اشاعتیں

مارچ, 2014 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

ہاں ایک سوال ضرور اٹھتا ہے

تصویر

بَیل

درست وقت پر درست پالیسی… کامیابی کا یہی راز ہے۔ اور یہ راز حکومتِ وقت نے پا لیا ہے۔  حکومت کے ایک انتہائی معتبر اور بااختیار نمائندے نے کل جو اعلان کیا ہے وہ موجودہ حالات میں درست فیصلہ ہے اور برمحل۔  اندرونِ ملک نگاہ دوڑایئے۔ ہر طرف اضطراب ہے اور بدامنی۔ کراچی سے لے کر پشاور تک مسلح افراد دندناتے پھرتے ہیں۔ قاتل یوں محفوظ ہیں جیسے بتیس دانتوں میں زبان۔ تھر میں قحط نے انسانوں کو یوں نگل لیا جیسے بحرالکاہل کے کناروں پر پڑے ہوئے مگرمچھ پورے پورے آدمی نگل جاتے ہیں۔ چولستان خطرے کی زد میں ہے۔ کوئٹہ سے ہزارہا خاندان ہجرت کر چکے ہیں۔ تازہ ترین اعدادو شمار کے مطابق صرف ایک سال میں پانچ سو کے لگ بھگ اغوا برائے تاوان کے واقعات پیش آئے ہیں اور یہ وہ اعداد ہیں جو رپورٹ ہوئے ہیں۔ اصل تعداد کہیں زیادہ ہے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ نے لوگوں کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔ پانی کی کمی تلوار کی طرح عوام کے سر پر لٹکی ہوئی ہے۔  بین الاقوامی حوالے سے بھی ہم مشکل میں ہیں۔ امریکی انخلا کے بعد جو کچھ بھی ہوگا ہمارے لیے خوشگوار نہیں ہوگا۔ خیبر پختونخوا کے آئی جی پولیس نے کہا ہے اور درست کہا ہے کہ اف...

آدمی کوئی ہمارا…

                                                پاکستان اور اہلِ پاکستان کا ستارہ مستقل گردش میں ہے۔ ایک مصیبت ٹلتی ہے تو دوسری آ جاتی ہے۔ شاعر کی طرح اہلِ پاکستان بھی اب یہی کہتے نظر آتے ہیں   ؎  ٹُوٹے گی کوئی تازہ بلا جانِ نہاںؔ پر  لَو شمعِ حوادث کی ہے تھرائی ہوئی سی  تازہ ترین افتاد یہ آن پڑی ہے کہ صدرِ مملکت کی شیروانی درست نہ نکلی۔ یومِ پاکستان کی تقریب کے لیے سلوٹوں سے بھری انتہائی خراب سلائی والی شیروانی ’’فراہم کرنے ‘‘کی تحقیقات شروع ہو بھی چکی ہے۔ یہ نہیں معلوم کہ اس کے لیے چار رکنی کمیشن بٹھایا گیا ہے یا ایک ہی فرد تحقیقات کرے گا۔ خبرکا زیادہ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اس شیروانی کا وزیراعظم سمیت کئی شخصیات نے نوٹس لے لیا ہے۔ یہ صدر صاحب کے سائز کے مطابق نہیں تھی ، اسے استری بھی ٹھیک سے نہیں کیا گیا تھا۔ صدر نے خود بھی دورانِ تقریب سبکی محسوس کی بلکہ وہ سارا وقت انتہائی بے چین نظر آئے۔  اب اس وحشت اثر خبر میں کئی مقامات رُکنے پر مج...

