اشاعتیں

مارچ, 2013 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

تغلق‘ ہمایوں اور میاں صاحب

مسلم لیگ نون کے رہنمائوں کا وژن حد درجہ محدود ہے۔ اس حقیقت میں اگر اب بھی کسی کو شک ہے تو اس کے لیے دعا ہی کی جاسکتی ہے! گزشتہ دو دنوں کے اخبارات اس جماعت کے لیے شرمندگی سے بھرے پڑے ہیں۔ ایک سرخی تو کچھ زیادہ ہی عبرت ناک تھی۔ ZARDARI  MAKES  SHARIFS  EAT  HUMBLE  PIE. انگریزوں نے بھی کیا کیا محاورے باندھے ہیں! یہ بات امام غزالیؒ سے منسوب ہے کہ انسان کی آنکھ دیوار کے پار نہیں دیکھ سکتی اور یہ اس میں بہت بڑا نقص ہے لیکن اس آنکھ کا کیا ہوسکتا ہے جو دیوار کے اِس طرف بھی کچھ نہیں دیکھ سکتی! خوش گمانی کہتی ہے کہ اگر میاں برادران اپنی جماعت کے متوازن ارکان سے مشورہ کرتے، یا ان کا کہا مانتے تو نوکر شاہی کے ایک گھسے پٹے آزمودہ مہرے کو پنجاب کی حکومت کے لیے کبھی نہ پیش کرتے لیکن جب انہوں نے اپنے ایک خاندانی وفادار کو تختِ صدارت پر فائز کرنے کا فیصلہ کیا تھا تو اس وقت کس سے مشورہ کیا تھا اور کس کا کہا مانا تھا؟ ذاتی اور خاندانی وفاداری! ان حضرات کا ہمیشہ سے معیار یہی رہا ہے اور منطق کہتی ہے کہ آئندہ بھی یہی رہے گا۔ ان کے پرورش کنندہ جنرل ضیاء الحق کا معیار بھی یہی تھا۔...

ایک اور تھپڑ

’’یہ وہ امان ہے جو خدا کے بندے امیرالمومنین عمرؓ نے ایلیا کے لوگوں کو دی۔ یہ امان ان کی جان، مال ، گرجا، صلیب، تندرست، بیمار اور ان کے تمام مذہب والوں کے لیے ہے۔ اس طرح کہ ان کے گرجائوں کو مسکن بنایا جائے گا نہ وہ ڈھائے جائیں گے۔ انہیں یا ان کے احاطوں کو کچھ نقصان پہنچایا جائے گا نہ ان کی صلیبوں اور ان کے مال میں کچھ کمی کی جائے گی۔ مذہب کے بارے میں ان پر جبر کیا جائے گا نہ ان میں سے کسی کے ساتھ بدسلوکی روا رکھی جائے گی …اگر کوئی رومیوں کے ساتھ جانا چاہے تو چلا جائے اور اگر کوئی اپنے اہل وعیال میں واپس ہونا چاہے تو ہوجائے۔ ان سے کوئی چیز نہیں لی جائے گی یہاں تک کہ ان کی کھیتیاں کٹ جائیں۔ اور جوکچھ اس تحریر میں ہے اس پر خدا کا، رسولؐ خدا کا، خلفا کا اور مسلمانوں کا ذمہ ہے۔ بشرطیکہ یہ لوگ مقررہ جزیہ ادا کرتے رہیں۔ یہ اس معاہدے کے کچھ حصے ہیں جو امیرالمومنین عمرفاروقؓ نے مسلمانوں کی طرف سے بیت المقدس کے باشندوں کے ساتھ کیا تھا۔ یہ وہی عمرفاروق ؓ ہیں جن کے بارے میں ایک مضمون جو ’’حضرت عمرفاروقؓ۔ عظیم منتظم ‘‘ کے عنوان سے جماعت دہم کی اردو کی کتاب میں شامل تھا، پنجاب حکومت نے نصاب سے خارج ...

