اشاعتیں

ستمبر, 2012 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

خواب بیچنے سے پہلے

بیس کروڑ عوام....جن میں سے چند مراعات یافتہ خاندانوں کو الگ کر دیں تو باقی سارے کے سارے مظلوموں کی زندگی گزار رہے ہیں۔ پولیس کسی بھی وقت ان سے کچھ بھی کر سکتی ہے۔ وہ جس دفتر میں جاتے ہیں ان کا کام نہیں ہوتا۔ سرکاری اہلکار ان کے ساتھ جو سلوک چاہیں کریں، کوئی پوچھنے والا نہیں۔ مہنگائی گلے گلے تک ہے۔ انتہا یہ ہے کہ انہیں کسی بھی وقت سڑکوں پر روک لیا جاتا ہے، دھوپ ہو یا طوفان، برف باری ہو یا بارش.... وہ ایک انچ آگے نہیں جا سکتے، اس لیے کہ روٹ لگا ہوا ہے۔ صدر یا وزیراعظم یا کسی اور حاکم کی سواری گزر رہی ہے۔ سواری کیا ہے، ایک ایک حاکم کے آگے پیچھے بیسیوں قیمتی گاڑیاں جو فراٹے سے گزرتی ہیں اور رکے ہوئے مجبور عوام کے چہروں پر غلامی کی دھول پھینکتی جاتی ہیں۔ افسوس! ان مظلوم لوگوں کی کسی کو پروا نہیں۔ پنڈی گھیب تلہ گنگ کے علاقے کا ایک محاورہ ہے: ما   پِنّے تے پتر گھوڑے گھِنّے۔ یعنی ماں بھیک مانگ رہی ہے اور بیٹا گھوڑوں کی خریداری میں مگن ہے۔ یہ محاورہ مجھے اُس وقت یاد آیا جب میں نے دیکھا کہ میرا ایک دوست ٹی وی سکرین پر مسلم یونین کا نقشہ پیش کر رہا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ اگر یورپ کی ی...

پہاڑوں سے اٹھے گی کوئی آندھی

تو کیا بلتستان کے معصوم عوام کو پی آئی اے کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا چاہئے؟ پی آئی اے جیسے بدعنوان اور نااہل ادارے پر تو دشمن کا انحصار بھی خدا کرے نہ ہو۔ پی آئی اے جس طرح شمالی علاقہ جات کے لوگوں کی تذلیل کر رہا ہے۔ ناکوں چنے چبوا رہا ہے‘ اس کی مثال افریقہ کے بدترین ملکوں کے علاوہ کہیں نہ ملے گی۔ آپ کا کیا خیال ہے اگر سکردو سے اسلام آباد آنا ہو تو سڑک کے ذریعے کتنے گھنٹے لگیں گے؟ دس؟ پندرہ؟ یا بیس؟ نہیں، پورے تیس اور بعض اوقات اس سے بھی زیادہ! بس کو چلاس کے قریب روکا جائے گا۔ بہت سی بسیں اور ویگنیں اکٹھی ہوں گی تو پھر پولیس کی حفاظت میں یہ قافلہ ان علاقوں کو پار کرے گا، جہاں قتل و غارت کا اندیشہ ہے۔ وہ سڑک جسے کبھی شاہراہ قراقرم کہا جاتا تھا، آج گڑھوں اور کھڈوں کا نام ہے۔ تیس پینتیس گھنٹوں کے انتہائی جانکاہ اور خطرناک سفر کے بعد آپ جب اسلام آباد پہنچیں گے تو آپ کے دل میں اپنے ہی ملک کے بارے میں کس طرح کے جذبات اور خیالات نشو و نما پا رہے ہوں گے؟ تیس پینتیس گھنٹوں کی اذیت اور جان کے خطرے سے بچنے کے لیے آپ پی آئی اے کا رخ کرتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ فلاں تاریخ، مثال کے طور پر، 23 س...