مہاتیر … ؟

پاکستان ہو یا ایران ، سعودی عرب ہو یا شام، قطر ہو یا بحرین ، یواے ای ہو یا لبنان ، ایک حقیقت کسی کی نظر سے اوجھل نہیں رہنی چاہیے: ہر عمل کا ایک ردعمل ہے ، بونے کے بعد کاٹنے کا عمل ناگزیر ہے۔ بونے کے بعد لاکھ پچھتائیں، جو بیج پڑ گیا اس نے زمین کا سینہ شق کرکے ہر حال میں باہر نکلنا ہے ۔کوار گندل اور تنبہ بو کرگنے کی مٹھاس نہیں حاصل کی جاسکتی۔ اس حقیقت سے جو ملک اغماض برتتا ہے، چُور چُور اور لیروں لِیر ہوکر رہتا ہے۔ دورکیوں جائیں اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔ آج پاکستان کی دھجیاں اڑ رہی ہیں۔ یہ وہ بیج ہے جو اہل پاکستان نے بویا تھا ! محلے کے ایک گھر میں جو چند پھنے خان رہتے تھے، ان کا دماغ درست کرنے کے لیے میں نے کچھ بندوقچی،کچھ دادا گیر اورکچھ باڈی بلڈر ٹائپ تنومند نوجوان اپنے گھر میں ڈال لیے تھے۔ میں بظاہربالکل نارمل، شریفانہ زندگی گزارتا رہا۔ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی کہ منصوبے کا ہیڈکوارٹر میرا معمولی سا مکان ہے۔ رات کو یا گرمیوں کی دوپہرکو جب سب سوئے ہوئے تھے، ایک دو افراد میرے گھر سے نکلتے، پھنے خانوں کے گھر میںگھستے،کسی کو پھینٹی لگاتے، کسی کے سر پر بندوق کا بٹ مارتے اورکسی کو...

گَل گِٹی

لمبی گلی بستی کے ایک سرے سے شروع ہو رہی تھی اور درمیان سے ہوتی ہوئی مشرقی کنارے تک چلی گئی تھی۔ بستی کے مشرقی سرے پر سرکاری تالاب تھا جو تقریباً اُسی زمانے میں بنا تھا جس زمانے کی یہ بات ہے۔ تالاب کے کنارے وہ بلند و بالا درخت تھا جس کی پھیلتی ٹہنیوں اور سبز گھنیرے پتوں کی چھائوں پورے تالاب کو ڈھانپ لیتی تھی۔ اسی درخت کے ایک موٹے ٹہنے پر جب بھی عید آتی‘ پینگ ڈالی جاتی تھی۔ جوان توانا لڑکیاں پینگ کو اس قدر بلندی تک جھُلاتیں کہ بچے ڈر جاتے۔ وہ پینگ کے افقی ڈنڈے پر کھڑے ہو کر‘ عمودی رسیوں کو دونوں ہاتھوں سے پکڑتیں اور پھر پتہ نہیں کیسا میکانزم ہوتا تھا کہ چند ثانیوں کے اندر اندر پینگ آسمان سے باتیں کر رہی ہوتی۔ کبھی کبھی کوئی لڑکی‘ پینگ پر کھڑی ہونے والی لڑکی کی مخالف سمت کی طرف منہ کیے‘ افقی ڈنڈے پر بیٹھ جاتی تھی۔ یوں وہ بھی بلندیوں کی سیر میں شامل ہو جاتی تھی۔  موسم معتدل تھا۔ صبح روپہلی تھی۔ وہ جب بھی اٹھتا‘ بغلی گلی میں سے گزرتے ڈھور ڈنگروں کی آوازیں اس کے کان میں پڑتیں۔ ان آوازوں میں اُن گھنٹیوں کی موسیقی بھی ہوتی جو مویشیوں کے گلوں سے لٹک رہی ہوتیں۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ ایک...

اگر جان کی امان ملے

پہلی مثال۔۔۔۔۔ قرآن پاک میں طلاق دینے کا طریقہ یہ بتایا گیا ہے کہ طلاق بہ دفعات واقع ہو گی اور شوہر دو دفعہ طلاق دینے کے بعد اپنی بیوی سے رجوع کر سکتا ہے ، لیکن جب تیسری بار طلاق دے گا تو طلاق واقع ہو جائے گی اور علیحدگی کا نفاذ ہو جائے گا۔ سورۃ البقرہ کی آیت 229 اور 230 میں یہی بیان کیا گیا ہے۔ عہدِ رسالتؐ اور حضرت ابوبکر صدیقؓکے زمانے میں اگرکوئی شخص اپنی بیوی کو بیک وقت تین طلاقیں دیتا تھا تو وہ ایک ہی طلاق سمجھی جاتی تھی ، لیکن حضرت عمرؓنے اپنے دور حکومت میں اس طریقے کوجو رسالت مآب ؐ نے اختیار کیا تھا‘ بند کر دیا۔ صحیح مسلم میں حضرت ابن عباسؓسے روایت ہے کہ ’’عہد رسالتؐ ‘ عہد صدیقی اور عہد فاروقی کے ابتدائی دو سال تک بیک وقت تین طلاقوں کو ایک طلاق قراردیاجاتا تھا مگر حضرت عمرؓنے کہا کہ لوگوں کو جس معاملے میں رخصت و سہولت تھی اس کا دروازہ انہوں نے اپنی عجلت پسندی سے اپنے اوپر بندکر لیا ہے، اس لیے ہمیں بیک وقت تین طلاقوں کو طلاق بائن قراردیناچاہیے‘‘۔ چنانچہ آپ نے یہ تبدیلی نافذ کردی۔ سورہ بقرہ کی آیت 229کی تفسیر میں سید ابوالاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں: ’’حضرت عمرؓ سے یہاں تک ثابت ہے...

