اشاعتیں

مئی, 2013 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

ترَحَّم یا نبیَ اﷲ ترَحَّم

                                                       تابستان ایسا نہیں ہوتا تھا جیسا اب ہے۔ سال کے وسطی مہینے مغربی پنجاب کے آخری ضلع کی اس بستی میں جو فتح جنگ سے پندرہ میل آگے ہے‘ آرام دہ نہیں ہوتے تھے۔ پنکھا کیا ہوتا کہ بجلی ہی نہ تھی۔ ہم اس حویلی کے صحن میں جو دراصل ہمارا مہمان خانہ تھا، کیکر کے درختوں کے نیچے چلتے سائے کے ساتھ ساتھ بان کی کھردری چارپائیاں گھسیٹتے۔ ہوا چلتی رہتی کبھی کھیل اور کبھی پڑھائی جاری رہتی۔ گائوں جانے اور رہنے کا شوق پاگل پن کی حد تک تھا۔اقبال نے جیسے یہ شعر اسی قریے کے بارے میں کہا تھا۔   ؎ میرے کہستاں! تجھے چھوڑ کے جائوں کہاں تیری چٹانوں میں ہے میرے اب وجد کی خاک لیکن اس شخص کی‘ جو اسلام آباد کے گورستان میں قرآن سینے میں ڈالے اور سر کی جانب سنگ مرمر کی وہ لوح ایستادہ کیے...

روحانیت کا واحد سرچشمہ ذاتِ مصطفیؐ ہے

شریعت شریعت نہیں ہو سکتی جب تک اس کا ایک ایک ذرہ‘ ایک ایک رمق، ایک ایک انگ اس مقدس ہستی کا تابع فرمان نہ ہو جس کا نام نامی محمدؐ ہے اور جو طہٰ ہے اور یسٰین بھی! وہ طریقت کیا ہدایت دے گی جس کے سوتے نورِ محمدؐ سے نہ پھوٹتے ہوں۔ جو تصوف اپنی منزل رسول مکرمؐ کی تعلیمات کو نہیں بنا پائے گا وہ صرف گمراہی کی طرف لے جائے گا اور وہ روحانیت جو ہر دروازے پر لے جائے سوائے درِ رسولؐ کے وہ روحانیت سادھو یا جوگی تو بنا سکتی ہے، شعبدہ بازی تو سکھا سکتی ہے صوفی نہیں بنا سکتی! سعدی نے یوں ہی تو نہیں کہا تھا:   ؎ عزیزی کہ از درگہش سر بتافت بہر در کہ شُد ہیچ عزت نہ یافت جس نے اس کے دروازے سے رخ پھیرا، جس دروازے پر بھی گیا، عزت نہ پا سکا۔ نظامی گنجوی نے کہ خمسہ لکھ کر ہمیشہ کے لیے نام باقی رکھ لیا‘ بات ہی ختم کردی :   ؎ احمدِ مُرسَل کہ خرد خاکِ اُوست ہر دو جہاں بستۂ فتراکِ اُوست احمدؐ مجتبیٰ جنہیں رسول بنا کر بھیجا گیا، خرد تو ان کے قدموں کی دُھول ہے۔ دونوں جہاں آپ کے فتراک کے ساتھ بندھے ہیں۔ صوفیوں کے صوفی عبدالرحمن جامیؔ اپنی شہرۂ آفاق مثنوی تحفۃ الاحرار میں نعتوں پر نعتیں لکھتے جا...

