اشاعتیں

فروری, 2013 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

یاری اور عیّاری

نہیں!یہ محض ایک تصویر نہیں۔ یہ تاریخ ہے۔ تاریخ ہی نہیں انسائیکلوپیڈیا ہے۔ یہ تصویرِ پاکستان کی تاریخ ہے اور تحریک پاکستان کی بھی۔ اور سچ پوچھیے، تو اس سے ایمان بھی تازہ ہوتا ہے۔ یہ تصویر ملک کے سارے اخبارات میں صفحۂ اول پر شائع ہوئی ہے۔ نمایاں ترین اس میں مولانا فضل الرحمن ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ فوٹو گرافر نے کیمرے کا زیادہ فوکس ان کی دلفریب شخصیت پر کیا ہے۔ وہ مسکرا رہے ہیں۔ لیکن کُھل کر نہیں۔ یہ مسکراہٹ نیم بازکلی کی طرح ہے۔ ادھ کھلی کلی! چہرے پر نُورہے ۔ کوہستانِ سیاست سے آبشاروں کی شکل میں گرتا، شور مچاتا ، دائرے بناتا نور!اور یہی وہ نُور ہے جس سے ایمان تازہ ہورہا ہے! ان کے بائیں طرف میاں محمد نواز شریف ہیں۔ کیا سنجیدگی اور کیا متانت ہے! سبحان اللہ ! سبحان اللہ! ڈائس پر مائیک ہیں۔ بہت سے مائیک۔ میاں صاحب ، تصویر میں یوں لگتاہے ، کچھ کہہ رہے ہیں۔ میاں صاحب کے ساتھ، بائیں طرف ، چودھری نثار علی خان ہیں لیکن وہ ذرا پیچھے کھڑے ہیں۔ ان کے آگے شہباز شریف ہیں۔ چودھری نثار علی خان زیرک انسان ہیں۔ پیچھے اس لیے کھڑے ہیں کہ آگے کھڑا ہونا، پارٹی سربراہ کے بھائی کا حق ہے۔ مانا کہ نثار علی خان کی خ...

لیکن ذرا احتیاط کے ساتھ

بات اُس فضا کی ہورہی تھی جس میں مکالمہ ہوسکتا ہے اور جہاں سوالات اُٹھانے والوں کو دشمن کا ایجنٹ کہہ کر سچا ئیوں پر پردہ نہیں ڈال دیا جاتا۔ اس ضمن میں کچھ سوالات ہم نے کل والے کالم میں اٹھائے تھے جن کا تعلق پاکستان کی تاریخ اور سیاست سے تھا ۔ لیکن بہت سے سوالات جو جواب مانگتے ہیں، عالمِ اسلام سے متعلق ہیں اس لیے کہ اگرچہ معیشت ، امن وامان اور سیاست دانوں کی کرپشن کی وجہ سے ہم افغانستان عراق اور صومالیہ کے ساتھ بریکٹ ہوکر رہ گئے ہیں، اس کے باوجود ہم میں سے اکثر پاکستان کو عالمِ اسلام کا لیڈر قرار دینے پر بضد ہیں! کیا ہم نے اس موضوع پر کبھی مکالمہ کیا ہے کہ پچپن کے قریب مسلمان ملکوں میں سے صرف تین چار ملک آمریت سے بچے ہوئے ہیں۔ ان تین چارملکوں میں بھی پاکستان کی جمہوریت ’’شاہی‘‘ جماعتوں کے پنجۂ وراثت میں جکڑی ہوئی ہے اور ایران ’’جمہوری آمریت‘‘ کا شکار ہے کہ وہاں پارلیمنٹ کے اوپر علما اور فقہا کی ایک جماعت اصل حکمران ہے جس کے بارہ میں سے نصف ارکان نامزد ہوتے ہیں۔ علما کی یہ جماعت (گارڈین کونسل) پارلیمنٹ کے کسی بھی اقدام کو ویٹو کرسکتی ہے۔ سوال جو اُٹھتا ہے یہ ہے کہ آخر مسلمان ملکوں میں جم...

