اشاعتیں
دسمبر, 2012 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں
کالم
تھانہ اور مُرغیوں کی فِیڈ
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
نجم حسین سید پنجابی زبان کے مانے ہوئے ادیب ہیں۔ پنجابی ادب کی تنقید پر ان کی مشہور کتابRECURRENT PATTERNS IN PANJABI POETRY.بیرون ملک کئی یونیورسٹیوں میں شامل نصاب ہے۔ 27 کتابوں کے مصنف نجم حسین سید سول سروس میں تھے۔ کئی اونچے مناصب پر فائز رہے۔ سرکاری گاڑی استعمال نہیں کرتے تھے اور دفتر آنے جانے کے لیے ویگن یا بس سے سفر کرتے تھے۔ پنجاب یونیورسٹی میں پنجابی ادب کا شعبہ 1971ء میں آغاز ہوا۔ اس وقت علامہ علائو الدین صدیقی وائس چانسلر تھے۔ 1973ء میں نجم حسین سید صاحب کو بطور صدر شعبہ لایا گیا۔ وہ سول سروس کا تزک و احتشام چھوڑ کر تین سال یونیورسٹی میں رہے اور شعبے کی بنیادیں مضبوط کیں۔ شاہ صاحب چونکہ خارج از وزن شاعری نہیں کرتے اور جینوئن شاعر اور ڈرامہ نگار ہیں اس لیے الیکٹرانک میڈیا پر چھائے ہوئے ’’بلند قامت‘‘ ارباب اختیار کو ان کا علم ہی نہیں! نجم صاحب کے لکھے ہوئے ایک ڈرامے میں ایک منظر یوں ہے کہ گائوں کی ایک عورت کو ظالم جاگیردار تھانے بھجوا دیتا ہے تاکہ اس کا دماغ درست کیا جا سکے۔ تھانے میں وہ پریشان حال ننگے سر بیٹھی ہے کہ ایک مولانا صاحب کا گزر ہوتا ہے، اسے برہنہ سر دیکھ کر حضرت ک...
چیونٹی کی کھال
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
بشیر بلور اور ان کے ساتھ آٹھ افراد کو شہید کر دیا گیا، درجنوں زخمی ہوئے، تین زخمی موت و حیات کی کشمکش میں ہیں، بارود ایک بار پھر جیت گیا۔ دلیل ایک مرتبہ پھر ہار گئی ؎ صحنِ گلشن میں بہرِ مشتاقاں ہر روش کھِنچ گئی کماں کی طرح اس کالم نگار نے کئی مواقع پر اے این پی کی پالیسیوں سے اختلاف کیا ہے۔ بعض اوقات شدید اختلاف۔ لیکن طاقت کے ظالمانہ استعمال کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ انسانی جان لینے کا حق اس دنیا کے خالق نے کسی کو نہیں دیا۔ کسی فرد یا گروہ کو عدالتیں لگانے اور لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کا کوئی اختیار نہیں۔ آج نہیں تو کل حساب دینا ہوگا ؎ کھڑے ہوں گے نگوں سر قُطب اور ابدال سارے کھرے کھوٹے الگ ہو جائیں گے اعمال سارے دہشت گردی کا کوئی مذہب ہے نہ نظریہ۔ آخر اس بھیڑیے کا نظریہ یا مذہب ہو بھی کیا سکتا ہے جو دلیل کا جواب پنجے سے دے۔ اس نے جب میمنے سے کہا کہ تم پانی گدلا کر رہے ہو اور میمنے نے دلیل دی کہ پانی تو اونچائی سے نشیب کی طرف بہہ رہا ہے، تم اونچائی پر کھڑے ہو اور میں نشیب میں ہوں تو اس دلیل کا جواب میمنے کو اپنی موت کی شکل میں ملا۔ جو حضرات اصرار کر رہے ہیں کہ دہشت گردوں سے ...
