اشاعتیں

ستمبر, 2013 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

کوئی ہے…؟؟

کوئی ہے جو ہم اہلِ پاکستان کو اس عذاب سے نجات دے ؟ ہم ایک ایسی گھاٹی میں اترچکے ہیں جس کا ہرراستہ نشیب کو جاتا ہے اور ہرنشیب میں موت انتظار کررہی ہے۔ ہم پر چاروں طرف سے پتھروں کی بارش ہورہی ہے۔ وہ کھردرا خاردار پودا جو جہنم میں خدا کے منکروں کو کھلایا جاتا ہے، ہم اہل ایمان کو یہاں دنیا میں کھلایا جارہا ہے۔ ہمیں کھولتا ہوا پانی پلایا جارہا ہے۔ ہماری انتڑیاں کٹ چکی ہیں۔ ہماری شریانیں شکم سے باہر آرہی ہیں۔ ہم ایک ملک میں نہیں، ایک غار میں ہیں۔ زندہ ہیں نہ مررہے ہیں۔ افسوس! دنیا کو معلوم ہی نہیں ہم کس قیامت سے گزررہے ہیں۔ ہائے افسوس! حکمران، ہمارا حال دنیا سے چھپا رہے ہیں تاکہ جس معیار زندگی سے وہ لطف اندوز ہورہے ہیں، ہوتے رہیں۔ ہمارا حال اس ملازم سے لاکھوں گنا بدتر ہے جو سفر کے دوران رنجیت سنگھ کے لیے میز کا کام دیتا تھا۔ وہ پنجاب کے حکمران کے سامنے کھڑا ہوتا تھا۔ پھر رکوع میں جاتا تھا۔ یوں کہ اس کی پیٹھ پر کھانا چن دیا جاتا تھا۔ پھر جتنی دیر رنجیت سنگھ کھانا کھاتا تھا، وہ رکوع ہی میں رہتا تھا۔  بوسنیا اور کسووومیں سربیا کی نصرانی عورتیں ٹوٹی ہوئی بوتلوں کی نوک سے مسلمان قیدیوں کے پ...

دکانداری کی مجبوریاں

دکاندار دکان میں وہی شے رکھے گا‘ جس کی طلب ہو۔ طلب جاسوسی اور جنسی کہانیوں کی ہو تو وہ ٹائن بی‘ ابن خلدون اور برٹرینڈ رسل کیوں رکھے گا؟ گاہک اگر تیل میں تلی ہوئی پھیکے پیلے رنگ کی جلیبی مانگتا ہے تو حلوائی ڈبوں میں بند صاف ستھری مٹھائی رکھنے کی تکلیف نہیں کرے گا۔ ٹریفک سے چھلکتی شاہراہوں کے کنارے کٹے ہوئے سردے اور مِٹھے دھڑا دھڑ فروخت ہو رہے ہوں تو پھلوں کو پلاسٹک کور میں محفوظ کرنے پر وقت ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے! یہی حال الیکٹرانک میڈیا کا ہے‘ یہ جو کُھمبیوں کی طرح ٹی وی چینل اُگ آئے ہیں تو یہ ریڑھیاں‘ کھوکھے اور دکانیں ہی تو ہیں! جو لوگ ان چینلوں کے مالک ہیں اور جو چلانے والے ملازم ہیں‘ وہ ثواب کمانے کے لیے نہیں بیٹھے۔ بھائی! یہ تو کاروبار ہے۔ اشتہار بازی کا سلسلہ ہے۔ روپوں کا مسئلہ ہے۔ وہی شے پیش کی جائے گی جس کی طلب ہے۔ ناظرین گاہک ہیں۔ ٹی وی چینل دکاندار ہیں۔ جو نیکوکار بڑبڑا رہے ہیں کہ ریٹنگ کی وجہ سے غلط پروگرام پیش ہو رہے ہیں تو ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ آپ کے شکم مبارک میں اصلاح کے بخارات اُٹھ رہے ہیں تو اس تبخیر کو کنٹرول کرنے کے لیے آگے بڑھیے اور ایسا چینل لے آیئے جسے اشت...