صدر زرداری اور جمشید دستی… دو مکاتب فکر

پاکستانی پنجاب کے پہلے وزیراعلیٰ نواب افتخار حسین ممدوٹ تھے۔ مسلم لیگ کے صوبائی صدر بھی وہی تھے۔ ممتاز دولتانہ اور شوکت حیات دونوں ان کی کابینہ میں شامل تھے۔ کچھ ہی عرصہ میں دونوں حضرات کے وزیراعلیٰ سے اختلافات شروع ہوگئے اورضلعی سطح تک پھیل گئے۔ قائداعظم نے تینوں کو کراچی طلب کیا اور سمجھایا۔ واپسی پر کچھ عرصہ بعد حالات پھر اسی نہج پر آگئے۔ مئی 1948ء میںمیاں ممتاز دولتانہ اور سردار شوکت حیات خان دونوں نے ممدوٹ صاحب کی کابینہ سے استعفیٰ دے دیا۔ قائداعظم کی رحلت کے بعد حالات خراب تر ہوگئے۔ باہمی مناقشت اور سازشوں نے رسہ کشی کو تیز تر کردیا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ ایک دوسرے کے بلائے ہوئے اجلاسوں کو خراب کرنے کیلئے غنڈے استعمال ہونے لگے۔ لیاقت علی خان جنوری 1949ء میں اوپر آئے تو دولتانہ نے انہیں ایک فہرست دکھائی۔ اس میں پنجاب اسمبلی کے 42ارکان کے نام اور دستخط تھے۔ پنجاب اسمبلی کے کل 81ارکان میں سے 40 وہ تھے جنہوں نے دولتانہ کی حمایت کا یقین دلایا تھا۔ نواب ممدوٹ نے بھی اپنے حمایتیوں کی فہرست پیش کی۔ اس پر 44 ارکان کے دستخط تھے۔ دلچسپ بات یہ ہوئی کہ سات ارکان کے دستخط اور نام دونوں فہرست...

نومنتخب عوامی نمائندوں کی خدمت میں

وہ مکان آخر کس طرح مکمل ہوسکتا ہے جس میں ایک بھائی کمرہ تعمیر کرنا شروع کرے پھر دوسرا بھائی آئے، کمرہ ادھورا چھوڑ دے اور برآمدے کی بنیاد ڈال دے۔ ابھی برآمدہ آدھا بنا ہو کہ تیسرا بھائی آ کر معاملات سنبھالے۔ ساتھ برآمدے کو آدھا ہی رہنے دے اور مہمان خانہ بنانا شروع کردے۔ پاکستان میں یہی کچھ ہورہا ہے اور چھ عشروں سے یہی کچھ ہورہا ہے۔ تسلسل نام کی کوئی شے نہیں۔ ایک سیاسی پارٹی برسراقتدار آ کر منصوبوں کا آغاز کرتی ہے۔ وہ ابھی مکمل نہیں ہو پاتے کہ حکومت تبدیل ہوجاتی ہے۔ نیا گروہ اقتدار سنبھالتا ہے۔ زیر تعمیر منصوبے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ نئے کاموں کی ابتدا ہوتی ہے۔ وہ چل رہے ہوتے ہیں کہ کوئی جرنیل آجاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کوئی جنرل چشتی‘ کوئی جنرل نقوی، کوئی جنرل زاہد علی اکبر خان بھی ہوتا ہے۔ بِگل نئی لیَ میں بجنے شروع ہوجاتے ہیں۔ سب کچھ تلپٹ ہوجاتا ہے۔ مکان کی جو مثال اوپر دی گئی ہے‘ وہ ایک نامکمل مثال ہے۔ حکومتیں بدلنے سے جو زیرتعمیر اور زیرتکمیل منصوبے یونہی چھوڑ دیے جاتے ہیں‘ اس کی زیادہ ذمہ داری خوشامد پسند بیورو کریسی پر آتی ہے۔ شاہ سے زیادہ وفادار افسر سابق حکمرانوں کو...

