اشاعتیں

جون, 2013 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

جنرل ضیا الحق کا احترام ہم سب کرتے ہیں

جوکچھ قومی اسمبلی میں اعجاز الحق اور پیپلزپارٹی کے ارکان کے درمیان ہوا، وہ نہ ہی ہوتا تو بہتر تھا۔ ایک طرف اعجاز الحق اکیلے تھے، دوسری طرف پیپلزپارٹی کے کئی ممبر تھے۔ باقی تماشائی تھے۔ اس زبانی جنگ میں اعجاز الحق صاحب کی کارکردگی اتنی اعلیٰ بھی نہیں تھی کہ وہ کہتے   ؎ ہزار دام سے نکلا ہوں ایک جنبش میں جسے غرورہو آئے کرے شکار مجھے میڈیا نے اس پہلو کو خاصی اہمیت دی کہ مسلم لیگ نون کے ارکان نوک جھونک کا مزا لیتے رہے۔ اعجاز الحق صاحب کا ساتھ دینے والا کوئی نہ تھا   ع اکیلے پھر رہے ہو یوسف بے کارواں ہوکر اعجاز الحق صاحب نے مسلم لیگ نون کو اس کے برے وقتوں میں چھوڑ دیا اور پرویز مشرف کے آٹھ سالہ نادرشاہی عہد کے دوران اس گروہ عاشقاں میں شامل رہے جو وزارتوں‘ سفارتوں اور امارتوں پر فائز رہا۔ لال مسجد کا المیہ تھا یا چیف جسٹس کی توہین۔ کسی موقع پر انہوں نے استعفیٰ نہیں دیا۔ ہاں۔ کچھ عرصہ پہلے انہوں نے یہ ضرور کہا ہے کہ انہیں مستعفی ہوجانا چاہیے تھا! جوکچھ قومی اسمبلی میں ہوا، وہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ فرض کریں اعجاز الحق ، دور ابتلا میں مسلم لیگ نون کا ساتھ نہ چھوڑتے‘ تو کیا ایسی...

اندھیرا کمرہ اور سوئی

اس شخص کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جو گلی میں کچھ ڈھونڈ رہا ہے۔ کھمبے کے بلب سے گلی روشن ہے۔ ہم اس سے پوچھتے ہیں تم کیا تلاش کررہے ہو؟ وہ بتاتا ہے کہ سوئی ڈھونڈ رہا ہے۔ پھر ہم اس سے پوچھتے ہیں سوئی کہاں گم ہوئی تھی۔ وہ بتاتا ہے کہ سوئی تو کمرے میں گم ہوئی تھی لیکن کمرے میں اندھیرا ہے۔ یہی مثال ان لوگوں کی ہے جو دوحہ مذاکرات سے (جو ابھی ہونے ہیں) امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ دوحہ میں ہونے والی بات چیت کی حقیقت صرف اس قدر ہے کہ امریکہ نکلنے سے پہلے ایک جھوٹی عزت چاہتا ہے۔ وہ اب صرف لنگوٹی سنبھالنے کی فکر میں ہے۔ اسے اس سے کوئی غرض نہیں کہ حامد کرزئی کی کیا پوزیشن ہے یا امریکہ کے نکلنے کے بعد افغانستان میں جو گھمسان کا رن پڑے گا اس کا انجام کیا ہوگا؟ وہ اس وقت صرف یہ کہہ رہا ہے   ؎ میں نے جو آشیانہ چمن سے اُٹھا لیا میری بلا سے بوم رہے یا ہُمارہے مذاکرات کی چمک میں ہمارے دوست یہ سوال بھول گئے کہ مذاکرات کے بعد کیا ہوگا؟ 2014ء میں افغانستان میں انتخابات ہونے ہیں۔ حامدکرزئی اپنے بھائی کو کھڑا کررہا ہے۔ پاکستان نے شمال کے غیرپختونوں سے تعلقات بہتر کرلیے ہیں۔ ہوسکتا ہے وہ کسی غیر پختون، ...