کنوئیں کی پچھلی دیوار

میڈیا کی شائع شدہ اور نشر شدہ خبروں کے مطابق اسلام آباد اور راولپنڈی کے تاجر، طالبان کو 65کروڑ روپے گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران ادا کرچکے ہیں۔ جو معاملات ظاہر ہی نہ ہوسکے، اس کے علاوہ ہیں۔ کم ازکم چارتاجروں کو شہید کردیا گیا۔ کچھ کو ادائیگی کے باوجود رہا نہیں کیا گیا۔ ایک تاجر کے دوبیٹوں کو کمیٹی چوک راولپنڈی سے اغوا کیا گیا اور چھ کروڑ کے عوض چھوڑا گیا۔ جہلم میں ایک تاجر نے پچاس لاکھ کا تاوان دیا۔ پنڈی کے ایک ڈاکٹر اور اس کی ڈاکٹر بیگم سے پانچ کروڑ مانگے گئے ہیں۔ ایک معروف کمپنی کے مینیجر سے بھی مطالبہ ہوچکا ہے۔ تقریباً تمام معاملات میں بھتے کی ٹیلی فون کالیں قبائلی علاقوں سے موصول ہوئی ہیں، پشاور میں افغانستان کی ٹیلی فون سمیں کھلم کھلا فروخت ہورہی ہیں، نجی ٹرین کے مالکوں کو بھتے کی کال افغانستان سے ملی ہے، کراچی کے حالات اس کے علاوہ ہیں۔ ہزاروں دہشت گرد بھاگ کر دوسرے شہروں میں گم ہوچکے ہیں۔ لاہور کے چاروں طرف غیرملکیوں کی بستیاں بس چکی ہیں۔ نااہلی کی انتہا یہ ہے کہ لاہور کی ایک مارکیٹ کے بغل میں ایک مخصوص لسانی گروہ نے اپنے الگ بیریئر (رکاوٹیں ) لگائے ہوئے ہیں۔  یہ ہے وہ ’’سازگار م...

مٹی، چاندنی اور ہوا کے غدار

پاکستانی بچوں ،پاکستانی بوڑھوں ، پاکستانی نوجوانوں اور پاکستانی خواتین کے ساتھ جو کچھ پشاور کے چرچ میں ہوا، وہ الم ناک ہے اور دردناک ۔ لیکن غیرمتوقع نہیں !آپ جَو بوکر گندم نہیں کاٹ سکتے ! عیسائی؟ ہندو؟ سکھ ؟اللہ کے بندو! جس ملک میں آٹھ سال تک مدرسوں کے معصوم بچوں کو کسی دوسرے مکتب فکر کے لوگوں سے ملنے دیا جاتا ہے نہ وہ اخبار ،رسالے اورٹیلی ویژن کے نزدیک جاسکتے ہیں، جہاں انہیں آٹھ سال مسلسل ایک ہی بات بتائی جاتی ہے کہ صرف تمہارا مسلک اصل اسلام ہے۔ جس ملک میں بات بات پر مسلمانوں کو کہا جاتا ہے کہ تم کافر ہوگئے ہو، کلمہ پڑھ کر دوبارہ مسلمان بنو اور نکاح ازسر نو پڑھوائو، وہاں غیرمسلموں کو کون برداشت کرے گا ؟ انٹرنیٹ اور فیس بک پر وہ وڈیو لاکھوں لوگ دیکھ چکے ہیں جس میں کراچی کے ایک سیاسی مولانا جو اب لاہور میں مقیم ہیں اور جنہیں کبھی مسکراتے نہیں دیکھا گیا انٹرویو لینے والے سے کہتے ہیں کہ تم ازسر نو کلمہ پڑھو۔ ساتھ ہی موصوف کا اصرار یہ تھا کہ اگر کسی بے بس خاتون سے زیادتی کی گئی ہے تو اسے چاہیے کہ خاموش رہے۔ ٹیلی ویژن چینلوں پر آنے والے چند مذہبی رہنمائوں کی بات الگ ہے۔ مدارس میں پڑھنے پڑھ...

