اشاعتیں
نومبر, 2013 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں
کالم
کاش! کوئی حسن روحانی افغانستان کو بھی ملتا
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
اگر وہ جنگ کا اشارہ کر دیتے؟ صرف اشارہ! انگلی کا نہیں‘ ابرو کا اشارہ بھی کافی ہوتا۔ یہ چودہ سو سرفروش جس جذبے سے سرشار تھے اور موت کو جس طرح کھیل سمجھتے تھے‘ شہر پر ہر حال میں قبضہ کر لیتے۔ یا اہلِ مکہ کی اشتعال انگیز شرائط سن کر اگر وہ فرما دیتے کہ ہم واپس جا رہے ہیں اور چند دنوں میں پوری قوت سے حملہ آور ہوں گے تو بہت سے سر کٹتے اور شہر فتح ہو جاتا۔ یا صلح کی شرائط سے ازحد بددل ہونے والے ساتھیوں کا دل رکھنے کے لیے موقف بدل لیتے! لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ ہادیٔ اسلام نے صلح حدیبیہ کے معاہدے پر دستخط فرما کر اپنے پیروکاروں کو بالخصوص اور پوری دنیا کو بالعموم یہ سبق دیا کہ ہوش مندی‘ صبر اور سفارت کاری جنگ سے بہت بہتر ہے۔ پھر جب معاہدہ ضبطِ تحریر میں لاتے وقت فریقِ مخالف نے ’’رسول‘‘ کے لفظ پر اعتراض کیا، تب بھی اشتعال پیدا کیا جا سکتا تھا۔ صرف اس ایک بات پر مسلمانوں کو مرنے یا مارنے پر آمادہ کیا جا سکتا تھا۔ لیکن اُس ہستیؐ نے نظامیؔ گنجوی جس کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ خرد آپ کی خاک تھی‘ اپنے ہاتھ سے رسول کا لفظ مٹایا۔ اضطراب! مایوسی! مسلمان اس معاہدے پر اضطرا...
کاش!درمیان میں دیوار ہوتی
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
یہ نامعقول بچہ حجام کی دکان پر بیٹھا تھا۔دو اشخاص خصوصی کرسیوں پر براجمان بال کٹوا رہے تھے اور ہم تین اپنی اپنی باری کا انتظار کررہے تھے۔ایک صاحب حجام صاحب کو اخبار پڑھ کر سنارہے تھے۔ہنگو پر ڈرون حملہ ہواتھا۔سنانے والا سنارہا تھا کہ جاں بحق ہونے والوں میں تین افغان کمانڈر بھی شامل تھے۔یہ بچہ جو عمر میں آٹھویں ،نویں جماعت کا طالب علم لگ رہا تھا، اچانک بولا کہ افغان پاکستان علاقے ہنگو میں کیا کررہے تھے ؟ بحث چھڑگئی۔کالم نگار خاموشی سے سنتا رہا۔ ایک موقع پر جب حجام نے کہا کہ افغان کمانڈروں کو پاکستان میں داخل ہونے کے لیے پاسپورٹ یا ویزہ تھوڑی ہی درکار ہوتا ہے تو بچے نے پھر سوال کیا کہ کیوں؟ کیا افغان غیرملکی نہیں؟ لڑکے کے دونوں سوالات سن کر وہ مشہور و معروف بچہ یاد آگیا جس نے بلند آواز سے کہا تھا کہ بادشاہ ننگا ہے جب کہ ہر کوئی بادشاہ کے نئے ’’لباس ‘‘ کی تعریف کررہا تھا۔ کیا پاکستانی عوام یہ سوال پوچھنے میں حق بجا نب نہیں ہیں کہ غیر ملکیوں کو مطلوبہ دستاویزات کے بغیر پاکستان میں کیوں آنے دیا جاتا ہے؟روکا کیوں نہیں جاتا؟ کوئی یہ حقیقت تسلیم کرے یا شتر مرغ کی طرح سرریت میں چھپالے، اف...