امریکیوں کے انخلا کے بعد

دوحہ میں امریکیوں اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کی تیاریاں ہورہی ہیں۔ پاکستانی اس ضمن میں جس جوش وخروش کا اظہار کررہے ہیں اس کاجانے کیا جواز ہے۔ امریکیوں کی ’’بے نیازی ‘‘ تاریخ میں مشہور ہے۔ سوویت یونین کے لیے انخلا کے بعد انہوں نے پاکستان کو جس طرح بیچ منجدھارکے چھوڑا، وہ تاریخ میں پہلی بار نہیں ہوا۔ لاطینی امریکہ میں یہ کھیل وہ کئی بار کھیل چکے ہیں۔ ایک تھیوری یہ پیش کی جارہی ہے کہ اگر پاکستان کو دوحہ میں کھلم کھلا فریق بنایا جائے تو بھارت بھی اس سٹیٹس کا مطالبہ کرے گا۔ یہ ایک مضحکہ خیز دلیل ہے۔ پاکستان کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں اور یہ کرۂ ارض کی پیچیدہ ترین سرحدوں میں سے ہے۔ لاکھوں افغان مہاجرکئی عشروں سے پاکستان میں مقیم ہیں اور واپس جانے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ افغانستان کی وجہ سے پاکستان کا معاشرتی تاروپود بکھر چکا ہے۔ معیشت تباہ ہوتی رہی ہے۔ دہشت گردی کے کالے بادل جنہوں نے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے، افغانستان ہی کے سبب سے ہیں۔ بھلا افغانستان کے حوالہ سے پاکستان اور بھارت کو ایک مقام پر کیسے رکھا جاسکتا ہے ! پاکستان ایک ایسا فریق ہے جو براہ راست متاثر ہوا ہے ...

کیا وزیراعظم ایسا کر سکیں گے؟

متحدہ عرب امارات کی بین الاقوامی ائر لائن ’’امارات‘‘ (Emirates) کو دنیا کی بہترین فضائی کمپنی کا ایوارڈ دیا گیا ہے۔ یہ ایوارڈ فرانس میں دیا گیا۔ ایک سو ساٹھ ممالک کے ایک کروڑ بیاسی لاکھ مسافروں نے اس رائے سازی میں حصہ لیا۔ ’’امارات‘‘ مشرقِ وسطیٰ کی بہترین ائر لائن ہونے کا ایوارڈ پہلے لے چکی ہے۔ عالمی ایوارڈ بھی اس نے پہلی بار نہیں حاصل کیا۔ 2001ء اور پھر 2002ء میں بھی اس نے یہ اعزاز جیتا تھا! دلچسپ امر یہ ہے کہ مسلمانوں کی اور عربوں کی اس کامیابی کو روکنے کے لیے کوئی ’’سازش‘‘ نہیں کی گئی۔ (اس سے پہلے مغربی ملکوں ہی نے احمدی نژاد کو‘ جب وہ تہران کے میئر تھے‘ دنیا کا بہترین میئر قرار دیا تھا) لیکن میرے ذہن میں وسوسے ا ُٹھ رہے ہیں۔ مجھے یقین ہو چلا ہے کہ مقابلے میں ہماری قومی ائرلائن اوّل آنے والی تھی مگر پھر وہی ہوا جو ہمارے ساتھ ہر معاملے میں ہوتا رہا ہے‘ ہمارے خلاف سازش کی گئی۔ عالمی طاقتیں اور غیر مسلم قوتیں کہاں برداشت کر سکتی تھیں کہ عالمِ اسلام کی واحد نیوکلیئر قوت کو یہ اعزاز حاصل ہو‘ چنانچہ ہماری ائر لائن کا نام کاٹ کر امارات کا نام ڈال دیا گیا۔ مجھے یہ بھی یقین ہو چلا ہے کہ فیص...

