اشاعتیں

2014 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

وزیر اعظم کے لیے ٹیسٹ کیس

گر یہ ممکن ہے کہ سورج رات کو نکلنا شروع ہو جائے اور دن بھر کے کام چاند کی روشنی میں ہونے لگیں تو یہ بھی ممکن ہے کہ پاکستان سے دہشت گردی ختم ہو جائے۔ اس گھر کا تصور کیجئے جس کی حفاظت کیلئے چھت پر بندوقچی مورچہ زن ہوں۔ صدر دروازے سے لے کر داخلی دروازوں تک ہر جگہ مسلح پہریدار کھڑے ہوں لیکن دشمن گھر کے اندر ایک کمرے میں آرام سے رہ رہا ہو اور چوکیداروں سے کوئی نہ پوچھے کہ تمہاری موجودگی کے باوجود یہ اندر کیسے آ گیا ہے؟ طرفہ تماشا یہ کہ گھر کے مالک کو صورتحال سے آگاہی بھی ہو! اسے معلوم ہو کہ گھر کے اندر، ایک کمرے میں دشمن رہ رہا ہے! گرم پانی، نرم بستر، کھانا، آرام و استراحت کے سارے اسباب گھر ہی کے استعمال کر رہا ہے لیکن مالک کو فکر ہے نہ پروا! اس پہلو کو تو رہنے ہی دیجئے کہ ملک کی بھاری اکثریت کا مائنڈ سیٹ کیا ہو گیا ہے۔ اس بات کو بھی چھوڑ دیجئے کہ ہاتھوں میں ٹوکے پکڑ کر جو واعظین شعلہ بیانیاں کرتے ہیں، ان کے سامنے لاکھوں کا مجمع ہوتا ہے! اس حقیقت سے بھی در گزر کیجئے کہ ٹیکس بچانے والے تاجر ہوں یا مشکل سے گزر اوقات کرنے والے سفید پوش، دل کھول کر چندہ دیتے ہیں۔ ان سب باتوں کو چھوڑ دیجئے...

خواب اور حسرت

سچ پوچھیں تو تاج محمد کی زندگی سراسر خسارے کی زندگی ہے! جن دو طبقوں کا پاکستان میں راج ہے ،جن کی پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہے۔ ان دونوں کا تاج محمد سے دور دور کا تعلق نہیں۔ وہ کسی یونیورسٹی میں نہیں پڑھا، وکالت کی نہ سیاست، کسی پارٹی میں شامل نہ ہوا، کوئی وزارت نہ سنبھالی، انسانی حقوق کے نام پر سزائے موت کی مخالفت کی نہ غریبوں کی زندگی بدل ڈالنے کے لئے کوئی این جی او بنائی۔ اس قلاش شخص کا اتنا بخت کہاں کہ یہ بیرون ملک سرمایہ کاری کرتا۔ جدہ میں فیکٹری لگانا تو دور کی بات ہے اس نے جدہ دیکھا تک نہیں۔ فرانس میں چار سو سالہ پرانا محل خریدنا کجا، اسے یہی نہیں معلوم کہ فرانس کس براعظم میں ہے نہ اسے پتہ ہے کہ بر اعظم کیا ہیں اور کتنے ہیں۔ لندن میں پراپرٹی کا کاروبار کرنے یا نیویارک میں بیش بہا اپارٹمنٹ خریدنے کا امکان اس کی آئندہ نسلوں کے بھی دائرہ تصور سے خارج ہے۔ تاج محمد نے برانڈڈ یا ڈیزائنر سوٹ تو کیا پہننا ہے اس نے پتلون اور کوٹ کو کبھی جسم کے قریب تک نہیں کیا۔ اس کی ملکیت میں کوئی جائیداد ہے نہ مربع، زرعی فارم ہے نہ کارخانہ، دارالحکومت کے امیر سیکٹر میں اپارٹمنٹ بنانے کا کاروبار...