آخر کار وہ مجھے پکڑنے کے لیے آ گئے
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
معاشرہ تفریق در تفریق کا شکار ہو رہا ہے۔ اگر اب بھی اسے مجتمع کرنے کی کوشش نہ کی گئی اور اس کوشش میں اگر اب بھی ہر فرد‘ ہر طبقہ‘ ہر فرقہ‘ صدقِ دل سے شامل نہ ہوا تو بات بڑھ جائے گی۔ خدانخواستہ ایسا نہ ہو کہ کل ہم پچھتائیں تو کچھ بھی نہ ہو سکے۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ آج پچھتائیں۔ آج… کہ آج معاملات ہمارے ہاتھ سے بالکل نہیں نکلے۔ گزشتہ جمعہ کو مذہبی جماعتوں نے ملک گیر احتجاج کا پروگرام بنایا۔ یہ احتجاج سانحۂ راولپنڈی کے خلاف تھا؛ تاہم شیعہ اور سنی علما نے اس احتجاج سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا۔ چیئرمین سنی اتحاد کونسل نے کہا کہ سانحۂ راولپنڈی کے خلاف جمعہ کو ہونے والے احتجاج سے اہلِ سنت کا کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ ساتھ ہی شیعہ اور سنی علما نے صوبائی وزیر قانون پر شدید تنقید کی اور واقعہ کی انکوائری کمیٹی کے سربراہ کے طور پر ان کا نام مسترد کردیا۔ دارالحکومت میں مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت المسلمین...
خلا ہمیشہ پُر ہوتا ہے
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
’’آج یہ معاملہ بہت عجیب معلوم ہوتا ہے۔ مجھے جن علماء کی جوتیاں سیدھی کرنے کا شرف حاصل رہا ہے وہ کسی طرح بھی دنیا دار قسم کے لوگ نہیں تھے۔ درویشانہ زندگی گزارتے تھے اور انہوں نے افلاس اور فاقہ کشی کی زندگی رضا کارانہ طور پر اختیار کی تھی۔ میں عربی ادب اور فلسفے میں ان کا ایک ادنیٰ شاگرد رہا ہوں۔ میں ان کا واحد شہری طالب علم رہ گیا تھا جو اپنے ذاتی شوق میں عربی ادب اور فلسفہ پڑھ رہا تھا۔ میں جانتا ہوں کہ مہینے میں ان علماء کی فاقہ کشی کا کیا اوسط تھا؟ جب میں ان کے بارے میں سنتا تھا کہ یہ لوگ بِکے ہوئے ہیں تو میرے تن بدن میں آگ لگ جاتی تھی۔ آپ اپنے نظریاتی حریفوں سے پوری شدت کے ساتھ اختلاف کیجئے مگر گالیاں تو نہ دیجیے۔‘‘ علمائے دیوبند کے بارے میں یہ تحریر شاعرِ بے مثال جون ایلیا کی ہے۔ اُن کے اولین مجموعۂ کلام ’’شاید‘‘ کے صفحہ بیس پر یہ سطور جو دیباچہ کا حصہ ہیں‘ دیکھی جا سکتی ہیں۔ جون ایلیا شیعہ تھے۔ یہ ممکن نہیں کہ انہیں پڑھانے والے علماء کو اُن کے تشیع کی خبر نہ ہو۔ لیکن یہ وہ زمانہ تھا جب کفر اتنا ارزاں نہ ہوا تھا کہ جگہ جگہ بٹتا پھرے۔ لاتعداد شہروں قصبوں اور قریوں میں شیعہ سنی ای...
