ترَحَّم یا نبیَ اﷲ ترَحَّم
تابستان ایسا نہیں ہوتا تھا جیسا اب ہے۔ سال کے وسطی مہینے مغربی پنجاب کے آخری ضلع کی اس بستی میں جو فتح جنگ سے پندرہ میل آگے ہے‘ آرام دہ نہیں ہوتے تھے۔ پنکھا کیا ہوتا کہ بجلی ہی نہ تھی۔ ہم اس حویلی کے صحن میں جو دراصل ہمارا مہمان خانہ تھا، کیکر کے درختوں کے نیچے چلتے سائے کے ساتھ ساتھ بان کی کھردری چارپائیاں گھسیٹتے۔ ہوا چلتی رہتی کبھی کھیل اور کبھی پڑھائی جاری رہتی۔ گائوں جانے اور رہنے کا شوق پاگل پن کی حد تک تھا۔اقبال نے جیسے یہ شعر اسی قریے کے بارے میں کہا تھا۔ ؎ میرے کہستاں! تجھے چھوڑ کے جائوں کہاں تیری چٹانوں میں ہے میرے اب وجد کی خاک لیکن اس شخص کی‘ جو اسلام آباد کے گورستان میں قرآن سینے میں ڈالے اور سر کی جانب سنگ مرمر کی وہ لوح ایستادہ کیے...