ڈاکو‘ دماغ اور دل

روزنامہ ’’دنیا‘‘ میں چھپی خبر کے مطابق مولانا طارق جمیل اپنے ڈرائیور کے ساتھ کار میں جارہے تھے کہ موٹرسائیکل سوار ڈاکوئوں نے ان کو روک کر لوٹنا چاہا۔ ڈرائیور نے گاڑی بھگا دی اور ڈاکوئوں کا گروہ واردات میں ناکامی پر فرار ہوگیا۔  مولانا طارق جمیل معروف مذہبی سکالر ہیں۔ ان کا تعلق تبلیغی جماعت سے ہے۔ خدانے انہیں تقریر کرنے کا ملکہ عطا کیا ہے۔ الفاظ ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں  ع پھر دیکھنا انداز گل افشانیٔ گفتار  بیان میں وہ روانی ہے کہ سننے والے اس روانی میں بہہ رہے ہوتے ہیں۔ مولانا اپنی طاقتِ تقریر سے مجمع کو جس طرف چاہیں لے جاتے ہیں۔ قرآن کی آیات انہیں ازبر ہیں۔ بات کرتے جاتے ہیں ۔ آیات پڑھتے جاتے ہیں۔ حقوق اللہ کے بارے میں ان کی ہزارہا تقریریں کیسٹوں‘ سی ڈیز اور انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا بھر میں سنی جارہی ہیں۔ دنیا کا شاید ہی کوئی گوشہ ایسا ہو جہاں عبادات کے مختلف پہلوئوں پر مولانا کے ارشادات سے مسلمان فائدہ نہیں اٹھارہے۔ نہ جانے کتنے ان کی وجہ سے حقوق اللہ کی طرف مائل ہوئے۔ اور نہ جانے کتنے گناہوں کی زندگی ترک کرکے عبادات کی طرف لپکے، ذالک فضل اللہ یؤتی من یشاء...

وادیٔ قیس سلامت ہے تو انشا ء اللہ

خیبر پختونخوا کو بدیسی وائسرائے کی طرح چلانے والے عمران خان نے پاک فوج کے میجر جنرل اور ان کے دوسر ے رفقا کی شہادت پر واحد تبصرہ جو کیا یہ ہے کہ وہ نو سال سے پاکستان کو امریکی جنگ سے نکلنے کا کہہ رہے ہیں۔ اس پر اسلام آباد کے وہ مولانا یاد آرہے ہیں جن سے لیفٹیننٹ جنرل مشتاق بیگ کی شہادت کے بعد بات ہوئی تو وہ مرحوم کو شہید کہنے میں متامّل تھے۔ زندگی کا بیشتر حصہ ولایت اور پھر پاکستانی ولایت (لاہور) میں گزارنے والے عمران خان آج کل اسلام آباد کی ایک پرفضا پہاڑی کی چوٹی پر تین سو کنال کے جھونپڑے میں رہتے ہیں۔ وہ خیبرپختونخوا میں کبھی نہیں رہے۔ ظاہر ہے وہاں کے کلچر، مسائل اور معاملات سے انہیں محض کتابی آگاہی ہے۔ بہر طور ان دنوں وہ خیبرپختونخوا کے حکمرانوں پر بہت محنت کررہے ہیں۔ عمران خان انہیں سکھا رہے ہیں کہ لکھتے وقت قلم کس طرح پکڑا جاتا ہے، مسواک یا ٹوتھ برش سے دانت کیسے صاف کیے جاتے ہیں۔ لباس زیب تن کرنے کے بعد بٹن کس طرح بند کیے جاتے ہیں۔ کنگھی کیسے کی جاتی ہے۔ دفتر میں میز کہاں رکھنی ہے اور بیٹھتے وقت رخ کدھر کرنا ہے۔ رہے باقی چھوٹے چھوٹے مسائل مثلاً فائل پر کیا لکھنا ہے؟ تو صوبے کے ح...

