اشاعتیں

جولائی, 2012 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

رمضان اور پیشہ ور اینکر

سوار تو میں تھائی ایئر کے جہاز پر تھا مگر یاد پی آئی اے کو کر رہا تھا۔ ساری محبت کے باوجود اب کے میں نے آنکھیں ماتھے پر رکھ لی تھیں اور قومی ایئر لائن سے اجتناب کیا تھا ۔ جب بھی پی آئی اے کا جہاز بنکاک پہنچا، تاخیر سے پہنچا اور ہر دفعہ معلوم ہوا کہ آسٹریلیا جانے والا جہاز جا چکا ہے۔ یہ تماشہ کئی بار، کئی شہروں میں ہوا۔ میکسیکو جانا تھا لاہور سے پی آئی اے کے جہاز پر بیٹھا۔ حسب معمول تاخیر.... نیویارک پہنچ کر معلوم ہوا کہ میکسیکو والا جہاز اڑ چکا ہے۔ نیو یارک ایئر پورٹ پر پی آئی اے کی خاتون انچارج نخوت سے بتا رہی تھی کہ میں تو پاکستان کبھی گئی ہی نہیں! شب بسری کےلئے کمرہ تب ملا جب خالص ”پاکستانی“ سٹائل میں بات کی۔ اسی طرح ایک بار پی آئی اے سے لندن پہنچے۔ اتنی تاخیر سے کہ واشنگٹن جانےوالا جہاز پرواز کر چکا تھا۔ محسن خان اور شبیر ڈاہر جیسے منجھے ہوئے بیورو کریٹ ساتھ تھے۔ طویل مذاکرات کے بعد پی آئی اے نے رات گزارنے کےلئے جس ہوٹل کا انتظام کیا اسکے کمرے راجہ بازار کے منجی بستر والے کمروں سے ذرا ہی بہتر تھے۔ قومی اسمبلی کو جو تازہ اعداد و شمار مہیا کیے گئے ہیں انکی رُو سے گزشتہ تین ماہ کے د...

بچّہ جو خواجہ سرائوں کے گھر پیدا ہئوا

وہ تو بھلا ہو متقی اور متشرع حافظ سعید صاحب کا جنہوں نے یہ بات کہی۔ ورنہ ہم جیسے گنہگار تو کب سے شور مچا رہے تھے۔ بقول ناصرکاظمی....  رات پھر شہر میں بجلی سی چمکتی رہی ہم سوئے رہے وہ تو کہیے کہ بلا سر سے ٹلی ہم نفسو! شکر کرو  حافظ صاحب نے فرمایا ہے کہ برطانوی وزیراعظم چاربیڈ کے ایک پرانے گھر میں رہتا ہے جو چند مرلوں میں بنا ہوا ہے اور ایک چھوٹی سی گلی میں واقع ہے۔ یہ اسلامی طرز ہے اور یہ ایسے ہی ہے جیسے وہ سنتِ رسول پرعمل کر رہا ہے ! حافظ صاحب چار روز پہلے وی آئی پی کلچر کے خلاف لاہور ہائیکورٹ میں گئےہیں۔انہوں نے فریاد کی ہے کہ مراعات یافتہ طبقہ آئین اور سنتِ رسول .... دونوں کی خلاف ورزی کا مرتکب ہورہا ہے۔گورنر پنجاب سینکڑوں ایکڑ کے محل میں رہ رہا ہے۔کمشنر حضرات سو سو کنال کے ” مکانوں“ میں قیام پذیر ہیں۔ایوان صدر کا روز کا خرچ دس لاکھ روپے اور وزیراعظم کے دفتر کا خرچ بارہ لاکھ روپے ہے۔ حافظ صاحب نے مقدمہ کے دعویٰ میں یہ بھی بتایا ہے کہ صدر پاکستان گزشتہ ہفتے خصوصی جہاز میں لندن گئے ہیں۔وہاں ائر پورٹ پر جہاز کھڑا کرنے کا روز کا کرایہ چھ سو پاﺅنڈ یعنی تقریباً ایک...

