اشاعتیں

اگست, 2012 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

دو ارب یا پونے دو ارب

ایک آزاد بین الاقوامی ادارے کی تازہ ترین تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق   کرہء ارض پر مسلمانوں کی تعداد ایک ارب ساٹھ کروڑ ہو گئی ہے تاہم کچھ اور ذرائع اس تعداد سے اختلاف کرتے ہیں۔ ان کا موقف یہ ہے کہ اس وقت مسلمانوں کی اصل آبادی دو ارب سے تجاوز کر چکی ہے اور بھارت، چین، نائیجریا، تنزانیہ اور کچھ اور ممالک مسلمانوں کی تعداد اصل سے کم ظاہر کرتے ہیں! یہ بھی ممکن ہے کہ اپنی اپنی جگہ دونوں رپورٹیں درست ہوں اور وہ ادارہ جو مسلمانوں کی آبادی کو ایک ارب ساٹھ کروڑ بتا رہا ہے، خوف کا شکار ہو۔ دو ارب کی تعداد میں سے اگر آپ اُن مسلمانوں کو باہر نکال دیں جو سُنّی، شیعہ، دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، سلفی وغیرہ ہیں تو ہو سکتا ہے۔ دو ارب کے اعداد ایک ارب ساٹھ ستر کروڑ تک آ جائیں۔ اس لیے کہ یہ سارے گروہ ایک دوسرے کو مسلمان نہیں سمجھتے ان میں سے اکثر، ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنے سے بھی گریز کرتے ہیں اور اگر ان کا موقف تسلیم نہ کیا جائے تو تشدد پر بھی اُتر آ تے ہیں ۔ ان گروہوں کو نکال کر جو تعداد باقی بچتی ہے اُس میں سے تحریکِ طالبان پاکستان کے تازہ ترین موقف کی رُو سے اُن مسلمانوں کو بھی نکال...

سرطان

صوبائی اسمبلی کے رکن کی کالے شیشے والی گاڑی بند کرنے پر پولیس افسر کا تبادلہ کر دیا گیا۔ سول سروس کے نوجوان اے ایس پی سید شہزاد ندیم بخاری نے اپنے تبادلے کی تصدیق کی اور بتایا کہ 27 جولائی جمعہ کے روز رکن صوبائی اسمبلی کی کرولا کار کو، جس کے شیشے کالے تھے، انہوں نے قانون کےمطابق بند کر دیا۔ اے ایس پی نے کہا کہ قانون سب کیلئے برابر ہے۔ ہمارا کام قانون پر بلاتخصیص عمل درآمد کرانا ہے اور اسی بات کا ہم نے حلف اٹھایا ہے۔ اگر کسی کو کوئی استثنیٰ دینا ہے تو اس کےلئے قانون میں ترمیم کی جا سکتی ہے۔ ذرائع کے مطابق اے ایس پی شہزاد کا تبادلہ آئی جی پولیس پنجاب نے پہلے نولکھا سرکل لاہور کیا اور بعد میں اسے منسوخ کر کے جنڈ سرکل ضلع اٹک میں تعینات کیا گیا۔ یہ خبر چار دن پہلے تقریباً تمام اخبارات میں شائع ہوئی ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے سیاستدان، جن کی عمریں دشت سیاست میں سفر کرتے، خیمے گاڑتے اور طنابیں اکھاڑتے گزری ہیں، جب حیران ہو کر پوچھتے ہیں کہ عمران خان میں آخر نوجوانوں نے کیا دیکھا ہے تو ان کا مائنڈ سیٹ انہیں زمینی حقائق دیکھنے ہی نہیں دیتا۔ یہ صرف ایک خبر ہے لیکن اس سے اس سرطان کا انداز...

عطاءالحق قاسمی صاحب سے ۔ احترام کے ساتھ

ساحری، ساحری کا توڑ، استخارے اور بہت کچھ اور بھی الیکٹرانک میڈیا پر چھایا ہوا ہے۔ اس لیے کہ سارا مسئلہ ریٹنگ کا ہے اور یہ موضوعات ایسے ہیں جو ریٹنگ کو یوں اوپر اٹھاتے ہیں جیسے پٹرول آگ کو۔ اخباری صفحات میں بھی روحانی شخصیات کا ذکر زوروں پر ہے۔ زیادہ تذکرے پیش گوئیوں کے ہوتے ہیں۔  اس میں اچنبھے کی بات بھی نہیں۔ برصغیر میں یہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ فرانسیسی ڈاکٹر فرانکوئس برنئیر جو شاہ جہان اور اورنگ زیب کے درباروں میں بارہ سال رہا اور پورا برصغیر گھوما، لکھتا ہے کہ ہندوستان کے بادشاہ، امرا اور عوام ہر مسئلے میں نجومیوں سے رہنمائی لیتے ہیں۔ جنگ شروع کرتے وقت، سپہ سالار کی تعیناتی کرتے وقت، شادی کی تاریخ اور سفر کا وقت طے کرتے وقت، ہر موقع پر ”نیک ساعت“ کا دریافت کرنا ضروری ہے۔ یہاں تک کہ غلام خریدتے وقت اور نئی پوشاک پہنتے وقت بھی ساعت کا التزام کیا جاتا ہے۔ ہم جیسے ”محروم“  اور " گستاخ '' طالب علموں نے الیکٹرانک میڈیا اور اخباری کالموں میں روحانی شخصیات کےان روز افزوں تذکروں کو کبھی اہمیت نہیں دی۔ لیکن اور تو اور میرے محترم دوست اور بہت ہی سینئر کالم نگار جناب عطاالحق قاسم...