تو پھر یہ لیں

ذوالفقار چیمہ سے میری پہلی ملاقات علائوالدین خلجی کے دربار سے باہر ڈیوڑھی میں ہوئی۔ علائوالدین خلجی نے گرانی اور ذخیرہ اندوزنی کے خلاف ایک نظام وضع کیا، غلے کی رسد کو یقینی بنایا اور ٹوپی سے لے کر جوتے تک ،کنگھی سے لے کر سوئی تک اور خادمہ سے لے کر گھریلو ملازم تک۔ ہر شے کے نرخ مقرر کردئیے۔ اس نظام کو کامیابی سے چلانے کے لئے اسے ایک ایسے پولیس افسر کی ضرورت تھی جو نڈر ہو اور لالچی نہ ہو۔سلطان کے جاسوسی کے نیٹ ورک نے جو اپنے زمانے کا عجوبہ تھا ذوالفقار چیمہ کا نام تجویز کیا۔ چیمہ جب دربار میں حاضر ہونے کے لئے ڈیوڑھی میں اترا ہے تو میں اس وقت محترم شاہ صاحب سے بات کررہا تھا۔ شاہ صاحب دربار سے واپس آکر ڈیوڑھی میں کھڑے تھے اور پریشان تھے۔ میری صحافتی حس بتاتی تھی کہ بادشاہ ان کے ساتھ سرد مہری سے پیش آیا ہے۔ ان کی ذرہ نوازی کہ مجھے اعتماد میں لیا ،وہ سلطان کو معاملے کی اونچ نیچ سمجھانے آئےتھے۔ کراچی کے تجارتی حلقوں میں اضطراب پھیلا ہوا تھا، لیاری اور سہراب گوٹھ کے کچھ گروہ ذوالفقار چیمہ کی تعیناتی سے ناراض ہوسکتے تھے اور یہ ناراضگی شاہ صاحب کے لئے خطرناک تھی، تاہم دربار میں پہنچ کر شاہ ...

شہید ہونے والے بچو ہماری مجبوریاں سمجحو

ہم نے تمہاری لاشیں اٹھائیں، تمہارے خون آلود پارہ پارہ جسموں کو غسل دیا، تمہارے جنازے پڑھے، تمہاری قبروں سے لپٹ کر روئے، ہم نے سینوں پر دو ہتھڑ مارے، مائوں اور بہنوں نے بال کھول ڈالے اور وہ ماتم کیا کہ آسمان لرز اٹھا، زمین کانپ گئی، ستارے ڈولنے لگے۔ ہم روئے، گریہ وزاری کی، ہمارے دلوںمیں صدمے کی شدت سے چھید پڑگئے ہیں، ہمارے کلیجے شق ہوگئے ہیں۔ قریب ہے کہ بینائی مسلسل روتی ہوئی آنکھیں سے رخصت ہوجائے۔ کیا عجب درختوں پھولوں اور پتوں سے ہمارے نوحوں کی آواز آنے لگے۔ کیا عجب چاندنی سسکیاں لے اور سسکیوں کی آواز پوری دنیا سنے ستارے سسکیاں لیتے ہیں، اوس روتی ہے فسانۂ جگر لخت لخت ایسا ہے ہمارے غم اور کرب میں شک ہی کیا ہے لیکن اے شہد ہونے والے بچو! تم یہ نہ سمجھ بیٹھنا کہ ہماری گریہ وزاری، ہمارے ماتم، ہماری چیخوں اور ہماری سینہ کوبی کا یہ مطلب ہے کہ ہم تمہارے ان دوستوں کو جو زندہ ہیں، دہشت گردوں کے نشانے سے بچا سکیں گے! شہید ہونے والے بچو! جگر کے ٹکڑو! آنکھوں کی روشنیوں! ہماری مجبوریاں سمجھو! ہم عورتوں کی طرح آہ وزاری تو کرسکتے ہیں، مردوں کی طرح ایکشن نہیں لے سکتے۔ ہماری مصلحتوں نے ہمارے...