اگر جان کی امان ملے

بہتا ہوا پانی صاف ہے۔ اُسے پیتے بھی ہیں۔ اُس سے وضو بھی کیا جا سکتا ہے۔ ’’آبِ رواں‘‘ ادب میں ہمیشہ خوشگوار علامت کے طور پر استعمال ہوا ہے    ؎ آبِ روانِ کبیر! تیرے کنارے کوئی دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب ٹھہرا ہوا پانی آخر کار تعفّن کا منبع بنتا ہے۔ اُس سے بیماریاں نکلتی ہیں۔ اس میں بیماریاں پھیلانے والے کیڑے پرورش پاتے ہیں۔ لوگ وہاں سے گزرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ یہی حال سوالات کا ہے۔ جس معاشرے میں سوالات کرنے کی آزادی ہو اور سوالوں کے جواب دینے کا کلچر ہو، وہ بہتے پانی کی طرح صاف ہوتا ہے۔ وہاں بدبو کا بسیرا ہوتا ہے نہ غلیظ کیڑے مکوڑے پرورش پا سکتے ہیں، مکالمہ جاری رہتا ہے۔ مغالطے پیدا ہوتے ہیں تو رفع بھی ہوتے ہیں۔ ایسے معاشروں میں لوگ شخصیات نہیں بلکہ آئیڈیاز کے بارے میں بحثیں کرتے ہیں۔ ان معاشروں کا ایک طرۂ امتیاز برداشت بھی ہے۔ سوالات جیسے بھی ہوں‘ کوئی پسند کرے یا نہ کرے‘ برداشت کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح جوابات بھی برداشت کیے جاتے ہیں۔ خیالات کا تبادلہ ہوتا ہے تو چراغ سے چراغ جلتے ہیں اور عقلی حوالے سے معاشرہ آگے بڑھتا ہے۔ اس کے برعکس جس معاشرے میں مکالمے کا کلچر ن...

بھاگ مسافر میرے وطن سے

کیا معصوم خواہش تھی اس جٹی کی جو حجرہ شاہ مقیم کی تھی! پانچ سات پڑوسنیں مر جائیں، اور باقی کو تپ چڑھ جائے۔ کراڑ کی ہٹی (بنیے کی دکان) میں آگ لگ جائے کہ وہاں رات گئے تک چراغ جلتا رہتا ہے۔ فقیر کی کتیا ہلاک ہو جائے جو ہر وقت بھونکتی رہتی ہے۔ جب گلیاں ویران ہو جائیں اور کوئی بھی دیکھنے والا باقی نہ بچے تو پھر میرا یار آئے اور ان گلیوں میں خراماں خراماں چلے۔ پتہ نہیں جٹی کی یہ معصوم خواہش پوری ہوئی تھی یا نہیں، لیکن پاکستان میں گلیاں ویران ہونے کو ہیں۔ کراچی کے ایک بڑے کلب کے، جو اشرافیہ کا پسندیدہ ہے، تیس فیصد ارکان گزشتہ آٹھ ماہ کے دوران پاکستان کو خیر باد کہہ کر بیرون ملک چلے گئے ہیں۔ کلب کو اس کا اندازہ یوں ہوا کہ اس کی ماہانہ آمدنی لاکھوں کے حساب سے کم ہو گئی۔ تحقیق کی گئی تو پتہ چلا کہ ایک ہزار تین سو اسی معزز ممبران امریکہ، کینیڈا، برطانیہ اور متحدہ عرب امارات منتقل ہو گئے ہیں، ممبروں کی کل تعداد چار ہزار ہے۔ جو ارکان بیرون ملک نہیں گئے، انہوں نے اپنے اہل خانہ کو اغوا برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ اور دھماکوں سے محفوظ رکھنے کے لیے باہر بھیج دیا ہے۔ یہ بھی آمدنی میں کمی کا سبب بن گیا۔...