کامن سینس
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
فرض کیجیے کسی پاکستانی حکمران کی کسی فیکٹری میں‘ خدانخواستہ مزدوروں کے دو گروہ جھگڑ پڑتے ہیں۔ بات بڑھ جاتی ہے۔ نوبت لڑائی مارکٹائی تک آ جاتی ہے۔ کچھ لوگ زخمی ہو جاتے ہیں۔ انتظامیہ اپنا کردار نہیں ادا کرتی۔ پروڈکشن رُک جاتی ہے۔ لاکھوں کا یومیہ نقصان شروع ہو جاتا ہے۔ آپ کے خیال میں فیکٹری مالک کا طرزِ عمل کیا ہوگا؟ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت ہے نہ فلسفہ میں پی ایچ ڈی کرنے کی۔ یہ صرف اور صرف کامن سینس کا مسئلہ ہے۔ بچے کو بھی معلوم ہے کہ فیکٹری کے مالک کیا کریں گے اور پاگل بھی آسانی سے اندازہ لگا سکتا ہے کہ بکھیڑے کا حل کیا ہوگا۔ سب سے پہلے تو حاکم جہاں بھی ہوں گے‘ سارے کام چھوڑ کر فیکٹری کا رُخ کریں گے۔ لڑائی کرنے والے دو گروہوں کو ہر قیمت پر ایک دوسرے سے الگ کروائیں گے۔ ابتدائی طبی امداد کا بندوبست کرنے کے بعد‘ اولین فرصت میں اپنے سب سے زیادہ دیانت دار اور ذہین ملازم کو حقائق معلوم کرنے کا کام سونپیں گے۔ یہ کام چند گھنٹوں کے اندر اندر یا زیادہ سے زیادہ ایک دن میں مکمل کر لیا جائے گا۔ اس کے بعد ذمہ دار افراد کو سزائیں ملیں گی۔ جن لوگوں کے بارے میں ان...
مجھ پہ احساں جو نہ کرتے تو یہ احساں ہوتا
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
آدھی رات ایک طرف تھی اور آدھی دوسری طرف۔ سائڈ ٹیبل کا برقی چراغ گُل کر کے نیم خوابی کی کیفیت میں تھا کہ موبائل فون پر ایس ایم ایس کی گھنٹی نے اُس کیفیت سے نکال دیا۔ بچوں کے مشورے کے باوجود رات کو ٹیلی فون کی آواز بند نہیں کرتا کہ زینب کسی بھی وقت فون کر دیتی ہے اور اُسے یہ بات بالکل پسند نہیں کہ نانا ابو سے بات نہ ہو سکے۔ مگر یہ ایس ایم ایس کسی اجنبی نمبر سے تھا۔ پیغام چند آیات اور طویل ذکر اذکار پر مشتمل تھا۔ یہی پیغام دوسرے دن ظہر کی نماز کے دوران موصول ہوا اور آنے والی رات ایک بجے پھر‘ زچ ہو کر بھیجنے والے نمبر پر کال کی کہ پوچھوں‘ یہ آیات‘ دعائیں اور اذکار مسلسل کیوں بھیجے جا رہے ہیں‘ دوسری طرف ریکارڈنگ تھی۔ درودِ پاک کی مسلسل ریکارڈنگ!! یہ صرف کالم نگار کی کہانی نہیں‘ ہر شخص ایسے نیکوکاروں کی اس بوچھاڑ کا نشانہ بن رہا ہے۔ ایک صاحب حج اور عمرے کا طریقہ ایس ایم ایس کر رہے ہیں۔ کوئی صاحب مشورہ دے رہے ہیں کہ آج فلاں دن ہے یہ یہ کام ضرور کیجیے۔ کوئی صاحب چاند کے نئے مہینے کے فضائل ارسال کر رہے ہیں۔ کوئی صاحب آزمائش میں ڈال رہے ہیں کہ اگر آپ صاحب ایمان ہیں تو یہ ایس ایم ا...