عمران خان ---- تاریخ کی مجبوری

رات آدھی ادھر اورآدھی ادھر ہوچکی تھی۔ دونوں لشکر سوئے ہوئے تھے۔ صبح گھمسان کا رن پڑنے والا تھا اور فیصلہ ہونا تھا کہ شمالی ہند شیرشاہ سوری کا ہوگا یا ہمایوں کا۔ پہریدار تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد اندھیرے میں گھورتے اور خبردار ہوشیار کا نعرہ لگاتے لیکن چست و چالاک پہریداروں کو معلوم نہ ہو سکا کہ نصف شب کے بعد کچھ سائے ہمایوں کے لشکر سے نکلے اور شیرشاہ سوری کی خوابیدہ سپاہ کے کناروں سے ہوتے ہوئے اس بڑے خیمے میں غائب ہوگئے جہاں شیرشاہ کے بااعتماد رفقا ان کا انتظار کررہے تھے۔ ابتدائی گفت و شنید کے بعد حتمی مذاکرات کیلئے ان ”سایوں“ کو شیرشاہ کے حضور پیش کیا گیا۔ شرائط طے ہوئیں، عہد وپیمان ہوئے اور ”سائے“ صبح کاذب سے پہلے اپنے لشکر میں واپس آگئے۔ وفاداریاں بدلنا اور گھوڑوں کی تجارت برصغیر کے خون میں رچی ہوئی ہے۔ ہمایوں کے بھائیوں نے جتنی دفعہ اس کا ساتھ چھوڑا اور جتنی دفعہ تعلقات کی تجدید کی، تاریخ کا وہ سبق ہے جو آج بھی یادرکھنا چاہیے۔ شاہ جہاں کے بیٹوں نے ایک دوسرے کو تباہ کرنے کے پانچ سالہ عمل کا آغاز کیا تو فلور کراسنگ اس پورے زمانے میں مسلسل جاری رہی لیکن وفا داریاں بدلنے والے ہمیشہ خوش ...

ایک خفیہ اجلاس کی روداد

یہ خفیہ اجلاس امریکہ کے ایک نامعلوم مقام پر منعقد ہوا۔ اس میں گستاخانہ فلم بنانے والے تینوں افراد مصنف، ڈائریکٹر اور پروڈیوسر شریک ہوئے۔ مبصر کے طورپر ایک بھارتی اور ایک اسرائیلی نمائندہ بھی موجود تھا۔ وہ مصری قبطی بھی شریک تھا‘ جس نے فلم کا عربی میں ترجمہ کیا تھا۔ بائیس ستمبر کو ہونے والے اس خفیہ اجلاس کا انعقاد اس قدر احتیاط سے کیا گیا تھا کہ میڈیا کو ہواتک نہ لگنے دی گئی ۔ کارروائی شروع ہوئی۔ سب سے پہلے گستاخانہ فلم کا پروڈیوسر کھڑا ہوا۔ اس کی آواز میں ارتعاش تھا۔ لیکن تھوڑی ہی دیر میں وہ خوداعتمادی سے بھرپور تقریر کررہا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا ”حضرات ! ہم نے یہ فلم بناکر بہت بڑا خطرہ مول لیا۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ مسلمان جہاں بھی ہوں اور جیسے بھی ہوں۔ اپنے پیغمبر کی توہین نہیں برداشت کرسکتے۔ اس معاملے میں جدید مسلمان، دقیانوسی مسلمان، گنہگار مسلمان اور عابد وزاہد مسلمان سب برابر ہیں۔ یہ ان کی دکھتی رگ ہے۔“ ابھی اس نے اتنا ہی کہا تھا کہ فلم کے مصنف نے اسے ٹوکا ”بات مختصر کیجئے، یہ بتائیے کہ خطرہ کون سا تھا جو ہم نے مول لیا۔“ ”میں اسی طرف آرہا تھا۔“ پروڈیوسر نے سلسلہ¿ کلام دوب...

