اشاعتیں

نومبر, 2012 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

بادشاہ‘ لڑکا اور پبلک اکائونٹس کمیٹی

بادشاہ کو خوفناک مرض لاحق تھا۔ بچنے کی امید کم ہی تھی۔ حاذق حکما کا پورا گروہ سر جوڑ کر بیٹھا۔ آج کل کے زمانے میں اسے ڈاکٹروں کا بورڈ کہا جاتا ہے۔ متفقہ رائے یہ تھی کہ جس شخص میں چند خاص صفات ہوں‘ اس کے جگر سے دوا بنائی جائے۔ اس کے علاوہ اور کوئی علاج کارگر نہ ہوگا۔ وزیراعظم کو وہ صفات بتائی گئیں۔ جاسوس سلطنت کے اطراف و اکناف میں پھیل گئے۔ ایک غریب کسان کے بیٹے میں یہ خاص صفات موجود پائی گئیں۔ اسے پکڑ کر لے آئے۔ بادشاہ نے لاکھوں روپے ماں باپ کو دیے تو وہ خاموش ہو گئے۔ گویا رضامندی کا اظہار کر دیا۔ قاضی نے ’’مفاد عامہ‘‘ کے پیش نظر فتویٰ دیا کہ سلطنت کی بقا اور لوگوں کی فلاح کے لیے ایک شخص کی قربانی جائز ہے۔ جلاد لڑکے کو قتل کرنے لگا تو لڑکے نے آسمان کی طرف دیکھا اور ہنس پڑا۔ بادشاہ نے جلاد کو روک دیا اور لڑکے سے پوچھا کہ تلوار تمہاری شہ رگ پر پڑنے والی ہے اور تم ہنس رہے ہو۔ آخر کیوں؟ لڑکے نے جواب دیا کہ بچے کے ناز اس کے ماں باپ اٹھاتے ہیں۔ وہ میرے قتل پر دولت کی خاطر خاموش ہو گئے ہیں۔ مقدمہ قاضی کی عدالت میں لے جایا جاتا ہے۔ قاضی نے پہلے ہی میرے قتل کو جائز قرار دے دیا ہے۔ انصاف‘ با...

1870 سے لے کر اب تک… (2)

سرسید احمد خان نے 1870ء میں جس برصغیر کا رونا رویا تھا آج کے پاکستان کی حالت اس سے کئی گنا بدتر ہے۔ اس حقیقت کا ادراک اگر نہیں ہے تو مینڈک کو نہیں ہے لیکن مچھلی خوب جانتی ہے کہ ایسا ہی ہے۔ کنوئیں کی تنگی کا احساس اسی کو ہو سکتا ہے جس نے دریا دیکھا ہوا ہو۔ جو لوگ بیرون ملک زندگی کے کچھ ماہ و سال گزار کر واپس آتے ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ ہم کتنے پانی میں ہیں۔ یورپ، کینیڈا، امریکہ اور جاپان کا تو ذکر ہی کیا، پاکستان‘ متحدہ عرب امارات، ترکی اور ملائیشیا سے بھی کم از کم سو سال پیچھے ہے۔ سرسید نے اس وقت کے ہندوستانیوں کو وحشی جانور کہا تھا، تو آخر وہ کون سی خصوصیات تھیں جنہوں نے ’’لندن کے مسافر‘‘ کو یہ لقب دینے پر مجبور کیا تھا؟ وحشی جانور میں کم از کم تین خصوصیات ایسی ہیں جو اسے انسانوں سے الگ کرتی ہیں۔ ایک طاقت کا فیصلہ کن ہونا، جو طاقتور ہوتا ہے وہ دوسرے کو چیر پھاڑ دیتا ہے۔ دوسری خصوصیت لاقانونیت ہے۔ جنگل میں کوئی قانون نہیں ہوتا اور وحشی جانور کسی قانون کے تابع نہیں ہوتا۔ تیسرے یہ کہ اس کا صفائی سے اور ہائی جین سے کوئی علاقہ نہیں ہوتا۔ آپ آج کے پاکستان کو کسی بھی زاویے سے دیکھ لیں...

