اشاعتیں

اکتوبر, 2013 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

ڈاکٹروں کی پانچوں گھی میں

ڈاکٹر سے میں نے ایک ہی سوال کیا۔’’ تم پاکستان واپس کیوں نہیں آتے ؟ کیا اس ملک کا تم پر کوئی حق نہیں ؟‘‘ ’’ اس سوال پر ہنسوں یا روئوں؟‘‘ ڈاکٹر نے جواب دیا ’’ کئی دانشور پوچھ چکے ہیں اور جب اس کا سوال جواب دیتا ہوں تو موضوع کا رُخ تبدیل کردیتے ہیں یا منہ دوسری طرف پھیر لیتے ہیں۔‘‘ ’’یہ درست ہے کہ مجھے ڈاکٹر بنانے پر قوم نے اپنے وسائل خرچ کیے لیکن ڈاکٹر بنانے کے بعد قوم جو سلوک کرتی ہے اسے کوئی نہیں دیکھتا۔ ڈاکٹر بن گیا۔ اس کے بعد کئی سال تک ڈگری بغل میں دباکر جوتے چٹخاتا رہا۔ جب بھی کسی سرکاری ہسپتال میں کوئی اسامی نکلتی۔انٹرویو دیتا اور کبھی وجہ نہ بتائی جاتی کہ میری تعیناتی کیوں نہیں ہوسکتی تھی۔ جو ڈاکٹر نوکری حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے، بتاتے ہیں کہ یہاں ڈگری اصل ڈگری نہیں ہے۔ اصل ڈگری یہ ہے کہ تمہاری سفارش ہو اور وہ بھی تگڑی۔ چھوٹی موٹی سفارش کو تو تعیناتی کرنے والی اتھارٹی مانتی ہی نہیں۔ پھر میں ایک نجی ہسپتال میں کام کرنے لگ گیا جہاں پہلے تین ہزار اور پھر پانچ ہزار روپے ماہانہ ملتے تھے ۔وہ سلوک اس پر مستزاد تھا جو روا رکھا جاتا تھا اور جو ناگفتنی ہے! خدا خدا کرکے سرکاری نوکری ملی ...

ڈاکٹر‘ دوا اور لواحقین

یہ جولائی 2012ء کی بات ہے۔ جماعت الدعوۃ کے امیر جناب حافظ سعید نے لاہور ہائی کورٹ میں ایک مقدمہ دائر کیا۔ یہ مقدمہ ’’وی آئی پی کلچر‘‘ کے خلاف تھا۔ حافظ صاحب نے عدالت کے سامنے وی آئی پی کلچر کی کئی مثالیں پیش کیں۔ گورنر پنجاب کا محل 68 ایکڑ پر محیط ہے۔ کمشنر اور دیگر ا ہلکار سو سو ایکڑ کے محلات میں بادشاہوں کی طرح رہتے ہیں۔ ’’انہیں پانچ پانچ مرلے کے گھروں میں رکھو اور نوکروں‘ خدمت گاروں کے لشکر ختم کرو‘‘۔ حافظ صاحب کے وکیل نے کہا: ’’حافظ صاحب نے فریاد کی کہ پاکستان کے حکمران گھوڑوں کے لیے ائیرکنڈیشنڈ اصطبل تیار کراتے ہیں۔ صدر مملکت کے سٹاف کے روزانہ اخراجات دس لاکھ روپے ہیں۔ بارہ لاکھ وزیراعظم سیکرٹریٹ کے ہیں۔ بیس لاکھ روزانہ سینیٹ کے ہیں۔ چالیس لاکھ روزانہ نیشنل اسمبلی کے ہیں اور بیس کروڑ روزانہ کیبنٹ سیکرٹریٹ کے ہیں۔ جب کہ 75 سالہ لطیف خان گزشتہ تیس سالوں سے خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں پرانے کاغذ چن کر دو وقت کی روٹی کھا رہا ہے‘‘۔  حافظ صاحب کے وکیل نے اور بھی کئی مثالیں دیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اس مقدمے کا کیا بنا؟ لیکن حافظ صاحب نے اپنے دلائل میں ایک دلیل ایسی دی جس پر اگر غور کیا جائ...