کیا تھور کی نمائندگی گلاب کرے گا؟

یہ ایک ہفتہ پہلے کا واقعہ ہے۔ سندھ کے ایک وزیر نے اپنے گارڈ سے صوبے کے سیکرٹری لوکل گورنمنٹ کی پٹائی کروائی۔ پھٹے ہوئے چہرے ،زخمی آنکھ اور تار تار لباس کے ساتھ سیکرٹری نے صحافیوں کو بتایا کہ وزیر صاحب پچھلی تاریخوں میں بھرتی کے ڈیڑھ سو احکام پر دستخط کرانا چاہتے تھے۔ انکار پر تشدد کیا گیا۔ وزیر صاحب نے خود اقرار کیا کہ سیکرٹری کا تو تبادلہ ہوگیا تھا اور ’’میرے پرائیویٹ سیکرٹری (پی ایس) کو سیکرٹری کا عارضی چارج دیا گیا تھا۔‘‘ یہ وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں کہ ’’پرائیویٹ سیکرٹری‘‘ ذاتی معاون ہوتا ہے ! دو دن بعد وزارت داخلہ اسلام آباد میں ایک سابق رکن قومی اسمبلی نے ایک افسر کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا۔ افسر کا بیان ہے کہ سیاست دان نے پچھلی تاریخوں میں اسلحہ لائسنس جاری کرنے کے لیے دبائو ڈالا ، انکار پر دفتر آکر میز ،کرسی ،ٹی وی اور فون توڑ دیا۔ مارپیٹ اور گالی گلوچ اس کے علاوہ تھی۔ سابق ایم این اے کا موقف تھا کہ ’’وزیراعظم سے منظوری کے بعد پانچ اسلحہ لائسنس وزارت داخلہ نے جاری کرنے تھے۔ ایک ماہ گزرنے پر بھی منظوری نہیں دی جارہی تھی‘‘۔ گزشتہ پانچ برس میں تین سیاسی جماعتیں بدلنے والے ایک سی...

یہ ہے آزاد قوموں کا رویّہ

بحری جہاز پر اٹلی کا پرچم لہرارہا تھا۔ یہ جہاز سنگاپور سے چلا تھا۔ مصراس کی منزلِ مقصود تھا۔فروری 2012ء کے وسط میں یہ جہاز بھارت کے جنوبی سمندر میں پہنچا۔ یہاں سے اس نے مزید مغرب کی طرف جانا تھا۔ کراچی اور پھر ایران کے جنوب سے ہوکر یمن کے ساحلوں کو چھوکر ، شمال کی طرف مڑ جانا تھا اور بحیرۂ احمرسے ہوتے ہوئے مصر کے ساحل پر لنگرانداز ہونا تھا۔ لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ بھارت کے نقشے کو غور سے دیکھیں تو انتہائی جنوب سے ذرا اوپر ، مغربی ساحل پر ایک لمبی عمودی پٹی ہے۔ اس لمبی پٹی کے شمال اور شمال مشرق میں کرناٹک کی ریاست ہے۔ مشرق اور جنوب مشرق سے یہ تامل نادو کے حصار میں ہے۔ مغرب کی طرف سمندر کی بے کناروسعتیں ہیں۔ یہ بھارت کی ریاست کیرالہ ہے۔ کیرالہ کو کئی پہلوئوں سے بھارت میں امتیازی مقام حاصل ہے۔ یہاں خواندگی کا تناسب 94فیصد ہے جو بھارت میں بلند ترین ہے۔ اوسط عمر، 74برس، بھی طویل ترین ہے۔ ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل نے اس ریاست کو بھارت کی سب سے کم کرپٹ ریاست قرار دیا ہے۔ کیرالہ میں ماہی گیری خاص اہمیت کی حامل ہے۔ 590کلومیٹر لمبی ساحلی پٹی سے ماہی گیر فائدہ اٹھانا جانتے ہیں۔ ریاست کے ...

