اشاعتیں

جنوری, 2014 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

اپنے اپنے ہیرو‘ اپنے اپنے شہید

بھارت نے 26 جنوری 1950ء کو گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ (1935ء) ختم کر کے اپنے ملک میں نیا آئین نافذ کردیا تھا۔ اس حوالے سے 26 جنوری کو عام تعطیل ہوتی ہے اور یومِ جمہوریہ منایا جاتا ہے۔ دہلی میں عسکری پریڈ تقریبات کا حصہ ہوتی ہے۔ پریڈ میں ہر ریاست اپنی اپنی نمائندگی کرتی ہے۔ بڑی بڑی گاڑیوں پر ایسی یادگاریں یا امتیازی نشانات سوار کر کے پریڈ کے ساتھ پھرائے جاتے ہیں جو متعلقہ ریاست کی تاریخی‘ ثقافتی یا سماجی نمائندگی کرتے ہیں۔ اب کے 26 جنوری کی پریڈ میں ایک خاص بات یہ تھی کہ کرناٹک کی ریاست نے پریڈ میں اپنی نمائندگی ٹیپو سلطان کے تابلو (Tableau) سے کی۔ ٹیپو کا بہت بڑا مجسمہ رکھا گیا جس میں وہ تلوار لہرا رہا تھا۔ ساتھ ہی شیر تھا جو ٹیپو کا نام بھی تھا اور نشان بھی۔ ساتھ اُس کے سپاہی تھے‘ جو اسی زمانے کا لباس پہنے تھے۔ کرناٹک کی ریاست کا اصل نام میسور تھا۔ 1973ء میں بھارتی سرکار نے اسے کرناٹک کا نام دے دیا۔ بنگلور اس کا دارالحکومت ہے جو آئی ٹی کا بہت بڑا مرکز ہے۔  پریڈ میں ٹیپو سلطان کے تابلو سے پورے بھارت میں ہلچل مچ گئی۔ اکثر بھارتیوں کے نزدیک ٹیپو کو بطور ہیرو قبول کرنا مشکل ہو گیا۔ میڈ...

ہماری آخری اُمید

قافلہ دس تاجروں پر مشتمل تھا۔ کچھ کے کنبے بھی ساتھ تھے۔ اونٹوں پر تجارتی سامان تھا۔ مسافر بیل گاڑیوں پر سوار تھے۔ دو منزلوں کے بعد کچھ گھڑسوار نوجوان بھی قافلے میں شامل ہو گئے۔ دو دِن اس قافلے نے ایک بڑے شہر کے نواح میں پڑائو کیا۔ وہاں تین شخص ملے جن کی منزل وہی تھی جہاں قافلے نے جانا تھا۔ ان میں سے دو ادھیڑ عمر تھے اور ایک نسبتاً نوجوان۔نوجوان ہندو تھا اور باقی دو مسلمان۔ خوش اخلاق‘مودّب اور نرم گفتار۔ انہوں نے قافلے کے امیر سے بات کی کہ وہ تین اکیلے سفر کریں گے تو ڈاکوئوں کے ہاتھوں مارے جائیں گے۔ کیا ہی اچھا ہو اگر انہیں بھی قافلے میں شامل کر لیا جائے۔ امیر نے اپنے ساتھیوں سے سے مشورہ کیا اور انہیں شامل کر لیا۔ یہ تینوں افراد حسنِ اخلاق کا نمونہ تھے ۔جہاں کسی خاتون یا بزرگ کو کوئی کام پڑا‘ یہ دوڑ کر اُس کی خدمت میں مصروف ہو گئے۔ جہاں پڑائو ہوتا‘یہ خیمے لگاتے‘ راتوں کو پہرہ دیتے‘اگر شہر دور ہوتا تو اشیائے خورو نوش بھی یہی لاتے۔ کنوئوں سے پانی کے مشکیزے لاتے۔ ان میں سے ایک قصّہ گوئی میں بھی طاق تھا۔ خواتین اور بچّوں کو داستان سناتا تو سماں باندھ دیتا۔ دو ہفتے گزرے تو یہ پورے قافلے کی ...