احمد رضا کا قاتل کون ہے؟

اُن پانچ کے گلے تو پتلی تار کے ساتھ اسی لیے گھونٹے گئے کہ وہ جائداد کے مالک تھے۔ سترہ سالہ رومانہ اور چودہ سالہ آدم کے ساتھ سات سالہ حیدر بھی اس لیے قتل کیا گیا کہ اس کے باپ اور ماں کے نام زمین تھی۔ ہاتھ پائوں رسیوں کے ساتھ باندھے گئے‘ منہ ٹیپ سے بند کیے گئے اور آسٹریلیا سے وطن واپس آنے کی سزا دی گئی۔ عامر اللہ خان نے جب کلاشنکوف ٹائپ کا کوئی ہتھیار خریدا تو آسٹریلیا سے اُس کے دوستوں نے اسے کہا کہ تم اتنی بڑی کمپنی کے ایگزیکٹو ہو‘ تمہیں یہ خریدنے کی کیا ضرورت ہے؟ عامر اللہ خان کا جواب تھا کہ پاکستان میں رہنے کے لیے تمہیں یہ سب کچھ کرنا پڑتا ہے۔  لیکن تین سالہ احمد رضا کا کیا قصور تھا؟ اس کے باپ کے پاس تو جائداد تھی نہ ماں کے نام زمین؟ ان لوگوں نے تو مشکل سے ایک موٹر سائیکل رکھا ہوا تھا۔ چھ بہنوں کے اکلوتے بھائی احمد رضا کو کیوں قتل کیا گیا؟ سات سالہ حیدر کا باریک تار سے قتل تو اس ملک میں منطقی جواز رکھتا ہے‘ اس لیے کہ غربت کی طرح امارت بھی اس سرزمین پر جرم ہے خاص طور پر وہ امارت جو خون پسینے کی محنت سے حاصل کی گئی ہو۔ اس ملک میں اگر آپ ڈاکٹر ہیں‘ وکیل ہیں‘ کسی بڑی کمپنی کے ایگزیکٹ...

وزیراعظم تاریخ ہی نہیں تقدیر بھی بدل سکتے ہیں لیکن…

خدا چھپر پھاڑ کر دیتا ہے اور پھر جب دیکھتا ہے کہ برتن چھوٹا ہے تو نشانِ عبرت بنا دیتا ہے۔ بے یارو مددگار غریب الوطن بابر کو شمالی ہند کی سلطنت ملی۔ پھر ایک وقت آیا کہ کابل اور بدخشاں کے پہاڑوں سے لے کر… بنگال اور آسام کی دلدلوں تک اورنگ زیب کی حکمرانی تھی۔ پھر برتن چھوٹا پڑتا گیا۔ یہاں تک کہ ہر خاص و عام کی زبان پر ایک ہی بات تھی۔ سلطنتِ شاہ عالم۔ از دِلّی تا پالم۔ پالم دِلّی کا وہ نواحی علاقہ تھا جہاں بعد میں ہوائی اڈہ بنا۔  قدرت نے ہمیں چھپر پھاڑ کر شاہ عالم عطا کیے۔ اتنے کہ اب ایک شاہ عالم کے بعد دوسرا شاہ عالم آتا ہے۔ 1947ء سے لے کر اب تک کے حکمرانوں… معاف کیجیے گا‘ بادشاہوں کی فہرست بنایئے تو اکثریت شاہ عالموں کی ہوگی۔  اللہ اللہ! عالم اسلام کی واحد ایٹمی طاقت کی صدارت آصف علی زرداری کے حصے میں آئی! دانشوروں کو ایک طرف رکھیے۔ جو تبصرے ٹانگے والوں‘ ریڑھی بانوں‘ رکشہ ڈرائیوروں‘ خاکروبوں‘ راج مستریوں اور مزدوروں نے کیے‘ جمع کیے جاتے تو عہدِ حاضر کی عبرت ناک ترین دستاویز بنتی۔ اسلام آباد کا ایوانِ صدر زرداری صاحب کی دلّی تھی اور کراچی ان کا پالم تھا۔ کسی چیز سے دلچسپی نہ تھ...

