگا پیچھا مشکوک ہے۔ پرائمری جماعت سے پڑھایا جاتا ہے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ اس زرعی ملک میں ہر زرعی پراڈکٹ اپنے آگے سوالیہ نشان رکھتی ہے۔ شہد کی دکان پر ’’اسلامی‘‘ کا بورڈ ہو گا مگر مصنوعی ہو گا۔ دودھ کے ساتھ جو کچھ گوالے کر رہے ہیں لگتا ہے کہ حالیؔ نے غلط کہا تھا۔’’جہنم کو بھر دیں گے شاعر ہمارے ‘‘کی جگہ ہونا چاہیے جہنم کو ہمارے گوالے بھریں گے۔ یہ لکھنے والا ایک معمولی درجے کا کسان ہے، گندم اپنی میسر آ رہی ہے، الحمد للہ، لیکن ج...

کھُر کُو

                                                            جارج آر ویل کا شہرۂ آفاق ناول و اینیمل فارم، 1945ء میں شائع ہوا۔ یہ بنیادی طور پر سوویت یونین کی نام نہاد اشتراکیت پر چوٹ تھی۔ وہ اشتراکیت جو نام مزدوروں کا لیتی تھی لیکن اصل میں چند مراعات یافتہ لوگوں کی بادشاہی تھی، تاہم یہ ناول اور اس کے محاورے ہر صورتِ حال میں لکھنے والوں کے کام آتے ہیں۔’ اینیمل فارم‘ کے جانوروں کو شروع میں یہ بتایا گیا تھا کہ ’’سب جانور برابر ہیں‘‘۔ مگر بعد میں مراعات یافتہ جانوروں کے ساتھ جو امتیازی سلوک ہونے لگا، اُس کے جواز میں، اس محاورے میں ترمیم کر دی گئی۔ ترمیم شدہ محاورہ یوں تھا۔’’ سب جانور برابر ہیں لیکن کچھ جانور، دوسرے جانوروں کے مقابلے میں زیادہ برابر ہیں‘‘۔ اینیمل فارم کی تازہ ترین یاد ایک بہادر اور جری وفاقی وزیر کا تازہ ترین بیان پڑھ کر آئی۔ وزیر صاحب نے کہا ہے کہ انہیں آمریت پر تنقید کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا اور یہ کہ انہوں نے ہر دور ...

پاکستان کے اصل سفیر

کیا رومی کا تصوف اور اس کے ’’مریدِ ہندی‘‘ اقبال کی شاعری مسلمانوں کے موجودہ عہدِ زوال میں راہِ نجات دکھا سکتی ہے؟ یا یہ تصوف وہ ہے جو جنگلوں‘ غاروں‘ خانقاہوں اور حجروں میں مقید کر دیتا ہے اور کارِ دنیا کے لیے نہ صرف یہ کہ رہنمائی نہیں کرتا بلکہ دنیا سے الگ تھلگ رہنے کی تلقین کرتا ہے؟  یہ تھا وہ موضوع جس پر ہانگ کانگ کے ’’اناطولیہ کلچرل اینڈ ڈائیلاگ سنٹر‘‘ میں گفتگو کرنا تھی۔ یہ سنٹر جناب فتح اللہ گولن کے عالمی سیٹ اپ کا ایک حصہ ہے۔ فتح اللہ گولن کے سیٹ اپ کے زیر انتظام پوری دنیا میں تعلیمی اداروں کا سلسلہ کام کر رہا ہے۔ یہ تعلیمی ادارے ہانگ کانگ میں بھی مصروفِ جدوجہد ہیں۔ اقبال اکیڈمی ہانگ کانگ بھی اسی تقریب میں اناطولیہ سنٹر کی شریکِ کار تھی۔ اقبال اکیڈیمی کے متحرک نمائندے ڈاکٹر انوارالحق نے اس لکھنے والے سے اس وقت رابطہ قائم کیا جب آسٹریلیا سے روانگی کی تیاری تھی۔ ڈاکٹر انوارالحق نے چین سے ابلاغیات میں پی ایچ ڈی کی، انہوں نے اپنا تحقیقی مقالہ چینی زبان میں تحریر کیا تھا۔  مسلمانوں کے موجودہ عہدِ زوال کے دو پہلو ہیں۔ ایک پہلو وہ ہے جو مسلمان ملکوں کے اندر رہتے ہوئے داخلی ...