ایہہ پُتر ہَٹاں تے نئیں وِکدے
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
اُس نے سفید رنگ کا تہمد باندھا ہوا تھا۔ سر پر سفید ہی پگڑی تھی۔ میں نے اُسے کاکول کے صدر دروازے کے قریب دیکھا۔ وہ تہمد پوش اپنے کیڈٹ بیٹے سے گلے مل رہا تھا۔ یہ ایسا منظر تھا جسے اب تک بھول نہیں پایا۔ سالہا سال گزر گئے ہیں۔ جب بھی پہاڑیوں کے حصار میں گھرے کاکول کا خیال آتا ہے‘ سفید تہمد والا کسان اور اس سے گلے ملتا کیڈٹ بیٹا فوراً ذہن کے پردے پر چھا جاتے ہیں۔ بیسیوں بار کاکول جانا ہوا۔ کئی بار قیام کیا۔ بارہا پاسنگ آئوٹ پریڈ دیکھی۔ عام مہمان کی حیثیت سے بھی اور خصوصی مہمانوں میں شامل ہو کر بھی‘ سب نظاروں پر وہ منظر غالب رہا۔ ایک ایسا ادارہ جہاں جرنیل کا بیٹا کامیاب نہیں ہوتا اور کسان کا بیٹا منتخب ہو جاتا ہے‘ باعثِ اطمینان ہے بلکہ باعثِ فخر ہے۔ اب اگر یہاں کی بھٹی سے نکل کر کُندن بننے کے بجائے کوئی ضیاء الحق یا پرویز مشرف بن جاتا ہے تو اس میں بھٹی کا کوئی قصور نہیں۔ کسان کا بیٹا دو سال کی جانکاہ تربیت کے بعد کاکول سے نکلتا ہے۔ ایسی تربیت‘ ایسی ٹریننگ جو لوہے کو پگھلا دے‘ جو ہڈیوں کے گودے تک اتر جائے‘ جو رگوں کے خون کو دھوئیں میں تبدیل کردے۔ کہنا‘ سننا اور بتانا آسان ہ...
شہیدوں کے پس ماندگان رو رہے ہیں
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
اُن دنوں یہ گنہگار ڈھاکہ یونیورسٹی کا طالب علم تھا۔ مغربی پاکستان کا سب سے بڑا انگریزی اخبار’’پاکستان ٹائمز‘‘اپنے اداریے میں تسلیم کرچکا تھا کہ مشرقی پاکستان کے وسائل مشرقی پاکستان پر صرف نہیں کئے جا رہے۔ دونوں حصّوں کے درمیان عدم مساوات ایک مسلّمہ حقیقت بن چکی تھی۔ ایوبی آمریت کو دس سال ہو چکے تھے۔ الطاف گوہر اور اس قبیل کے دیگر ’’دانشور‘‘ ،’’عشرہ ترقی‘‘ منانے کا آئیڈیا بادشاہ سلامت کو دے چکے تھے۔ میگنا اور بُوری گنگا کے بپھرے ہوئے دریائوں میں ہچکولے کھاتی کشتیوں اور دھواں اگلتے سٹیمروں پر ’’عشرۂ ترقی‘‘کے بینر پھڑ پھڑا رہے تھے۔ اندھے کو بھی معلوم تھا کہ ایک فوجی آمر نے دس سال نکال لیے ہیں تو اِس حساب سے مشرقی پاکستان یا سندھ جیسے ’’نان مارشل‘‘ صوبوں کی باری کبھی نہیں آئے گی۔ بّرِ صغیر کے جن علاقوں نے انگریزوں کے بڑھتے ہوئے سیلاب کے آگے بند باندھنے کی کوشش کی تھی، بنگال اور سندھ ان میں سرِفہرست تھے، اسی لئے سلطنتِ انگلیشیہ نے ’’وفادار‘‘ علاقوں کو ’’مارشل ریس‘‘ قرار دیا تھا اورسر نہ جھکانے والے خطّوں سے فوجی بھرتی منع کر دی تھی۔ تھوڑا عرصہ ہی گزرا تھا کہ وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ ایوب خان گ...