انگریز کے اصل ذہنی غلام

تصویر

آرزوئے وصال کرتے ہو؟

طالبان کے پاس ایک ایسا ہتھیار ہے جو پاکستانی حکومت کے پاس نہیںع  مرے پاس ایسا طلسم ہے جو کئی زمانوں کا اسم ہے اور وہ ہے یونٹی آف کمانڈ۔فیصلہ اُن کے امیر نے کرنا ہے یا شوریٰ نے۔ اس کے علاوہ کوئی دُم ہے نہ پخ جو اُن کی قوتِ فیصلہ کو متاثر کرے اور فیصلہ ہو جانے کے بعد فیصلے کو غیر موثر کر دے۔ انہوں نے کسی فضل الرحمن کو خوش کرنا ہے نہ کسی منّور حسن کو ۔ کوئی اے پی سی نہیں جو انہیں زنجیر بہ پا کر دے۔ نہ ہی یہ کام‘ جو کچھ بھی یہ کام ہے‘ اُن کا جُزوقتی (پارٹ ٹائم) کام ہے اور نہ یہ کوئی بزنس ہے جو اُن کی ترجیحات پر شب خون مارے۔ اس کے مقابلے میں حکومتِ پاکستان نے ہر معاملے میں اتنے پیچ ڈالے ہوئے ہیں کہ ہر طرف پہیلیاں ہی پہیلیاں ہیں‘ کوئی منظر شفاف نہیں! کبھی کسی ایسے مولانا صاحب کو خوش کرنا ہے جو سر تاپا مفادات کی سیاست میں ڈوبے ہوئے ہیں اور اخلاص سے ان کا صرف اتنا ہی تعلق ہے کہ وہ سورہ اخلاص کی تلاوت کرتے ہیں۔ کبھی کسی ایسے مذہبی رہنما کو ساتھ ملانے کی فکر ہے جو تاریک قوتوں کی بھر پور نمائندگی کرتے ہیں اور شاید ہی کوئی بات انہوں نے کبھی منطقی اور معقول (Rational)کی ہو۔ایک مرحوم رہنما ...

مد اور جذر

محمدﷺ تو یہ چاہتے تھے کہ بنی نوع انسان کو ایک اعلیٰ درجے کے کلچر اور تہذیب سے روشناس کرایا جائے۔ اگر مغربی معاشرے کی تعمیر اسلام کی بنیاد پر ہوتی تو یورپ میں دہریے ہوتے نہ سوشلسٹ!  عورت کی حیثیت ملکیت کی تھی۔ یہ محمدﷺ تھے جنہوں نے اسے مالک بنا دیا!  یہ اقتباسات جی ڈبلیو لائٹنر (G.W.Leitner) کی تحریروں سے ہیں۔ ہنگری میں پیدا ہونے والا لائٹنر یہودی الاصل تھا۔ آٹھ سال کی عمر میں وہ قسطنطنیہ کے ایک مدرسہ میں داخل ہوا۔ دس سال کی عمر میں اسے ترکی اور عربی زبانوں پر عبور حاصل ہو چکا تھا۔ پندرہ سال کی عمر میں جب وہ برطانوی فوج میں ترجمان مقرر کیا گیا تو اس کا عہدہ کرنل کا تھا۔ پچاس زبانوں سے اس کا تعلق تھا جن میں بہت سی وہ روانی سے بولتا تھا۔ انیس برس کی عمر میں وہ عربی‘ ترکی اور جدید یونانی زبان کا لیکچرر ہو گیا۔ لندن کے کِنگز کالج میں جب وہ عربی اور اسلامی قانون کے شعبے میں فُل پروفیسر بنا تو 23 برس کا تھا!  یہ تھا گورنمنٹ کالج لاہور کا آغاز‘ کیونکہ یہی لائٹنر گورنمنٹ کالج لاہور کا پہلا پرنسپل تھا!  پنجاب یونیورسٹی کو بھی اُسی نے قائم کیا۔ اس نے لاتعداد ادبی اور علم...