برمودا تکون

برمودا تکون کو شیطانی تکون بھی کہتے ہیں۔ اس سے مراد شمالی بحرِ اوقیانوس کا مغربی حصہ  ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی ریاست فلوریڈا کے مشرق میں واقع یہ علاقہ بہت پُراسرار ہے۔ یہاں کئی ہوائی جہاز اور کئی بحری جہاز غائب ہوئے ہیں۔ اور ایسے غائب ہوئے کہ تلاشِ بسیار کے باوجود ان کا کوئی سراغ نہیں ملا۔  پُراسرار اور خوفناک برمودا تکون کے بارے میں سب سے پہلے لوگوں کو تب معلوم ہوا جب 17ستمبر 1950ء کے روزنامہ میامی ہیرالڈ میں ایڈورڈ جونز کا اس موضوع پر مضمون شائع ہوا۔ دو سال بعد ایک معروف رسالے میں ایک صاحب جارج سنیڈ کا مضمون چھپا جس میں کئی ہوائی اور بحری جہازوں کی پُراسرار گمشدگی کا تفصیلی حال لکھا گیا۔ سب سے زیادہ ڈرانے والی رپورٹ امریکی تربیتی جہاز ’’فلائٹ 19‘‘ کے بارے میں تھی۔ جہاز کے پائلٹ کو یہ کہتے سنا گیا کہ ’’ہم سفید پانیوں میں داخل ہو رہے ہیں۔ کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے‘ کچھ معلوم نہیں ہو رہا کہ ہم کہاں ہیں؟ اب پانی سبز ہو چکا ہے۔ سفید نہیں رہا‘‘۔ اس کے بعد پائلٹ کا پتہ چلا‘ نہ جہاز کا۔ جب تفتیشی ٹیم نے سراغ لگانے کی کوشش کی تو اس قسم کی بات سنی گئی کہ جہاز مریخ کی طرف پرواز کر گ...

سسٹم یہی چلے گا

                                                       پیغمبروں اور ولیوں کو جنم دینے والی عورت جب اسلام کے نام پر بننے والے ملک میںپہنچی تو جان ہارگئی۔کوئی بھی اس کا ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں۔ جاگیردار پائوں کی جوتی سمجھتے ہیں اور اپنے جوان بیٹوں کے لیے کھلونا۔ مولوی اس کا نام آتے ہی ماتھا پکڑ لیتے ہیں۔ عورت کے حقوق کی بات آئے تو انہیں اپنی عزت دائو پر لگتی نظر آتی ہے۔اب وہ اس پر بھی متحد ہیں کہ کمسن بچی کی، جوبالغ تک نہیں، شادی کرنا کوئی مسئلہ نہیں! سیاستدان صرف بیان دے سکتے ہیں۔ حکمران صرف پیراسٹامول دیتے ہیں۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ کہتے ہیں۔’’ غنڈے عزتوں سے کھیلیں، پولیس انہیں تحفظ دے، ایسا سسٹم نہیں چلنے دوں گا۔‘‘دوسرے دن فرماتے ہیں۔’’ فرسودہ نظام عوام کے لیے وبال جان بن چکاہے۔ حکومت عوام کو اس گلے سڑے نظام سے نجات دلانا چاہتی ہے۔‘‘ کوئی پوچھنے کی جسارت کرے کہ محترم میاں صاحب ! آپ کو کتنا عرصہ درکار ہے اس گلے سڑے نظام کو بدلنے کے لیے ؟ ’’ ای...