سول سوسائٹی جان لے

پاکستان کی سول سوسائٹی بھی عجیب ہے۔ سول ہے نہ سوسائٹی! شاخ کے جھڑنے پر رو رہی ہے اور ان چھ سرداروں پر کوئی توجہ نہیں دے رہی جو درخت کی جڑ کاٹ رہے ہیں۔  شاہ زیب کے والد کی بہن نے ٹیلی ویژن چینل پر برملا کہا ہے کہ اس کے بھائی کو یعنی شاہ زیب کے والد کو اغوا کیا گیا۔ پھر اس قدر تشدد کیا گیا کہ اسے ہسپتال داخل ہونا پڑا۔ موصوف نے تردید کی کہ نہیں۔ اغوا نہیں ہوئے، سیڑھیوں سے گرے۔ وہ یہ بھول گئے کہ سیڑھیوں سے گردن کے بل گرنے سے فوری موت واقع ہوسکتی ہے۔ بصورت دیگر کبھی سنا نہیں کہ سیڑھیوں سے گرنے کی وجہ سے کوئی ہسپتال میں داخل ہوجائے۔ سوشل میڈیا پر ہاہا کار مچی ہوئی ہے کہ کیوں معاف کیا گیا۔ خدا کے بندو! جس معاشرے میں ایک نہیں، کئی بچیوں کو قتل کرکے صحرا میں دفن کرنے والے معتبر بن جائیں‘ جہاں غیرت کے نام پر قتل کے خلاف بل پیش ہو تو سارے ’’معززین‘‘ بلبلا اٹھیں، جہاں پنچایتیں آئے دن میاں بیوی کو قتل کراتی پھریں، جہاں ونی، سوارہ، اور کاروکاری کے خلاف کوئی عالم دین کبھی نہ بولا ہو۔ وہاں شاہ زیب کے ماں باپ کس کھیت کی مولی ہیں۔ کیا سول سوسائٹی چاہتی ہے کہ وہ ’’ڈٹے‘‘ رہتے اور قتل ہوجاتے؟ بچے کو ...

لاکھ ناداں ہوئے، کیا تجھ سے بھی ناداں ہوں گے؟

پک گئے ہیں کان یہ سن سن کر کہ قبائلی علاقوں کو انگریز نے بھی نہیں چھیڑا تو پاکستانی فوج وہاں کیوں داخل ہوئی ؟جس چینل کو کھولیں کوئی نہ کوئی بزرجمہریہ فلسفہ بگھار رہا ہوتا ہے۔  سبحان اللہ سبحان اللہ ! چونکہ انگریز حکومت نے قبائلیوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا تھا تو اب حکومت پاکستان کے لیے اس معاملے میں انگریز آقائوں کی پیروی لازم ہے۔ انگریزوں پر یہ پالیسی آسمان سے اتری تھی اس لیے اس مقدس پالیسی کو ترک کرنا عذاب الٰہی کو دعوت دینے کے متراف ہوگا۔  پاپوش میں لگائی کرن آفتاب کی  جو بات کی خدا کی قسم لاجواب کی  اللہ کے بندو!بات کرتے وقت کچھ تو سوچ لیا کرو۔ اتنے بڑے بڑے مناصب سے تم ریٹائر ہوئے‘ جن کا ذکر تمہارے ناموں کا جزولاینفک بن گیا ہے۔ اور کچھ نہیں تو ان عہدوں ہی کا خیال کر لیا کرو‘ خلق خداکیا کہے گی کہ یہ لوگ سوچنے سمجھنے سے عاری ہیں ؟ بقول میرؔ    ؎ ہوا جو دل خوں، خرابی آئی، ہرایک اعضا میں ہے فتور اب  حواس گم ہیں، دماغ گم ہے، رہا سہا بھی گیا شعور اب  انگریزوں کی غیرملکی حکومت کو آخر غلاموں کی فلاح وبہبود سے کیا دلچسپی ہوسکتی تھی ؟ روس وسط ایش...