توہین

تصویر

افسوس! خیرخواہ کوئی نہیں

افسوس! میاں محمد نوازشریف کا کوئی خیرخواہ نہیں! اور وہ عورت سخت خطرے کا باعث ہے۔  ہائے افسوس! کسی کو میاں نوازشریف کی پروا نہیں! ہر کوئی اپنا پیچ درمیان میں رکھے ہوئے ہے۔ اکیلے رہ گئے! ہیہات! ہیہات! میاں صاحب اکیلے رہ گئے۔  ابھی کچھ ہی دیر میں وہ عورت خم ٹھونک کر میدان میں اترنے والی ہے۔ اس فقیر کو صاف دکھائی دے رہا ہے کہ سب اُن سے نظریں چرا رہے ہوں گے۔ اللہ نہ کرے‘ سودا گھاٹے کا سودا بن جائے۔  وہ عورت آنے والی ہے۔ نور فاطمہ بھی اس کے ساتھ ہے۔ خطرے کی گھنٹی بج رہی ہے۔ کسی کو پروا نہیں!  کابینہ کے ارکان کو اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے۔ انہیں مجبوری بھی کوئی نہیں کہ ساتھ دیں۔ یہ جو میاں صاحب کے بل بوتے پر عیاشیاں کر رہے ہیں اور اُڑتے پھر رہے ہیں‘ یہ سب غائب ہونے والے ہیں۔  اسحاق ڈار صاحب‘ جنہوں نے کروڑوں لوگوں کے گھروں میں چولہے بجھا دیے ہیں‘ جو کھرب پتی نہیں‘ کھرب ہا پتی ہیں‘ جو متحدہ عرب امارات کے ارد گرد کے سمندروں کو اپنے کوزے میں بھر سکتے ہیں‘ انہیں بھی غرض ہے نہ فکر کہ میاں صاحب کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔  عابد شیر علی جو زبان کھولتے ہیں تو لگتا ہے فضا ...

نچنا پیندا اے

کالم اہلِ خراسان کی سرشت اور نفسیات پر لکھنا تھا کہ حکومت کو تو ان ’’فضول‘‘ موضوعات سے دلچسپی نہیں‘ شاید وزارت خارجہ کے صحرا ہی میں یہ اذان سن لی جائے جہاں ہر کاتبِ تقدیر یورپ اور امریکہ کی تاریخ کے پیچھے پڑا رہتا ہے کیونکہ اکثر و بیشتر کی ارضِ موعود (Promised Land) وہی ہے‘ لیکن دو دن پیشتر ایک ایسا خوشگوار واقعہ پیش آیا‘ ایک ایسی مثبت پیش رفت ہوئی کہ تحدیثِ نعمت کے طور پر اس کا ذکر زیادہ ضروری نظر آ رہا ہے۔  یہ واقعہ‘ یہ پیش رفت‘ اس مملکت کی تاریخ میں سنگِ میل ہے۔ امریکی ایسے مواقع پر واٹر شیڈ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ پن دھارا‘ جس سے صحرا چمنستان بن جاتے ہیں‘ جس کے بعد حالات ایسا رُخ اختیار کرتے ہیں کہ اندرونی کے علاوہ بیرونی سمتیں بھی تبدیل ہو جاتی ہیں۔  قدرت کی یہ کرم فرمائی اس مملکت کے لیے تو نعمتِ غیر مترقبہ ہے ہی‘ خود مسلم لیگ نون کی حکومت کے لیے بھی آسمانی مدد سے کم نہیں۔ تصور کیجیے‘ مسلم لیگ نون برس ہا برس کی ریاضت کے بعد‘ اپنے لاتعداد تھنک ٹینکوں کی محنتِ شاقہ کے بعد‘ اقتدار میں آئی ہے۔ وہ سنجیدہ ہے۔ اُسے وعدے ایفا کرنے ہیں‘ ملک کی حالت بدلنی ہے‘ فرسودہ سماجی ڈ...