اے اہلِ وطن

خاکروب ماں اور خاکروب باپ کا بیٹا ذیشان لبھا مسیح مقابلے کے امتحان میں کامیاب ہو کر جوڈیشل مجسٹریٹ بن گیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ جو نظام ہمارے ہاں جاری و ساری ہے اور جس پر ہمیں فخر ہے‘ اس کے علاوہ بھی ایک نظام ہے جو ہماری نظروں سے اوجھل ہے‘ تاہم اس کا چلانے والا کبھی کبھی‘ کہیں کہیں‘ اس کی ایک آدھ جھلک دکھاتا ہے تاکہ ہمیں یہ احساس ہو سکے کہ ہمارا نظر آنے والا ظاہری نظام کتنا بودا‘ کھوکھلا‘ مضحکہ خیز اور بے بنیاد ہے! ذیشان لبھا مسیح نے جس گھر میں آنکھ کھولی اس میں کوئی پورچ‘ لائونج اور ڈرائنگ روم نہیں تھا۔ وہ اونچی پشت والی کرسی پر بیٹھ کر بیضوی شکل والے ڈائننگ ٹیبل پر کھانا بھی نہیں کھاتا تھا۔ اس کی ماں زمین پر بیٹھ کر کھانا پکاتی اور وہ پاس ہی زمین پر یا پیڑھی پر بیٹھ کر دال سے یا چٹنی سے یا پیاز سے روٹی کھا لیتا۔ اسے ناشتے میں پھلوں کا رس‘ آملیٹ‘ ٹوسٹ اور مارملیڈ کبھی نہیں ملا۔ اس کی سالگرہ کے دن اس کا گھر ریموٹ کنٹرول کھلونوں سے بھرا‘ نہ پارٹیاں ہوئیں۔ وہ کبھی اپنے باپ کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر لبرٹی مارکیٹ آئس کریم کھانے نہ گیا۔ اوکاڑہ کی گلیوں میں‘ جہاں اس کی ماں جھاڑو دیتی تھی ...

گبول‘ ایم کیوایم اور نون لیگ

نیا موسم نئے پتوں میں نئے رنگ بھرتا ہے۔ میرؔ نے کہا تھا کہ نخلِ دار پر منصور کے سر ہی کا پھل لگتا ہے۔ لیکن سیاست وہ باغ ہے جس میں نخلِ دار ہمیشہ ویران رہتا ہے۔ ایثار ایسا پھول ہے جو اس باغ میں کم ہی کھلتا ہے۔ سیاست دان وہ پرندے ہیں جو ڈاروں کی صورت میں اس درخت کا رخ کرتے ہیں جس کی ٹہنیوں پر بوردکھائی دے۔ ڈار کے ڈار اور ریوڑ کے ریوڑ مسلم لیگ نون کا رخ کررہے ہیں۔ کیا صالحین اور کیا صالحات اور کیا پرویز مشرف کی باقیات‘ تمام مرغانِ بادنما ایک ہی سمت کی نشان دہی کررہے ہیں۔ انگریزوں نے  ان اصحاب کے لیے ’’ٹرن کوٹ‘‘ کا لفظ ایجاد کیا ہے۔ غالباً اس سے مراد یہ ہے کہ جب ضرورت پڑے کوٹ کو اُلٹا کر، دوسری طرف سے پہن لو۔ عام طورپر ایک پارٹی چھوڑ کر دوسری پارٹی میں شامل ہونے والوں کے لیے ذہن میں مثبت جذبات نہیں پیدا ہوتے۔ خبرسننے یا پڑھنے والا زیرِلب انہیں برا بھلا کہتا ہے یا دل میں ان پر اخلاقی پستی کا الزام لگاتا ہے لیکن نہ جانے کیوں، کم ازکم اس کالم نگار کے دل میں، نبیل گبول کے لیے منفی جذبات بیدار نہ ہوسکے۔ اس نے تین دن قبل پیپلزپارٹی کے ساتھ اڑھائی عشروں کی رفاقت کو خیرباد کہہ کر ایم کیوایم می...