دو رنگی چھوڑ دے‘ یک رنگ ہو جا

کسی معاملے کو حساس کہہ کر اس سے کتنا صرف نظر کیا جا سکتا ہے؟ کوڑا کرکٹ قالین سے ڈھانپ دیا جائے تو کب تک ڈھکا رہ سکتا ہے؟ ادب و احترام کا بہانہ بنا کر لوگوں کو واشگاف رائے دینے سے کب تک باز رکھا جا سکتا ہے؟ سب کچھ ہو سکتا ہے لیکن ایک محدود مدت کے لیے! وقت خاموش رہنے کی اجازت دے دیتا ہے لیکن ہمیشہ کے لیے نہیں۔ مولانا فضل اللہ، مسلم خان، بیت اللہ محسود اور اس قسم کے دیگر حضرات نے ایک مخصوص مکتبِ فکر کی نمائندگی کا دعویٰ کیا۔ اس کے بعد صرف دو امکانات تھے۔ پہلا یہ کہ وہ واقعی اس مخصوص مکتبِ فکر کے نمائندہ تھے۔ دوسرا یہ کہ وہ نمائندہ نہیں تھے۔ سوال یہ ہے کہ ان کے نمائندہ ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کس نے کرنا تھا؟ یہ تھا وہ موڑ جہاں علماء کرام کی رہنمائی کی ضرورت تھی۔ اس مخصوص مکتبِ فکر کے ثقہ اور مسلمہ علماء کرام کا فرض تھا کہ وہ قوم کی رہنمائی کرتے اور بتاتے کہ ہاں! یہ حضرات درست کہہ رہے ہیں یہ واقعی ہمارے مکتبِ فکر کی نمائندگی کر رہے ہیں اور یہ جو کچھ کہہ رہے ہیں اور جو کچھ کر رہے ہیں، ہمارا مسلک اس کی تائید کرتا ہے۔ یا یہ وضاحت کرتے کہ نہیں، ان لوگوں کا ہمارے مکتبِ فکر سے کوئی تعلق نہیں۔ تو...

کراچی نہال ہو گا

تصویر

غیرملکی شہریت… ایک اور مقدمہ

ڈاکٹر طاہرالقادری بگولے کی طرح آئے اور آندھی بن کر ملک کی سیاسی فضا پر چھا گئے۔ بنیادی موقف جس سے انہوں نے تحریک کا آغاز کیا عوام کے لیے بہت پُرکشش تھا۔ ان کا تھیسس یہ تھا کہ اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے خواص کا عوام سے کوئی تعلق نہیں۔ لوگوں کو ان کے حقوق نہیں مل رہے اور جو جمہوریت رائج ہے، اس میں قانون کی حکمرانی عنقا ہے۔ تاہم ان کے اس سارے قضیے کی تان الیکشن کمیشن پر ٹوٹی۔ الیکشن کمیشن کی تحلیل اور تشکیلِ نو کے لیے وہ عدالتِ عظمیٰ گئے۔ یہ وہ وقت تھا جب طاہرالقادری نے ملک کی سیاسی فضا پر بے یقینی کی چھتری تان دی۔ بہت سے لوگ یہ سمجھ بیٹھے کہ وہ مقدمہ جیت جائیں گے۔ سیاسی جماعتوں میں شدید اضطراب پیدا ہوگیا اور بظاہر یوں لگتا تھا کہ الیکشن کمیشن کو تحلیل کرانے میں ڈاکٹر صاحب کامیاب ہوجائیں گے اور یوں انتخابات مقررہ وقت پر نہیں ہوپائیں گے۔ لیکن سپریم کورٹ نے قدم درست سمت میں بڑھایا۔ عدالتِ عظمیٰ نے طاہرالقادری کی درخواست خارج کردی۔ سیاسی فضا پر چھائی ہوئی بے یقینی کی گھٹا چھٹ گئی۔ انتخابات کے التوا کا امکان ختم ہوگیا۔ جو طالع آزما ٹیکنو کریٹ حکومت کے پردے میں آمریت کے خواب دیکھ رہے تھے‘ ان کی ا...