اللہ ہی دے گا مولا ہی دے گا

ہزاروں کا مجمع تھا۔ایک نوجوان لائوڈ سپیکر پر بول رہا تھا:  ’’میں اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں‘‘۔  ’’کیا یہ فیصلہ تم نے اپنی مرضی سے کیا ہے؟‘‘ ڈاکٹر ذاکر نائک نے پوچھا۔  ’’ہاں،اپنی مرضی سے کیا ہے‘‘۔  ’’کیا اسلام قبول کرنے کے لیے تم پر کوئی دبائو ہے؟‘‘  ’’نہیں‘‘۔  ’’کیا تمہیں کوئی مالی مجبوری ہے جس کے لیے اسلام قبول کر رہے ہو؟‘‘  ’’نہیں‘‘۔  ’’کیا یہ فیصلہ تم نے خوب سوچ سمجھ کر کیا ہے؟‘‘  ’’ہاں! خوب سوچ سمجھ کرکیا ہے۔ اپنی مرضی سے کیا ہے لیکن ایک بات ہے ، بس ڈر سا لگ رہا ہے‘‘۔  ’’کس کا ڈر؟ کس سے ڈر رہے ہو؟‘‘  ’’دیوی‘ دیوتائوں سے‘ کہیں وہ نقصان نہ پہنچائیں‘‘۔  ڈاکٹر ذاکر نائک نے اس کا ڈردورکیا اور وہ مسلمان ہوگیا لیکن ہمارا موضوع صرف یہ ہے کہ وہ دیوی دیوتائوں سے ڈر رہا تھا!  ہم مسلمان کسی دیوی‘ دیوتا‘ بُت‘ مورتی‘ مجسمے سے نہیں ڈرتے۔ یہ ہم پر خالقِ کائنات کا بہت بڑا احسان ہے۔  لیکن کیا ہم فی الواقع خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم نے پتھر کی مورتیاں تو نہیں بنائیں‘ لیکن زندہ انسانوں کو دیوتا...

بارہ ربیع الاوّل

                                                              وہ یورپی ٹورسٹ یاد آ  رہی ہے جو الحمرا کے Court of lions میں ملی تھی۔ الحمرا کی عمارتوں میں گھومتے گھومتے شام ہو چلی تھی۔ سورج غروب ہونے سے پہلے محراب سے جھانک رہا تھا۔ عجیب لمحے تھے۔ وقت رک گیا تھا۔ وہیں وہ اشعار ہوئے جنہیں سراج منیر مرحوم نے پڑھا تو بے اختیار ماتھے پر بوسہ ثبت کیا   ؎ تیغ کی دھار میں الحمرا موتی کی آب میں الحمرا اک محراب میں سورج ہے اور اک محراب میں الحمرا زر اور مرمر حرف ہیں میرے وقت کی نوک قلم میرا میں الہام ہوں میرے سب سے روشن باب میں الحمرا سب زیتون کے باغ اس سے سارے شہروں میں چراغ اس سے ہاتھ سمندر کی نبضوں پر، پائوں رکاب میں الحمرا رستے زخم کی دو تصویریں اک میں دمک ہے اک میں کسک سرخ لہو میں الحمرا ہے سرخ گلاب میں الحمرا جس دن فلک پہ تارا ٹوٹا، سامنے آئے گی تعبیر صدیوں پر پھیلی ہوئی رات کے سچے خواب میں الحمرا کورٹ آف لائنز ک...

چند تجاویز

اگر اب بھی مدارس کے مخالفین راہِ راست پر نہیں آتے تو پھر کیا وہ آسمان سے پتھروں کی بارش برسنے کے منتظر ہیں؟  اسلام کے دشمن چودھری اسلم ایس ایس پی کو ختم کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ یہ جان جوکھوں کا کام تھا۔ آخر یہ عظیم الشان کارنامہ مدرسہ ہی کے طالب نے سرانجام دیا ع  این کار از تو آید و مردان چنین کنند  اس خودکش بمبار کے بھائی نے دورانِ تفتیش بتایا کہ اس کے والد مدرسہ چلاتے ہیں۔ طالبان کے ساتھ ان کے خاندانی تعلقات ہیں۔ ایک بھائی 2011ء میں خودکش حملہ کرنے کے لیے جا چکا ہے۔ یہ خودکش بمبار‘ جس نے چودھری اسلم کو ختم کیا‘ اپنے والد کی مدرسہ چلانے میں مدد کرتا تھا لیکن خود کسی اور مدرسہ میں زیر تعلیم تھا۔ وہ جس مدرسہ میں پڑھ رہا تھا‘ اس مدرسہ کے مالک (یا چلانے والے) کا صاحبزادہ بھی خودکش حملہ کر چکا ہے۔ خودکش بمبار کے بھائی نے مزید بتایا کہ اس کا ایک بھائی خودکش حملہ کرنے گیا تو اپنے دوسرے ساتھی کی گرفتاری سے خوف زدہ ہو کر واپس بھاگ آیا۔ اس پر مشن کی ناکامی کا الزام لگا اور وہ قتل کردیا گیا۔  اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم کچھ تجاویز پیش کر رہے ہیں:  …ملک...

