اشاعتیں

اگست, 2013 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

مولانا روشن سے ایک ملاقات

مولانا روشن سے ملاقات کا وقت طے تھا۔ پہنچے تو بیٹھک میں انتظار کرنے کو کہا گیا۔ پوچھا کیا کررہے ہیں۔ بتایا گیا کہ ٹیلیویژن کا مصری چینل دیکھ رہے ہیں۔ اس کے بعد ترکی کا چینل دیکھیں گے اور پھر افغانستان کا۔ دو اڑھائی گھنٹے انتظار کرتے رہے۔ بالآخر وہ تشریف لائے۔ ساتھ ہی چائے بھی آگئی۔ چائے کے ساتھ چینی کے بجائے مصری کی ڈلیاں تھیں۔ گفتگو شروع ہوئی۔ ’’حضرت! آج کل آپ کے نزدیک پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کون سا ہے؟‘‘ ’’پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ، ظاہر ہے مصر کی صورت حال ہے۔ سینکڑوں مصری مسلمانوں کو وہاں کی فوج شہید کر چکی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اس پر شدید ترین ردعمل کامظاہرہ کریں۔ ہمیں مصر سے سفارتی تعلقات پر ازسرنو غور کرنا ہوگا۔ ’’حال ہی میں شامی فوج نے سینکڑوں افراد کو کیمیائی ہتھیاروں سے قتل کیا ہے۔ ان میں بہت بڑی تعداد بچوں کی بھی ہے۔ اس ظلم پر آپ کی طرف سے کوئی احتجاج نہیں ہوا۔‘‘ ’’آپ یہ سوال ایک سازش کے تحت کررہے تاکہ ہماری توجہ مصری عوام سے ہٹائی جائے۔ آپ کی اس سازش کو ہم کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔‘‘ ’’آپ نے فرمایا ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ مصر کی صورت حال ہے۔ اس کے بعد آپ کے خیال...

کھرچے ہوئے لفظوں کا ماتم

یہ دھچکا نہیں تھا۔ یہ تو ٹھوکر تھی جو مجھے لگی۔ قریب تھاکہ میں منہ کے بل گر پڑتا۔ نواسی کو فارسی پڑھا رہا تھا۔ شبان کا لفظ آیا۔ میں نے مطلب بتایا: گڈریا۔ ساڑھے سات سالہ زینب نے پوچھا وہ کیا ہوتا ہے۔ اس پر میں نے کہا چرواہا۔ وہ بولی چرواہا کیا ہوتا ہے؟ یہ دھچکا نہیں تھا، ٹھوکر تھی۔ یہ دلیل غلط ہے کہ شہر کے بچوں کا چرواہے سے واسطہ پڑتا ہے نہ بھیڑ بکریوں کے گلّے سے۔ واسطہ تو ان کا شہزادی سے بھی نہیں پڑتا لیکن انہیں معلوم ہے کہ پرنسس کسے کہتے ہیں۔ واسطہ تو ان کا جادو سے بھی نہیں پڑتا لیکن ویلنٹائن ڈے منانے والے سکول میں چند ماہ گزارنے کے بعد Magician کے لفظ سے متعارف ہوجاتے ہیں۔ وہ سٹوری بکس پڑھتے ہیں۔ اگر کہانیوں کی کتابیں پڑھتے تو چرواہے سے بھی آشنا ہوتے، لکڑہارے سے بھی اور پرستان سے بھی! لیکن المیے کا یہ پہلوتو کچھ بھی نہیں۔ سانحہ تو اور ہے۔ ہماری ادبی میراث۔ ہماری تہذیبی تاریخ فورٹ ولیم کالج کلکتہ سے شروع ہورہی ہے جو 1800ء میں قائم ہوا۔ چلیے مان لیتے ہیں کہ ہم ولی دکنی کو پہلے اردو ادیب اور شا عر کے طور پر پڑھ پڑھا رہے ہیں۔ ولی دکنی کا سال وفات 1707ء ہے۔ شمالی ہند میں مسلمانوں کا اق...

قبائلی طرزِ حکومت میں یہی ہوتا ہے

جب حکومتیں میرٹ کی بنیاد پر نہ بنیں اور اصولوں کی بنیاد پر نہ چلائی جائیں توایسی ہی مضحکہ خیز صورت پیدا ہوتی ہے جیسی مسلم لیگ نون کی حکومت میں ہورہی ہے۔ مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی کی حکومتوں میں بنیادی طورپر کوئی فرق نہیں اس لیے کہ دونوں کا طرز حکومت بنیادی طورپر قبائلی ہے۔ قبائلی طرز حکومت میں میرٹ اور قانون دونوں کی حیثیت صفر ہوتی ہے۔ ذاتی پسند اور ناپسند ۔ اور وہ بھی قبیلے کے سربراہ کی، فیصلہ کن ہوتی ہے۔ مسلم لیگ نون، پیپلزپارٹی ہی کی طرح ایک قبیلہ ہے، سیاسی پارٹی ہرگز نہیں۔ سیاسی پارٹی وہ ہوتی ہے جس کے اندر انتخابات منعقد ہوں اور ایک خاندان کی اجارہ داری نہ ہو۔ مسلم لیگ نون ایک قبیلہ ہے جس کی بنیاد وسطی پنجاب پر اٹھی ہے۔ فیصل آباد سے لے کر سیالکوٹ تک اور گوجرانوالہ سے لے کر رائے ونڈ تک کے علاقے اس قبیلے کا نشان امتیاز ہیں۔ قبیلے کا سربراہ ہی سب کچھ ہے یا وہ امرا اور عمائدین جو سربراہ سے قربت رکھتے ہیں۔ یہاں ...