کلید
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
’’بُگارَخ‘‘ ایک ننھا منا پہاڑی گائوں ہے۔ فرانس کے جنوب مغربی حصے میں واقع اس گائوں کی کل آبادی دوسوافراد سے زیادہ نہیں۔ دسمبر کے آخر میں لوگوں نے اس گائوں کا رخ کرنا شروع کردیا۔ وسطی امریکہ کے قدیم کیلنڈر کے مطابق 21دسمبر 2012ء کے دن دنیا کا خاتمہ ہوجانا تھا۔ بہت سے لوگوں کا اس بات پر یقین تھا کہ بُگارَخ گائوں کے پہاڑوں میں اڑن طشتریوں پر آئی ہوئی دوسری دنیائوں کی مخلوق آباد ہے اور جب 21دسمبر کو دنیا ختم ہوگی تو یہ مخلوق اردگرد بسنے والے انسانوں کو کسی اور جہان میں لے جائے گی اور یوں کچھ لوگ تباہی سے بچ جائیں گے۔ گائوں کے میئر نے واویلا مچایا کہ ذرا سا گائوں ہزاروں لاکھوں لوگوں کو کیسے سنبھال سکتا ہے۔ بالآخر فرانس کی حکومت کو وہاں پولیس متعین کرنا پڑی جس نے باہر سے آنے والے لوگوں کو واپس بھیجنا شروع کردیا۔ 21دسمبر 2012ء کے دن قیامت آنے کی اس خبر نے جس پر کروڑوں افراد نے یقین کرلیا‘ صرف فرانس کے اس گائوں ہی میں افراتفری نہیں برپا کی، دنیا کے مختلف حصوں میں لوگوں نے اس ’’مصیبت ‘‘ سے عہدہ برآہونے کی خوب خوب تیاریاں کیں۔ روس میں ماچسیں، موم بتیاں، لالٹینیں اور خوراک کے ڈبے اس قدر خریدے گ...
خوش بختی
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
پاکستان کے مسلمانوں کی خوش بختی ہے کہ جب بھی ان کا سفینہ گرداب میں پھنستا ہے، پردۂ غیب سے کوئی ملاح ظہور پذیر ہوتا ہے اور انہیں نجات کے ساحل پر پہنچا دیتا ہے۔ اہل سیاست نے اس وقت تباہی اور بربادی کا جو بازار گرم کیا ہوا ہے اس سے وطن کے ہر خیرخواہ کا دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ جمہوریت میں عوام کے لیے کوئی خیر نہیں۔ یہ جو ہم نے کہا ہے کہ کوئی نہ کوئی نجات دہندہ پردۂ غیب سے آتا ہے اور ہمیں ساحل نجات پر لا پھینکتا ہے تو اس کی تصدیق ہماری تاریخ بھی کر رہی ہے۔ 1958ء میں ملک تباہی کے دہانے پر تھا۔ قدرت نے کرم کیا اور بلند قامت جنرل ایوب خان کا طویل دور اس قوم کے سر پر سایہ فگن کر دیا۔ دس سال تک ہم عوام اور عوام کے نمائندوں کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رہے۔ قدرت نے مزید کرم کیا اور الطاف گوہر جیسی ذہین و فطین نوکر شاہی نے ’’عشرۂ ترقی‘‘ جیسے تصورات دیے۔ خوشحالی کی اس قدر ریل پیل ہوئی کہ مشرقی پاکستان کے بپھرتے دریائوں میں ہچکولے کھاتی کشتیوں پر بھی DECADE OF DEVELOPMENT کے بینر لہرا رہے ہوتے تھے۔ اسی عرصۂ عافیت کے دوران قوم نے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو بھی انتخابات جیتنے ...
رہے دیکھتے اوروں کے عیب وہنر
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
مشرقی پاکستان کی الم ناک علیحدگی کو اکتالیس سال ہورہے ہیں۔ اس کے بعد پیدا ہونے والی نسل جوانی پار کرچکی ہے۔ دیکھے ہوئے دیار بھولنے لگے ہیں۔ یادوں پر وقت کی دھول جم رہی ہے۔ فضا میں مجید امجد کا لکھا ہئوا نوحہ آہستہ آہستہ بلند ہوتا ہے۔ کتنے تارے چمک چمک ڈوبے کتنے بادل برس برس گذرے وہ نہ پھر لوٹے مدّتیں بیتیں انہیں دیکھے ہوئے برس گذرے اب تو یاد ان کی دل میں آتی ہے جیسے بجلی بہ نبضِ خس گذرے دُور سے راہرو کے کانوں میں جس طرح نالہء جرس گذرے ابدی خامشی کی آندھی میں جیسے کوئی پرِ مگس گذرے سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے اس معاملے میں اپنا محاسبہ کیا ہے؟ کیا ہم نے کوئی سبق سیکھا ہے ؟ کیا ہم نے اپنے رویے پر نظرثانی کی ہے؟ سارے جواب نفی میں ہیں۔ اپنے آپ پر ظلم ڈھانے کی انتہا یہ ہے کہ ہمارا نعرہ اب بھی وہی ہے‘ ہمچوما دیگرے نیست ۔ ہے کوئی ہم سا ؟ ہم سا ہوتو سامنے آئے!آگے بڑھنے والی قومیں اپنی غلطیوں کی نشان دہی کرتی ہیں۔ پھر حکمت عملی وضع کرتی ہیں کہ آئندہ یہ غلطیاں دہرائی نہیں جائیں گی۔ ہمارا دین بھی یہی سکھاتا ہے کہ مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاتا۔ مگر ہم یہ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں ک...