کند ذہن

مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ میں ایک کند ذہن شخص ہوں۔ اللہ کو جان دینی ہے۔ سچ بولنا چاہیے۔ اول تو معاملات سمجھ ہی میں نہیں آتے اور آئیں بھی تو بہت دیر سے آتے ہیں۔ میری مثال سچ پوچھیے تو اُس شخص کی ہے جو لطیفہ سنتا تھا تو دو بار ہنستا تھا۔ پہلی بار اس لیے کہ سب ہنستے تھے۔ دوسری بار تب جب اُسے لطیفہ سمجھ میں آ جاتا تھا۔  بتانا یہ چاہتا ہوں کہ ایم کیو ایم کی قبولیتِ عامہ کا سبب ایک عرصہ تک سمجھ میں نہ آیا۔ حیران ہوتا تھا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اس نے پنجاب‘ خیبرپختونخوا‘ بلوچستان اور دیہی سندھ میں بڑے بڑے بُرج اُلٹ دیے۔ شہروں میں تو زبردست مقبولیت تھی ہی‘ چھوٹے چھوٹے قصبوں اور قریوں میں بھی ہر چوپال پر‘ ہر دکان پر‘ ہر دیوار پر قائدِ تحریک کی تصویر لگی نظر آتی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ حق پرست تحریک برادری ازم کو کھا گئی۔ گجرات سے چودھری ایم کیو ایم کے امیدواروں کے ہاتھوں ہار گئے۔ رائے ونڈاور ماڈل ٹائون کی نشستیں بھی اس نے جیت لیں۔ چار سدہ سے ولی خان خاندان کی آبائی نشست بھی اس کے ہاتھ آئی۔ راولپنڈی سے شیخ رشید‘ مری سے خاقان عباسی‘ ڈی آئی خان سے مولانا فضل الرحمن‘ ...

وفاق؟ کون سا وفاق؟

آخر شاہی خاندان کے ذہن میں مستقبل کا کیا نقشہ ہے؟ خاکم بدہن ، سوچنے ہی سے خوف آنے لگتا ہے!  اگر اسفند یار جلال آباد یا کابل جا کر اپنے دادا کے دوستوں کے خانوادوں کے ساتھ جپھیاں ڈالتے تو ڈیرہ اسماعیل خان سے لے کر بنی گالہ تک گرج چمک کے ساتھ طوفان بھی آ جاتا۔  وفاق خیبر پختونخوا کے مسئلوں سے یکسر بے نیاز ہے۔ ہزاروں افراد روزانہ طورخم کے آرپار آ جا رہے ہیں۔ سکیورٹی ہے نہ کسی سرحد کی حرمت۔ ایسے میں اگر پرویز خٹک صاحب میں خوداعتمادی ہوتی اور قوتِ فیصلہ بھی تو وہ کرزئی حکومت سے بات چیت کر کے اپنے دکھوں کا مداوا کرنے کی خود سعی کرتے، لیکن اگر ایسا ہو جاتا تو پنجاب کی وزارت قانون سے لے کر وفاق کی وزارت اطلاعات تک ایمرجنسی کا نفاذ ہو جاتا۔ صوبے کے سب سے بڑے شہر کے سیوڈو دانشور مال روڈ کے چائے خانوں میں چکن سینڈوچ اور پیسٹریوں کی پلیٹوں پر ٹپ ٹپ آنسو گراتے اور ان کارخانوں میں رات دن شفٹیں چلا کر‘ پیداوار ڈبل کی جاتی جن میں دوسروں کو غدار ثابت کرنے کے لیے نٹ بولٹ اور گراریاں بنائی جاتی ہیں۔  سید قائم شاہ کی چیف منسٹری کے پیروں میں زنجیریں نہ ہوتیں اور وہ بلاول ہائوس کے بجا...