لیاقت علی خان‘ محمد اسد اور پطرس بخاری

’’آپ پاکستان کے ان معدودے چند لوگوں میں سے ہیں جو مشرق وسطیٰ کے حالات وواقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں اور یہ بھی مجھے معلوم ہے کہ آپ کو عربی اور فارسی پر کامل دسترس حاصل ہے‘ ہمیں وزارت خارجہ میں آپ جیسے شخص کی ضرورت ہے۔‘‘ جنوری 1948ء میں یہ بات وزیراعظم خان لیاقت علی خان نے محمد اسد سے کی اور وہ وزارت خارجہ میں مشرق وسطیٰ کے شعبے کے انچارج بنا دیے گئے۔ ان کے دائرہ کار میں ایران اور شمالی افریقہ بھی شامل تھا۔ اسد لکھتے ہیں کہ دفتر میں بیٹھتے ہی انہوں نے خلیج فارس کا بڑا سا  نقشہ منگوایا اور  اسے دیوار پر لگوا دیا ’’اسی وقت میں وزیرخارجہ سرظفراللہ خان کے لیے ایک مفصل اور واضح میمورنڈم تیار کرنے میں مصروف ہوگیا جس میں مروجہ سرکاری پالیسیوں پر بے لاگ تنقیدی تبصرہ کیا گیا تھا، میری یہ تحریر خفیہ دستاویزات کے زمرے میں آتی تھی ۔ میں نے یہ میمورنڈم خود ٹائپ کیا‘‘۔ جب یہ میمورنڈم سیکرٹری خارجہ اکرام اللہ کے پاس پہنچا تو انہوں نے محمد اسد کو بلایا اور کہا کہ آپ نے وزیر خارجہ ہی کو نہیں وزیر اعظم کو بھی ہدف تنقید بنایا ہے ۔ اسد نے جواب دیا کہ آپ میرے خلاف محکمانہ کارروائی کر لیجیے لیکن میم...

مژدہ اور انتباہ

مژدہ اے اہل وطن!جس انقلاب کی نوید دی جارہی تھی اس کا آغاز ہوچکا ہے! اُجالا گھٹا ٹوپ اندھیرے میں نقب لگا کر سامنے آرہا ہے۔ سپیدۂ سحر افق سے ظاہر ہوا ہی چاہتا ہے۔ سیاہ رات کٹ چکی ہے۔ ا ے اہل وطن! تمہاری سرزمین بہشت بننے کے بالکل قریب ہے۔ کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ آسمانی پرندے درختوں پر اترنا شروع ہوچکے ہیں۔ کیا تمہیں ہوا سے ایک خاص قسم کی بو باس نہیں آرہی؟ کیا شگوفے چٹخ نہیں رہے؟ یہ جو تمہیں ہر طرف سے عطر کی لپٹیں آرہی ہیں، تم انہیں محسوس کیوں نہیں کررہے؟ اے اہلِ وطن! تم گواہ ہو کہ میں ایک عرصہ سے تمہاری خدمت میں لگا ہوا ہوں۔ کسر تو میں نے پہلے بھی کوئی نہیں چھوڑی لیکن اس الیکشن کے بعد تو میں خدمت کے لیے حد سے زیادہ سنجیدہ ہوں۔ وزارتیں اور کمیٹیاں ہمیشہ سے میری کنیزیں رہی ہیں لیکن اب کے میں نے ایک صوبے کی سربراہی پر بھی انگشت شہادت رکھی ہے! میں نے کشمیر کمیٹی کی سربراہی اپنی دسترس ہی میں رہنے  دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایک مدت سے کشمیر کمیٹی کا سربراہ ہوں اور اہل وطن گواہ ہیں کہ اس عرصہ میں کئی مرتبہ کشمیر کو آزاد کرایا ہے۔ کشمیر کی جنگ آزادی میں جو جو بھی بوڑھے‘ بچے اور عورتیں شہ...