بھاگتے چورلنگوٹی بھی لے گئے

کیا آپ کو احساس ہے کہ آپ ننگے ہیں ؟ آپ کے اور میرے جسموں پر جولنگوٹیاں تھیں، چور بھاگتے ہوئے وہ بھی اتارلے گئے ۔ پیپلزپارٹی ، قاف لیگ، اے این پی، ایم کیوایم، جے یو آئی (ف) اور نون لیگ (کچھ ظاہری اتحادی اور کچھ خفیہ اتحادی)  جاتے ہوئے جوکچھ ہاتھ آیا بوریوں میں بھر کر لے گئے۔ ان کے سروں پر پوٹلیاں تھیں، ہاتھوں میں تھیلے تھے، کندھوں پر بیگ تھے۔ یہ وہ ٹھگ تھے جو ان ٹھگوں کو بھی مات کرگئے جو انگریزوں کے زمانے میں ہندوستان کی شاہراہوں پر دندناتے پھرتے تھے اور مسافروں کے گلے ریشمی رومال سے گھونٹتے تھے ۔ آج کے ٹھگ جس ریشمی رومال سے لوگوں کے گلے گھونٹ گئے اس کو وہ جمہوریت کا نام دیتے ہیں۔ یہ لٹیرے جوکچھ کر گئے ہیں اس کا عشرعشیر بھی سامنے نہیں آیا۔ بدنام زمانہ ڈاکو پناہ مانگتے پھررہے ہیں اور چوروں کے سردار انگشت بدنداں ہیں۔ ڈاکہ زنی کی انتہا کا اندازہ اس سے لگایئے کہ آخری تین ہفتوں میں چارکھرب 65ارب روپے کے ’’فیصلے ‘‘ کیے گئے۔ اربوں روپے کے ترقیاتی فنڈاراکین اسمبلی کو پیش کیے گئے ۔ سندھ میں وزراء ، معاونین، سپیکر، ڈپٹی سپیکر اور اراکین اسمبلی کی تنخواہوں اور مراعات میں کئی گنا اضافہ کیا گیا ...

کیا عمران خان یہ اعلان کرسکتے ہیں؟

مارچ 2013ء کی تیرہ تاریخ تھی۔ سہ پہر کے اڑھائی بجے چودھری حمید کو اطلاع ملی کہ اس کے بڑے بھائی کو مری میں دل کا دورہ پڑا ہے۔ وہ اس وقت راولپنڈی صدر کے ایک بینک میں بیٹھا اپنی روزمرہ کی ملازمت نمٹا رہا تھا۔ وہ اٹھا۔ موبائل پر بیوی کو گھر اطلاع دی۔ اپنے افسر کو بتایا اور بینک سے باہر نکل آیا۔ ویگنوں کے اڈے پر پہنچا تو خوش قسمتی سے مری کی ویگن تیار تھی۔ اس نے ٹکٹ لیا اور بیٹھ گیا۔ ذہن پر دبائو اتنا شدید تھا کہ جسم سے توانائی سلب ہوگئی تھی۔ اس نے سیٹ کی پشت سے ٹیک لگائی اور آنکھیں بند کرکے جتنی دعائیں یاد تھیں، پڑھنے لگا۔ دل تھا کہ اچھل کر باہر آنا چاہتا تھا۔ والد کے بعد اس کا بڑا بھائی ہی تھا جس نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ ویگن کو پر لگ جائیں اور وہ اڑ کر بھائی کے پاس ہسپتال پہنچ جائے لیکن ویگن ٹریفک کے ہنگاموں سے معاملات طے کرتی‘ اپنی رفتار سے رواں تھی۔ ٹھیک اسی دن، اڑھائی بجے ملک ارشد اپنی کار پر مری سے روانہ ہوا۔ اس نے اسلام آباد کے چک لالہ ائیرپورٹ سے کراچی کا جہاز پکڑنا تھا۔ اگلی صبح کراچی میں اس کی کاروباری مصروفیت تھی۔ اس نے وقت کا حساب اس طرح کیا تھا کہ پرواز...