1870 سے لے کر اب تک

دس اپریل 1869ء کی شام تھی جب ایک بحری جہاز بمبئی سے روانہ ہوا۔ اس کی منزل لندن تھی۔ اس میں دوسرے مسافروں کے علاوہ سرسید احمد خان بھی سوار تھے۔ سرسید احمد خان ایک سال اور پانچ مہینے لندن میں رہے اور 4 ستمبر 1870ء کو واپس روانہ ہوئے۔ اس سفر کی یادداشتیں سرسید نے ’’مسافرانِ لندن‘‘ کے عنوان سے لکھیں۔ میں نے یہ کتاب کئی سال پہلے کراچی سے خریدی اور بغیر پڑھے اپنے کتب خانے میں رکھ دی۔ 2005ء میں کچھ عرصہ انگلستان میں رہنے کا موقعہ ملا۔ واپس آ کر سب سے پہلے یہ کتاب پڑھی اور اب تک کئی بار پڑھ چکا ہوں۔ عربوں کا قول ہے کہ انسان کی بڑائی پر ایک چیز یہ بھی دلالت کرتی ہے کہ لوگ اس کے بارے میں مختلف اور متضاد آراء رکھتے ہیں۔ یہ سفرنامہ ہندوستان میں مضامین کی صورت میں چھپا تو کچھ لوگوں نے مشہور کر دیا کہ سرسید عیسائی ہو گئے ہیں۔ آج بھی بے شمار لوگ سرسید کو برصغیر کے مسلمانوں کا محسن سمجھتے ہیں اور ان کے مخالفین کی تعداد بھی کم نہیں! اس سفر کے دو مقاصد تھے۔ ان دنوں ولیم میور نے ’’لائف آف محمدؐ‘‘ کے عنوان سے چار جلدوں میں ایک کتاب لکھی جس میں بہت سے نامناسب اعتراضات کیے گئے۔ سرسید اس کا جواب لکھ...

کیا سمندر ھمیں قبول نہیں کرے گا؟؟؟

تصویر

غزہ… جرمِ ضعیفی

رابرٹ فسک معروف کالم نگار ہے جو اکثر و بیشتر اسرائیل کے خلاف اور فلسطینیوں کے حق میں لکھتا ہے اور بین الاقوامی شہرت کا حامل ہے۔ اس کا خیال ہے کہ ’’حماس‘‘ اسرائیل کے بچھائے ہوئے جال میں آ گیا ہے۔ اسرائیل نے مشہور حماس کمانڈر احمد جباری کو اس کی کار میں شہید کر دیا۔ جباری ’’القساّم بریگیڈ‘‘ کا کمانڈر تھا۔ اس کے بعد حماس نے راکٹوں سے جواب دیا جس سے اسرائیل نے بمباری کا جواز تلاش کر لیا۔ لیکن لگتا ہے رابرٹ فسک کو مغالطہ ہوا۔ اسرائیل نے جب احمد جباری پر حملہ کیا تو اس کے بعد حماس کے جواب کا انتظار نہیں کیا بلکہ اس کے فوراً بعد بیس ہوائی حملے کیے جس میں کئی شہری شہید ہو گئے۔ ان میں معصوم بچے بھی شامل تھے۔ جب شہریوں کی ہلاکت کا ذکر کیا جاتا ہے اور اسرائیل کے وحشیانہ حملوں کی مذمت کی جاتی ہے تو مغربی میڈیا یہ نکتہ ضرور اٹھاتا ہے کہ شام میں بشار الاسد کی فوجوں نے ہزاروں مسلمان شہریوں کو شہید کیا ہے۔ حلب کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی ہے۔ پاکستان میں مسلمان خود کش حملہ آوروں نے لاتعداد بچوں، عورتوں اور بے گناہ شہریوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے لیکن مسلمان ان پر احتجاج نہیں کرتے۔ اس نکتے پر...