نہیں! ڈاکٹر قدیر خان صاحب! نہیں
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
اہلِ پاکستان میں سو برائیاں سہی، ہزار کمزوریاں سہی، مگر ایک گناہ کا طعنہ انہیں نہیں دیا جا سکتا اور وہ ہے لسانی تعصّب! لسانی تعصّب نہ ہونے کا ثبوت صرف اہلِ پاکستان ہی میں نہیں، تاریخ ِ پاکستان میں بھی روزِروشن کی طرح موجود ہے۔ غلام رسول مہر کی تحریکِ مجاہدین کی تاریخ میں بالا کوٹ کے شہدا کے اسمائے گرامی دیکھ لیجئے، یو پی اور بہار کے مجاہدین کے شانہ بہ شانہ سندھ ،پنجاب اور سرحد کے غازی لڑ رہے تھے۔ خود تحریک پاکستان اس حقیقت کا بّین ثبوت ہے کہ برّصغیر کے مسلمانوں نے الحمد للہ لسانی تعصّب سے اپنا دامن ہمیشہ بچا کر رکھا۔ قائد اعظم اردو سپیکنگ تھے نہ بنگالی بولتے تھے۔ پنجابی آتی تھی نہ پشتو۔ بلوچی اور سندھی سے بھی ناآشنا تھے‘ لیکن جمرود سے لے کر برما کی سرحد تک اور دہلی کے شمال میں ہمالیہ کی ترائیوں سے لے کر دکن اور میسور تک ہر مسلمان نے ان کی آواز پر لبیک کہا۔ برّصغیر کی کون سی زبان تھی جس کے بولنے والے قائدِاعظم کے جھنڈے تلے جمع نہ تھے! جِلد کا کون سا رنگ تھا جو وہاں نہ تھا اور لباس کا کون سا ڈھنگ تھا جو مسلم لیگ کے اجلاسوں میں دیکھا نہ جا سکتا تھا! قیامِ پاکستان کے بعد کی تاریخ دیکھ لی...
کافر بھارت
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
گزشتہ ایک ہفتہ کے دوران بھارت میں دو ایسے واقعات رونما ہوئے جن کا سن کر اس پڑوسی کافر ملک پر رحم ہی کیا جا سکتا ہے۔ پہلا واقعہ اُس بدبخت جاہل شوہر کا ہے جس نے اپنی بیوی کو اپنے ہاتھوں فائرنگ کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ قصور بیوی کا یہ تھا کہ وہ بیٹا نہیں پیدا کر رہی تھی۔ یکے بعد دیگرے اُس نے چار بیٹیاں جنم دے دیں۔ پہلی بیٹی کی پیدائش کے بعد ہی شوہر نے بیوی پر تشدد کرنا شروع کردیا۔ پھر ہر بیٹی کی پیدائش پر یہ تشدد بڑھتا گیا۔ جس روز کا یہ واقعہ ہے اُس دن بیوی نے گھر کے لیے خرچہ مانگا۔ شوہر نے پہلے تو اُسے زدوکوب کیا اور پھر فائرنگ کر کے ہلاک کردیا۔ وہ اپنے آپ کو راہِ راست پر سمجھ رہا تھا۔ اس حد تک کہ قتل کرنے کے بعد ہتھیار سمیت خود ہی تھانے میں پیش ہو گیا۔ دوسرا واقعہ اس سے بھی زیادہ دردناک اور باعثِ عبرت ہے۔ ایک عورت نے اپنے ہاتھوں سے اپنی دو بیٹیوں اور ایک بیٹے کو نہر میں گرا کر ڈبو دیا۔ ایک بیٹی چار سال کی تھی۔ دوسری سات سال کی تھی۔ بیٹا آٹھ سال کا تھا۔ وہ تو بارہ سالہ بڑے بیٹے کی قسمت اچھی تھی کہ وہ سکول گیا ہوا تھا اور بچ گیا۔ تفتیش پر معلوم ہوا کہ یہ عورت ایک سادھو کے ...