قائداعظمؒ اور علامہ محمد اسدؒ… حقیقتِ حال

علامہ محمد اسدؒ پر اس کالم نگار نے 19اکتوبر 2010ء کے ایک روزنامہ میں ’’محمداسد؟ کون محمداسد؟‘‘ کے عنوان سے مضمون سپرد قلم کیا تھا جس کے آخر میں تجویز پیش کی تھی کہ  ’’پاکستان کے اس پہلے شہری کو ہم فراموش کرچکے ہیں ۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ لاہور کی کسی شاہراہ اور اسلام آباد کے کسی خیابان کو محمد اسدؒ کے نام کردیا جائے ؟اگر آپ اس خیال سے اتفاق کرتے ہیں ، تو آج ہی وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیراعظم پاکستان کے نام الگ الگ خط میں یہ مطالبہ کریں۔ کیا عجب فوڈ سٹریٹ میں دلچسپی لینے والے حکمران ہمارے قارئین کا یہ مطالبہ مان لیں اگرچہ ان سے چمٹی ہوئی ’’عالم فاضل‘‘ بیوروکریسی ضرور پوچھے گی کہ ’’محمد اسد؟کون محمد اسد؟‘‘ اسی تحریر میں ممتاز محقق جناب اکرام چغتائی کاذکر بھی کیا گیاتھا چغتائی صاحب نے محمداسدؒ پر سالہا سال تحقیق کی ہے۔ انہیں جرمن زبان پر عبور حاصل ہے جو اسد کی مادری زبان تھی۔ اس تحقیق کے عرصہ میں چغتائی صاحب نے آسٹریا اور جرمنی کے کئی سفر کیے۔ 1998ء میں انہیں آسٹریا کے صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازاگیا۔ محمد اسد ؒپر ان کی تصانیف کی تعداد نصف درجن سے زیادہ ہے جن میں اہم ترین پانچ ہیں۔ محمد ا...

بیمار خواب کبھی پورے نہیں ہوں گے

توکیا یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اس ملک پر ہمیشہ اس طبقے کی حکمرانی رہے جو کلف لگی کھڑکھڑاتی پوشاکیں پہنے ڈبل کیبنوں میں گھومتا ہے۔ ساتھ کلاشنکوف بردار رکھتا ہے۔ بڑی بڑی مونچھوں پر گھی چپڑا ہوتا ہے اور اسمبلی میں صرف ہاتھ کھڑ اکرتا ہے۔ کتاب کے لفظ ہی سے اسے نفرت ہے۔ کیا یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اس مظلوم‘ مفلوک الحال ملک پر ڈیرہ دار ہی حکومت کرتے رہیں، جن کے ڈیروں میں مفرور مجرم رہتے ہیں‘ جن کی زندگی کا مقصد پٹواری اور تھانے دار کو قابو میں رکھنا ہے، جو حریفوں کے گھروں میں ڈاکے ڈلواتے ہیں اور آگ لگادیتے ہیں‘ جوبے بس عورتوں کو برہنہ کرکے گلیوں میں پھراتے ہیں‘ جو اپنی بیٹیوں اور بہنوں کی شادیاں نہیں کرتے کہ زمین کم نہ ہوجائے‘ جو معصوم بے گناہ لڑکیوں کو مارکر صحرا میں دفن کردیتے ہیں اور پھر کابینہ میں جا بیٹھتے ہیں‘ جو چاہتے ہیں کہ ان کے کمّی قیامت تک کمّی ہی رہیں! کیا تعلیم یافتہ مڈل کلاس کی تضحیک کرنے والے چاہتے ہیں کہ اربوں روپے کا حرام ہڑپ کرنے والے پراپرٹی ڈیلر، تھانوں پر حملہ کراکے چھوٹ جانے والے مجرم، ایفی ڈرین کی منشیات میں ملوث دوافروش، عوام کی جیبوں پر ڈاکے ڈالنے والے مجاور اور سرکار سے زمین...

خرید لو

یہ ایک بادشاہ کی کہانی ہے جو ایک عالی شان محل میں رہتا تھا۔ یہ محل ایک پہاڑ پر بناہوا تھا ۔اس پہاڑ پر پہنچنا کسی کے لیے بھی ممکن نہ تھا۔ پہاڑ کے چاروں طرف پہرہ تھا۔ پہریدار بندوقوں توپوں راکٹوں اور گرنیڈوں سے مسلح تھے۔ ان کے کانوں پر طاقت ورٹیلی فون لگے رہتے تھے۔ ان ٹیلی فونوں پر ذرا سی آہٹ کی آواز بھی صاف سنائی دیتی تھی۔ سلطنت کے لوگ غریب تھے۔ ان کے پاس لالٹینیں ٹوٹی ہوئی تھیں اور دیئے مٹی کے تھے۔ دیئے جلانے کا تیل راشن پر ملتا تھا۔ لوگ ہاتھوں میں ڈبے پکڑے قطاروں میں کئی کئی دن کھڑے رہتے۔ رعایا کی اکثریت چیتھڑوں میں ملبوس تھی۔ گرانی اس قدرتھی کہ دووقت کی روٹی حاصل کرنا عام آدمی کا سب سے بڑا مسئلہ تھا۔ امن وامان کا سرے سے وجود ہی نہ تھا۔ مسلح جتھے پوری سلطنت میں بلاخوف وخطر پھرتے رہتے اور جہاں موقع ملتا پرامن شہریوں کو قتل کردیتے۔ دکاندار دن دہاڑے لوٹ لیے جاتے۔ بچے کیا، بڑے بھی اغوا ہوجاتے۔ جوشخص بھی اپنا گھوڑا کسی درخت کے ساتھ باندھتا ، پانچ منٹ میں چوری ہوجاتا۔ بادشاہ رعایا سے بے نیاز ، محل ہی میں رہتا۔ وہ محل سے کبھی باہر نہ نکلتا۔ اس کا ایک ہی مشغلہ تھا۔ ہیرے جواہرات درہم دینار اشر...

