اشاعتیں

جون, 2012 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

توہین عدالت-----سی ڈی اے سٹائل

خلق خدا زہر پی رہی ہے اور یہ سب کچھ سرکار کی ناک کے عین نیچے ہو رہا ہے۔ دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر....جی ہاں! وہی ترقیاتی ادارہ جس نے ”ماحولیات“ کے نام پر سفید ہاتھی پال رکھے ہیں۔ ایک دو ہاتھی نہیں، ہاتھیوں کا پورا غول! ان ہاتھیوں کا خرچ خلق خدا اٹھا رہی ہے....جی ہاں! وہی خلق خدا جو زہر پی رہی ہے ۔ تین ہفتے پہلے 5جون کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے مرکزی حکومت کے نمائندوں سے استفسار کیا.... ”کیا لوگوں کو زہر پلا پانی پلانا ضروری ہے؟“ ساتھ ہی عدالت عظمی نے اس حقیقت کی بھرپور مذمت کی کہ راولپنڈی کے لوگوں کو جس راول جھیل سے پانی مہیا کیا جا رہا ہے، اس جھیل کو اور اسکے پانی کو محفوظ رکھنے کیلئے کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا۔ جب عدالت عظمیٰ نے کابینہ ڈویژن کے ایڈیشنل سیکرٹری کو کہا کہ وہ تحریری بیان دے کہ جھیل کا پانی پینے کیلئے مناسب ہے تو اس افسر نے اعتراف کیا کہ غلاظت اور بول و براز جھیل میں باقاعدہ گر رہا ہے! اس نے کہا کہ غلاظت تین اطراف سے راول جھیل میں آ رہی ہے۔ ڈپلومیٹک اینکلیو، بری امام اور نور پور شاہاں! یہی تو غلط بیانی ہے جس کا حکومت کے عہدی...

کیا چیونٹی معاف کر دے گی ؟

ایرانی غلام نے خنجر سے تین وار کئے اور عمر فاروق اعظم گر پڑے۔ وہ تو صبح کی نماز پڑھانے کےلئے کھڑے ہوئے تھے۔ عبداللہ بن عباس کہتے ہیں میں عمر کے پاس تھا۔ اُن پر مسلسل غشی طاری رہی۔ جب دن نکل آیا تو انہیں ہوش آیا۔ انہوں نے سب سے پہلے پوچھا ”کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی؟“ میں نے کہا ہاں۔ بولے : جس نے نماز چھوڑی وہ مسلمان نہیں ہے۔ اسی حالت میں انہوں نے وہ سارے فیصلے کئے جو اُمت کےلئے ضروری تھے۔ چھ بہترین انسانوں کی کمیٹی بنائی جس نے  نئے خلیفہ کا انتخاب کرنا تھا اور اپنے فرزند کو خلیفہ نہ بنانے کی ہدایت کی۔ پھر وہ اپنے نفس کا محاسبہ فرمانے لگے۔ اب وہ وقت قریب تھا  جب انہیں خدا کے حضور حاضر ہو کر اعمال کا حساب دینا تھا۔ ایک عیادت کو آنے والے نے کہا ”خدا کی قسم! مجھے امید ہے کہ آگ آپ کے جسم کو کبھی مس نہ کرے گی“ آپ نے اس شخص کی طرف دیکھا، اُن کی آنکھیں آنسوئوں سے چھلک اُٹھیں۔ حاضرین کے دل بھر آئے۔ آپ نے اُس سے کہا ”اے شخص، اس معاملے میں تیرا علم بہت قلیل ہے۔ اگر میرے اختیار میں ہوتا تو میں زمین کے سارے خزانے آنے والی آزمائش کے خوف پر نچھاور کر دیتا۔“ لیکن کیا اس معاملے میں اُن کا عل...

ونڈ سکرین اور وائپر

گھمسان کا رن پڑ رہا تھا۔ ازبک بہادری سے لڑ رہے تھے۔ وہ بہادری جو تاریخ میں ہمیشہ ان کا نشانِ امتیاز رہی ہے۔ مغل بھی کچھ کم نہ تھے۔ فرق یہ تھا کہ مغلوں کی فوج اپنے وطن سے سینکڑوں میل دور تھی اور ازبک بلخ کا دفاع کر رہے تھے۔ بظاہر مغلوں کی فتح کے آثار نہیں تھے۔ اچانک مغل فوج کا فیلڈ کمانڈر شہزادہ اورنگ زیب گھوڑے سے اُترا اور گھمسان کی لڑائی کے بالکل درمیان ظہر کی نماز پڑھنے لگا۔ بلخ کا حکمران نذر محمد خان جو ازبکوں کی قیادت کر رہا تھا، یہ منظر دیکھ کر دل شکستہ ہو گیا۔ اورنگ زیب کی ہیبت اُسے لے ڈوبی۔ ”ایسے شخص سے لڑنا بیکار ہے۔ اسے کوئی شکست نہیں سے سکتا“ اُس نے سوچا اور پھر ازبک ہار گئے۔ شاہ جہان کی فوج نے بلخ پر قبضہ کر لیا۔ شاہ جہان کی ہوس ملک گیری اور اُسکے لشکر کی ”نمازی“ قیادت نے بلخ کے مسلمانوں کی زندگی کو جہنم بنا دیا۔ پورے علاقے کی کھیتیاں اور باغات تباہ و برباد ہو گئے۔ مغل قبضے کے پہلے سال صوبے کی پیداوار نصف رہ گئی۔ دوسرے سال اس سے بھی آدھی ہو گئی۔ تجارت ختم ہو گئی۔ افغانوں نے مغل افواج کےخلاف گوریلا جنگ شروع کر دی اور اقتصادی سرگرمیاں صفر ہو گئیں۔ ازبک کرنسی جسے ”...