دو دنیائوں کے درمیان لکیر

طالبان آسمان سے نہیں اترے۔ ایسا نہیں ہے کہ ایک صبح اچانک کچھ نوجوانوں نے اعلان کیا کہ ہم طالبان ہیں اور ہمیں آج معلوم ہوا ہے کہ جمہوریت کفرہے اور پاکستان کے آئین کی کوئی حیثیت نہیں۔ بسا اوقات ہم آنکھیں موند لیتے ہیں۔اس سے ہماری اپنی دنیا تاریک ہوجاتی ہے تاہم اس دنیا کا وجود جوں کا توں رہتا ہے جسے لاکھوں کروڑوں انسانوں کی کھلی آنکھیں دیکھ رہی ہوتی ہیں۔ ہم اہلِ پاکستان وہ سچائیاں جو روز روشن کی طرح واضح ہیں ، نہیں مانتے۔ کبھی خوف کے مارے ،کبھی مصلحتاً ،کبھی مروت کی وجہ سے ، لیکن   ؎ گر نہ بیند بروز شپرہ چشم چشمہ ٔآفتاب را چہ گناہ چمگادڑ کی آنکھ دن کو نہیں دیکھ سکتی لیکن اس سے سورج کو کیا فرق پڑتا ہے؟ طالبان کی پشت پر ایک نظریہ ہے ،ایک فلسفہ ہے ،ایک طرز فکر ہے اوراساتذہ اور شیوخ کی ایک بہت بڑی تعداد ہے۔ ہزاروں مدارس ہیں اور ان میں پڑھانے والے ہزاروں اساتذہ ہیں۔ لاکھوں کروڑوں لوگ ان مدارس سے فارغ التحصیل ہوکر معاشرے کی مختلف سطحوں پر زندگی بسر کررہے ہیں ۔ ہر سال ہزاروں کی تعداد میں مدارس سے نکلا ہوا تازہ خون آبادی کے اس حصے میں شریک ہوتا ہے۔ یہاں ہم ایک اہم نکتہ قارئین کے گوش گزا...

آخر سرچشمہ کہاں ہے؟

جہاز کی حالت یہ تھی کہ پُرسکون سمندر میں بھی ہچکولے کھا رہا تھا۔ خرابی تھی اور ایسی کہ جہاز کو کھائے جا رہی تھی۔ آہستہ آہستہ پانی اندر آنے لگا تھا‘  جیسے رِس رہا ہو۔ نکال دیا جاتا تو چند روز میں پھر وہی حالت ہو جاتی۔ ایسے میں فرسٹ کلاس کے مسافر خوابگاہوں (کیبنوں) کی تقسیم پر جھگڑ رہے تھے۔ تب کپتان نے انہیں شرم دلائی کہ اللہ کے بندو! جہاز کی خیر مانگو! خوابگاہوں کی عیاشیاں تو جہاز ہی کے ساتھ ہیں۔  ٹھیک یہی پوزیشن اس وقت پاکستان کی ہے۔ جو صوبہ رقبے میں سب سے بڑا ہے‘ اُس کی حالت یہ ہے کہ زلزلہ زدگان کی مدد کرنے والوں پر بھی حملے ہو رہے ہیں۔ قبائلی علاقوں پر ریاست کی عملداری کا دعویٰ کرنے والے خود ہی خاموش ہو گئے ہیں۔ وفاقی حکومت ایک صوبے کی نمائندہ ہو کر رہ گئی ہے۔ جیسے‘ میرے منہ میں خاک‘ وہ خود ہی عملی اعلان کر رہے ہوں کہ بھائی‘ اب پاکستان یہی صوبہ ہے‘ باقی کو بھول جائو۔ کراچی روانڈا بن کر رہ گیا ہے اور یوں لگتا ہے فریڈرک فورسائیتھ (Frederick Forsyth) کے شہرہ آفاق ناول Dogs of war کی فلم چل رہی ہے۔ ایسے میں نیب اور اس کے نو منتخب چیئرمین پر تبصرے!! تعجب ہوتا ہے کہ دانشور اور صح...