ذراسہج چنو

غلام احمد بلور نے متانت اور شرافت کی ایک قابل تحسین مثال قائم کی۔ شکست کو تسلیم کیا اور خندہ پیشانی سے تسلیم کیا۔ اگر وہ دھاندلی کا الزام لگاتے تو ان کے وقارمیں کمی تو آسکتی تھی، اضافہ نہ ہوتا۔ حقائق کو تسلیم کرناچاہیے ، نون لیگ نے مرکز اور پنجاب میں میدان مار لیا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ تحریک انصاف کو یہ حقیقت تسلیم کرکے مستقبل کی طرف دیکھنا ہوگا۔ اب تک جو نتائج سامنے آئے ہیں، ان کا سرسری مطالعہ بھی کیا جائے تو تین منظر صاف نظر آرہے ہیں:اول۔ مسلم لیگ نون نے اس اصول پر پوری طرح عمل کیا کہ محبت اور جنگ میں سب کچھ رواہے۔ اس نے ٹکٹ دیتے وقت امیدواروں کا ماضی دیکھا نہ حال۔ دیانت دیکھی نہ شہرت۔ اس نے صرف ایک پہلو سامنے رکھا اور وہ یہ کہ کیا اس امیدوار کے جیتنے کا امکان روشن ہے ؟ گوجر خان سے راجہ جاوید اخلاص کی مثال لے لیجیے۔ نون لیگ کے کارکنوں نے بہت شور مچایا۔ راجہ صاحب کی وہ تصویریں بار بار شائع کیں جن میں وہ پرویز مشرف کے ساتھ کھڑے تھے۔ نون لیگ کے وفاداروں کی قربانیاں گنوائیں لیکن ٹکٹ راجہ جاوید اخلاص ہی کو ملا۔ دوسرے لفظوں میں یہ بات بلاخوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ نون لیگ کے ٹکٹ پر جیتنے وا...

استغفار پر ہنسی

                                              سوار پیدل کو سلام کرے، چلتا ہوا بیٹھے کو سلام کرے، چھوٹا بڑے کو سلام کرے‘ جو تعداد میں کم ہیں وہ انہیں سلام کریں جو تعداد میں زیادہ ہیں اور دو پیدل چلتے ہوئے افراد کا آمنا سامنا ہو تو سلام میں پہل کرنے والا برتر ہوگا۔ یہ ہے وہ سبق جو ہمیں دیا گیا تھا۔ یہ سبق محض سبق نہیں تھا‘ یہ ایک علامت تھی اس بات کی کہ پورا معاشرہ حسنِ آداب پر استوار ہوگا۔ خوش اخلاقی چھتری کی طرح سروں پر تنی ہوئی ہوگی۔ ہر شخص مسکرا کر دوسرے سے بات کرے گا۔ ہر فرد اپنی باری کا انتظار کرے گا۔ مذہب کا بنیادی کردار فرد کی اصلاح تھی۔ افسوس! آج مذہب کو سیاست کے لیے استعمال کیا جارہا ہے جبکہ فرد‘ دوسرے کے لیے ناقابلِ برداشت ہورہا ہے۔ ہم میں سے ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ دوسرا اپنی اصلاح کرے۔ وہ اپنے آپ کو بھول رہا ہے‘ اس بے وقوف شخص کی طرح جو گروہ کو گنتے وقت ...