عذاب کی صورتیں

اس روئے زمین پر، اس نیلے آسمان کے نیچے یہ ایک عجیب وغریب ملک ہے جہاں ریاست کا سربراہ ایک ایسا شخص بھی بن سکتا ہے جو ہوسِ زراندوزی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ جس کے پاس نیویارک سے فرانس اور انگلستان تک محلات کا سلسلہ ہے اور جسے سوئٹزرلینڈ کے بنک جھک کر سلام کرتے ہیں۔  جہاں بے یارومددگار ملزم مقدموں کے فیصلوں کے انتظار میں آدھی آدھی زندگیاں سلاخوں کے پیچھے گزار دیتے ہیں لیکن جہاں طاقت ور قاتل عدالتوں میں پیش ہوتے ہیں تو انگلیوں سے فتح کا نشان بناتے ہیں۔ جہاں بااثر قاتلوں کو چھڑانے کے لیے درجنوں سردار حرکت میں آجاتے ہیں اور جہاں ریکارڈ ہے کہ کبھی کوئی جاگیردار قتل کرنے یا کرانے کے بعد پھانسی نہیں چڑھا۔  جہاں خیرات وصدقات ہرجرم پر پردہ ڈال دیتے ہیں‘ جہاں غذا اور ادویات میں قاتلانہ ملاوٹ کرنے والے‘ ٹیکس چوری کرنے والے، تجاوزات کے ذریعے حرام مال کمانے والے اور مال بیچتے وقت گاہکوں کو نقص نہ بتانے والے، پاک صاف ہوجاتے ہیں بشرطیکہ وہ خیراتی ادارے چلائیں، مسجدوں، مدرسوں کو چندے دیں اور دیگیں تقسیم کریں۔ جہاں فائلوں کے نیچے پہیے لگانے کا برملا اعتراف کرنے والے اس لیے نیکوکار قرار دیئے ج...

پہاڑ سربن کا

جعفر طاہر کمال کے شاعر تھے۔بسیار گو ، لیکن بلند مرتبہ اور قادرالکلام ۔قدر اللہ شہاب کی سرپرستی میں ’’ ہفت کشور‘‘ تصنیف کی جو سات مسلم ممالک کا منظوم تذکرہ ہے۔یہ ایک معرکہ آرا کتاب ہے جو ہماری قومی جہالت اور ناقدری کا شکار ہوکر طاق نسیاں پر دھری رہ گئی ہے۔جن کتابوں پر پہلے پہل آدم جی ایوارڈ ملا ، یہ کتاب ان میں سے ہے۔اس کا انتساب انہوں نے شہاب کے نام کیا اور ساتھ یہ مصرع لکھا    ع  آں مہرباں کہ آبروئی ہفت کشور است  اسی میں پاکستان کے بارے میں ان کی طویل بحر والی معرکہ آرا غزل نما نظم ہے جس کا ایک مصرع یوں ہے     ع گل و گزار کے اورنگِ ہمہ رنگ پہ یہ نغمہ و آہنگ مرے جھنگ و تلاگنگ کی بہتی ہوئی لَے  جعفر طاہر کا تعارف اس واقعہ کے ضمن میں کرانا پڑا جو بتانا مقصود ہے۔ایک زمانے میں وہ مری میں قیام پذیر تھے ۔  ترنگ میں آکر دوستوں سے ، جو شاعر اور ادیب تھے ،وعدہ کیا کہ فلاں دن وہ دعوت کا اہتمام کررہے ہیں۔شوق کو مہمیز لگانے کے لیے دعوت کی تفصیل بھی بیان کی ۔مسلّم بکرا روسٹ کیاجائے گا۔بکرے کے اندر بکری کا چھوٹا بچہ ہوگا۔بکری کے بچے کے اندر مرغ ہوگا۔مرغ کے ...

گنبدِ نیلوفری

شام کو سلطنت عثمانیہ نے 1516ء میں اپنی تحویل میں لیا۔ چارسوسال تک شام ایک اہم صوبہ رہا ۔ ترکوں نے جہاں عربی زبان کو عزت اور اہمیت دی‘ وہاں دمشق کو بھی علاقے کا مرکزی مقام قرار دیا ۔ مکہ جانے والے حجاج کے لیے اسے ایک اہم پڑائو کا درجہ حاصل رہا۔ پہلی جنگِ عظیم کے وسط میں انگریزوں اور فرانسیسیوں نے علاقے کو اپنے اپنے حلقہ ہائے اثر میں بانٹ لیا اور اس کا نام Mandate(انتداب) رکھا۔ فرانس سے شام کی جان 1946ء میں چھوٹی۔ اقبال نے یورپ کے اس تسلط پر خوب طنز کیا تھا    ؎ فرنگیوں کو عطا خاکِ سوریا نے کیا  نبیِ عفّت و غم خواری و کم آزاری  صلہ‘ فرنگ سے آیا ہے سوریا کے لیے  مے وقمار وہجومِ زنانِ بازاری  اقبال نے ضربِ کلیم میں ایک باب الگ باندھا ہے جس کا عنوان ’’سیاسیاتِ مشرق و مغرب‘‘ ہے۔ انٹرنیشنل ریلیشنز (بین الاقوامی تعلقات ) کے طلبہ کے لیے یہ ایک باب کئی کتابوں پر بھاری ہے۔ پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگِ عظیم کا درمیانی عرصہ اس باب کا موضوع ہے۔ ایک ایک شعر میں کئی کئی نکات ہیں ۔ سامراجی طاقتوں نے اس زمانے میں جو چیر پھاڑ شروع کررکھی تھی اس کا ذکر اقبال نے جس پیرائے ...