مکافات

آج چودہ دسمبر ہے، دو دن بعد سقوط ڈھاکہ کی برسی ہے۔ کیا ان دو دنوں میں ہم یہ تسلیم کرلیں گے کہ اس سقوط کے سب سے زیادہ ذمہ دار ہم خود یعنی موجودہ پاکستان ہے؟ نہیں! اگر 43سال میں ایسا نہیں ہوسکا تو ان دو دنوں میں کیسے ہو سکتا ہے! 43 سال؟ 43سالوں کی کیا حیثیت ہے۔ ہم توڈھائی سو برسوں میں یہ نہیں مان سکے کہ برصغیر پر انگریزوں کے قبضے کی ذمہ داری برصغیر کے لوگوں پر بھی ہے! آج تک اس کا سبب انگریزوں کی مکاری بتایا جا رہا ہے۔ یہی لکھا جا رہا ہے اور یہی پڑھایا جا رہا ہے۔ یہ کوئی نہیںبتاتا کہ مکاری سے ایک آدھ یا چند ریاستوں پر کچھ عرصہ کے لئے قبضہ کیا جاسکتا ہے، پورے برصغیر کو دو سوبرس تک مٹھی میں کیسے رکھا جاسکتا ہے؟ سکندر مرزاکے فرزند ہمایوں مرزا نے اپنی مشہور تصنیف ’’فرام پلاسی ٹو پاکستان‘‘ میں تفصیل سے لکھا ہے کہ ہندوستانی حکمران بالعموم اور مسلمان حکمران بالخصوص کس طرح زندگی بسر کرتے تھے اور سات سمندر پار سے آنے والوں کا طرز حکومت کیا تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی اپنے محکمہ مالیات کی اجازت کے بغیر ایک پیسہ نہیں خرچ کرسکتی تھی جبکہ برصغیر کے اکثر جانشین عیاشی سے بھرپور زندگی کے طفیل تیس بتیس بر...

نیکر پتلون کیسے بنی

عبدالحق کے ہاتھ میں ایک سرکاری خط تھا۔ یہ رہائی کا پروانہ تھا، عبدالحق جلد از جلد یہ خط متعلقہ حکام کو پہنچانا چاہتا تھا تاکہ اس کے والد کو رہا کردیا جائے۔وہ 13 فروری 1861ء کو پورٹ بلیئر پہنچا۔ کشتی سے اتر کر جزیرے میں پائوں رکھا ہی تھا کہ سامنے جنازہ دیکھا۔پوچھا کس کا ہے؟ جواب ملا، فضل حق خیر آبادی کا، جو اس کے والدتھے! مولانا فضل حق خیر آبادی جزائر انڈیمان کے واحد قیدی نہیں تھے۔1857ءکا محشر تھما تو درختوں کی شاخیں مجاہدین کی گردنوں کے لئے کم پڑگئیں۔انگریزوں کے پاس جغرافیے کا علم بھی تھا اور جہازرانی کے وسائل بھی۔ انہوں نے جزائر انڈیمان کو قید خانہ قرار دیا اور سزایافتگان کو جہازوں میں لاد کر لے گئے۔ہندوستانیوں نے جزائر انڈیمان کا نام کالا پانی رکھا۔ اس وقت تک سرکاری احکام بڑی حد تک فارسی میں لکھے جاتے تھے جسے کالے پانی بھیجا جاتا اس کے نام آگے’’بعبور دریائے شور‘‘ لکھا جاتا! سزا یافتگان کو انگریزوں نے آسٹریلیا بھی بھیجالیکن وہ سفید فام تھے اگر کالے پانی کے قیدی ہندوستانی نہ ہوتے، سفید فام ہوتے تو کیا عجب انڈیمان کے جزائر بھی آج آسٹریلیا کی طرح ترقی یافتہ ملک ہوتے۔ انڈیمان کے ج...

شہرت یا روشن چہرہ

براہام ایرالی معروف مورخ ہیں۔ کیرالہ میں پیدا ہوئے ،کئی بھارتی اور امریکی یونیورسٹیوں میں پڑھایا۔ اب چنائی(مدراس) میں رہتے ہیں۔ سلاطین دہلی اور مغل عہد پر کئی کتابیں لکھیں چونکہ ہندو نہیں ہیں اس لئے کئی بھارتی تجزیہ نگار انہیں’’اینٹی ہندو‘‘ اور متعصب‘‘ بھی قرار دیتے ہیں۔جن دنوں ابراہام ایرالی سلاطین کے عہد پر تحقیق کررہے تھے ان کی ایک کلاس فیلو انہیں چالیس برس بعد ملی۔ اب وہ بیرون ملک ایک کامیاب اور قابل رشک کاروباری شخصیت تھی۔ ایک شام دونوں سیر کررہے تھے کہ ا چانک ان کی دوست نے پوچھا تحقیق کے دوران ایسا کون سا واقعہ ملا جس نے سب سے زیادہ متاثر کیا ہو۔ ایرالی نے بتایا کہ مراکش سے آنے والا ابن بطوطہ سلطان محمد تغلق کے دربار میں اعلیٰ مقام پر فائز تھا۔ یہ چودھویں صدی عیسوی کے وسط کا زمانہ تھا۔ بادشاہ نے اسے اپنا سفیر بنا کر چین بھیجا۔ چین جاتے ہوئے کچھ عرصہ ابن بطوطہ مالدیپ میں ٹھہرا۔ وہاں ایک چھوٹے سے جزیرے میںجانے کا اتفاق ہوا ،پورے جزیرے میں صرف ایک جھونپڑا تھا۔ گارے اور درختوں کی شاخوں سے بنا ہوا، وہاں اسے وہ شخص ملا جو اس جزیرے کا واحد باشندہ تھا۔ اس کی بیوی بچے بھی ساتھ رہتے تھے...