’’مطالبہ‘‘
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
اس سارے ہنگامے میں وہ بات دَب گئی جس پر سب سے زیادہ توجہ دینا چاہیے تھی! اس پر کوئی غور کرنے کو تیار نہیں کہ انہونی ہونی کیسے ہوگئی؟ دنیا کا سب سے زیادہ دشوار گزار خطہ‘ جس پر کوئی طاقت کبھی قابض نہ ہو سکی‘ آخر ہتھیلی کی لکیروں کی طرح‘ سات سمندر پار‘ دشمن پر کیسے واضح ہو گیا؟ جو وجہ سورج کی روشنی کی طرح نمایاں ہے‘ ہماری توجہ سے محروم ہے! ہڑپہ اور موہنجو داڑو کے بارے میں شاعر نے کہا تھا ؎ عبرت کی اک چھٹانک برآمد نہ ہو سکی کلچر نکل رہا ہے ٹنوں کے حساب سے بحث یہ ہو رہی ہے کہ حکیم اللہ محسود شہید ہے یا ہلاک۔ اس پر کوئی غور نہیں کر رہا کہ صدیوں کے ریکارڈ کیسے ٹوٹ رہے ہیں اور کیونکر ٹوٹ رہے ہیں؟ جن علاقوں میں‘ جن پہاڑوں میں‘ جن پہاڑوں کی ہولناک گھاٹیوں میں کوئی سیاح جا سکتا ہے نہ مہم جُو‘ جہاں کوئی لشکر کامیاب نہیں ہو سکتا‘ وہاں ایک فولادی پرندہ نمودار ہوتا ہے‘ ایک خودکار جہاز‘ جس میں کوئی کوچوان ہے نہ ڈرائیور‘ گاڑی بان ہے نہ پائلٹ‘ میزائل داغتا ہے اور وہ شخص جس کی حفاظت کے لیے نڈر سورما جانیں ہتھیلیوں پر رکھے ہیں اور سروں پر کفن بندھے ہیں‘ ایک ...
بٹوارہ
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
مکار شیوا جی کو اورنگ زیب عالم گیر ’’پہاڑی چوہا‘‘ کہا کرتا تھا۔ مشہور مسلمان جرنیل افضل خان نے پے در پے شکستیں دے کر شیوا جی کو پرتاب گڑھ کے قلعے میں محصور ہونے پر مجبور کردیا۔ شیوا جی نے پیغام بھیجا کہ وہ ہتھیار ڈالنا چاہتا ہے بشرطیکہ افضل خان خود آئے۔ یہ نومبر 1659ء کا واقعہ ہے۔ شیوا جی نے قلعے کے ساتھ والی پہاڑی کے دامن میں خوبصورت استقبالیہ خیمہ نصب کرایا۔ جنگل کا ایک حصہ کاٹا اور اپنی فوج چھپا دی۔ طے ہوا تھا کہ دونوں ایک ایک باڈی گارڈ کے ساتھ آئیں گے۔ افضل خان کھرا آدمی تھا۔ ململ کے کُرتے میں آیا۔ شیوا جی نے پگڑی کے نیچے فولادی ٹوپی اور عبا کے نیچے زرہ پہنی ہوئی تھی۔ دائیں آستین میں خنجر تھا اور بائیں مٹھی میں رسوائے زمانہ مرہٹہ فولادی پنجہ۔ شیوا جی جھکتا کورنش بجا لاتا آیا۔ افضل خان گلے ملا تو شیوا جی نے پہلے فولادی پنجہ اور پھر خنجر پیٹ میں گھونپا۔ ضمیر جعفری نے اسی واقعے کی طرف اشارہ کیا ہے ؎ سچ کہتا تھا افضل خان تری پورہ تا راجستان مر گیا ہندو میں انسان! شیوا جی ہندوئوں کا ہیرو بن گیا اور مسلمانوں کا ولن۔ محمد بن قاسم اور محمد غوری مسلمانوں کے ہیرو ...