سچ

’’پاکستان مشکل صورتحال میں ہے۔ چین جیسا دوست ہم سے ناراض ہے۔ ایران شکوہ کرتا ہے۔ بہت سی چیزیں ہمارے خلاف ثابت ہوچکی ہیں۔ میں انتباہ کرتا ہوں ہمارا ملک بربادی کے کنارے پر ہے۔ اسے صرف سچ بچا سکتا ہے۔ ایجنسیوں نے لشکر پال رکھے ہیں۔ ہم نے ایٹم بم بیچا۔ اتنے فوجی پاکستان کی انڈیا سے جنگ میں نہیں مرے جتنے اب مر چکے ہیں۔ مساجد محفوظ نہیں ہیں۔ کراچی جل رہا ہے۔ فاٹا اور کے پی میں مسلح لشکر کام کررہے ہیں۔ 25دسمبر 1979ء کو سوویت فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں تو اس جنگ کا آغاز ہوا۔ پوری دنیا نے اسلحہ کا رخ اس طرف کردیا۔ کلاشنکوف‘ جو اخبار میں دیکھتے تھے‘ وہ پورے ملک میں عام ہوگئی۔ کسی نے نہ سوچا کہ اس کے کیا نتائج نکلیں گے۔ پوری دنیا سے لوگ یہاں آ کر جمع ہوگئے۔ ایمن الظواہری جیسے لوگوں نے یہاں آ کر لوگوں کو تربیت دی۔ کرنل امام نے اعتراف کیا کہ ہم نے 95 ہزار افراد کو ٹریننگ دی۔ کسی کا پتہ نہیں رکھا گیا کہ وہ کہاں چلے گئے۔ایجنسیاں گدلے پانی میں سوئی ڈھونڈ سکتی ہیں۔ یہ کیوں ناکام ہیں؟ انہیں پھر کیوں پال رکھا ہے؟ ہمیں ہر اس شخص یا گروہ کے خلاف لڑنا ہے جو قتال کرتے ہیں۔ لوگوں کو حقائق بتائیں کہ آخ...

نہیں! حضرت مفتی صاحب! نہیں!

دارالعلوم کراچی ان وقیع دینی مدارس میں شامل ہے جو پاکستان میں سرفہرست ہیں اور عالم اسلام میں بھی جانے پہچانے ہیں۔ اس کے بانی مفتی محمد شفیع مرحوم کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ وہ دارالعلوم دیوبند کے ممتاز مدرسین میں سے تھے۔ تقسیم سے چند سال پیشتر تحریک پاکستان کے لیے مستقل کام کرنے کی غرض سے انہوں نے تدریسی کام سے استعفیٰ دے دیا۔ مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولانا ظفر احمد عثمانی ان کے رفقا میں شامل تھے۔ ان حضرات نے مولانا اشرف علی تھانوی کی ہدایت پر تحریک پاکستان کے لیے پورے برصغیر میں کام کیا۔ جمعیت علماء اسلام ان کا فورم تھی۔ (یہ بھی ایک معمہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد جمعیت علماء اسلام ، علماء کے اس گروہ کی جیب میں کیسے چلی گئی جو کانگریس کے ہم نوا تھے اور قیام پاکستان کے مخالف تھے۔) مفتی محمد شفیع کی رحلت کے بعد ان کے نامور فرزندوں نے دین کی ترویج و اشاعت اور تدریس و افتا کا سلسلہ جاری رکھا۔ جسٹس تقی عثمانی کا نام اسلامی بنکاری کے ضمن میں مستند ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے اپنے مکتب فکر کے علما ہی نے اس میدان میں ان کی مخالفت کی ہے۔ مفتی محمد رفیع عثمانی دارالعلوم کے سربراہ ہیں۔ ان کے مرح...