آج سے دو سال بعد

ہیلو!  شاہ صاحب! اسلام آباد سے بول رہا ہوں۔ آپ کا خادم۔ سائیں کیا حال ہے ؟ دارالحکومت کا؟ حال اچھا نہیں ہے شاہ صاحب! سائیں آپ ہی کو بہت شوق تھا وفاقی وزیر بننے کا‘ ہم تو آپ کو اپنی کابینہ میں لینا چاہتے تھے ۔ آپ ہمارے ہاتھ میں نہ آئے اور اُڑ کر پہاڑوں میں چلے گئے۔ شاہ صاحب ! بس قسمت کی بات ہے۔ آپ بتائیے کیا ہورہا ہے؟ بس ، سائیں معاملات کنٹرول میں ہیں۔ اللہ کا شکر ہے۔ وہ چودھری نویکلا خان آپ کو یاد ہے؟ کون چودھری نویکلا خان ؟ اچھا ، یاد آگیا، وہی جو چیف منسٹر ہائوس میں ہروقت موجود رہتا ہے۔شاہ صاحب ! بہت ہی گرویدہ ہے وہ آپ کا ، کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آپ نے کار میں بیٹھنا ہوتو دروازہ خود نہ کھولے۔ ہاں سائیں ! وہی‘ ہم نے اسے وزیر امور بھتہ خوری لگایا ہے۔ سائیں ! آدمی وہ سمجھدار ہے اور مستعد بھی۔ حالات اس نے اس طرح کنٹرول کیے ہیں کہ اس کے بعد بھتہ خوری کی خبر میڈیا میں نہیں آئی۔ وہ کیسے شاہ صاحب ؟ سائیں! اس نے سیدھے سیدھے دو اقدامات کیے ۔ پہلے تو اس نے شہر بھر کے تاجروں دکانداروں کمپنیوں کے مالکان سب کو  اطلاع بھجوائی کہ جیسے ہی بھتے کی پرچی موصول ہو۔ ڈرنے کی ضرورت ہے نہ ...

طالب علم اور گستاخی

ڈاکٹر کمال اکبر سے پہلی ملاقات اُس وقت ہوئی جب وہ لیفٹیننٹ کرنل تھے۔ کالم نگار نے مقابلے کا امتحان پاس کر لیا تھا لیکن فیڈرل پبلک سروس کمیشن عینک کے نمبر سے مطمئن نہیں تھا۔ ایک بزرگ نے ساتھ لیا اور اُن کے پاس لے گئے۔ آئی سپیشلسٹ کے طور پر ان کا نام اُس وقت بھی کم معروف نہیں تھا؛ تاہم جس بات نے متاثر کیا یہ تھی کہ کرنیلوں والی خو بُو تھی نہ ڈاکٹروں والی بے نیازی۔ ملائمت سے بات کرتے تھے اور مریض کو دوست بنا لیتے تھے۔  ڈاکٹر صاحب سینئر ہوتے گئے۔ کالم نگار بھی سول سروس کی سیڑھیاں چڑھتا رہا۔ وہ میجر جنرل ہوئے تو جنرل مشتاق بیگ‘ جنہیں راولپنڈی میں خودکش دھماکے سے شہید کیا گیا‘ بطور بریگیڈیئر اُن کے ساتھ کام کر رہے تھے۔ پھر کمال اکبر تھری سٹار جرنیل ہو کر ٹاپ پر پہنچ گئے۔ اُن دنوں وہ اور کالم نگار ایک حساس احاطے میں قریب قریب بیٹھتے تھے۔ ایک دن ہم بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ یاد نہیں وہ کالم نگار کے دفتر میں تھے یا کالم نگار اُن کے کمرے میں بیٹھا تھا۔ باتوں باتوں میں ذکر کیا کہ سنگاپور جا رہا ہوں۔ بولے پورے سنگاپور میں ایک ہی شے ہے جو خریدنی چاہیے‘ باقی کسی شاپنگ کی ضرورت نہیں۔ کرنسی ہماری کم...