روشنی کی کرن

اسلام آباد کلب کے لائونج سے گزرتا سیڑھیاں اتر کر لائبریری جانا چاہتا تھا کہ خبر کی بھنک کان میں پڑی۔ عمران خان زخمی ہوگیا ہے۔ پلٹا اور ٹی وی کے سامنے پہلے کھڑا ہوا پھر بیٹھ گیا۔ کان ٹی وی کی طرف لگے تھے لیکن نظر لوگوں کی نقل وحرکت پر تھی۔ ایک صاحب بدحواس ہوکر ایک طرف کو چل پڑے جیسے کسی کو بتانے کے لیے دوڑنا چاہتے ہوں۔ ایک خاتون آئی اور خبر سن کر ہاتھ منہ پر رکھ لیا ۔ لائونج بھر گیا۔ لوگ کناروں پر کھڑے ہوگئے ۔خاص طورپرنوٹ کی جانے والی بات یہ تھی کہ نظریں ٹی وی سکرین پر جم گئی تھیں اور ہٹتی نہ تھیں۔ اس کے بعد جو بھی ملا اس نے اسی موضوع پر بات کی۔ چھ سال پہلے کا زمانہ یاد آگیا۔ جب چیف جسٹس افتخار چودھری کو ہٹایا گیا تھا اور لوگ ٹیلی ویژن سکرینوں کے سامنے جیسے نصب ہوگئے تھے۔ زمانہ کروٹ بدل چکا ہے۔ بادشاہوں کا زمانہ لد چکا۔ یہ لیڈروں کا دور ہے۔ لیڈر کوکچھ ہوجائے تو اس کے پیروکار لمحہ لمحہ کی خبر جاننا چاہتے ہیں۔ ہمایوں کتاب خانے کی چھت سے گرا اور جاں بحق ہوگیا لیکن خبر کئی دنوں تک چھپائی گئی ۔ کبھی مطب سے دوا جاتی تھی‘ کبھی باورچی خانے سے مرغ کا شوربہ۔ کبھی بتایا جاتا تھا کہ ضعف زیادہ ہوگیا...

چھ زمینیں اور آٹھ آسمان

الیکشن مہم زوروں پر ہے۔ جذبات مشتعل کرنے کا مقابلہ ہے۔ نعرے ہیں اور دعوے اور سچی بات یہ ہے کہ بڑھکیں ہیں۔ یہاں دلیل کا کوئی عمل دخل نہیں۔ منطق اور عقل کا کوئی کام نہیں۔ حقائق کو کوئی نہیں پوچھتا۔ جو جتنا زیادہ شور برپا کرے وہی اپنے آپ کو ظفریاب سمجھتا ہے۔ کوئی مباحثہ نہیں۔ کوئی ڈی بیٹ نہیں۔ امیدواروں کو ، خاص طور پر سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کو ،سب سے بڑا فائدہ عوام کی ناخواندگی کا ہے۔ ناخواندگی اور نیم خواندگی۔ اعداد و شمار بے کار ہیں۔ جو تین تین بار اقتدار میں رہے‘ ان سے کون پوچھے کہ آپ کے زمانے میں قومی آمدنی میں اضافے کی کیا شرح رہی اور آپ کے اپنے اثاثے کس رفتار سے بڑھے۔ کس کو کون بتائے کہ کس کے عہد میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے ایک ایک دن کے لیے احکامات جاری کیے؟ اکثریت کو یہی نہیں معلوم کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کس چڑیا کا نام ہے۔ وہی پامال لطیفہ کہ نظر کا معائنہ کرانے والے مریض سے آنکھوں کے ڈاکٹر نے کہا سامنے دیوار پر جو چارٹ لگا ہے اسے پڑھو، تو اس نے پوچھا کہ کون سی دیوار؟ ترقی یافتہ ملکوں میں امیدواروں کے درمیان مباحثے ہوتے ہیں۔ ٹیلی ویژن پر‘ یونیورسٹیوں میں‘ تھنک ٹینکس میں...

