اشاعتیں

جنوری, 2013 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

ویلکم ٹُو پاکستان

ماتھا تو میرا اُسی وقت ٹھنک گیا تھا جب شاہ رخ خان نے بھارت کے حوالے سے اپنی مشکلات کا ذکر کیا۔ پھر جب ہمارے ایک مسلّمہ مذہبی رہنما نے بہت ثقہ قسم کی دعوت بھی خان کو دے ماری تو ماتھا ٹھنکنے کے ساتھ ساتھ آنکھ بھی پھڑکنے لگی اور پھر …وہی ہوا جس کا ڈر تھا    ؎ آسماں بارِ امانت نتوانست کشید قرعۂ فال بنامِ منِ دیوانہ زدند شاہ رخ خان نے مجھے ٹیلی فون کیا کہ اس نے پاکستان آنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ’’مملکت خداداد ہی اب میرا وطن ٹھہرے گا۔ تم یہ بتائو کہ میں کس شہر کو اپنا ٹھکانہ بنائوں۔‘‘ میں نے اپنی طرف سے اور مسلمہ رہنما کی طرف سے اور پوری قوم کی طرف سے خان کو خوش آمدید کہا اور خوب غور کرنے کے بعد اُسے کراچی آباد ہونے کا مشورہ دیا۔ خان نے شکریہ ادا کرنے کے بعد یہ بھی کہنا ضروری سمجھا کہ میری رائے معلوم کرنے کے بعد اب وہ کسی اور سے اس ضمن میں ہرگز رجوع نہیں کرے گا۔ میری رائے اس کے نزدیک صائب تھی۔ میں نے بہرحال یہ راز اپنے تک ہی رکھا۔ مجھے ضرورت بھی کیا تھی کہ ایک شخص نے اگر میری عقل و دانش اور فہم و فراست پر اعتماد کرکے مشورہ لیا ہے تو اس کی تشہیر کرتا پھروں۔ چاند چڑھے گا تو پ...

دوست کیا کہہ رہے ہیں؟

جس رات ایبٹ آباد میں امریکیوں نے اسامہ بن لادن ’’ایکشن‘‘ لیا، اس سے اگلے روز ایک ٹیلی ویژن چینل نے عوامی سروے کیا اور اس واقعہ کے متعلق عام پاکستانیوں کے تاثرات جاننے کی کوشش کی۔ اکثریت نے اسے امریکی سازش قرار دیا۔ کچھ نے اسامہ بن لادن کی تعریفیں کیں۔ چند افراد نے یہ بھی کہا کہ سب کچھ پاکستانی حکومت کی مرضی سے ہو رہا ہے۔ وہیں ایک غیر ملکی بھی تھا۔ اس سے رائے مانگی گئی تو اس نے کہا : ابھی میں کچھ نہیں کہہ سکتا، میرے پاس کوئی ثبوت نہیں کہ یہ امریکی سازش ہے، امریکیوں نے اسامہ بن لادن کی لاش بھی نہیں دکھائی اس لیے میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ اسے واقعی قتل کیا گیا ہے یا نہیں! یہ ہے ایک جھلک اس فرق کی جو ہمارے انداز ِفکر اور باقی دنیا کے انداز ِفکر میں رونما ہو چکا ہے اور جو بدقسمتی سے دن بدن زیادہ ہوتا جا رہا ہے۔ اسے آپ مائند سیٹ کہہ لیجیے یا سوچ، یا کوئی اور نام دے دیجیے لیکن یہ ہمارا قومی ٹریڈ مارک بن چکا ہے۔ ہم ثبوت مانگتے ہیں نہ شہادت، جو رائے ہمیں اچھی لگتی ہے ہم وہ مان لیتے ہیں۔ تحقیق یا تفتیش کو ضروری نہیں سمجھتے۔ پھر وہ رائے دوسروں پر ٹھونسنا شروع کر دیتے ہیں۔ اختلاف کرنے والا غدّ...