ٹھیکے پر دے دیجیے

غلط کہا ہے ریاستوں اور سرحدی امور کے نئے وفاقی وزیر نے کہ پاکستان میں غیر قانونی طور پر قیام پزیر افغان مہاجرین معیشت پر بوجھ ہیں۔ افغان مہاجرین معیشت پر بوجھ نہیں، بوجھ وہ خونخوار مگرمچھ اور بھُوکے بھیڑیے ہیں جو سرکاری دفتروں میں بیٹھے ہیں۔ جن کی ناپاک تھوتھنیاں روپوں اور ڈالروں کی غلاظت میں لُتھڑی ہوئی ہیں اور جو غیر قانونی طور پر غیر ملکیوں کو اندر آنے دے رہے ہیں۔ ان میں صرف افغان نہیں، بنگالی، برمی اور دوسری قومیتوں کے مشکوک افراد بھی ہیں اور لاکھوں میں ہیں۔ وزیر صاحب ٹہنی پکڑ کر جھُول رہے ہیں۔ انہیں ادراک ہی نہیں کہ درخت کی جڑ کہاں اور کس حال میں ہے؟ وفاقی حکومت کا وزیر اُسی سانس میں کہہ رہا ہے کہ قانونی طور پر رہائش پزیر مہاجرین کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کیے جائیں گے؟ کون سے قانونی مہاجرین؟ پاسپورٹ اور شناختی کارڈ جاری کرنے والے اہلکار کرپٹ ہیں اور اتنے کرپٹ کہ مثال دینی مشکل ہے۔ اگر غیر قانونی مہاجرین بوجھ ہیں تو ’’قانونی‘‘ مہاجرین بوجھ کیوں نہیں؟ کیا اُن کے چھ چھ ہاتھ ہیں اور کیا غیر قانونی مہاجروں کے صرف دو، دو ہاتھ ہیں اور وہ کھانا دن میں بارہ دفعہ کھا رہے ہیں؟ حکومتِ پا...

زیستن برائے خوردن ؟

یہ دو مناظر ہیں جو ان دنوں، الیکٹرانک میل کے ذریعے، گردش کررہے ہیں۔ ایک بہت بڑی قاب ہے، قطر جس کا فٹوں میں نہیں، گزوں میں ماپا جاسکتا ہے۔ اس میں بریاں گوشت کے انبار کے انبار ہیں۔ گوشت بادام، کشمش ، چلغوزوں اور دیگر میوہ ہائے خشک میں گندھا ہوا ہے۔ کہیں کہیں پلائو اور انڈے بھی نظر آتے ہیں۔ پیش کرنے اور تناول کرنے والے حضرات لباس سے مشرق و سطیٰ کے لگتے ہیں۔ پھر اشتہا انگیز کھجوروں کے ڈھیر ہیں اور قہوے کے دور چل رہے ہیں۔ دوسرے منظر میں صدر اباما ایک چھوٹی سی میز کے سامنے بیٹھے ایک مختصر سا برگر کھارہے ہیں ۔ اس موازنے پر اعتراض بھی کیے جاسکتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے لوگ جس خوراک کو کھاتے دکھائے گئے ہیں وہ ایک نہیں، بہت سے لوگوں کے لیے تیار کی گئی ہے جب کہ ایک برگر ایک ہی شخص کھا سکتا ہے۔ لیکن سبق اس موازنے میں جو پوشیدہ ہے، وہ اور ہے۔ غالباً یہ فقرہ سب سے پہلے سعدی نے لکھا تھا اور پھر ہمارے بزرگوں نے اسے قاعدہ کلیہ بنایا۔ خوردن برائے زیستن است نہ زیستن برائے خوردن۔ کھانا اس لیے کھایا جاتا ہے کہ زندگی برقرار رہے، زندگی اس لیے نہیں دی گئی کہ کھانے ہی میں گزار دی جائے اور یہ بات ہوسکتا ہے ہماری سما...

تخت نشینی کی تازہ ترین جنگ

سیاست کے نقار خانے میں یہ جو کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی اور یہ جو ہڑبونگ مچی ہوئی ہے تو اس پر تعجب صرف وہ کر سکتا ہے جو برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ سے ناواقف ہے! یہ داستان آج کی نہیں، صدیوں پرانی ہے۔ مسلمانوں کی کون سی حکومت تھی جسے برصغیر میں خود مسلمان بھائیوں نے چین لینے دیا؟ تاریخ نہیں، یہ فلسفۂ تاریخ کا مسئلہ ہے اور اس قدر آسان کہ کسی ابن خلدون کی ضرورت نہیں! برصغیر کی تاریخ سے دو سبق ملتے ہیں۔ اول: مسلمان، مسلمان بھائی کا اقتدار نہیں برداشت کر سکتا۔ دوم: عوام کبھی بغاوت نہیں کرتے۔ 1857ء میں بغاوت ہوئی تو اکثریت نے ساتھ نہ دیا۔ اگر عوام میں بغاوت کا مزاج ہوتا تو جلیانوالہ باغ کی ٹریجڈی کے بعد قیامت کھڑی ہو جاتی۔ آج کا پاکستان دیکھ لیجیے، حکمران گزرتے ہیں اور خلق خدا کو گھنٹوں سڑکوں پر روک لیا جاتا ہے۔ اس لعنت کو ’’روٹ لگنا‘‘ کہتے ہیں۔ بیمار رکی ہوئی ٹریفک میں مر جاتے ہیں اور حاملہ عورتیں چوراہوں پر بچوں کو جنم دیتی ہیں۔ اگر دس فیصد امکان بھی بغاوت کا ہوتا تو لوگ حکمرانوں کے قافلوں کو نیست و نابود کر دیتے۔ گیس اور پٹرول کی مصنوعی قلّت پیدا کرکے چند ڈاکوئوں کو مزید ثروت مند...