تو کیا غلط کہا ہے؟

’’اگر عوام نے آئندہ الیکشن میں پیپلزپارٹی یا نون لیگ کو ووٹ دیے اور انہیں دوبارہ اقتدار ملا تو میں پاکستان چھوڑ جائوں گا۔ میرے ساتھ بہت سے دوستوں اور چاہنے والوں نے بھی طے کیا ہوا ہے کہ ہم اس بے امان ملک میں نہیں رہیں گے کہ جہاں انسان کی زندگی کی کوئی قدر نہیں۔ ہمارے بزرگوں نے اس ملک کو بہت مشکلوں کے بعدحاصل کیا تھا جب کہ چند مفاد پرست لوگوں نے ذاتی مفادات کی خاطر اس کی عزت اور وقار کو دائو پر لگادیا ہے۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون چوروں اور لٹیروں کی پارٹیاں ہیں‘‘۔ یہ ابرارالحق کا بیان ہے۔ لاکھوں کروڑوں نوجوان ہرروز صبح گھر سے نکلتے ہوئے اور شام کو لوٹتے وقت یہی کچھ کہتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ سب ملک چھوڑ کر نہیں جاسکتے اور قہر درویش برجان درویش کے مصداق صرف سلگ سکتے ہیں ۔ ابرارالحق کی بدقسمتی یا خوش قسمتی کہ وہ ایک مشہور شخصیت ہے اور موسیقی میں اس کا ایک مقام ہے۔ چنانچہ اس کے اس بیان پر مضامین لکھے گئے ، کچھ نے تمسخراڑایا اور کچھ نے دلائل دیے۔ اکثر وبیشتر جب کوئی شخص کہتا ہے کہ میں یہ ملک چھوڑ کر کہیں چلا جائوں گا تو یہ یاس کا اظہار اور ابلاغ کا ایک اسلوب ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ مصمم ارا...

بات یہیں پر ختم نہ ہوگی

لمباتڑنگا علائوالدین جسے اس کے دوست پیار سے اللہ دین کہتے ہیں سوڈان کا ہے ۔ وہ کئی سال سعودی عرب میں میڈیکل کی پریکٹس کرکے آسٹریلیا آیا جہاں وہ ’’جسمانی بحالی‘‘میں مہارت حاصل کررہا ہے۔ یہ میڈیکل کے میدان میں ایک نسبتاً نیا شعبہ ہے۔ اس کی بیوی بھی سوڈانی ہے اور ماہر نفسیات کے طورپر کامیاب پریکٹس کررہی ہے ۔ آسٹریلیا میں قیام کے دوران علائوالدین کے ساتھ اکثر ملاقات رہتی ہے اس لیے کہ دوستوں کا حلقہ مشترکہ ہے۔ ایسی ہی ایک نشست میں میں نے اس سے پوچھا کہ جنوبی سوڈان کے نصرانی ملک سے الگ ہوگئے ہیں۔ کاش ایسا نہ ہوتا، آخر سوڈان اس تقسیم پر کیوں راضی ہوا ؟ اس کے ساتھ ہی میں نے کچھ دلائل پیش کیے ۔ میرے دلائل کا لب لباب یہ تھا کہ سوڈان کی تقسیم میں مغربی ملکوں نے کلیدی کردار ادا کیا بالکل اسی طرح جیسے مشرقی تیمور کو دنیا کے نقشے پر لانے کے لیے ان ملکوں نے سرگرمی دکھائی تھی۔ علائوالدین جوپکا نمازی ہے، خاموش رہا۔ مجھے محسوس ہوا کہ اس کی باڈی لینگویج میرے دلائل کا ساتھ نہیں دے رہی۔ وہ کافی تامل کے بعد گویا ہوا :’’ ہوسکتاہے تمہارے دلائل مشرقی تیمور کے ضمن میں درست ہوں۔ مجھے وہاں کے بارے میں کچھ معلوم ن...