ڈال رِمپل اور گُل محمد

کئی سال پہلے اُس کی تصنیف ’’وائٹ مغلز‘‘ پڑھی۔ تب سے ولیم ڈال رمپل (Dalrymple)کے طرزِ نگارش نے اپنے سِحر میں جکڑ رکھا ہے۔ ثقافتی حوالے سے بّرِصغیر کے برطانوی دور کو دو حصّوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ 1800ء سے پہلے اور 1800ء کے بعد۔ 1798ء میں رچرڈ ولزلے ہندوستان کا گورنر جنرل بن کر آیا۔اس سے پہلے انگریز حکمرانوں اور ہندوستانی محکوموں میں آقا اور نوکر کا تعلق تو تھا۔ لیکن ابھی آقائوں کے رویّے میں رعونت اور فرعونیت نہیں آئی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب انگریز مقامی خواتین سے شادیاں کرتے تھے۔ ہندوستانی لباس اپناتے تھے۔ قالینوں پر بیٹھ کر حقہ نوشی کرتے تھے۔ پان کھاتے تھے اور ہندوستان کی ثقافتی تقریبات میں شرکت کیا کرتے تھے۔ ایسے انگریزوں کو جو ہندوستانی طرزِ زندگی اپنا لیتے تھے‘ وائٹ مغل کہا جاتا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق ہرتین میں سے ایک انگریز مقامی عورت سے شادی کرتا تھا۔ 1798ء سے 1805ء تک کا عرصہ برطانوی حکمرانوں کا ایک نیا طرزِ عمل لایا۔ یہ رچرڈ ولزلے کی گورنری کا زمانہ ہے۔ اُس نے اپنے طرزِ حکومت سے‘ماتحت انگریزوں کو ہدایات سے‘تحریری فرامین سے۔ہر ممکن طریقے سے اِس دوستانہ رویے کو تبدیل ...

محبت کے ساتھ

یہ گنہگار اُن لوگوں میں سے نہیں جو قائداعظم کو سیکولر قرار دینے پر مصر ہیں یا انہیں مولوی بنا کر پیش کرتے ہیں۔ قائداعظم کو اپنے پسندیدہ خانوں میں فٹ کرنا اُن کی تو ہین ہے۔رہا پاکستان کا اسلامی تشخص تو اس کے بغیر چارہ ہی نہیں۔ بھارت سے الگ ہونے کا مطلب ہی یہ تھا کہ ہماری شناخت اسلام ہے۔ پاکستان اس لیے بنا تھا کہ یہاں اسلامی اخوت و مساوات اور اسلامی احکام کے مطابق عوام سے انصاف کیا جائے۔ ہمارے فاضل دوست جب اسلام کے حوالے سے بات کرتے ہیں تو ہم ان سے اتفاق کرتے ہیں۔ ہماری گزارش صرف یہ ہے کہ ہم اس جدوجہد میں حقائق کو مسخ نہ کریں۔ قائداعظم کے ساتھی بھی ہمارے لیے قابلِ احترام ہیں۔ شہید ملت لیاقت علی خان کے بارے میں یہ تاثر دینا کہ وہ قادیانی وزیر خارجہ کے ہاتھوں میں کھیل رہے تھے‘ افسوس ناک ہے!  ہمارے فاضل دوست نے اپنے اٹھارہ مئی 2013ء کے کالم (جمہوریت کے اجارہ دار) میں تین دعوے کیے۔ اوّل: قائداعظم کی ہدایت پر لاہور میں علامہ اسد کی سربراہی میں ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن قائم ہوا تھا۔ دوم: قائداعظم نے اسد کو ستمبر 1947ء میں ریڈیو پر تقاریر کرنے کی ہدایت کی۔ سوم: جب اسد کے محکمے نے ا...