اگر وزیراعظم عمران خان کے گھر نہ جاتے

                                    پہلا منظر:  بادشاہ گھوڑے پر سوار جا رہا تھا۔ نقیب آگے آگے تھا۔ چاروں طرف چوبدار تھے۔ شاہراہ کے دونوں طرف رعایا کھڑی تھی اور پولیس کے جوان انہیں راستے سے دور رکھنے کے لیے مستعد تھے۔ اچانک ایک بڑھیا ہجوم کو چیر کر آگے بڑھی۔ اس کا رُخ شاہی سواری کی طرف تھا۔ پہریداروں نے اُسے روک لیا۔ بادشاہ دیکھ رہا تھا۔ اس نے حکم دیا کہ بڑھیا کو آنے دو۔ بڑھیا آگے بڑھی۔ اس نے بادشاہ کی رکاب کو بوسہ دیا اور رو پڑی۔ وہ بیوہ تھی۔ اس کی زرعی زمین پر جو اس کی گزر اوقات کا واحد ذریعہ تھا‘ علاقے کے چودھری نے قبضہ کر لیا تھا۔ وہ فریاد کر رہی تھی کہ اس کی زمین واگزار کرائی جائے۔ بادشاہ کا دل پسیج گیا۔ اس کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ اُسے موت یاد آ گئی۔ مرنے کے بعد اس سے رعایا کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی۔ اُس نے وزیر کو حکم دیا کہ دادرسی کی جائے اور یہ کام دارالحکومت میں شاہی سواری کے پہنچنے سے پہلے ہو جانا چاہیے۔ وزیر نے فوراً کوتوال کو حکم دیا۔ کوتوال نے موقع پر پہنچ کر مجرموں سے زمین ک...

واپسی؟

شام کے سائے لمبے ہو رہے تھے۔ چرواہے ڈھور ڈنگر ہانکتے واپس آ رہے تھے۔ کچھ کے سر پر ایندھن تھا اور کچھ نے گھاس کے گٹھڑ اٹھا رکھے تھے۔ وہ گھر پہنچا تو اس کی ماں صحن کے کونے میں نصب شدہ تندور پر روٹیاں لگا رہی تھی۔ باپ ابھی ابھی کھیتوں سے واپس آیا تھا اور اسے دیکھ کر خوش تھا۔ کھانا کھانے کے بعد وہ باپ کے ساتھ چوپال چلا گیا۔ اس کے بچپن کے ہم جولی بھی تھے اور بزرگ بھی۔ ملک کی سیاست پر بحث ہو رہی تھی۔ پھر مونگ پھلی اور گندم کی قیمتوں پر بات چیت چل پڑی۔ اچانک ایک بزرگ نے‘ جو رشتے میں اس کے چچا تھے‘ پوچھا۔ ’’تم اب پڑھائی ختم کر کے واپس گائوں کب آ رہے ہو؟‘‘  ’’بس چاچا چند مہینے اور ہیں‘ چودہ جماعتیں مکمل ہو جائیں گی۔ پھر واپس آ جائوں گا اور زمین سنبھالوں گا۔ میں نے سوچ رکھا ہے کہ قرضہ لے کر ٹریکٹر خریدوں گا اور اپنی زراعت کو جدید خطوط پر استوار کروں گا‘‘۔  چودہ جماعتیں پاس کیں۔ اچھی ڈویژن آئی۔ دوستوں اور کالج کے اساتذہ نے مشورہ دیا کہ ایم اے کر لو۔ پہلے تو اُس نے مدافعت کی کہ ایم اے کا کیا فائدہ‘ جتنی بھی تعلیم ہوگی‘ سنبھالنی تو زرعی زمین ہی ہے۔ لیکن پھر نیم دلی سے اُس نے یونیور...