علیحدگی کے اسباب
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
ہوا چلی،پتے گرے، ٹہنیوں پر بیٹھے ہوئے پرندوں نے گریہ کیا، اس بات پر کہ وہ بلبلیں اور کوئلیں جو مشرقی پاکستان کے آم اور جامن کے درختوں پر بیٹھ کر گیت گایا کرتی تھیں جدا ہو گئیں ،اور گریہ کیا اس بات پر کہ جب بھی سولہ دسمبر آتا ہے، ان روتے سسکتے پرندوں کو بھانت بھانت کی بولیاں سننا پڑتی ہیں۔ ’’دانشور‘‘ جنہیں مشرقی پاکستان کے مزاج اور مسائل کی الف بے بھی نہیں معلوم، عجیب و غریب تجزیے پیش کرتے ہیں ؎ کس کا یقین کیجیے، کس کا یقیں نہ کیجیے لائے ہیں بزمِ ناز سے یار خبر الگ الگ سب اسباب بیان کیے جاتے ہیں سوائے اپنی غلطیوں کے۔ غیر ملکی مداخلت کا ذکر بھی ہوتا ہے اور مشرقی پاکستانی سیاست دانوں کے ’’باغیانہ‘‘ انداز فکر کا بھی۔ نہیں ہوتا تو اس بات کا ذکر نہیں ہوتا کہ مرکز کیا کرتا رہا اور مغربی پاکستان کے سیاست دان اور پالیسی ساز کیا کرتے رہے؟ ؎ نہ روزنوں سے کسی نے جھانکا نہ ہم ہی مانے وگرنہ سرزد ہوئے تو ہوں گے گناہ سارے مشرقی پاکستانیوں کو پہلا دھچکا اس وقت لگا جب انہیں بتایا گیا کہ ملک کی قومی اور سرکاری زبان ایک ہی ہوگی اور و...
دسمبر کے زخم
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
سولہ دسمبر آتا ہے اور گزر جاتا ہے۔ زخم ہرے ہو جاتے ہیں۔ کم ہی ہیں یہاں جو ان زخموں کو دیکھ سکیں۔ ہوا چلتی ہے تو خون رسنے لگتا ہے۔ کبھی نہ بھرنے والے زخموں سے کسک اٹھتی ہے، کسک جو اندر تک درد کی لہر ابھار دیتی ہے۔ اُنیس کا سن تھا جب میں سبزہ و گل کے اس شہر میں اترا جس کے بارے میں جعفر طاہر نے کہا تھا ع ڈھکنی سے اک شہر ڈھکا اور ڈھاکہ جس کا نام 1967ء کا اکتوبر تھا۔ میں مرکزی حکومت پاکستان کے بین الصوبائی فیلوشپ پر ڈھاکہ یونیورسٹی سے اقتصادیات میں ایم اے کرنے کے لیے منتخب ہوا تھا۔ وہی ڈھاکہ یونیورسٹی جو بیس کی دہائی میں کلکتہ یونیورسٹی کے جواب میں بنی تو ہندو اسے طنز سے مکہ یونیورسٹی کہتے تھے۔ جس کے اسلامک ہسٹری اینڈ کلچر، کامرس، اکنامکس اور انگریزی ادب کے شعبے دنیا بھر میں معروف تھے۔ وہی ڈھاکہ یونیورسٹی جہاں مولوی تمیز الدین خان کی صاحبزادی پڑھاتی تھیں۔ وہی یونیورسٹی جہاں پڑھنے اور پڑھانے والوں نے ’’چھ نکات‘‘ پیش کیے تھے جو مشرقی اور مغربی پاکستان کے اتحاد کی واحد صورت تھی اور آخری صورت تھی۔ آخری اور واحد صورت… جو کم فہموں اور خود غرضوں کی ہاہاکار میں گم ہو گئی۔ بغیر جانے اور ب...