زینب

میں سکردو میں ہوں اور اپنے پڑھنے والوں کو بتانا چاہتا تھا کہ دیوسائی میدان کی شاہراہ کے ساتھ حکومت نے کیا سلوک کیا ہے۔ دیوسائی دنیا کا بلند ترین ہموار میدان ہے اور اس میں شبہ نہیں کہ چودہ ہزار فٹ بلند ،اتنا بڑا ،میدان دنیا میں اور کہیں نہیں، لیکن جو ”شاہراہ“ سکردو سے دیوسائی جا رہی ہے، وہ اتنی ہولناک ہے کہ پتھر کے زمانے کی سڑکیں بہتر ہوتی ہوں گی۔ کوئی اور ملک ہوتا تو دو رویہ عالی شان شاہراہ ہوتی اور ریل کار بھی چوٹی تک جا رہی ہوتی۔ چین نے تبت میں ٹرین پہنچا دی ہے جو کئی گنا زیادہ مشکل بلندی ہے۔ دنیا بھر سے سیاح اس میدان کو دیکھنے آنا چاہتے ہیں لیکن ”سہولیات“ کا سن کر رخ بدل لیتے ہیں۔ میں اپنے پڑھنے والوں کو یہ بھی بتانا چاہتا تھا کہ دس ہزار فٹ کی بلندی پر واقع گاﺅں ”گوما“ سے تعلق رکھنے والا رشید پاکستانی فوج کا سپاہی ہے اور قابل فخر کارنامے سرانجام دے چکا ہے۔ وہ نوربخشی ہے اور پاکستان اس کی جان ہے اور ایمان بھی۔ یہ ملک ہر فرقے ہر مذہب ہر علاقے اور ہر زبان سے تعلق رکھنے والوں کو یکساں عزیز ہے اور یہ فوج بھی ان سب کی فوج ہے۔ اس فوج پر کسی صوبے‘ کسی فرقے اور کسی نسل کی اجارہ داری ہے نہ...

جب پتھر بولیں گے جب پانی بھڑکے گا

شفیق الرحمن نے ”دجلہ“ میں کہ اردو ادب کا مینار ہے، تین دریاﺅں کا ذکر کیا ہے۔ دجلہ، نیل اور ڈینیوب۔ اور سبحان اللہ کس جادو کے قلم سے ذکر کیا ہے۔ جہاں جہاں سے یہ دریا گزرتے ہیں، پڑھنے والے کو بھی وہیں وہیں ساتھ رکھا ہے۔ ہو سکتا ہے شفیق الرحمن ”مسجدِ قرطبہ“ سے انسپائر ہوئے ہوں۔ ع تیرے سمندر کی موج دجلہ و دینوب و نیل لیکن اپنے قیام بغداد کا ذکر انہوں نے بہرطور کرنا تھا۔ ”دجلہ“ نہ لکھتے تو اردو ادب کو کوئی اور شہکار دے جاتے۔ تین دریاﺅں کا تذکرہ مجھے یوں یاد آیا کہ دو دن پہلے میں سکردو ایئرپورٹ پر اتر کر شنگریلا جا رہا تھا۔ دائیں طرف دریائے سندھ ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ خوب چوڑا پاٹ، سکردو کی وادی میں سے خراماں خراماں گزرتا درمیان میں غائب ہو گیا۔ لیکن جب حوتو کا گاﺅں آیا اور شاہراہ کے کنارے پھیلے ہوئے پھلوں کے باغ نظروں کو بھانے لگے تو دریا پھر نمودار ہو گیا۔ شاہانہ تمکنت، وقار اور متانت۔ کاش شفیق الرحمن سندھ کے دریا پر بھی لکھتے۔ وجدان کہتا ہے کہ وہ دجلہ، ڈینیوب اور نیل کو پیچھے چھوڑ جاتے۔ لد ّاخ سے شروع ہونے والا دریائے سندھ پاکستان کے سارے علاقوں سے گزرتا بحیرہ عرب میں جا گرتا ہے۔ لیکن ...

صرف تین فیصلے

انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ مسلمان عوام کا احتجاج دیوار سے سر ٹکرانے کے مترادف ہے لیکن مسلم حکمران کبھی وہ نہیں کریں گے جو انہیں کرنا چاہئے۔ ان ”باغیرت“ حکمرانوں کا مفاد اسی میں ہے کہ تھوڑے تھوڑے عرصہ بعد کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ رونما ہو کہ مسلمان عوام سیخ پا ہو جائیں۔ احتجاج کریں، اپنی ہی املاک کی توڑ پھوڑ کریں، اپنے ہی لوگوں کو ماریں۔ یوں ان کی توجہ ان حکمرانوں کے طرز زندگی سے ہٹی رہے۔ ایسا طرز زندگی جس کا قانونی جواز ہے نہ شرعی اور نہ ہی اخلاقی۔ احتجاج کی اس لہر میں اگر امریکی مارے جاتے ہیں تو اسے بھی یہ حکمران اپنے فائدے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ وہ امریکیوں کو یہ باور کراتے ہیں کہ ان عوام کو صرف وہی قابو میں رکھ سکتے ہیں۔ جلوس.... جن کی قیادت ایسے لوگ کرتے ہیں جن میں سے بہت سوں کا ذریعئہ معاش ہی کسی کو نہیں معلوم! ہڑتالیں.... جن کی زد اپنی ہی معیشت پر پڑتی ہے۔ سرکاری دفاتر نذر آتش، سینکڑوں گرفتار، لانگ مارچ، شاہراہوں کی بندش، شٹر ڈاﺅن، ہوائی فائرنگ، لاٹھی چارج، کنٹینرز اور کاریں تباہ، ہلاک ہونے والے بھی مسلمان۔ زخمی ہونے والے بھی مسلمان، گرفتار ہونے والے بھی مسلمان۔ گرفتار کرنے ...