پنجاب کراچی کے نقش قدم پر

 دوماہ پہلے کا واقعہ ہے۔ میں شام کی ریل کار سے لاہور سے اسلام آباد جارہا تھا۔ اچانک ملک مقصود (اصل نام مصلحتاً نہیں لکھا جارہا ) نظر آئے۔ ان کی نشست میری نشست کے بالکل پیچھے تھی۔ گاڑی چلی تو میں کچھ دیر کے لئے ان کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔ وہ امریکہ سے دوسال پہلے واپس آئے تھے۔ وہ وہاں کئی سال سے مقیم تھے اور کاروبار خوب چل رہا تھا۔ پھر انہوں نے واپس آنے کا فیصلہ کیا۔ میں نے پوچھا کہ اپنے ملک میں واپس آکر وہ کیسا محسوس کررہے ہیںاور کاروبار کیسا چل رہا ہے۔ ان کی داستان الم ناک تھی اور عبرت ناک بھی۔ انہوں نے مناسب سائز کی ایک فیکٹری لگائی تھی۔ کام چل پڑا تھا۔ ایک دن انہیں ٹیلی فون کال موصول ہوئی۔ انہیں ان کے بنک اکائونٹس کے بارے میں وہ معلومات دی گئیں جو یا تو خود ان کے پاس تھیں یا بنک کے پاس ہوسکتی تھیں۔ پھر ایک مخصوص رقم کا مطالبہ کیا گیا۔ چند روز کے بعد ان کے ملازموں نے فیکٹری کے گیٹ پر گرنیڈ بندھا ہوا دیکھا۔ میں نے ان سے اظہار ہمدردی کیا لیکن شک کی ایک لہر اٹھی اور میرے دماغ سے دل کی طرف سفر کرنے لگی۔ کہیں ملک صاحب مبالغہ آرائی تو نہیں کررہے؟ کہیں یہ داستان طرازی تو نہیں؟یہ...

بھنگڑے اور لڈی

گھنٹی بجی۔ دروازہ کھولا تو میرے بچپن کے لنگوٹیے مولوی حسین احمد اور چودھری منور کھڑے تھے۔ ہم تینوں پرائمری سکول سے کالج تک اکٹھے بیٹھے اور اکٹھے کھیلے تھے۔ رزق کے ذرائع قدرت نے تینوں کے مختلف رکھے۔ مولوی حسین احمد کاروبار کی طرف گیا اور خوب کامیاب ہوا۔ چودھری منور کالج میں استاد ہوا۔ لیکچردینے کا اسے بچپن ہی سے چسکا تھا۔ دماغ کھاتا رہتا تھا۔ میں صحافت کی منشی گیری کی طرف نکل آیا۔ گھر میں داخل ہونے کے لیے انہیں اجازت کی ضرورت نہیں تھی۔ مجھے ایک طرف دھکیلتے ہوئے اندر آگئے۔ گھر کا لائونج کافی وسیع ہے۔ میں بیٹھ گیا لیکن وہ کھڑے رہے۔ دونوں ایک دوسرے کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھ رہے تھے مولوی حسین احمد نے منور کی طرف دیکھا اور کہنے لگا ’’تو ہوجائے پھر؟‘‘ منور مسکرایااور جواب دیا۔’’ہاں۔ ہوجائے‘‘۔ آناً فاناً دونوں بھنگڑا ڈالنے لگے۔ یوں لگتا تھا سرمستی کے عالم میں ہیں۔ پائوں کی دھمک کے ساتھ ایک ہی آہنگ میں بازوئوں کو اوپر نیچے کرتے تھے۔ پھر دیکھتے دیکھتے بھنگڑا لڈی میں تبدیل ہوگیا۔ اب وہ بازوئوں کو آگے پیچھے کررہے تھے۔ اندر سے بچے بھی آگئے اور محظوظ ہونے لگے۔ کافی دیر کے بعد انہوں ...