عزت نیلام کر رہے ہیں

                                                                  اپنی اپنی قسمت ہے۔ لکھے کو کون بدل سکتا ہے۔ یہی جنوبی ایشیا ہے جہاں سیاست دان اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔وزارتیں ہیں یا صوبے یا ریاستیں‘آئی ٹی کی مدد سے چلا رہے ہیں۔ہر روز صبح آٹھ بجے صوبے یا ریاست کی یا اپنی وزارت کی تازہ ترین صورت حال دیکھتے ہیں اور جانچتے ہیں۔ اور یہی جنوبی ایشیا ہے جہاں سیاست دان ٹھٹھے کرتے ہیں ، جگت بازی میں وہ مہارت ہے کہ ٹیلی ویژن چینل نوکریوں کی پیشکشیں کرتے پھرتے ہیں۔زندگی بھر کوئی کتاب نہیں پڑھی۔دو صفحے بھی مدد کے بغیر لکھنا ناممکن ہے ۔ پہلے کہا کہ ڈالر اٹھانوے پر آیا تو استعفیٰ دے دوں گا،اب کہہ رہے ہیں کہ حکومت بتائے کہ ڈالر کیسے نیچے آیا؟ان سے کوئی پوچھے کہ کیا آپ نے شرط لگاتے وقت کسی قسم کی تخصیص کی تھی کہ فلاں طرح سے نیچے آئے اور فلاں طرح سے نیچے نہ آئے ؟ساتھ ہی ایک اور ٹھٹھا کہ پٹرول کی قیمت دس روپے کم ہو تو استعفیٰ جیب میں ہ...

دھوکا

                                                   یہ دنیا چاہِ طلسمات ہے۔ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ جب تک زمین کا فرش بچھا ہے اور جب تک اُس پر آسمان کا تنبو لگا ہے۔ حیرتیں جنم لیتی رہیں گی۔ دریائوں میں آگ لگتی رہے گی۔ درختوں کی شاخیں پتے ہلا ہلا کر چھائوں کی جگہ دھوپ بُنتی رہیں گی۔  پاکستانی شہروں کی پڑھی لکھی مڈل کلاس ایک عرصہ الیکشن کے دن گھروں سے نکلنے سے اجتناب کرتی رہی۔ اس مڈل کلاس میں لاکھوں اعلیٰ درجہ کے سرکاری ملازمین‘ ڈاکٹر‘ انجینئر‘ وکیل‘ تعلیم یافتہ بزنس مین اور کھاتے پیتے گھروں سے تعلق رکھنے والے طالب علم شامل تھے۔ ان کے لیے انتخابات میں کوئی چوائس نہ تھا۔ وہ کسے ووٹ دیتے؟ ایک طرف بلند پہاڑ تھا۔ دوسری طرف کھائی تھی۔ ایک طرف وہ سیاسی جماعتیں تھیں جن پر خاندانوں کی اجارہ داریاں تھیں۔ یہ جماعتیں جاگیرداروں‘ زمینداروں‘ سرداروں اور ارب پتی کارخانہ داروں کی پناہ گاہیں تھیں‘ یہاں سیاسی ورکر اپنی زندگیاں پگھلانے کے لیے اور سیاسی وڈیرے اپنی دکانیں چمکان...

کیا سری لنکا صرف کرکٹ کے میدان میں جیتا ہے؟

خزاں کا قافلہ آن پہنچا ہے۔  موسموں کے بدلنے میں قدرت کے اسرار ہیں۔ منیر نیازی نے ایک آیت کا کیا خوبصورت ترجمہ کیا ہے  ؎  رات دن کے آنے جانے میں یہ سونا جاگنا  فکر والوں کو پتے ہیں اس نشانی میں بہت  یہی نشان کیا کم ہے کہ جب نصف کرۂ شمالی میں بہار اترتی ہے تو نصف کرۂ جنوبی میں خزاں کی سواری پہنچ جاتی ہے۔ ناصر کاظمی نے کہا تھا   ؎  ڈیرے ڈالے ہیں خزاں نے چوندیس  گل تو گل باغ میں کانٹا نہ رہا  مارچ آتا ہے تو جنوبی بحرالکاہل کے ساحلوں پر پت جھڑ آباد ہو جاتی ہے۔ چلی میں‘ نیوزی لینڈ میں‘ آسٹریلیا میں‘ جنوبی افریقہ اور ان سارے ملکوں میں جو خطِ استوا کے جنوب میں ہیں۔  کتنی عجیب بات ہے اور کتنی دلچسپ کہ لٹریچر کے حوالے جغرافیہ کے ہاتھوں بدل جاتے ہیں۔ انگریزی شاعری جو آئرلینڈ‘ سکاٹ لینڈ اور انگلینڈ میں لکھی گئی‘ اُس بہار کے تذکروں سے بھری ہے جو مارچ میں شروع ہوتی ہے۔ آسٹریلیا‘ برطانیہ کی توسیع ہے۔ علاقائی ہونے کے ساتھ ساتھ ثقافتی بھی۔ ’’ہوم کنٹری‘‘ کا ادبِ عالیہ آسٹریلیا کے لیے بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا اُن دوسرے ملکوں کے لیے جو اب...