قبیلے کا فخر

انسان کو کبھی کبھار وہ کچھ ملتا ہے جس پر دوسرے رشک کرتے ہیں۔ پھر ایک ایسا وقت آ جاتا ہے کہ وہ اسے سنبھال نہیں سکتا یا وہ زیادہ کی تمنا کرتا ہے۔ بسا اوقات ایک شخص کو قبیلے کا فخر قرار دیا جاتا ہے۔ اس کے کسی کارنامے کی وجہ سے یا اس حکمت و دانش کی بنا پر جو اسے ودیعت ہوتی ہے۔ قبیلے کا سردار بھی اس کی تکریم کرتا ہے۔ اب یہ اس کے رویے پر منحصر ہے کہ یہ تکریم وہ کب تک برقرار رکھتا ہے۔ ظاہر ہے یہ ایسا مقام ہے جو متانت اور غیر جانبداری کا متقاضی ہے لیکن اگر وہ متحارب گروہوں میں سے کبھی کسی کا ساتھ دیتا ہے اور کبھی کسی پر تنقید کے نشتر چلاتا ہے تو اس کا بلند مقام اسی نسبت سے نیچے سرکتا آتا ہے اور قبیلہ اسے تو بہت ہی عجیب نظروں سے دیکھتا ہے جو اٹھتے بیٹھتے اپنے کارنامے کا ذکر کرے اور بلند مرتبے پر فائز ہونے کے باوجود یہ تاثر دے کہ اسے کچھ نہیں ملا۔ قبیلے میں سب مصلحت کیش نہیں ہوتے۔ کچھ سر پھرے بھی ہوتے ہیں اور کچھ دیدہ دلیری سے یہ بھی کہہ اٹھتے ہیں کہ جان دے بیٹھے تھے اک بار ہوس والے بھی پھر وہی مرحلہء سود و زیاں ہے کہ جو تھا تاریخ کے بوسیدہ اوراق الٹنے کی ضرورت نہیں۔ ہمارا اپن...

گستاخانہ فلم اور لائحہ عمل

تصویر

کسی مرد کو بلائو

ہلاک ہونے والوں کا ذرا بھی احساس ہوتا تو وفاقی وزراءاس ہولناک حادثے پر سیاسی بیان بازی نہ کرتے۔ غلط کہا ہے خاتون وزیر نے کہ آج ناظمین ہوتے تو وہ غیر قانونی کاروبار نہ کرنے دیتے۔ اور وزیر صاحب کا یہ مطالبہ دیکھئے کہ میڈیا غیر قانونی فیکٹریاں منظر عام پر لاتا رہے! تو پھر ریاست کہاں ہے؟ کیا وفاقی وزیر یہ اعتراف کرنا چاہتے ہیں کہ ریاستی ادارے ختم ہو چکے؟ خدا کی پناہ! آج اس ملک میں انسان سے زیادہ بے وقعت کوئی چیز نہیں! لوگ اس طرح مر رہے ہیں اور مارے جا رہے ہیں جیسے طاعون کی وبا میں چوہے مرتے ہیں یا جیسے گاجر مولی کاٹی جاتی ہیں۔ بدقسمتی دیکھئے کہ میاں نوازشریف سے لے کر الطاف حسین تک اور عمران خان سے لے کر چودھری شجاعت حسین اور مولانا فضل الرحمن تک، ہر کوئی افسوس کر رہا ہے لیکن یہ کوئی نہیں کہتا کہ مجرموں کو پکڑو۔ یہی وہ ذہنی ساخت ہے جس نے آج ہمیں ہلاکت کے گڑھے کے کنارے پر لاکھڑا کیا ہے۔ جب بھی بے گناہ لوگ موت کے گھاٹ اتاریں‘ صرف اس وجہ سے کہ اداروں نے اپنے فرائض سرانجام نہیں دیے تو جانی نقصان پر اظہار افسوس کر دیا جائے اور چیختے چلاتے پس ماندگان سے ہمدردی جتا دی جائے۔ اٹھارہ محکمے...