ہجومِ مومنین

آپ مسلمانوں کی بدقسمتی کا اندازہ لگایئے کہ ”ملی یکجہتی کونسل“ کے زیراہتمام منعقدہ دو روزہ بین الاقوامی ”عالمی اتحاد امت کانفرنس“ میں عالم اسلام کو درپیش  مسائل میں سے کسی مسئلے پر غور نہیں کیا گیا۔ یوں لگتا ہے کہ ان معزز حضرات کو ان مسائل کا ادراک ہی نہ تھا! کانفرنس کے شرکا کو دیکھ کر کئی سوالات ذہن میں اٹھے۔ بین الاقوامی اتحاد کا بیڑہ اٹھانے والے اندرون ملک اتنا اتحاد بھی پیدا نہ کر سکے کہ کانفرنس میں دو دن کے لیے ہی تمام مکاتب فکر کے نمائندے مل کر بیٹھ جاتے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں اکثریت بریلوی مکتب فکر کے پیروکاروں کی ہے۔ اس مکتب فکر کی سب سے بڑی مذہبی اور سیاسی تنظیم سُنّی تحریک ہے جس کے سربراہ ثروت قادری صاحب ہیں۔ انہیں اس کانفرنس میں یا تو بلایا نہیں گیا یا انہوں نے شریک ہونا پسند نہ کیا۔ اسی طرح سُنّی اتحاد کونسل کے حاجی فضل کریم‘ جو مذہبی اور سیاسی سرگرمیوں میں بہت فعال ہیں‘ کانفرنس میں نہیں دیکھے گئے۔ مولانا سمیع الحق بھی غیر حاضر تھے۔ اہل تشیع میں سے مولانا ساجد نقوی موجود تھے لیکن علامہ موسوی اس کانفرنس میں شریک نہیں ہوئے۔ مشترکہ اعلامیہ کا سب سے بڑا نکتہ یہ ت...

وہ ماہِ کراچی

کراچی کو اگر کوئی منی پاکستان کہتا ہے تو وہ تاریخ سے نابلد ہے اور اگر کراچی کو کوئی منی برصغیر کا خطاب دیتا ہے تو وہ بھی کوئی خاص تیر نہیں مار رہا۔ سوال یہ ہے کہ برصغیر کے جن شہروں سے اُٹھ اُٹھ کر لوگ کراچی آ بسے وہ شہر بسانے والے کون تھے اور کہاں کہاں سے آئے تھے؟ میں اگر آج کراچی میں ہوں تو کل کہاں تھا؟ اور جہاں بھی تھا، کہاں سے آیا تھا؟ میں نے برّصغیر کے دمکتے شہروں کو صرف اپنا کلچر اپنی تہذیب اور اپنا مذہب نہیں دیا، اپنا خون بھی دیا۔ میں صرف عراق سے یا حجاز ہی سے نہیں، بلکہ چاروں اطراف سے آیا اور زمین کے اس خطّے کو جو دہلی اور پٹنہ کے درمیان واقع ہے، دنیا کا نامور ترین حصّہ بنا دیا۔ میں ترکستان سے چلا اور خراسان اور غزنی سے ہوتا ہوا دہلی آیا اور قطب مینار بنایا۔ میں سوداگروں کے ہاتھوں بکتا ہوا پہنچا اور بہار کو تاریخ میں پہلی بار الگ صوبہ بنایا۔ میں نے آگرہ کو دارالحکومت قرار دیا۔ میں نے ہندوستان کو پھلوں اور پھولوں سے لاد دیا۔ ڈھاکہ سے پشاور تک، آگرہ سے برہان پور تک، آگرہ سے جودھپور تک اور لاہور سے ملتان تک شاہراہیں بنوائیں اور زمین کا ایسا بندوبست کیا کہ آج بھی وہی رائج ہے۔ می...