کیا محرومیوں کا شکار صرف سرائیکی پٹّی ہے؟
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
سرائیکی علاقہ خوش بخت ہے کہ اسے رئوف کلاسرا جیسا لائق صحافی میسر آیا۔ خوش بختی کے مظاہر سرائیکی پٹی کے حوالے سے اور بھی بہت ہیں۔ جتنے حکمران پاکستان کو بالعموم اور پنجاب کو بالخصوص یہاں سے ملے ہیں اتنے مغلیہ خاندان نے بھی ہندوستان کو نہیں عنایت کیے۔ ممتاز احمد خان دولتانہ، مشتاق احمد گورمانی، غلام مصطفی کھر، صادق قریشی، نواب عباسی، مخدوم سجاد قریشی، ذوالفقار کھوسہ، لطیف کھوسہ، دوست محمد کھوسہ، فاروق لغاری، بلخ شیر مزاری، عبدالحمید خان دستی، یوسف رضا گیلانی سب سرائیکی خطے سے ہیں۔ یہ تو خیر وہ اصحاب ہیں جو وزیراعظم، صدر ، وزیراعلیٰ یا گورنر رہے۔ ان کے علاوہ بااثر شخصیات بھی جو حکومتوں کو جوڑنے، توڑنے اور پالیسیاں مرتب یا تبدیل کرنے کے حوالے سے پیش منظر پر رہیں اور آج بھی ہیں، کم نہیں ہیں۔ اسحاق خاکوانی، جاوید ہاشمی، شاہ محمود قریشی، حنا ربانی کھر سب یہیں سے ہیں۔ سرائیکی وسیب کے علم بردار ڈیرہ اسماعیل خان کو بھی راجدھانی کا حصہ گردانتے ہیں۔ اس لحاظ سے سابق چیف منسٹر سرحد مفتی محمود مرحوم اور ان کے انتہائی متحرک اور بااثر سیاستدان فرزند مولانا فضل الرحمن بھی اسی کھاتے میں پڑتے ہیں ...
طوطا اور طوطے کا بیٹا
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
وہ جو کہتے ہیں کہ بڑے آدمیوں کے بارے میں لوگ مختلف اور متضاد آراء رکھتے ہیں تو اس تعریف کا اطلاق حسن نثار پر بھی ہوتا ہے۔ ان کے چاہنے والے بے شمار ہیں اور برا بھلا کہنے والوں کی بھی کمی نہیں! یو ٹیوب پر ’’عُشاق‘‘ نے کیا کیا مہربانیاں کی ہوئی ہیں! یوں بھی عربی میں کہتے ہیں کہ مَن صَنَّفَ قَدِ استَہدَفَ۔ جس نے بھی نیا راستہ نکالا، تنقید کا ہدف بنا۔ مجھے بھی ان سے کچھ معاملات میں اختلاف ہے۔ مثلاً ان دنوں ان کا میلان کچھ کچھ اس طرف ہے کہ کسی مذہبی رہنما کو بھی آزمایا جایا جائے اور اُسے ووٹ دیے جائیں۔ اس فقیر کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ علماء کا اصل کام دعوت و تدریس ہے اور حکومت کا محاسبہ کرنا ہے۔ حکومت میں آنے کے بعد جیسا کہ تجربے نے ثابت کیا ہے، علماء بے توقیر ہو جاتے ہیں اور کم فہم لوگ ذمہ داری دین پر ڈالتے ہیں۔ بہرحال میں کیا اور میرا اختلاف کیا۔ ایک طالب علم ہوں اور حسن نثار سے اور تمام سینئرز سے، اختلافِ رائے سے قطعِ نظر، ہمیشہ سیکھنے کی کوشش کی ہے۔ بات دوسری طرف نکل گئی۔ حسن نثار کا تذکرہ اس لیے کیا جا رہا ہے کہ چند دن پہلے ان کے ٹی وی پروگرام ’’میری دنیا‘‘ کے حوالے سے خبر پڑھی جس می...
بصد احترام
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
بالآخر لال محمد سے معاملہ طے ہوا۔ ہم دونوں میں غیر تحریری معاہدہ ہوا کہ وہ میرے گھر کے کونے میں پانی بور کرے گا اور میں اسے اتنے روپے فی منٹ کے حساب سے ساتھ ساتھ ادائیگی کرتا جائوں گا۔ دارالحکومت کی جس آبادی میں، میں رہ رہا ہوں وہاں تو پانی کی کمی ہے ہی، اب تو آئی ایٹ جیسے وی آئی پی اور بیش بہا سیکٹروں میں بھی ہر شخص گھر میں پانی بور کرا رہا ہے۔ لال محمد شریف اور بھلے مانس شخص ہے۔ اس کے گیارہ بچے ہیں۔ خیبر پختونخوا سے اس کے والد مرحوم آ کر اسلام آباد کی اس بستی میں آباد ہوئے تھے۔ پانی بور کرانا پڑا تو یہ بھی معلوم ہوا کہ اس ’’گھریلو صنعت‘‘ میں کام کرنے والوں کی اکثریت ہمارے پختون بھائیوں کی ہے۔ لال محمد انہی میں سے ایک ماہر ہے۔ یہ لوگ گھر میں پشتو بولتے ہیں اور گھر سے باہر اردو۔ اردو ان کے روزگار کی زبان ہے۔ اسی کی مدد سے یہ محنت کش اپنے بچوں کا رزق حاصل کرتے ہیں اور صرف اسلام آباد ہی میں نہیں، کراچی سے لاہور تک اور گلگت سے ملتان تک ملک کی معیشت میں ہمارے پختون بھائی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کل جب روزنامہ ’’دنیا‘‘ میں یہ اندوہناک خبر پڑھی کہ پشاور کے جلسے میں اے ...