شکست لیکن دسترخوان پر

باورچیوں کی فوج ظفر موج‘ ماش کی دال کیلئے الگ باورچی اور باقر خانیاں بنانے والا باورچی الگ‘ یہ زوال کی نشانیاں ہیں۔ یہ بھی غلط ہے کہ زوال اورنگزیب کی وفات یعنی 1707ءکے بعد شروع ہوا۔ زوال کی سب سے بڑی علامت یہ تھی کہ اورنگزیب عالم گیر پورے پچیس سال دکن میں رہا‘ مرہٹے اسکے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتے رہے اور وہ مسلمان ریاستوں کے ساتھ۔ کابل سے لے کر بنگال تک پورا شمال پچیس سال بغیر بادشاہ رہا اور شیرازہ بکھر گیا۔ یہ بھی نہیں کہ عروج کے زمانے میں حکمران فاقے کرتے تھے‘ نہیں‘ بالکل نہیں۔ کھاتے تھے اور شوق اور ذوق سے کھاتے تھے اور خوب کھاتے تھے لیکن فرق یہ تھا کہ خوردن برائے زیستین تھا۔ نہ کہ زیستن برائے خوردن۔ زوال کے زمانے میں یہ ہوا کہ زندہ رہنے کا مقصد ہی پیٹ پوجا ٹھہرا۔ اور آج بھی یہی حال ہے۔ دس سال کابل میں رہنے کے بعد بابر نے ہندوستان فتح کیا تو آگرہ کے مضافات میں اپنے اور اپنے ساتھیوں کیلئے جو بستی بسائی اس کا نام کابل رکھا۔ مدت بعد افغانستان سے خربوزہ آیا تو کاٹتے ہوئے روپڑا۔ اس لئے نہیں کہ خربوزے کےلئے مرا جا رہا تھا‘ اس لئے کہ کابل یاد آرہا تھا۔ بابر کی بہن گلبدن بیگم لکھتی ہے کہ ہما...

نہیں بندہ پرور نہیں

نہیں! بندہ پرور نہیں! اب عوام کو محض اس نعرے پر زندہ نہیں رکھا جا سکتا کہ پاکستان ستائیس رمضان کو وجود میں آیا تھا۔ دیوار پر کچھ اور لکھا ہے۔ غور سے پڑھیے بھرا نہ اطلس و مرمر سے پیٹ خلقت کا یہ بدنہاد اب آب و گیاہ مانگتی ہے اللہ کی سُنت کسی کےلئے نہیں تبدیل ہوتی۔ پیغمبروں کا سلسلہ آمنہ کے لال پر ختم ہو گیا اور ساتھ ہی معجزوں کا بھی۔ بہت سی مقدس ریاستیں  ، میسور کی سلطنتِ خداداد --- کچھ بھی نہ رہا‘ اس لئے کہ خالقِ کائنات حسب نسب نہیں دیکھتا۔ یومِ تاسیس نہیں دیکھتا، تریسٹھ سال کے سیاہ کارناموں کو دیکھتا ہے۔ اس ملک کے مظلوم عوام نے کون سی قربانی نہیں دی؟ ابھی تو سیاچن کی برف کے نیچے سے سارے شہیدوں کی میتیں بھی نہیں نکلیں۔ اب یہ عوام، شہیدوں کے یہ وارث، اگر افیونی نعروں اور تقدیس کے دعووں کو نہیں مانتے تو شکوہ کیسا؟ صوفیا کے استاد حضرت شیخ ابو سعید ابوالخیر --- جن کو پڑھے بغیر تصوّف کا دعویٰ کرنے والا حاطب اللیل ہی کہلا سکتا ہے فرما گئے ہیں گفتی کہ فلان ز یادِ ما خاموش است از بادہء عشقِ دیگران مدہوش است شرمت بادا، ہنوز خاکِ درِ تو از گرمئی خونِ دل من در جوش است تو تم نے یہ شکوہ...