خاک اُڑا اور بہت

آپ ٹیلی ویژن دیکھ رہے ہیں۔ دلچسپ پروگرام ہے۔ معلومات افزا ہے۔ آپ کے علم میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دفعتاً پروگرام پیش کرنے والے صاحب ایسی بات کہہ جاتے ہیں جو علمی یا تحقیقی اعتبار سے قطعاً غلط ہے یا تاریخی لحاظ سے خلافِ واقعہ ہے۔ اس ضمن میں آپ نے بھی پڑھ رکھا ہے اور جان رکھا ہے۔ آپ حیران ہوتے ہیں کہ ایک بات جو صریحاً غلط ہے‘ کتنے اعتماد کے ساتھ پیش کی جا رہی ہے اور پوری دنیا میں لاکھوں کروڑوں افراد اسے سن اور دیکھ رہے ہیں۔  آپ اضطراب میں پہلو بدلتے ہیں‘ مصمم ارادہ کرتے ہیں کہ اس کی نشاندہی کریں گے لیکن اصل صدمہ اس وقت پہنچتا ہے جب آپ پر یہ دردناک حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ آپ نشاندہی نہیں کر سکتے۔ آپ کیا کر سکتے ہیں؟ پروگرام پیش کرنے والے ’’علامہ‘‘ صاحب کا فون نمبر آپ کو معلوم ہے نہ ای میل۔ اگر ٹیلی ویژن چینل کے نام خط لکھیں تو اول تو یہی نہیں معلوم کہ خط ٹی وی چینل کے کراچی آفس کو لکھنا ہے یا لاہور یا اسلام آباد یا دبئی؟ یہ بھی نہیں معلوم کہ ’’علامہ‘‘ صاحب کس شہر میں ہیں۔ ہمارے ملک میں احساسِ ذمہ داری جس ’’بلند‘‘ سطح پر ہے‘ اس کے پیشِ نظر سو فی صد امکان اس بات کا ہے کہ یہ خط متع...

پہلا سورج

ہم سمندر کے کنارے ریت پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئے اور انتظار کرنے لگے۔ یہ پَو پھٹنے کا وقت تھا۔ ہم نئے سال کے پہلے سورج کی امید میں تھے۔  ہمارے پیچھے دکھوں کا جنگل تھا۔ آگے غموں کا سمندر تھا! ریت پر بچھانے کے لیے چیتھڑا تک نہ تھا۔ آنکھوں میں اڑتے ہوئے ذرے پڑ رہے تھے۔ تیز ہوا پھٹے ہوئے کپڑوں سے گزر کر سنسناتے ہوئے تیر کی طرح لگ رہی تھی۔ نظریں سمندر کے پار‘ افق پر تھیں۔ سورج نکلے گا۔ نئے سال کا پہلا سورج۔ سنہری کرنیں‘ سمندر کو عبور کر کے ہمیں آغوش میں لے لیں گی۔  کتنے سال ہو گئے‘ کتنے عشروں سے ہم ہر نئے سال کے پہلے سورج کے لیے ریت پر بیٹھتے چلے آ رہے ہیں۔ افسوس! صد افسوس! ہیہات! ہیہات! جب بھی نئے سال کا پہلا سورج طلوع ہوتا ہے‘ اس کی کرنیں ہم تک نہیں پہنچ پاتیں۔ ہمارے پیچھے جنگل کے درختوں پر مچانیں باندھ کر بیٹھے ہوئے تیرانداز‘ نئے سورج کی شعائوں کو اچک لیتے ہیں۔ ہمارے سامنے‘ پانیوں میں دندناتے گھڑیال‘ سنہری کرنوں کو جھپٹ لیتے ہیں‘ ہم تک کبھی کوئی کرن نہیں پہنچی۔ ہم نئے سال کا پہلا طلوع دیکھ کر… روتے ہیں‘ سسکیاں بھرتے ہیں‘ پھر بدن کے اوپر اور آنکھوں کے اندر ریت کے ذرے ...