شام‘ اصل صورتحال

’’مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں شام کی صورتحال پر عرب لیگ کے خصوصی اجلاس کے موقع پر سعودی وزیر خارجہ سعود الفیصل نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ عالمی برادری شامی عوام کے خلاف حکومتی جارحیت روکنے کے لیے اقدامات کرے اور اگر شامی عوام نے بشارالاسد کے خلاف امریکی حملے کی حمایت کی تو سعودی عرب بھی اس کی حمایت کرے گا‘‘۔  تو کیا سعودی عرب کو مسلمانوں سے دشمنی ہے کہ وہ امریکی حملے کی حمایت کررہا ہے؟ کیا ترکی اور متحدہ عرب امارات مسلمان نہیں؟ یا کیا وہ ان پاکستانیوں سے کم درجے کے مسلمان ہیں جو امریکی حملے کے خلاف پاکستان میں بیانات دے رہے ہیں اور ایجی ٹیشن کررہے ہیں؟ ہم اہل پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں مسائل کا تجزیہ ناپید اور نعرے، ہجوم، جلوس، بینر اور دھواں دار بیانات پیش منظر پر ہر طرف چھائے ہوئے ہیں۔ آج مختلف گروہ یا تو منقار زیر پر ہیں یا بشار الاسد اور اس کے حامیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ سیاست بھی کیا شے ہے! اس میں اور دو رنگی کے درمیان ایک مدہم سی لکیر ہے جو مشکل ہی سے نظر آتی ہے۔ کہا یہ جارہا ہے کہ ہمیں بشار الاسد سے کوئی ہمدردی نہیں؛ تاہم ہم امریکی حملے کے خلاف ہیں۔ فانی ب...

شہر سارا تلاوت میں مصروف ہے

جہاز پر سوار ہونے کے لیے ہم قطار میں کھڑے تھے ۔ کراچی سے اسلام آباد آنے کے لیے اس جہاز پر نشست ملی تھی جس کے زیادہ تر مسافر دبئی سے آرہے تھے۔ ناخواندہ اور نیم خواندہ محنت کش ۔ جوشخص میرے آگے تھا، اس نے کندھے پر پیڈسٹل پنکھا رکھا ہوا تھا ۔ میں نے اسے کہا کہ پنکھے تو پاکستان میں بہت اچھے بن رہے ہیں۔ اس نے فوراً تصحیح کی۔’’لیکن یہ فارن کا ہے۔‘‘ یہ کئی سال پہلے کی بات ہے ۔ اس زمانے میں باہر سے ٹو ان ون (ٹیپ ریکارڈر اور ریڈیو) ، وی سی آر، کراکری اور کٹلری لانے کا رواج تھا۔ یہ رجحان پاکستان میں ہمیشہ سے تھا اور آج بھی ہے۔ آج بھی کپڑے کے تاجر کپڑا پاکستان کے کارخانوں میں بنواتے ہیں اور ٹھپا اس پر کوریا یا جاپان کا لگواتے ہیں۔ اس احساس کمتری میں ہمارے تجربہ کار اور جہاں دیدہ حکمران بھی اسی طرح مبتلا ہیں جس طرح دبئی میں کام کرنے والے محنت کش۔ پنجاب کی حکومت نے ترکی سے پولیس افسر منگوائے ہیں جو دہشت گردی اور جرائم ختم کرنے کے لیے سفارشات مرتب کررہے ہیں۔ لاہور کے پولیس ہیڈکوارٹر میں پاکستانی پولیس افسر ان مہمانوں کی خدمت پر مامور ہیں ! سفارشات ؟؟کیا مہمان پولیس افسروں کے پاس آسمان سے نئے نئے ات...