ثاقب

مملکت خدادادِ پاکستان میں اُس دن بھی کابینہ کی میٹنگ منعقد ہوئی تھی۔ یہاں لوڈشیڈنگ تھی نہ دھوپ، کمرا اتنا ٹھنڈا تھا کہ کوٹوں اور واسکٹوں میں سب نے اپنے آپ کو فِٹ محسوس کیا تھا۔ وزیراعظم نے مِنرل واٹر کی بوتل کھولی تھی۔ اس لمحے کو ٹیلی ویژن کیمروں نے محفوظ کر لیا تھا۔ اگر اُس کے گھر میں ٹیلی ویژن ہوتا تو وہ بھی یہ منظر دیکھتا۔ مملکت خداداد میں اُس دن بھی لاکھوں ٹن شربت، کولڈ ڈرنک، پھلوں کے رس، بوتلوں اور ڈبوں کی صورت میں تیار ہوئے تھے۔ دساور سے بھی پہنچے تھے۔ فائیو سٹار ہوٹلوں سے لے کر محلات تک، عام ریستوران سے لے کر کوٹھیوں تک، کھوکھوں اور ریڑھیوں سے لے کر گلیوں محلوں تک کروڑوں خوش قسمتوں نے یہ مشروبات پیے تھے اور اپنی پیاس بُجھائی تھی۔ تباہ حال معیشت کے باوجود اُس دن بھی لاکھوں تقاریب شادیوں کی برپا ہوئی تھیں۔ خوبصورت خیمے نصب کیے گئے تھے جن  میں پنکھے چل رہے تھے۔ عالی شان ہوٹلوں، وسیع و عریض شادی ہالوں، سول گیسٹ ہائوسوں اور فوجی میسوں میں منعقد کی گئی ان شادیوں کی تقاریب میں درجنوں کورس کے کھانے پیش کیے گئے تھے۔ مشروبات کی ریل پیل تھی۔ زرق برق پوشاکوں میں ملبوس خوبصورت گول مٹول ...

بلبلے

                                                 ’’موسم خوشگوار ہے‘‘ ایک دوست نے دوسرے سے کہا ’’کیوں نہ جنوب کے ان ٹیلوں کی سیر کریں جہاں ہم سردیوں میں شکار کھیلنے جاتے ہیں۔‘‘دوسرے دوست نے اتفاق کیا اور وہ چل پڑے۔ یہ ایک سہ پہر تھی۔ معتدل اور گوارا۔ گرمی زیادہ تھی نہ کم۔ ہوا چل رہی تھی۔ کھیتوں میں کام کرنے والے سستانے اور ظہر کی نماز پڑھنے کے بعد دوبارہ مصروف کار تھے۔ ڈھور ڈنگر چر رہے تھے۔ گھنٹیوں کی آواز ٹھہری ہوئی فضا میں ارتعاش پیدا کرتی اور پھر خاموش واپس آجاتی۔ دونوں دوست چلتے جارہے تھے۔ کبھی ان میں سے ایک کسی گیت کی لَے چھیڑتا اور ذرا دیر بعد دوسرا اس کا ساتھ دینے لگتا۔ وہ جھیل نما بڑے تالاب کے شمال سے گزرے، سیاہ چٹانوں سے ہوتے ہوئے پہاڑی نالے کے ساتھ ساتھ چلتے گئے۔ موسم کی دلکشی ان پر مستی کی تہہ بچھا رہی تھی۔ وہ باتیں کررہے تھے۔ بچپن کی، لڑک...

سیاست اور مذہب کے باہمی تعلقات

گزشتہ ہفتے، انتخابات میں مذہبی سیاسی جماعتوں کی ناکامی کے حوالے سے جو تحریر شائع ہوئی تھی، اس کے ردعمل میں بہت سے قارئین نے رابطہ کیا ہے۔ نہ جانے یہ بات قابلِ اطمینان ہے یا باعث تشویش کہ اکثر سوالات اور اعتراضات جماعت اسلامی سے متعلق ہیں۔ ایک سوال جو بہت سے حضرات نے اٹھایا ہے کہ اگر جماعت اسلامی کی ہم خیال جماعتیں ترکی اور مصر میں انتخابات جیت سکتی ہیں تو پاکستان میں ایسا کیوں نہیں ہوسکتا؟ ترکی اور مصر کی برسراقتدار اسلامی جماعتوں کے بارے میں ہم میں سے اکثر کی معلومات سطحی ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اس ضمن میں وہاں نظر آنے والی اور زیرزمین رویں کیسی ہیں اور ان کا رُخ کس طرف ہے؟ جس قدر علم جماعت اسلامی کی بہترّ سالہ تاریخ کے بارے میں ہمارے پاس موجود ہے‘ ترکی اور مصر کی سیاسی جماعتوں اور مذہبی پریشر گروپوں کے متعلق اس کا عشرِ عشیر بھی نہیں۔ عدلیہ کے حوالے سے مصریوں میں کچھ روز پہلے صدر مرسی کے خلاف ہنگامہ آرائی ہوئی تھی۔ نہ جانے اس کی صحیح نوعیت کیا تھی؟ آج کل ترکی میں وزیراعظم کے خلاف جلسے ہورہے ہیں۔ جلوس نکالے جارہے ہیں اور دھرنے دئیے جارہے ہیں۔ کچھ مغربی صحافیوں کے رائے میں اس کا سبب ...