دامن خالی، ہاتھ بھی خالی

زمانہ خاک کردیتا ہے۔ جسموں کو مٹی کرکے مٹی میں ملادیتا ہے لیکن کبھی کبھی ہانپنے بھی لگ جاتا ہے۔ غالبؔ نے کہا تھا:   ع مارا زمانے نے اسداللہ خاں تمہیں لیکن اسد اللہ خان کہاں مرا۔ ڈیڑھ صدی سے زیادہ عرصہ بیت چکا۔ آج بھی اس کا دیوان سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتابوں میں شمار ہوتا ہے۔ چٹانوں سے ٹکراتے دریائے سندھ سے کچھ میل مشرق کی طرف، ایک گوشے میں پڑا ہوا پنڈی گھیب کا خوابیدہ ، مٹیالا قصبہ… جب بھی وہاں جانا ہوتا ہے، اڑتی ہوئی مٹی پر اور چلتی ہوئی ہوا پر لکھا ہوا صاف نظر آتا ہے کہ زمانہ خاک کردیتا ہے لیکن کہیں کہیں ہانپنے لگ جاتا ہے۔ایک صدی سے زیادہ عرصہ گزرا جب پنڈی گھیب قصبہ نہیں دارالحکومت تھا۔ اس زمانے میں جو قصبہ یا جو شہر دارالحکومت بنتا تھا ، تمام پیشوں کے ماہر وہاں منتقل ہوجاتے تھے۔ پنڈی گھیب میں بھی بتیس پیشوں کے ماہر رہتے تھے جنہیں بتیس ذاتیں کہتے تھے۔ کوزہ گروں سے لے کر زین سازوں تک … نعل لگانے والوں سے لے کر شمشیر سازوں تک اور بافندوں سے لے کر کفش دوزوں تک۔ ہر فاتح یہاں کے جنگ جوئوں کا محتاج تھا اور ہر طالع آزما اپنے ستارے کو یہاں تلاش کرتا تھا۔ شہسوار یہاں ...

علما و مشائخ کی اپیل …(آخری قسط)

ہمارے ان قابلِ احترام جید علمائے کرام اور مشائخِ عظّام کا مذہبی فریضہ ہے کہ قوم کو گومگو کی کیفیت سے نکالیں۔ طالبان حق پر ہیں یا غلط ہیں… دونوں میں سے ایک ہی بات درست ہو سکتی ہے۔ اگر وہ حق پر ہیں تو علما ان کا ساتھ دیں‘ قوم بھی ساتھ دے گی۔ اگر علما سمجھتے ہیں کہ ان کے مطالبات جائز ہیں لیکن طریق کار غلط ہے‘ تب بھی یہ موقف کھل کر سامنے آنا چاہیے۔  ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے محترم علما و مشائخ اس ضمن میں کوئی واضح رائے نہیں رکھتے اور اگر رکھتے ہیں تو اس کا بوجوہ اظہار نہیں کرتے۔ بقول احمد ندیم قاسمی    ؎  مجھے تسلیم ہے تم نے محبت مجھ سے کی ہو گی  زمانے نے مگر اظہار کی مہلت نہ دی ہو گی  طالبان صرف ڈرون حملوں یا امریکی موجودگی کی بات نہیں کر رہے‘ وہ پاکستان کے آئین اور پاکستان کی حکومت کو بھی نہیں مانتے۔ اگر یہ موقف مبنی برحق ہے تو ہم ادب کے ساتھ علمائے کرام سے درخواست گزار ہیں کہ وہ کھل کر طالبان کے اس موقف کی تائید کریں۔ اس کالم نگار کی طرح لاکھوں کروڑوں پاکستانی جو دین کا علم نہیں رکھتے‘ مولانا تقی عثمانی کی طرف دیکھتے ہیں۔ کاش جسٹس صاحب یہاں بھی اُسی وضاحت س...