آسمان کی طرف منہ کر کے

ہم بیس کروڑ افراد‘ بطور قوم‘ اس قدر ’’باغیرت‘‘ ہیں کہ اب اپنی بیٹیوں کی حفاظت نہیں کر سکتے۔ لگتا ہے اس کام کے لیے کسی دوسری قوم سے ٹھیکہ کرنا پڑے گا۔ ہماری مثال اس مغل شہزادے کی ہے جو عہدِ زوال میں پیدا ہوا اور بچپن سے لڑکپن اور پھر نوجوانی تک حرم سرا میں بیگمات ہی کی صحبت میں رہا۔ ایک دن اس کی موجودگی میں حرم سرا میں سانپ نکل آیا۔ سب عورتوں نے شور مچایا کہ کسی مرد کو بلائو تو شہزادے نے بھی شور مچایا کہ کسی مرد کو بلائو۔  ابھی فِضّہ ملک کی قبر پر مٹی بھی نہیں ڈلی تھی کہ پوری قوم اسے اور دوسرے شہیدوں کو بھول کر ٹیلی ویژن سکرین سے چمٹ گئی اور چھکوں اور چوکوں پر بھنگڑے ڈالنے لگ گئی۔ کیوں نہ ہو‘ روایت ہی یہی ہے۔ آخر یہی وہ قوم ہے جو سقوط ڈھاکہ کو چند ہفتوں ہی میں بھول گئی تھی۔ دنیا کا کوئی اور باضمیر ملک ہوتا تو خون کی اس ہولی کے بعد جو اسلام آباد میں کھیلی گئی‘ میچ ملتوی کرا دیتا۔ خاندان میں ایک شخص بھی مرے تو شادیاں ملتوی اور شادیانے بند ہو جاتے ہیں۔ یہاں ایک درجن افراد کے چیتھڑے اڑا دیے گئے‘ تیس موت و حیات کی کشمکش میں تھے‘ چالیس پچاس خاندان آہ و بکا کر رہے تھے اور باقی قوم مل...

جذباتی ڈور

                                                            کسان منڈی جا رہا تھا۔ کسی نے پوچھا کہاں جا رہے ہو؟ کہنے لگا، گدھا خریدوں گا، پھر اس پر لکڑیاں لادوں گا، شہر جا کر بیچا کروں گا، بہت سے پیسے جمع کروں گا اور یوں دولت مند ہو جائوں گا۔ دوسرے آدمی نے مشورہ دیا کہ اتنا لمبا چوڑا منصوبہ تو ٹھیک ہے لیکن ساتھ انشاء اللہ بھی کہہ دیا کرو۔کسان کو غصہ آگیا ، کہنے لگا: رقم میری جیب میں ہے‘ منڈی سامنے ہے‘ گدھا خریدنے میں اب کون سی رکاوٹ ہے کہ انشاء اللہ کہوں۔ شومئی قسمت سے منڈی پہنچا تو ہجوم میں اس کی جیب کاٹ لی گئی۔ اب وہ ناکام و نامراد منڈی سے واپس گھر کو چلا۔ راستے میں پھر کسی نے پوچھا‘ کہاں گئے تھے۔ کسان سبق سیکھ چکا تھا‘ کہنے لگا: انشاء اللہ منڈی گیا تھا، انشاء اللہ وہاں جیب کٹ گئی ، اب انشاء اللہ گھر واپس جا رہا ہوں۔  یہ پامال لطیفہ ہم سب نے کئی بار سنا ہوگا ، لیکن اب کے یہ نئے پیرائے میں سامنے آیا ہے۔ اسلام آباد کچہری پر دہشت گ...