بات کر تجھ پر گماں ۔۔۔۔۔۔۔

فیض صاحب بڑے شاعر ہونے کے ساتھ بڑے انسان بھی تھے۔ مخالفین نے بے شمار اعتراضات کیلئے پینترے بدل بدل کر حملے کئے جو دائیں طرف تھے انہوں نے بے دین کے الزامات لگائے۔ جو بائیں طرف تھے وہ الگ ناخوش تھے۔ سازشی سے لے کر وطن دشمن تک ہر خطاب سے نوازا گیا لیکن فیض صاحب کی شائستگی کا یہ عالم تھا کہ کبھی ردعمل نہ ظاہر کیا۔ کبھی کسی کے خلاف بات کی نہ بیان دیا۔ نہ ہی وضاحت کے چکر میں پڑے سنا تو مسکرا دیے۔ اس لحاظ سے وہ مظلوم تھے۔ مظلوم اس لحاظ سے بھی تھے کہ کیا پسماندگان اور کیا دوسرے، ان کی شاعری کو ایک خاص فلسفے سے وابستہ کر کے ان پر ایک چھاپ لگا دی گئی اور پھر فوائد اکٹھے کئے گئے لیکن یہ ایک دوسرا موضوع ہے۔ مولانا مودودی دوسرے مظلوم تھے جن پر اعتراضات اور الزامات کی بوچھاڑ کی گئی۔ روایتی علما کو اعتراض تھا کہ وہ کسی مدرسہ سے فارغ التحصیل نہیں۔ بائیں سمت والے کہتے تھے کہ امریکہ سے حساب کتاب ہے۔ انتہائی دائیں طرف والے تجدید اورتجدد کا الزام لگاتے تھے۔ لیکن مولانا کسی الزام کا جواب نہیں دیتے تھے۔ علمی حوالے سے بھی ایک ہی بار وضاحت کرتے۔ زیادہ بہتان لگے تو اتنا کہا کہ کچھ لوگ اپنے سارے نماز روزے اور...

گستاخی معاف

تصویر

ڈرامہ

  اِندر سبھا اردو کا پہلا مکمل ڈرامہ ہے۔ روایت ہے کہ آغا حسن امانت سے یہ ڈرامہ نواب واجد علی شاہ نے لکھوایا تھا۔ تاہم اردو ڈرامے کو اوجِ کمال تک لے جانے کا کریڈٹ آغا حشر کاشمیری کو جاتا ہے۔ حشر کاشمیری بنارس میں پیدا ہوئے۔ ڈرامہ نگاری کا شوق بمبئی لے گیا جہاں پارسی کمپنیاں سٹیج کی دنیا آباد کئے تھیں۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ حشر کاشمیری ڈرامے کی دنیا پر چھا گئے۔ ہر طرف ان کا شہرہ تھا۔ کلکتہ لاہور جہاں بھی گئے، ظفریابی کے جھنڈے گاڑ دیئے۔ اپنی تھیٹر کمپنیاں بھی بنائیں۔ رستم و سہراب، اسیرِ حرص، ترکی حور، آنکھ کا نشہ، یہودی کی لڑکی، خوبصورت بلا اور سفید خون آغا حشر کاشمیری کے مشہور ڈرامے ہیں۔ وہ اردو کے شیکسپیئر کہلائے۔ بے شمار تحقیقی مقالے ان کے فن اور شخصیت پر لکھے گئے اور لکھے جا رہے ہیں۔ ذاتی زندگی میں حشر کاشمیری دلچسپ تھے اور مجموعۂ اضداد بھی۔ گالیاں بہت دیتے تھے۔ فریدہ خانم کی بہن مختار بیگم سے شادی کی۔ مختار بیگم کو انہوں نے جس انداز میں خراجِ تحسین پیش کیا، وہ بہت مشہور ہوا۔ ’’میں ساری زندگی اپنے آپ کو مصرع سمجھت...