اجارہ داری

صحرا تھا اور طویل سفر۔ دور ایک سایہ سا نظر آیا۔ عبداللہ بن مبارکؒ نے قریب جا کر دیکھا تو وہ ایک بوڑھی عورت تھی۔ انہوں نے السلام علیکم کہا۔ بڑھیا نے سلام کے جواب میں قرآنی آیت پڑھی۔ ’’سلام’‘ قولاً من رب الرحیم۔‘‘پوچھا یہاں کیا کررہی ہو۔ جواب میں اس نے ایک اور آیت پڑھی۔ جسے اللہ گمراہ کر دے اس کا کوئی رہنما نہیں (اعراف) ۔وہ سمجھ گئے راستہ بھول گئی ہے۔ پوچھا کہاں جانا ہے۔ بولی: پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو رات کے وقت مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ لے گئی۔ (اسریٰ)۔ عبداللہ بن مبارکؒ سمجھ گئے کہ وہ حج کرکے آرہی ہے اور بیت المقدس جانا چاہتی ہے۔ پوچھا کب سے یہاں بیٹھی ہو؟ اب اس نے ایک اور آیت پڑھی: پوری تین راتیں (مریم) کھانے کا کیا انتظام ہے؟ وہی کھلاتا پلاتا ہے (الشعرا) وضو کیسے کرتی ہو؟ پانی نہ پائو تو پاک مٹی سے تیمم کرلو (النساء) کھانا پیش کروں؟ پھر رات تک روزے کو پورا کرو (البقرہ) مگر آج کل رمضان تو نہیں۔ پھر روزہ کیسا؟ جو بھلائی کے ساتھ نفلی عبادت کرے تو اللہ قدر دان اور جاننے والا ہے۔ (البقرہ) سفر کی حالت میں نفلی روزہ ضروری نہیں۔ تم چھوڑ سکتی تھیں۔ اگر تم روزہ رکھو تو تمہارے لیے بہت...

کھلنا چاہیے‘ ضرور کھلنا چاہیے!

مصرکے گورنر حضرت عمرو بن عاص کے صاحبزادے نے ایک شخص کو تازیانے مارے۔ مارتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے۔ لے میں بڑوں کی اولاد ہوں‘‘ مظلوم مدینہ پہنچا اور فریاد کی۔ عمرفاروق اعظم ؓنے اسے اپنے پاس ٹھہرایا اور گورنر اور ان کے بیٹے کو بلا بھیجا۔ دونوں مجلس قصاص میں پیش ہوئے دوسرے خلیفہ راشد نے بلند آواز میں کہا۔ مصر ی کہاں ہے ؟ لے یہ درہ اور بڑوں کی اولاد کو مار‘‘ مصری مارتا جاتا تھا اور فاروق اعظم کہتے جارہے تھے، ’’بڑوں کی اولاد کو مار‘‘۔ اس نے جی بھر کر مارا اور جب درہ خلیفہ کو واپس کرنے لگا تو انہوں نے کہا، عمرو کے سرپر مار، خدا کی قسم بیٹا ہرگز نہ مارتا اگر اسے باپ کے اقتدار کا گھمنڈ نہ ہوتا۔ گورنر نے احتجاج کیا ’’امیرالمومنین آپ سزادے چکے ہیں۔‘‘ مصری نے بھی کہا ’’امیرالمومنین!جس نے مجھے مارا تھا میں نے اس سے بدلہ لے لیا ہے‘‘۔ آپ نے فرمایا ، خدا کی قسم اگر تو عمروبن عاص کو مارتا تو میں اس وقت تک درمیان میں نہ آتا جب تک تو خود اپنا ہاتھ نہ روکتا۔ یہ تھا وہ موقع جب عمرفاروقؓ نے، خدا ان پر کروڑوں رحمتیں نازل کرے، وہ لافانی فقرہ کہا جسے روسو سے منسوب کیا جاتا ہے۔ روسو نے کہا ہوگا لیکن وہ تو ...