بارہ ربیع الاوّل کے بعد

بارہ ربیع الاوّل کا مبارک دن گزر گیا۔ الحمد للہ ۔میں اپنے ضمیر سے مطمئن ہوں۔ میں نے اپنے مذہبی فرائض جوش وخروش سے ادا کیے۔ میں نے اس محبت کا اظہار احسن طریقے سے کیا جو مجھے آمنہ کے لال صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے۔ میں نے جلسے اور جلوس کے لیے دل کھول کر رقم دی۔ انتظامات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ میرے بچوں نے سبز جھنڈے پکڑ کر اور سبز ٹوپیاں پہن کر جلوس میں شمولیت کی اور کئی میل پیدل چلے۔ میں نے دودھ اور شربت کی سبیلیں لگائیں ، قورمے اور بریانی کی دس دیگیں پکاکر تقسیم کیں۔ منوں کے حساب سے شیر مال تھے۔ کپڑے کے بیسیوں تھان مستحقین میں بانٹے۔ الحمدللہ مجھے اطمینان ہے۔ اللہ کے فضل وکرم سے پوری امید ہے کہ میرا نام اُن مسلمانوں میں ضرور شامل ہوگا جو مدینہ منوّرہ کی خاکِ پاک کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بناتے ہیں۔ سب سے نیچے سہی، فہرست میں اس حقیر پُرتقصیر کا نام تو ہوگا!انشاء اللہ ! میں نے عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داریاں پوری کردیں۔ اب میں پورے سال کے لیے سرخروہوں اور آزاد بھی۔ میں اگرسرکاری ملازم ہوں تو اپنی مرضی کے وقت پر دفتر پہنچوں گا۔ پہنچ کر اخبارات کا مطالعہ کروں گا‘ پھر گھر کے ...

میرے ماں باپ آپ پر قربان

تصویر

مائی لارڈ چیف جسٹس

سیاست دان ایک دوسرے کو بچانے کے لیے آخری حد تک جا سکتے ہیں! وہ الزام جو ہزاروں اور کچھ لوگوں کے بقول لاکھوں کے مجمع میں لگائے گئے، درست تھے یا جھُوٹے‘ دونوں صورتوں میں اُنہیں اہمیت دینا چاہیے تھی لیکن افسوس! کسی کے کان پر جُوں تک نہ رینگی، انہیں پرِکاہ جتنی اہمیت نہ دی گئی۔ حکومت کے بارے میں تو چلیے اجماع ہے کہ اُسے اِن معاملات سے کوئی دلچسپی نہیں۔ سب سے بڑے صوبے کا وزیراعلیٰ‘ ملک کے صدر کو زر بابا کہتا ہے‘ لیکن اپوزیشن نے اس معاملے سے کیوں آنکھیں چرائیں؟ وہ سیاسی لیڈر جو سولہ جنوری کو لاہور میں جمع ہوئے اور جمہوریت بچانے کے لیے یک زبان ہو گئے، انہیں اُن مطالبات سے تو کوئی غرض نہ تھی جو ٹھٹھرتے دارالحکومت کے کھلے میدان میں پڑے ہوئے ہزاروں پاکستانی کر رہے تھے لیکن پہیلی یہ ہے کہ اُنہیں اُن الزامات کی بھی ذرہ بھر پرواہ نہیں تھی جو طاہر القادری نے سیاست دانوں پر لگائے اور جو عام الزامات نہیں تھے۔ اس ’’چشم پوشی‘‘ اور ’’بے نیازی‘‘ سے صرف ایک ہی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ مفادات کے تحفظ کے لیے جمع ہونے والے یہ سیاست دان سٹیٹس کو کے علم بردار تھے۔ باب ہاک کوئی ایرا غیرا نہیں جس کا الزام رد...

ایک دِن قائداعظمؒ کے ساتھ

قائداعظم صبح بیدار ہوئے تو باہر پامسٹ انتظار کر رہا تھا۔ انہوں نے اُسے ہاتھ دکھایا اور اس کی کہی ہوئی باتوں پر سر ہلایا پھر ایک نجومی آیا۔ اس نے قائداعظم کا زائچہ بنایا انہیں بتایا کہ کون سا ستارہ کہاں ہے اور کون سا سیارہ کس طرف جا رہا ہے۔ پھر اس نے انہیں ہدایات دیں کہ وہ سفر کی ابتدا کس دن سے کریں، کتنے دن پہاڑوں کے قریب رہیں اور کتنا عرصہ سمندر کے قریب بسر کریں۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ کتنے سال وہ مزید گورنر جنرل رہیں گے۔ پھر سرکاری ہیلی کاپٹر آیا جس میں سرکاری پٹرول تھا اور سرکاری ہی پائلٹ تھا۔ قائداعظم سوار ہوئے۔ اے ڈی سی بھی ساتھ تھا۔ ہیلی کاپٹر شمال کے پہاڑوں کی طرف روانہ ہوا اور ایبٹ آباد کے قریب ایک بستی میں اترا۔ سرکاری کار منتظر تھی۔ آپ سوار ہوئے اور بابا جی کی خدمت میں پہنچے۔ باباجی نے قائداعظمؒ کی پیٹھ پر ڈنڈوں کی نوازش کی۔ واپسی پر قائداعظم نے حکم دیا کہ سڑک جو باباجی کے گائوں کو جا رہی ہے، پختہ کی جائے اور باباجی کو سرکاری خرچ پر حج کرایا جائے۔ دوسرے دن قائداعظم اسمبلی پہنچے (یہاں یہ سوال نہ اٹھایئے کہ گورنر جنرل اسمبلی میں نہیں تشریف لے جاتے تھے کہ ہمارا موضوع مختلف ہے) ...