شہنشاہی

ہمارے صنعت کار ملک چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں۔ کئی کروڑ روپے کا سرمایہ صرف کراچی سے ملائیشیا منتقل ہوا ہے۔ ملائیشیا نے سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے ایک خصوصی سکیم شروع کی ہے جس کا نام ”ملائیشیا مائی سیکنڈ ہوم“ ہے۔ اگر مطلوبہ مقدار میں سرمایہ منتقل کیا جائے تو دس سال کے لیے شہریت دے دی جاتی ہے۔ سینکڑوں سرمایہ کار کینیڈا چلے گئے ہیں اور ہزاروں قطار میں کھڑے ہیں۔ یہی حال ڈاکٹروں، پروفیسروں، انجینئروں اور چارٹرڈ اکاﺅنٹنٹس کا ہے۔ ان پیشوں سے تعلق رکھنے والے اس لیے بھی جا سکتے ہیں کہ یہی کام جو وہ اپنے ملک میں کر رہے تھے، بیرون ملک بھی جا کر جاری رکھ سکتے ہیں۔ لیکن ایک شعبہ ایسا ہے کہ اس سے وابستہ لوگ بیرون ملک نہیں جا سکتے۔ اگر چلے جائیں تو وہاں اپنے شعبے سے منسلک نہیں رہ سکتے۔ یہ ان حضرات کی مجبوری ہے۔ یہ شعبہ سیاست کا ہے۔ سیاست دان بیرون ملک ہجرت کرے تو وہاں جا کر سیاست نہیں کر سکتا۔ سیاست کا تعلق عوام سے ہوتا ہے اور عوام کا تعلق علاقے سے ہوتا ہے۔ حلقہ انتخاب اپنے ملک میں بھی تبدیل کرنا ایک خطرناک کام ہے۔ یہ ایک درخت کو جڑ سے اکھاڑ کر دوسری جگہ لگانے والا معاملہ ہے۔ مولانا فضل الرحمن ...

اگر رومنی میں عقل ہوتی

مٹ رومنی میں عقل ہوتی تو اسے یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ میں نے اسے پورا پلان بنا کر دیا تھا اور ایک ڈالر لیے بغیر فی سبیل اللہ یہ کام کیا تھا۔ افسوس! اس نے میری محنت پر پانی پھیر دیا۔ اس نے پہلی غلطی یہ کی کہ جن جن علاقوں میں اس کی مقبولیت کم تھی وہاں اس نے الیکشن کے دن توجہ نہیں دی۔ اسے چاہئے تھا کہ پولنگ سٹیشنوں کے باہر مسلح جتھے بٹھاتا اور ووٹروں کو گاڑیوں میں بھر بھر کر لاتا۔ یہ ووٹر کسی بھی ریاست سے لائے جا سکتے تھے۔ ضروری نہیں تھا کہ ان کے پاس اصلی شناختی کارڈ ہی ہوتے۔ مسلح حمایتی پولنگ سٹیشنوں کے اندر داخل ہو کر ہوائی فائرنگ کرتے اور دوسر وں کو عبرت دلانے کے لیے ایک آدھ بندہ پھڑکا بھی دیتے۔ یوں کسی کو جرات نہ ہوتی کہ ووٹ رومنی کو نہ ڈالے۔ اس کے بعد رومنی نے غلطی پر غلطی کی۔ اگر وہ ہار گیا تھا تو اسے اپنی شکست تسلیم نہیں کرنی چاہئے تھی۔ اس نے اوباما کو فاتح مان کر اپنے پاﺅں پر خود کلہاڑی ماری۔ وہ ری پبلکن پارٹی کا خفیہ اجلاس بلاتا اور وہاں پوری منصوبہ بندی کرتا۔ اس کے بعد وہ ایک پرہجوم پریس کانفرنس میں دھاندلی کا الزام لگاتا۔ یہ دھاندلی کا الزام اس لیے درست لگتا کہ حکومت ...