میاں محمد نواز شریف اور ستارے

ایک اوربادشاہ تخت پر بیٹھا ہے۔ ایک اور صفحہ کھل گیا ہے۔ ستارے دیکھ رہے ہیں۔ کہیں دور، آسمانوں سے اوپر، کسی زبردست ہاتھ میں قلم ہے۔ یہ صفحہ بھی بھر جائے گا۔ ایک اور بادشاہ آئے گا۔ پھر اس کا صفحہ کھلے گا۔ دس سال ایوب خان نے بادشاہی کی۔ صفحہ الٹ نہ دیا جاتا تو الطاف گوہر اور قدرت اللہ شہاب دین الٰہی بھی ایجاد کردیتے۔ دس سالہ بادشاہی سے قوم کو کیا ملا ؟ اول مشرقی پاکستان میں علیحدگی کا بیج تناور درخت کی صورت میں ، دوم گوہرایوب خان ، سوم عمرایوب خان، یحییٰ خان تو اونٹ کی پشت پر آخری تنکا تھا۔ سب کچھ پہلے تیار ہوچکا تھا۔ اس بلانوش نے مالی بددیانتی کی نہ اس کا بیٹا قوم پر مسلط ہوا۔ پھر اس مظلوم، معتوب ، مقہور اور مغضوب قوم نے ذوالفقار علی بھٹو کی بادشاہی کو شہنشاہی میں بدلتے دیکھا۔ عقل کے اندھے کہتے ہیں اس نے غریبوں کو زبان دی اور لوگوں نے کے ٹی کے سوٹ پہننے شروع کیے، وہ یہ دیکھنے سے معذور ہیں کہ اس نے جاگیرداری کو مستحکم کیا۔ بظاہر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بھٹو کا طرز فکر دیکھنا ہوتو ممتاز بھٹو کو دیکھو۔ فرماتے ہیں فلاں نشست ہماری خاندانی نشست ہے۔ بیگم صاحبہ فرماتی تھیں بھٹو کی اولاد پیدا ہی حکمرا...

دامن خالی‘ ہاتھ بھی خالی

وفاق میں مسلم لیگ نون کی حکومت قائم ہوچکی ہے۔ تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی خیبرپختونخوا اور سندھ میں برسراقتدار آچکی ہیں۔ بلوچستان میں ڈاکٹر عبدالمالک وزیراعلیٰ تعینات ہوگئے ہیں۔ تاریخ پاکستان کا طالب علم وقت کے اس مقام پر سوچتا ہے کہ کسی مذہبی سیاسی پارٹی کو کہیں بھی اقتدار نہیں ملا۔ ایک صوبے میں جہاں جماعت اسلامی حصہ دار بنی ہے، وہ اعدادوشمار کی مجبوری ہے۔ ایک اور مذہبی سیاسی جماعت مرکز میں کیک کا ٹکڑا حاصل کرنے کی مقدور بھر سعی کررہی ہے ! مجیدامجد نے ’’شب رفتہ‘‘ کے منظوم دیباچے میں ایک بند یوں کہاتھا:    ؎ بیس برس کی کاوشِ پیہم سوچتے دن اور جاگتی راتیں ان کا حاصل ایک یہی اظہار کی حسرت! چھیاسٹھ برس سے مذہبی جماعتیں سیاست میں دخیل ہیں اور پوری طرح دخیل ہیں۔ انہیں ہر قبیل کی آزادی میسر ہے اور رہی ہے۔ گزشتہ انتخابات کی بات نہ بھی کی جائے تو حالیہ انتخابات سب کے لیے قابل قبول ٹھہرے ہیں۔ دھاندلی کی شکایات اس پیمانے پر نہیں ہیں کہ الیکشن کے مجموعی نتائج کو چیلنج کرسکیں۔ اکثر نے زبانی بھی اور تقریباً سب نے عملاً نتائج کو تسلیم کرلیا ہے۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ چھیاسٹھ برس کی مسلسل ...