وَرَفعنالک ذکرک
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
یورپ میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق ’’ محمد‘‘ دنیا کا مقبول ترین نام ہے۔ اسی سروے میں بتایاگیا ہے کہ اس وقت پندرہ کروڑ افراد کا نام محمد ہے۔ زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ محمد نام کے لوگوں کی اصل تعداد پندرہ کروڑ سے بہت زیادہ ہوگی۔ تازہ ترین اعدادو شمار کے مطابق مسلمانوں کی آبادی دو ارب ہے۔ اس میں سے اگر ساٹھ فیصد بھی عورتیں ہوں تو مردوں کی تعداد اسّی کروڑ بنتی ہے ۔اسّی کروڑ میں سے یقینا نصف سے زیادہ تعداد ایسے مردوں کی ہوگی جن کے ناموں کے شروع میں، یا درمیان میں یاآخرمیں محمد کا نام نامی آتا ہے۔ یہ تعداد پندرہ کروڑ یا چالیس کروڑ یا اس سے زیادہ یا اس سے کم، جتنی بھی ہے اس میں کیا شک ہے کہ یہ نام پوری دنیا پر چھایا ہوا ہے۔ یہ نام کروڑوں افراد کا تو اس لمحے میں ہے چودہ سو سال سے زیادہ عرصہ گزرا ہے کہ ایک لمحہ بھی ایسا نہیں گزرا جب یہ نام کروڑوں افراد کا نہ ہو ۔ایسے لوگوں کی کل تعداد کا تعین خدا کی ذات ہی کرسکتی ہے، یا اس کے حکم سے اس کے فرشتے کرسکتے ہیں۔ صدیوں سے اس نام پر کرہ ارض کے مرد، عورتیں ، بوڑھے ، بچے ، درود پاک بھیج رہے ہیں ۔کتنے درود پڑھے گئے ، کتنے سلام بھیجے گئے یہ صرف ا...
ٹھیکے پر دے دیجیے
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
کیا کسی اور ملک میں بھی ایسا ہو رہا ہے؟ کیا خطّے کے دیگر دارالحکومت ایسا منظر پیش کر رہے ہیں؟ ڈرون حملے؟ طالبان کے ساتھ معاملات؟ آسمان سے باتیں کرتی گرانی کا سدباب؟ کراچی میں ہر روز برپا ہونے والی قیامت کا علاج؟ یہ تو بڑے بڑے معاملات ہیں۔ جس ریاست کا دارالحکومت بے یارومددگار ہو اور جنگل کا سماں پیش کر رہا ہو‘ اُس سے اور کیا امید باندھی جا سکتی ہے؟ پاکستانی دارالحکومت کی کل آبادی چھ لاکھ ہے۔ ایک سال میں 689 گاڑیاں چوری ہوئی ہیں۔ تہران کی آبادی اسّی لاکھ ہے۔ دہلی کی (مضافات کو چھوڑ کر) ایک کروڑ ہے۔ 74 لاکھ گاڑیاں چل رہی ہیں۔ آٹھ ہزار سالانہ چوری ہوتی ہیں جن میں سے اکثر تلاش کر لی جاتی ہیں۔ اس نسبت تناسب کو سامنے رکھیں تو اسلام آباد سے سالانہ چوری تین سو سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ وزیر صاحب بتاتے ہیں کہ ان تقریباً سات سو گاڑیوں میں سے صرف 75 کا سراغ مل سکا۔ یہ کالم نگار دعوے سے کہتا ہے کہ مقابلہ کر لیجیے‘ تہران اور دہلی کی نسبت پولیس کی تعداد اسلام آباد میں کہیں زیادہ ہے۔ فی کس حساب سامنے رکھ لیجیے۔ چھ لاکھ آبادی کے اوپر گریڈ بائیس کا انسپکٹر جنرل پولیس بیٹھا ہے۔ نیچے کے افسرو...