انسداد… کیا ہم سنجیدہ ہیں؟

بادامی باغ کی مسیحی بستی کے ساتھ سنیچر کے دن جو کچھ ہوا، کیا امامِ کعبہ اُسے جائز قرار دیں گے؟ کیا مسجدِ نبوی کے امام اُس کا دفاع کریں گے؟ کیا الازہر یونیورسٹی کا دارالافتا اُس کے حق میں فتویٰ دے گا؟ کیا مولانا جسٹس تقی عثمانی اُس کا جواز پیش کریں گے؟ کیا مولانا ثروت قادری حملہ آوروں کا ساتھ دیں گے؟ کیا مدرسہ نعیمیہ کے مفتی صاحب 175ہنستے بستے گھروں کو خاکستر کرنے والوں کو حق بجانب قرار دیں گے؟ لیکن ٹھہریے، پہلے ایک اور سوال کا جواب تلاش کریں۔ یہ کچھ ہی عرصہ پہلے کا واقعہ ہے۔ بہاولپور کے قریب ایک بستی میں ایک پاگل شخص پر گستاخی کا الزام لگا۔ اُسے تھانے میں محبوس کیا گیا۔ اتنے میں قصبے کی مسجدوں میں لائوڈ سپیکروں پر عوام سے باہر نکلنے اور ملزم کو کیفر کردار پہنچانے کی اپیلیں اور تقریریں شروع ہو گئیں۔ ہزاروں لوگوں نے تھانے کا گھیرائو کر لیا۔ پولیس نے کمک منگوائی تو راستہ بلاک کرکے کمک کو پہنچنے نہ دیا گیا۔ پولیس کے افسر اور جوان زخمی ہوئے، ان کی سرکاری گاڑیاں نذرِ آتش کر دی گئیں۔ ہجوم ملزم کو پکڑ کر، گھسیٹ کر تھانے سے باہر نکال لایا۔ سینکڑوں ہزاروں لوگوں کے سامنے اُس کے سر پر پٹرول انڈی...

عرب بہار؟ کون سی عرب بہار؟

  عرب بہار؟ کون سی عرب بہار؟ کون سی عرب سپرنگ؟   ع خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سنا افسانہ تھا تونس کا حال یہ ہے کہ ایمرجنسی بدستور نافذ ہے۔ اچانک کرفیو لگا دیا جاتا ہے۔ وزیراعظم نے 19؍فروری کو استعفیٰ دے دیا۔ کون حکومت بناتا ہے کچھ معلوم نہیں۔ فروری ہی میں ایک سیاسی رہنما قتل ہوا تو ہنگامے ایک بار پھر پھوٹ پڑے۔ تنظیم اور قانون پسندی کا یہ عالم ہے کہ ستمبر میں ایک ہوٹل پرہجوم حملہ آور ہوا کہ وہاں شراب بیچی جا رہی تھی۔ ایک فرانسیسی سکول کے خلاف پورے شہر کی دیواروں پر نعرے درج کر دیے گئے۔ پاسپورٹ یا شناختی کارڈ ہر وقت پاس رکھنا پڑتا ہے۔ مصر کا احوال سب کے سامنے ہے۔ شاید ہی کوئی جمعہ ایسا گزرا ہو کہ احتجاجی جلوس نہ نکلے ہوں۔ پورٹ سعید، سویز اور اسماعیلیہ میں زبردست سکیورٹی ہے۔ جنوری میں وہاں پولیس اور عوام کے درمیان ہنگامے ہوئے۔ بے تحاشا نقصان ہوا۔ اگر کوئی دعویٰ کرتا ہے کہ مصر قرار پکڑ رہا ہے تو بے وقوف ہے یا دروغ گو۔ شام میں قیامت برپا ہے۔ بشار الاسد کے فوجیوں اور عوام کے گروہوں میں ایسی جنگ برپا ہے کہ شہر تباہ ہو گئے ہیں اور قصبے کھنڈر بن گئے ہیں۔ باہر سے مداخلت ہوئی ...