ترجیحات

                                                             لوگ ایڑیاں رگڑ رہے ہیں۔ دور دور تک آثار نہیں کہ کوئی اُن کی مدد کو پہنچے۔ ہانگ کانگ میں رہنے والے ہزاروں پاکستانی شکوہ کناں ہیں کہ پی آئی اے جیسی بھی تھی، ایمر جنسی میں میت تو مفت لے جاتی تھی۔ اب کسی پاکستانی کی وفات ہوتی ہے تو دوسری ائیر لائنیں اسّی نوے ہزار ہانگ کانگ ڈالر معاوضہ طلب کرتی ہیں‘ جس کا مطلب بارہ تیرہ لاکھ روپے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اکثریت کے لیے میت وطن واپس لانا ممکن ہی نہیں۔ بنکاک میں صورتِ حال اور بھی درد ناک ہے۔ لا تعداد پاکستانی بنکاک میں رہتے ہیں جنہیں آئے دن پاکستان روانہ ہونا ہوتا ہے یا پاکستان سے واپس تھائی لینڈ پہنچنا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بنکاک ایک بہت بڑا جنکشن ہے۔ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، ہانگ کانگ، جاپان، برونائی، فلپائن، کوریا، ویت نام اور انڈونیشیا سنگاپور سے لاکھوں مسافر پاکستان آنے کے لیے بنکاک اترتے ہیں۔ یہ ہزاروں لاکھوں مسافر پی آئی اے م...

تین نسلوں کی جدوجہد

پہلی جنگِ عظیم کو ختم ہوئے کچھ سال ہو چلے تھے۔ ہانگ کانگ کے انتہائی جنوبی گوشے میں جیل تعمیر ہو چکی تھی۔ زیادہ تر قیدی سمگلنگ کے مجرم ہوتے تھے۔ ہتھکڑیاں اُس زمانے میں لوہے کی نہیں‘ لکڑی کی ہوتی تھیں۔ انگریز سرکار چینی قیدیوں پر چینی گارڈ مامور کرنے میں متامل تھی۔ چینی شاید خوئے غلامی میں ہندوستانیوں جیسے پختہ نہیں تھے۔ ہو سکتا ہے چینی گارڈ رکھے گئے اور انہوں نے چینی قیدیوں سے بہت زیادہ رعایت برتی! بہرطور فیصلہ یہ ہوا کہ جیل کی حفاظت کے لیے ہندوستان سے گارڈ منگوائے جائیں۔ درآمد شدہ گارڈز کا گروہ سکھوں اور مسلمانوں پر مشتمل تھا۔ جہاں آج سٹینلے جیل کی عمارت ہے اور اس کے افسروں اور سٹاف کے خوبصورت رہائشی فلک بوس اپارٹمنٹ ہیں‘ وہاں اس زمانے میں جنگل تھا اور ایک کچی پکی عمارت جیل کی تھی۔  مسلمان گارڈ زیادہ تر چکوال‘ گجرات اور جہلم کے علاقوں سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ اپنی اپنی نماز‘ جہاں موقع ملتا‘ الگ الگ پڑھ لیتے۔ ایک دن انہوں نے باہمی مشورے کے بعد جیل سپرنٹنڈنٹ کو درخواست گزاری کہ نماز باجماعت کے لیے مناسب قطعۂ اراضی مختص کیا جائے۔ سپرنٹنڈنٹ نے درخواست اوپر بھیج دی۔ ہانگ کانگ کی ہائی ...