غیب سے کوئی سوار
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
ضمنی انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (نون) نے حریف جماعتوں کا صفایا کر دیا اور زبردست کامیابی حاصل کی لیکن ٹھہریے۔ کچھ اور تازہ خبریں بھی ہیں۔ ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل نے پاکستان کو بدعنوانی کے مقابلے میں زبردست نمبر دیے ہیں۔ سات ارب روپے روزانہ کی کرپشن ہو رہی ہے۔ اس حساب سے گزشتہ پانچ سال کے دوران 12600 ارب روپے کی کرپشن ہوئی ہے۔ ایک اور بین الاقوامی رپورٹ میں وطن عزیز کو ستانوے ممالک میں ساتواں بدعنوان ترین ملک قرار دیا گیا ہے۔ صرف چھ بدقسمت ملک پاکستان سے زیادہ کرپٹ ہیں جبکہ نوے ملک کرپشن میں پاکستان سے کوسوں پیچھے ہیں۔ اس سے دو روز پہلے پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس دوست محمد خان نے کہا ہے کہ سرکاری اداروں میں کرپشن انتہا کو پہنچ چکی ہے اور یہ صورت حال نیب، ایف آئی اے، پولیس اور کئی دیگر انسدادی محکموں کی موجودگی میں ہے۔ تین دن پہلے سپریم کورٹ کے حضور ملک کی اکلوتی سرکاری ائرلائن کے سینئر افسروں نے ’’فخر‘‘ کے ساتھ بتایا کہ ائر لائن میں صرف تین فیصد ملازمین میرٹ کی بنیاد پر بھرتی ہوئے ہیں۔ باقی ستانوے فیصد ’’کوٹہ سسٹم‘‘ کی بیساکھی پر چل کر آئے۔ انگریزوں نے ایک بڑا اچھا لفظ اپنی لغت...
ہم اور ہمارے کمی کمین
- لنک حاصل کریں
- X
- ای میل
- دیگر ایپس
میلبورن میں جہاں میری قیام گاہ ہے، وہاں سے پندرہ منٹ کے پیدل فاصلے پر محلے کی لائبریری ہے۔ محلے کو یہاں سبرب (SUBURB)کہا جاتا ہے۔ تقریباً ہر سبرب میں شہر کی لوکل گورنمنٹ نے ایک بڑی لائبریری قائم کررکھی ہے۔ کچھ سال قبل جب میں پہلی بار یہاں آیا اور لائبریری میں گیا تو کائونٹر والی خاتون سے درخواست کی کہ مجھے لائبریری کا ممبر بنایا جائے اور لائبریری کارڈ جاری کیا جائے۔ یہ بھی بتایا کہ میں آسٹریلوی شہری نہیں ہوں۔ اس نے پاسپورٹ مانگا جو اس وقت میرے پاس نہیں تھا۔ یہ سوچ کر کہ کل پاسپورٹ لاکر دکھائوں گا تو کارڈ بن جائے گا، کائونٹر سے پلٹنے لگا تو خاتون نے پوچھا کہ کیا تمہارے پاس کوئی ایسی چیز ہے جس سے شناخت ہوسکے؟ میں نے اسلام آباد کلب کا ممبر شپ کارڈ دکھایا۔ کہنے لگی بس یہی کافی ہے۔ پانچ منٹ میں کارڈ تیار ہوگیا۔ لائبریری کا ہر ممبر بیک وقت تیس کتابیں لے سکتا ہے جو چارہفتوں کے لئے دی جاتی ہیں۔ لائبریری میں تقریباًسولہ کمپیوٹر پڑے ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا کہ میں ہرروز ایک سو بیس منٹ یعنی دوگھنٹے انٹرنیٹ مفت استعمال کرسکتا ہوں۔ سب سے زیادہ حیرت کتابوں کے اجرا پر ہوئی۔ ہرممبر پر مکمل اعتماد کیا جات...