کُھرا

نوجوان کے چہرے پر ٹارچ کی روشنی پڑی تو اُسے غصّہ آ گیا۔ ’’آخر اِس کا کیا فائدہ ہے؟ یہ پولیس والے چیک پوسٹوں پر لوگوں کو محض تنگ کرنے کے لیے بیٹھے ہیں۔ چہرے پر ٹارچ کی روشنی پھینکنے سے تو مجرم نہیں پکڑے جاتے۔‘‘ ’’ہو سکتا ہے تم درست ہو‘‘ ساتھ بیٹھے ہوئے عمر رسیدہ شخص نے گاڑی چلانے والے نوجوان سے کہا۔ ’’لیکن معاملے کا ایک پہلو اور بھی ہے۔ پولیس والوں کو اتنا تجربہ ضرور ہو جاتا ہے کہ وہ شکل سے جرم یا معصومیت پڑھ لیں۔ ٹارچ کی روشنی میں گاڑی چلانے والے کا چہرہ دیکھنا اتنا بھی بیکار عمل نہیں۔‘‘ عمر رسیدہ شخص کی یہ بات سو فیصد درست تھی۔ پاکستانی پولیس، مجرم کو ڈھونڈنے اور جرم کی بیخ کنی کرنے میں دنیا کے کسی بھی ملک کی پولیس سے پیچھے نہیں، یہ سات زمینوں کے نیچے سے مجرم کو پابہ زنجیر لا سکتی ہے۔ تو پھر ناکام کیوں ہے؟ افسوس! صد ہزار افسوس! کُھرا ایک بار پھر سیاست دان کے گھر تک جا رہا ہے! اس واقعہ میں رتی بھر مبالغہ نہیں۔ ماضی قریب میں ایک اعلیٰ سطح کا پولیس افسر ریٹائر ہوا تو اُسے پنجاب کے دارالحکومت میں تین سال کی نوکری مل گئی۔ اُس نے اپنے ایک ہمدرد کو بتایا: ’’یہ کئی سال پہلے کی بات ہے۔ میں ...

گڈریا

  برخوردار اپنی بیگم اور دو بچوں کے ہمراہ لائونج میں داخل ہوا تو ہم اس کے منتظر تھے۔ یہ امارات کی ایئرلائن کا جہاز تھا۔ مقررہ وقت سے پانچ منٹ پہلے پرواز پہنچ گئی۔  ’’آسٹریلیا سے آ کر کیسا لگ رہا ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔ ’’آسٹریلیا نہیں! دبئی کی بات کیجیے۔ ہم دبئی کے راستے آ رہے ہیں۔ دبئی، جو آسٹریلیا سے زیادہ ترقی یافتہ ہے!‘‘ برخوردار نے جواب دیا اور مجھ پر گھڑوں پانی پڑ گیا۔ امیگریشن کے کائونٹر پر بیٹھا ہوا اہلکار دو ’’خصوصی‘‘ افراد کو سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا۔ ’’آپ کے لوگ گھروں میں بیٹھے ہیں۔ میں کیسے ٹھپہ لگا دوں، کل کو پکڑا میں جائوں گا، آپ تو کہیں نظر بھی نہ آئیں گے، اور پھر یہ دیکھیے، یہ جو قطار میں کھڑے ہیں، کیا ان کا حق فائق نہیں؟‘‘ یہ نہیں کہ سب کے ضمیر مر چکے ہیں۔ بہت سوں کے زندہ ہیں۔ وہ مدافعت کر رہے ہیں۔ امیگریشن کے کائونٹر پر بیٹھے اہلکار کا ضمیر زندہ تھا۔ لیکن یہاں جن کے ضمیر زندہ ہیں، ان پر مسلسل ’’کام‘‘ ہوتا ہے، تسلسل اور مستقل مزاجی کے ساتھ، یہاں تک کہ وہ رام ہو جاتے ہیں یا راہ سے ہٹ جاتے ہیں۔ مجھے وہ سرکاری افسر یاد آیا جو معائنے کے لیے ایک شہر م...

