بادشاہ‘ لڑکا اور پبلک اکائونٹس کمیٹی
بادشاہ کو خوفناک مرض لاحق تھا۔ بچنے کی امید کم ہی تھی۔ حاذق حکما کا پورا گروہ سر جوڑ کر بیٹھا۔ آج کل کے زمانے میں اسے ڈاکٹروں کا بورڈ کہا جاتا ہے۔ متفقہ رائے یہ تھی کہ جس شخص میں چند خاص صفات ہوں‘ اس کے جگر سے دوا بنائی جائے۔ اس کے علاوہ اور کوئی علاج کارگر نہ ہوگا۔ وزیراعظم کو وہ صفات بتائی گئیں۔ جاسوس سلطنت کے اطراف و اکناف میں پھیل گئے۔ ایک غریب کسان کے بیٹے میں یہ خاص صفات موجود پائی گئیں۔ اسے پکڑ کر لے آئے۔ بادشاہ نے لاکھوں روپے ماں باپ کو دیے تو وہ خاموش ہو گئے۔ گویا رضامندی کا اظہار کر دیا۔ قاضی نے ’’مفاد عامہ‘‘ کے پیش نظر فتویٰ دیا کہ سلطنت کی بقا اور لوگوں کی فلاح کے لیے ایک شخص کی قربانی جائز ہے۔ جلاد لڑکے کو قتل کرنے لگا تو لڑکے نے آسمان کی طرف دیکھا اور ہنس پڑا۔ بادشاہ نے جلاد کو روک دیا اور لڑکے سے پوچھا کہ تلوار تمہاری شہ رگ پر پڑنے والی ہے اور تم ہنس رہے ہو۔ آخر کیوں؟ لڑکے نے جواب دیا کہ بچے کے ناز اس کے ماں باپ اٹھاتے ہیں۔ وہ میرے قتل پر دولت کی خاطر خاموش ہو گئے ہیں۔ مقدمہ قاضی کی عدالت میں لے جایا جاتا ہے۔ قاضی نے پہلے ہی میرے قتل کو جائز قرار دے دیا ہے۔ انصاف‘ با...