ایک جشن کی رُوداد

ہم لڑکی والوں کی طرف سے تھے۔ ساحل سمندر پر واقع عالی شان محلات شروع ہوگئے تھے۔ ایک ایک گھر اتنا بڑا تھا کہ اس میں کئی معقول رہائش گاہیں بن سکتی تھیں۔ محلات کے سامنے واقع شاہراہ اس قدر چوڑی تھی کہ چھ یا آٹھ گاڑیاں بیک وقت گزر سکتی تھیں۔گیٹ اور مکا ن پر آنکھوں کو چندھیا دینے والا چراغاں تھا۔ نہ جانے کیوں، گیٹ سے گزرتے ہوئے، میں نے اپنے آپ کو چھوٹا اور حقیر محسوس کیا۔ اگر میں اس گروہ میں شامل نہ ہوتا جو دعوت ولیمہ میں باقاعدہ مدعوتھا، تو عام حالات میں مجھے اس گیٹ کے نزدیک بھی کوئی نہ پھٹکنے دیتا۔ ہمیں پہلے ایک وسیع وعریض کمرے میں بٹھایا گیا ۔ دیواروں سے روشنی پھوٹ رہی تھی اور جو خواتین ادھر ادھر آجارہی تھیں، ان سے بھی!کھڑکیوں پر لگائے گئے پردے اپنے رنگ اور سٹائل کی وجہ سے اپنی طرف متوجہ کرتے تھے۔ کمخواب تھا یا زربفت یا شاید اطلس ۔ہر پردے کے درمیان میں ایک گول سنہری نشان تھا جو شاید پرانے وقتوں میں بادشاہوں کے تاج پر، سامنے کی طرف، پیشانی سے ذرا اوپر لگتا تھا۔ پھر ہمیں مشروبات پیش کیے گئے۔ بلور کے ساغر نما گلاس کو پکڑتے وقت میرے مرعوب ہاتھ کانپ رہے تھے۔ انار کا رس تھا۔ میں نے وسط ایشیا کے ...

کیا یہ فیصلہ درست ہے؟

جناب جاوید ہاشمی اسلام آباد کی نشست چھوڑ رہے ہیں اور ملتان کی رکھ رہے ہیں۔ اسلام آباد والی نشست پر دوبارہ الیکشن ہوگا۔ نہیں معلوم یہ فیصلہ تحریک انصاف کا ہے یا جاوید ہاشمی کا اپنا۔ غالب ظن یہ ہے کہ یہ ان کا ذاتی فیصلہ ہے۔ اگر بظاہر یہ فیصلہ ان کی جماعت کا ہے تب بھی اس میں اصل کردار ایک اندازے کے مطابق، ان کے اصرار اور خواہش کا ہوگا۔ اگر یہ مسئلہ کلّی طور پر پارٹی کے سپرد کردیا جاتا تو فیصلہ اس قدر غیردانش مندانہ نہ ہوتا۔ جناب جاوید ہاشمی کی شخصیت کا تجزیہ کیا جائے تو کئی دلچسپ پرتیں کھلتی ہیں۔ ظاہر ہے یہ تجزیہ سیاسی حوالے سے ہے‘ ورنہ ان کی ذات میں دلچسپی لینے کا کیا جواز بنتا ہے! تقسیم سے پہلے مسلمانوں کے سامنے دو ماڈل تھے۔ ایک علی برادران کا اور دوسرا اقبال اور قائداعظم کا۔ علی برادران کی سیاست جذبات اور ہنگاموں پر قائم تھی۔ اس میں گہرائی اور گیرائی تھی نہ زمانے کے اتار چڑھائو کے سامنے استقامت۔ یہ شعر ان دنوں زبان زدِ خاص و عام تھا: بولیں اماں محمد علی کی جان بیٹا خلافت پہ دے دو جبکہ حالت یہ تھی کہ خود ترکی خلافت کی قبا اتار چکا تھا:  یعنی من چہ می سرایم و طنبورۂ من چہ می سراید...