ظلم کی انتہا

کُل جماعتی کانفرنس؟ کون سی کل جماعتی کانفرنس؟ ہر ذی ہوش کو علم ہے کہ یہ ایک سیاسی سرگرمی تھی۔ مولانا فضل الرحمن کو سیاسی پیش منظر پر نمایاں سے نمایاں تر کرنے کے لیے۔ وکی لیکس نے بتایا تھا کہ انہوں نے امریکیوں سے وزیراعظم بننے کے لیے مدد چاہی تھی۔ کل جماعتی کانفرنس کے بعد بھی انہوں نے امریکی سفیر کو اپنی کارکردگی سے آگاہ کیا۔ ان کی اُفتادِ طبع انہیں بلند سے بلند تر کرنا چاہتی ہے۔ انگریزوں نے اس کے لیے ایک لفظ بنایا ہے AMBITIOUS ۔ اس میں قباحت بھی کوئی نہیں۔ ہر شخص  کو اپنے ارمان پورے کرنے کا حق ہے۔ اگر اس ملک میں بلخ شیر مزاری، جتوئی اور یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بن سکتے ہیں تو فضل الرحمن کیوں نہیں؟ کم از کم وہ ہر روز نیا ڈیزائنر سوٹ تو نہ پہنیں گے اور کرپٹ بیوروکریٹ انہیں شیشے میں بھی نہ اُتار پائیں گے۔ سب درست لیکن کل جماعتی کانفرنس محض ایک سیاسی سرگرمی تھی۔ اس میں اے این پی کے لیے بھی ’’جوابِ آں غزل‘‘ تھا۔ پاکستانی طالبان سے معاملہ کرنا اتنا آسان ہوتا تو کنونشن سنٹر میں کل جماعتی کانفرنس بہت پہلے منعقد ہو جاتی۔ اصل فریق تین ہیں۔ پاکستانی عوام، جن کے بچے، عورتیں، بوڑھے...

کیا دکان کو تالہ لگا ہے؟

پنڈلی سے پنڈلی جُڑ گئی تھی۔ آنکھیں کبھی کھُلتیں کبھی بند ہو جاتیں۔ سانس کبھی آسانی سے آتے کبھی اُکھڑ جاتے۔ سب چارپائی کے گرد کھڑے تھے۔ بیٹے بھی‘ بیٹیاں اور بہوئیں بھی۔ پوتے اور نواسے بھی۔ ذرا سا ہوش آیا تو بیوی نے کلمہ پڑھا اشہد اَن لا الہ الا اللہ اور کہا کلمہ پڑھو۔ وہ جو نزع کے عالم میں تھا‘ اُس کی زبان سے لفظ نکلا، ’’دکان‘‘ اور غنودگی پھر طاری ہو گئی۔ سانس لمبے ہونے لگے۔ اِرد گرد کھڑے ہوئوں نے کلمہ خوانی اور تلاوت جاری رکھی۔ کچھ دیر کے بعد اُس نے پھر آنکھیں کھولیں اور اِدھر اُدھر دیکھا۔ اب کے بڑے بیٹے نے کہا ابا جی کلمہ پڑھیں۔ ابا جی نے ایک ہی بات کی‘ کیا دکان کو تالہ لگایا ہے؟ پھر سانس اُکھڑ گئی۔ وجود لرزا اور چہرہ ایک طرف کو ڈھلک گیا۔ محلّے کے ایک بزرگ نے بعد میں بتایا کہ مرحوم کو پوری زندگی دکان ہی کی فکر رہی۔ یہی ان کا اوڑھنا تھا اور یہی بچھونا۔ کوئی جیتا ہے یا مرتا ہے‘ کسی کے بچے بھوک سے بلک رہے ہیں یا کوئی حادثے میں زخمی ہو کر سڑک کنارے ایڑیاں رگڑ رہا ہے‘ کوئی سوالی آیا ہے یا کسی کو مدد درکار ہے‘ مرحوم کو کوئی پروا نہیں تھی۔ دکان ہی ان کی زندگی تھی۔ دکان کے نفع نقصان کے ...