جزیرہ

سامنے سمندر ہے۔ نیلے اور سفید پانی کا مسحور کن امتزاج۔ دخانی کشتیاں چل رہی ہیں۔ دور‘ بہت دور‘ دو قوی ہیکل بحری جہاز نظر آ رہے ہیں۔ دائیں طرف مشہورِ زمانہ مَرے ہائوس ہے جو 1846ء میں برطانوی اقتدار نے اپنے فوجی افسروں کے لیے تعمیر کیا تھا۔ اس کے سامنے سمندر کے پانی میں خوبصورت بارہ دری نما عمارت ہے۔ کسی زمانے میں لندن سے آئے ہوئے اعلیٰ برطانوی حکام‘ اور کبھی کبھی ملکہ بھی‘ اس بارہ دری میں بیٹھ کر سمندر سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ اُن مغل شہزادوں اور بیگمات کی طرح جو بارہ دریوں میں بیٹھ کر جمنا اور راوی کی لہروں کے ساتھ ساتھ جیسے بہتے جاتے تھے اور ہلکورے کھاتے تھے اور ہندوستانیوں کی اکثریت لنگوٹی میں ملبوس تھی۔ چنائی یونیورسٹی کے پروفیسر ابراہام ایرالی نے‘ جو ہندو ہے نہ مسلمان‘ اور جس کی معرکہ آرا تصانیف بھارت میں کوئی نہیں چھاپتا‘ برطانیہ میں شائع ہوتی ہیں‘ لکھا ہے کہ مغلوں کے عروج کے زمانے میں ہندوستان کی کل دولت کا ایک چوتھائی صرف پانچ سو کے لگ بھگ افراد کی ملکیت میں تھا‘ لیکن یہ کہانی اور ہے‘ پھر کبھی سہی‘ اس وقت تو لکھنے والا ہانگ کانگ کے جنوبی ساحل پر کھڑا‘ خلیج سٹین لے‘ کے بے پناہ ح...

ذرا انتظار کیجیے

بلوچستان میں رائج سرداری نظام کے پانچ ہزار سال مکمل ہونے پر پاکستان کو ان ممالک میں سرفہرست قرار دیا گیا ہے جہاں آثارِ قدیمہ کی حفاظت احسن طریقے سے کی جا رہی ہے۔ اس ضمن میں اقوامِ متحدہ کی طرف سے پاکستان کو ایوارڈ بھی دیا جائے گا۔ پارلیمنٹ میں قانون سازی کی گئی ہے۔ جس کی رو سے ملک میں زرعی اصلاحات کا نام لینے والے کو دس سال قیدِ با مشقت کی سزا دی جا سکے گی۔ ایک نیا ادارہ’’تاریخ پاکستان پر نظر ثانی‘‘ کے نام سے قائم کیا گیا ہے۔ اس ادارے میں اس امر پر تحقیق کی جائے گی کہ پاکستان بنانے کا سارا کریڈٹ مسلم لیگ کو کیوں دیا جاتا ہے اور پنجاب کی یونینسٹ پارٹی کو اس کے اصل مقام سے کیوں محروم رکھا جا رہا ہے۔ تازہ ترین سیاسی کانفرنس میں سہ فریقی معاہدہ طے پا گیا ہے۔ بقائے باہمی کے اس معاہدے پر بلاول بھٹو، مونس الٰہی اور حمزہ شہباز نے دستخط کیے ہیں اور عہد کیا ہے کہ بزرگوں کی روایات کو قائم رکھتے ہوئے باری باری حقِ حکمرانی ادا کرنے کے عمل کو جاری رکھا جائے گا۔ ادھر، رائے ونڈ میں دو فریقی کانفرنس کے اختتام پر مریم نواز اور حمزہ شہباز نے بھی پر امن بقائے باہمی کے سمجھوتے پر دستخط کر دیے ہیں۔ با...