خواب بیچنے سے پہلے
بیس کروڑ عوام....جن میں سے چند مراعات یافتہ خاندانوں کو الگ کر دیں تو باقی سارے کے سارے مظلوموں کی زندگی گزار رہے ہیں۔ پولیس کسی بھی وقت ان سے کچھ بھی کر سکتی ہے۔ وہ جس دفتر میں جاتے ہیں ان کا کام نہیں ہوتا۔ سرکاری اہلکار ان کے ساتھ جو سلوک چاہیں کریں، کوئی پوچھنے والا نہیں۔ مہنگائی گلے گلے تک ہے۔ انتہا یہ ہے کہ انہیں کسی بھی وقت سڑکوں پر روک لیا جاتا ہے، دھوپ ہو یا طوفان، برف باری ہو یا بارش.... وہ ایک انچ آگے نہیں جا سکتے، اس لیے کہ روٹ لگا ہوا ہے۔ صدر یا وزیراعظم یا کسی اور حاکم کی سواری گزر رہی ہے۔ سواری کیا ہے، ایک ایک حاکم کے آگے پیچھے بیسیوں قیمتی گاڑیاں جو فراٹے سے گزرتی ہیں اور رکے ہوئے مجبور عوام کے چہروں پر غلامی کی دھول پھینکتی جاتی ہیں۔ افسوس! ان مظلوم لوگوں کی کسی کو پروا نہیں۔ پنڈی گھیب تلہ گنگ کے علاقے کا ایک محاورہ ہے: ما پِنّے تے پتر گھوڑے گھِنّے۔ یعنی ماں بھیک مانگ رہی ہے اور بیٹا گھوڑوں کی خریداری میں مگن ہے۔ یہ محاورہ مجھے اُس وقت یاد آیا جب میں نے دیکھا کہ میرا ایک دوست ٹی وی سکرین پر مسلم یونین کا نقشہ پیش کر رہا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ اگر یورپ کی ی...