آوے کا آوا

مسافر کاﺅنٹر کے سامنے قطار باندھے کھڑے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں پاسپورٹ اور ٹکٹ تھے۔ ہر مسافر اپنی باری پر کاﺅنٹر والے کے پاس پہنچتا اور بورڈنگ کارڈ لیتا پھر سب نے دیکھا کہ ایک آدمی ہال میں داخل ہوا۔ وہ قطار میں کھڑا ہونے کے بجائے سیدھا کاﺅنٹر پر گیا۔ کاﺅنٹر والے نے اس شخص سے جو قطار میں تھا اور جس کی باری تھی، اپنی توجہ ہٹالی اور اس کا کام کرنے لگ گیا جو اب آیا تھا۔ اس شخص کا کام شاید پیچیدہ تھا۔ بہت دیر لگ گئی۔ قطار میں کھڑے شخص نے جو عربی روانی سے بول سکتا تھا، کاﺅنٹر والے سے احتجاج کیا۔ اس کا کہنا تھا کہ قطار میں کھڑے افراد کا حق مقدم ہے اور نئے آنے والے شخص کو قطار میں کھڑا ہونا چاہئے۔ نئے آنے والے شخص کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔ اس نے حقارت سے کہا.... ”اس لیے کہ میں یہاں کا ہوں اور تم غیر ملکی ہو۔“ قطار میں کھڑے ہونے والے نے ترکی بہ ترکی جواب دیا.... ”تو تم کیا آسمان سے اترے ہو؟ یا فرشتے ہو....؟“ ”مقامی“ شخص نے قطار میں کھڑے شخص کے ہاتھ سے اس کا پاسپورٹ لے لیا اور کہا ”میں دیکھتا ہوں تم کس طرح جہاز پر سوار ہوتے ہو!“۔ تب کاﺅنٹر والوں نے اس کی منت سماجت کی کہ حضور! درگزر کر دیجئے، یہ...

تُرکوں اور تاتاریوں کو اکٹھا کرنے سے پہلے

صورت حال دلچسپ ہے۔ قاضی حسین احمد نے ایک روزنامے میں مضمون لکھا ہے اور اعلان کیا ہے کہ ان کی ”ملی یکجہتی کونسل“ گیارہ نومبر کو اسلام آباد میں علما اور مشائخ کی بین الاقوامی کانفرنس منعقد کر رہی ہے۔ اس میں بڑی بڑی درگاہوں کے سجادہ نشین اور ان کے متعلقین شرکت کریں گے۔ قاضی صاحب کے بقول اس کنونشن کا مقصد یہ ہے کہ.... ”امت مسلمہ کے چہرے سے فرقہ بندی اور تعصبات کے داغ صاف کرکے امت کا ایک متحدہ صاف و شفاف چہرہ دنیا کے سامنے پیش کیا جا سکے۔“ اس کنونشن میں سعودی عرب، ایران، ترکی، مصر، افغانستان، تیونس، مراکش، ملائیشیا، انڈونیشیا، تاجکستان، فلسطین، کویت، اردن، لبنان، قطر، بوسنیا، سوڈان، نیپال، ہندوستان، بنگلہ دیش، شام اور برطانیہ سے ممتاز اسلامی شخصیات کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ جس روز قاضی صاحب کا یہ مضمون شائع ہوا ہے، ٹھیک اسی روز یعنی 6نومبر کو جمعیت علمائے پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر صاحبزادہ ابو الخیر محمد زبیر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن اتحاد کے خواہاں ہیں جبکہ سید منور حسن ”وحدت کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں“! ”ملی یک جہتی کونسل“ کا احیا چند ماہ پیشتر ہوا۔ قاضی حسین احمد اس ...