جلد یا بدیر

مسئلہ صرف جنوبی پنجاب کا نہیں، مغربی پنجاب کا بھی ہے اور اتنا ہی سنجیدہ جتنا کسی بھی محروم خطّے کا ہوسکتا ہے۔ انصاف کیا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ جتنی اہمیت ہزارہ کے علاقے کو خیبر پختونخوا میں حاصل ہے، مغربی پنجاب کے بارانی اضلاع کو اس کا عشر عشیر بھی اپنے صوبے میں نہیں حاصل۔ مغربی پنجاب کے عوام کو ابھی اس کا شعور نہیں، اتنے تیز اتنے باشعور اگر وہ ہوتے تو فرنگی حکومت انہیں مارشل ایریا کا بے معنی نام دے کر ترقی سے محروم نہ کردیتی۔ ان کے کھیتوں کے لیے آب پاشی کا انتظام کیا گیا نہ ہی صنعت کو ان کے نزدیک جانے دیا گیا ۔ اور آج پنجاب کے وہ علاقے جہاں نہروں کے جال بچھے ہیں اور جہاں کارخانے شمار سے باہر ہیں، پنجاب کے تخت پر قابض ہیں اور مغربی پنجاب کے اضلاع آسمان کی طرف منہ اٹھائے زبان حال سے کہہ رہے ہیں   ؎ عدو کو بادۂ خوش رنگ دے کے کہتے ہیں ولیؔ ولی ہے ولی نے پیا پیا، نہ پیا آخر سندھ سے بھی تو نہریں نکالی جاسکتی تھیں۔ جنڈ، پنڈی گھیب اور میانوالی کے وسیع علاقے ان نہروں سے سیراب ہوسکتے تھے لیکن اگر زمینیں سونا اگلنے لگتیں تو فوج میں بھرتی کون ہوتا؟ فرنگی سوسال آگے کا سوچتے تھے۔ انہوں ن...

اے اہل کشمیر

یہ جو ہم پانچ فروری کو ہر سال یومِ کشمیر مناتے ہیں تو یہ اس لیے ہے کہ دنیا کو باور کرایا جا سکے۔ ہم تقاریب منعقد کرتے ہیں۔ کوہالہ، منگلا اور جانے کہاں کہاں انسانی ہاتھوں کی زنجیریں بناتے ہیں۔ تقریریں کرتے ہیں۔ جلوس نکالتے ہیں، بین الاقوامی اداروں کو یادداشتیں پیش کرتے ہیں۔ اپنے ہم وطنوں کو مسئلے کی تاریخ سے آگاہ کرتے ہیں اور بھارت کو پیغام دیتے ہیں کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے، کشمیر پاکستان کا ہے اور یہ کہ ہم جلد یا بدیر، کشمیر لے کر رہیں گے۔ یہ سب کچھ جو ہم پانچ فروری کو کرتے ہیں ‘ علامتی سرگرمیاں ہیں۔ یہ دن اس عہدِ وفا کی علامت ہے جس کی ہم تجدید کرتے ہیں، اپنے ساتھ اور اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ ! تاہم اصل تیاری جو ہم کر رہے ہیں اُس کا دنیا اور اہلِ دنیا سے کوئی تعلق نہیں۔ ہم ملک کے حالات کو بہتر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ جب کشمیر پاکستان میں شامل ہو تو ہم فخر کے ساتھ اہلِ کشمیر کو ان کا نیا وط...