ریاست ؟ کون سی ریاست ؟

عورت جوان تھی۔ اس کے شوہر کو ملازم نے مار ڈالا۔ دو چھوٹے چھوٹے بچے تھے۔ مقدمہ عدالت میں گیا۔ گواہ پیش ہوئے جن کا کہنا تھا کہ انہوں نے ملزم کو قتل کرتے خود دیکھا ہے۔ فیصلہ یہ صادر ہوا کہ گواہوں کو دو دو سال قید بامشقت اور نقد جرمانے کی سزا ہو۔ ملزم کو بری کردیا جائے۔ مستغیثہ کا جو بے چاری بیوہ ہوگئی ہے، نکاح ملزم سے کردیا جائے۔ جرمانے سے حاصل شدہ رقم سے نکاح کے اخراجات پورے کیے جائیں۔ رہے بچے، تو ملزم کو کیا پڑی ہے کہ انہیں رکھے اوران کی کفالت کرے چنانچہ بچوں کو یتیم خانے بھیج دیا جائے۔مقدمے کی یہ روداد مرزا فرحت اللہ بیگ نے اپنی ایک کہانی میں لکھی ہے لیکن وقت وہ آن پڑا ہے کہ جو کچھ حکایات و لطائف میں ہوتا تھا آنکھوں کے سامنے ہورہا ہے اور جو نہیں ہورہا، اسے ہونا چاہئے! انبالہ، پٹیالہ، یا اسی قبیل کی کسی ریاست کے بارے میں مشہور ہے کہ والی ریاست سے پوچھا گیا قاضی القضاۃ چھٹی پر چلے گئے ہیں ان کی جگہ کسی کو لگایا جائے۔ پوچھا، کوئی چھٹی کاٹ کر واپس بھی تو آیا ہوگا؟ عرض کیا، جی سرکار! چیف میڈیکل آفیسر آئے ہیں۔ حکم ہوا انہیں قاضی لگا دیا جائے۔ قاضی صاحب واپس آئے تو چیف انجینئر کی جگہ ...

بند دروازہ اور اس پر پڑا قفل

تصویر

بند دروازہ اور اس پر پڑا قفل

تصویر
SMS: #IHC(space) message & send to 8001 haq@izharulhaq.net قدرت اللہ شہاب ہماری ادبی اور سیاسی تاریخ کا ایک اہم باب ہیں۔ بہت کچھ اس حوالے سے لکھا گیا اور بہت کچھ سامنے آنے کا منتظر ہے۔ کچھ اہم حصے اس داستان کے جناب جمیل الدین عالی کے سینے میں محفوظ ہیں۔ خدا انہیں وقت اور صحت دئیے رکھے کہ وہ یہ کام کر ڈالیں۔شہاب صاحب کا ایک بڑا کارنامہ ادیبوں کو ایک تنظیم میں پرونا تھا۔ پاکستان رائٹرز گلڈ انہی کے زیر سایہ بنی۔ اس کے پہلے سیکرٹری جنرل بھی وہی تھے۔ آدم جی ادبی ایوارڈ جیسے انعامات قائم کئے جو ایک عرصہ تک وقیع رہے اور باعزت بھی! اس سارے قصے میں قدرت اللہ شہاب کا ایک ممتاز کارنامہ ادبی پیش منظر پرجعفر طاہر کی آمد تھی، اگر یہ کہا جائے کہ جعفر طاہر شہاب صاحب ہی کی دریافت تھے تو شاید غلط نہ ہو ۔جعفر طاہر فوج کے شعبہ تعلیم میں ایک عام سی سطح پر کام کررہے تھے مگر کمال کے شاعر تھے! کلام پر حیرت انگیز قدرت تھی۔ لغت سامنے دست بستہ کھڑی رہتی تھی۔ عالم اسلام کی تاریخ پر گہری نظر تھی۔ ’’ہفت کشور‘‘ کے نام سے معرکے کی کتاب لکھی جس کی نظیر کم از کم اردو ادب میں نہیں ہے۔ اس میں سات مسلمان ملکوں (...