علما ومشائخ کی اپیل

معروف اور جید علماء کرام نے اللہ اور اس کے رسول کے نام پر حکومت اور طالبان سے فوری جنگ بندی کی اپیل کی ہے۔ذرائع کے مطابق علماء نے کہا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ ملک کو خانہ جنگی سے نکالنے اور امن وامان کے قیام کے لیے مدارس اور خانقاہوں سے باہر آکر عملی طورپر اپنا کردار اداکیا جائے۔ علماء نے یہ بھی کہا  ہے کہ طاقت کا بے جا استعمال اور خونریزی کسی مسئلے کا مستقل حل نہیں۔  30ستمبر کا یہ اجلاس اور یہ اپیل‘ بظاہر ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔ خدا کرے کہ یہ اپیل صدابصحرا نہ ثابت ہو ۔ لیکن کیا ایسا ہوسکے گا؟ جو کشت وخون سالہا سال سے جاری ہے، کیا اس کا مداوا یہ ایک اجلاس کرسکے گا؟ وہ جو ناصر کاظمی نے کہا تھا   ؎ میں اپنا عقدۂ دل تجھ کو سونپ دیتا ہوں  بڑا مزا ہو اگر وا نہ کرسکے تو بھی  تو یہ مسئلہ اتنا آسان نہیں جتنا نظر آتا ہے۔ علماء کے اس اجلاس اور ان کی اپیل کا تجزیہ کرتے ہوئے دوپہلو خاص طورپر سامنے رکھنے ہوں گے۔  اول ۔ یہ اجلاس ایک خاص مکتب فکر کے علماومشائخ کا تھا۔ یہ کہنا کہ یہ ملک بھر کے جید علما کا اجلاس تھا، واقعاتی اعتبار سے درست نہیں۔ اس اجلاس میں شیعہ‘ بریل...

لائے ہیں بزمِ ناز سے یار خبر الگ الگ

دادا اور پوتا ایک گائوں سے دوسرے گائوں جارہے تھے۔ پندرہ سالہ پوتا گدھے پر سوار تھا۔ کچھ راہگیر سامنے سے آرہے تھے۔ دیہی ثقافت کا یہ ایک اہم حصہ ہے کہ ایک دوسرے کو کراس کرتے ہوئے رک کر حال چال پوچھتے ہیں اور خوب تفصیل سے پوچھتے ہیں ۔ پہلا سامنا جن راہگیروں سے ہوا، انہوں نے جاتے جاتے یہ بھی کہہ دیا کہ جوان پوتا مزے سے گدھے کی سواری کررہا ہے اور بوڑھا دادا پیدل چلنے کی مشقت میں ہے۔ پوتے سے یہ تبصرہ برداشت نہ ہوا۔ دادا کے منع کرنے کے باوجود وہ نیچے اترآیا اور اصرار کرکے دادا کو سوار کرادیا۔ پھر کچھ اور لوگ ملے ۔ خیروعافیت پوچھنے کے بعد وہ بابے سے مخاطب ہوئے۔’’معصوم بچہ پیدل سفر کررہا ہے۔ تھکاوٹ کے مارے اس کا برا حال ہے اور تم مزے سے سواری کررہے ہو۔ کیا آج کل کے دادا اتنے سخت دل ہوگئے ہیں ؟‘‘ پوتے کے لاکھ منع کرنے کے باوجود دادا نے مزید سواری کرنے سے صاف انکار کردیا۔ خوب بحث ہوئی۔ بالآخر طے ہوا کہ دونوں سوار ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ دادا نے پوتے کو آگے بٹھا لیا۔ اب جو مسافر راہ میں ملے، انہوں نے خیرخیریت اور فصلوں کی صورت حال پر تبصرہ کرنے کے بعد یہ ریمارک بھی دیا کہ دونوں ہٹے کٹے جانور پر سوار ہو...