جنگل

قطر، متحدہ عرب امارات، بحرین، سعودی عرب اور مراکش میں خاندانی بادشاہتیں ہیں۔ بادشاہِ وقت کے اپنے کنبے کے علاوہ شہزادوں اور شہزادیوں کی ایک کثیر تعداد ہر وقت موجود ہوتی ہے۔ مناصب پر، خواہ ملک کے اندر ہوں یا باہر، شاہی خاندان کے افراد کا حق اولین ہے۔ آپ نے اخبارات سے اندازہ لگایا ہوگا کہ مکہ، مدینہ، طائف اور دوسرے اہم شہروں کے گورنر شاہی خاندان کے ارکان ہیں۔ تاہم اس وقت ہم ان مناصب کی بات کر رہے ہیں جو بیرون ملک ہوتے ہیں۔ ان بادشاہتوں کے جو سفارت خانے دوسرے ملکوں میں کام کرتے ہیں، وہاں تعیناتی کے لئے شاہی خاندان کے افراد کو ترجیح دی جاتی ہے یا پھر ان افراد کو فائز کیا جاتا ہے جو شاہی خاندان سے قربت رکھتے ہوں۔ بیرون ملک مناصب پر تعینات ہونے والے شاہی خاندانوں کے یہ افراد نہ صرف ان عہدوں کی اہلیت رکھتے ہیں بلکہ کچھ تو غیر معمولی صلاحیتوں کے بھی مالک ہوتے ہیں۔ ریاض الخطیب جس پائے کے سفارت کار تھے، آج بھی لوگوں کو یاد ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا سعودی سفیر پاکستان میں رہا ہو جو اوسط درجے سے کم  تھا۔ اسی طرح امریکہ میں جو شہزادہ، بندر بن سلطان، سعودی سفیر رہا، وہ پیشہ ور پائلٹ تو تھا ہ...

فحاشی کی تعریف

تصویر

بے حد احترام کے ساتھ

تصویر

ہم علماء کرام کے محتاج ہیں

تصویر

سرونٹ کوارٹر

تصویر

یوسف رضا گیلانی ، چندی گڑھ اور صمصام بخاری

تصویر

پاپوش اور دستار

تصویر

مرے قافلے میں لٹا دے اسے

تصویر

بسم اللہ

فساد نے ہماری خشکی اور ہماری تری کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ چوپایوں اور حشرات الارض میں سمجھوتہ ہو چکا ہے۔ انسان جو پہلے ہی اقلیت میں تھے، اپنی ہی آبادیوں میں بے یارو مددگار پڑے ہیں۔ جس طرح گرد کا پہاڑ ایک سمت سے اٹھتا ہے اور چاروں طرف چھا جاتا ہے، ظلم بھی اسی انداز سے چھا چکا ہے۔ آخر ظلم ہے کیا؟ ظلم کی تعریف ہی عقل مندوں نے یہ کی تھی.... وَضعُ شیِ فی غیر محلّہ------  یعنی کسی شے کا وہاں رکھ دینا جہاں اسے نہیں رکھنا چاہئے۔ وسائل جہاں خرچ ہونے چاہئیں وہاں نہیں، کہیں اور خرچ ہو رہے ہیں۔ نااہل، اہل کو کہنی مار کر پیچھے ہٹا رہا ہے۔ سعدی نے پورے اعتماد سے کہا تھا ”محال ہے کہ ہنرمند مر جائیں اور بے ہنر ان کی جگہ لے لیں“۔ لیکن گلستان اور بوستان جیسی سدابہار کتابوں کا مصنف آج قبر سے اٹھ سکتا تو سر پیٹ لیتا اور کہتا کہ زمین کا پیٹ، زمین کے سینے سے یقینا بہتر ہے۔ سمرقند اور بخارا لٹانے والا حافظ زیادہ حقیقت پسند تھا۔ سینکڑوں سال پہلے ہماری مملکت کا نقشہ کھینچ ڈالا۔  احمقوں کے لئے گلاب و قند کے شربت اور اہل دانش کے لئے خونِ جگر سے بھرے ساغر، اعلیٰ نسل کے گھوڑے پالان کی نوکوں سے...