دو گروہ

معصوم جانور کھلے میدان میں جمع ہوئے اور کئی دن تک بیٹھے رہے۔ ان میں پرندے بھی تھے اور چوپائے بھی ۔ طوطے ، بلبلیں ، بطخیں ، چڑیاں، خرگوش، ہرن اور بے شمار دوسرے جانور۔ یہ سب وہ تھے جو سالہا سال سے جنگل میں خاموش رہ کر، دب کر، رہ رہے تھے۔ جنگل پر اصل قبضہ بھیڑیوں ، چیتوں، شیروں، گینڈوں ، سانپوں اور مگرمچھوں کا تھا۔ خونخوار درندوں کا یہ گروہ جنگل کے ہرگوشے پر قابض تھا۔ اس گروہ کے حکم کے بغیر پتہ بھی نہیں ہل سکتا تھا۔ معصوم اور مظلوم جانوروں کی ایک بدقسمتی یہ تھی کہ ان کے کچھ بھائی جنہیں ان کا ساتھ دینا چاہیے تھا، خونخوار گروہ کے خدمت گار بنے ہوئے تھے۔ ان میں لومڑی ، گیدڑ اور بکرے سرفہرست تھے۔ یہ دن بھر خونخوار گروہ کے ساتھ رہتے۔ ان کی ہرطرح کی خدمت بجالاتے۔ جب یہ درندے آپس میں لڑائی جھگڑا کرتے تو لومڑی ان کے درمیان پیغام رسانی کا کام کرتی۔ کبھی اس طرف بھاگ کر آتی اور کبھی بغل میں کچھ کاغذات دباکر دوسرے گروہ کی طرف جارہی ہوتی۔ گیدڑوں کی قسمت بھی عجیب تھی۔ دو تین گیدڑ پڑھے لکھے تھے۔ ہرگیدڑ نے ایک خونخوار درندہ پکڑا ہوا تھا۔ یہ اس کے لیے تقریر یں لکھتا، مذاکرات میں مدد کرتا، اگر زبان فرنگ ...

سوجی کا خصوصی حلوہ

مانا  کہ طاہر القادری ملکہ کی وفاداری کا حلف اٹھائے ہوئے ہیں، ان کا ماضی قابلِ رشک نہیں ہے اور وہ ایک زمانے میں شریف فیملی کے اور بعد میں پرویز مشرف کے حلقہ دوستی میں رہے ہیں لیکن وہ ہزاروں بچے اور عورتیں اور ہزاروں عام شہری، کیا وہ بھی کینیڈا سے آئے ہیں؟ اور کیا ان کا ماضی بھی غیر شفاف ہے؟ کیا پورے پاکستان کی اشرافیہ کے پاس اُس عورت کا سامنا کرنے کی جرأت ہے جس نے یہ کہہ کر اُن کے منہ پر طمانچہ مارا ہے کہ یہاں دھرنے میں سردی ہے تو ہمارے گھروں میں کون سی گیس اور بجلی ہمارا انتظار کر رہی ہے !   عربی کا محاورہ ہے اُنْظُرْ اِلیٰ مَا قاَلَ وَ لَا تَنظُر اِلٰی مَنْ قَالَ ۔ یہ نہ دیکھو کہ کہنے والا کون ہے، یہ دیکھو کہ کیا کہا جا رہا ہے؟ اللہ کے بندو ! طاہر القادری کی نقل جنگل میں ایک درخت سے دوسرے درخت پر پھدکنے والے جانور کی طرح لگانے سے پہلے اُن باتوں کا تو ذکر کرو جو اس نے کہی ہیں۔ دھرنے کے شرکا ایک ہ...