مدعی سست

سچی بات یہ ہے کہ پطرس کے بعد اردو مزاح نگاری میں جو مقام شفیق الرحمن کا ہے وہ شاید ہی کسی اور کو نصیب ہو! شفیق الرحمن صاحب کی ایک تو افتاد طبع ایسی تھی کہ وہ تقاریب سے پرہیز کرتے تھے۔  جن دنوں اکادمی ادبیات کے سربراہ تھے‘ بیرون ملک سے آئے ہوئے مہمان ادیبوں کیلئے جو فنکشن منعقد ہوتے تھے، ان میں کچھ گفتگو کرتے تھے ورنہ نہیں! دوسرے اس زمانے میں ٹیلی ویژن کی دنیا سرکاری پردۂ سیمیں تک محدود تھی۔ ابھی یہ رواج نہیں پڑا تھا کہ ٹیلی ویژن والے ادیبوں کو دعوت دیں، وہ اپنے شاہکار پڑھ کر سنائیں‘ انہیں نشر کیا جائے اور لوگ دیکھیں بھی اور سنیں بھی۔ شفیق الرحمن صاحب نے اپنی تحریروں کو ثقیل حد تک مفرس (Persianised) کیا‘ نہ آورد اور تصنع کو نزدیک آنے دیا۔ نہ ہی ان کی تحریریں پڑھتے ہوئے، رخساروں کو ہاتھوں سے پکڑ کر کانوں کی طرف کھینچنا پڑتا ہے کہ ہنسی کا تاثر قائم ہو۔ مارچ 2000ء میں جب ان کا انتقال ہوا تو یہ قلم کار لاہور میں سٹاف کالج ’’کر‘‘ رہا تھا۔ پورے گروپ میں الحمدللہ کوئی رفیق کار ایسا نہیں تھا کہ اس کی ہم نشینی میں غم بٹ سکتا۔ ’’نیلی جھیل‘‘ کے عنوان سے کالم لکھا اور تنہائی میں بیٹھ ک...

پیرِمغاں

وزیر باتدبیر نے درست کہا کہ اللہ نے نوازشریف کو عزت دی ہے۔ یہ عزت پاکستان کی بدولت ہے۔ جو بھی پاکستان کا حکمران ہوگا وہ اس حوالے سے ہمارے لیے قابل عزت ہوگا کہ ہمارے ملک کا حکمران ہے۔ بھارت کئی گنا بڑا ملک ہے مگر ہم اس کے حکمران کی اتنی تکریم نہیں کرتے ۔اپنے ملک کی عزت اور محبت ہمارے دلوں میں ہے۔ اسی رشتے سے اس کا وزیراعظم ہمارے لیے معزز ہے۔ یہ عزت جنرل پرویز مشرف کو بھی ملی۔ پھر قسامِ ازل نے یہ عزت آصف زرداری کو بخشی۔ بطور آصف زرداری ان کی جو بھی شہرت تھی، وہ الگ قصہ ہے۔ لیکن جب تک وہ پاکستان کے صدر تھے، ملک کے حوالے سے اہل وطن کی تکریم کے سزا وار تھے۔ یہ اور بات کہ عزت اللہ ، اس کے رسول ؐ اور مسلمانوں کے لیے ہے۔ عزت دینے والا بھی خدائے قدوس ہے اور نہ دینے والی یا دے کر واپس لے لینے والی ذات بھی وہی ہے۔ تو کیا عزت اقتدار سے عبارت ہے؟ یا عزت وہ ہے جو دلوں میں ہو اورفرشتے کسی کے لیے ، جس کے بارے میں حکم ہو، فضا میں عام کردیں؟  اگر کوئی حکمران یہ سمجھے کہ چونکہ وہ معزز ہے اس لیے حکمران ہے تو یہ غلط فہمی ہے۔ ہر آمر یہی سمجھتا ہے کہ وہ مامور من اللہ ہے اور معزز ہے۔ سفید فام اق...