اشاعتیں

مئی, 2012 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

گنوار کا وحشت کدہ

میں بنیادی طور پر ایک اجڈ اور جنگلی آدمی ہوں۔ گائوں کا گنوار پن جوں کا توں موجود ہے۔ ظفر اقبال نے شاید میرے لیے ہی کہا ہے : ظفر میں شہر میں آ تو گیا ہوں مری خصلت بیابانی رہے گی چنانچہ میں نے اپنا رہائشی جھونپڑا شہر سے باہر پہاڑ کے دامن میں بنایا ہے۔ مَری جاتے ہوئے،راستے میں ایک اکیلی ، اپنے آپ میں ڈوبی ہوئی، دم بخود ، ندی پڑتی ہے جس کے کنارے کھڑا یہ خانہءوحشت دور ہی سے نظر آتا ہے : میں دل کو اُس کی تغافل سرا سے لے آیا اور اپنے خانہءوحشت میں زیرِ دام رکھا دشت میں خیمہ زن ہونے کے ، گنوار پن کے علاوہ بھی اسباب ہیں۔ ایک یہ کہ دارالحکومت کے اندر رہنے کا مطلب یہ ہے کہ آپکے گھر کے ایک طرف کوئی ریٹائرڈ بیوروکریٹ رہ رہا ہے اور دوسری طرف بزنس مین ہے۔ ریٹائرڈ سرکاری ملازموں کے ساتھ رہنے سے بہتر ہے کہ آدمی کُچلا کھا لے کیونکہ مردہ فائلوں کے اصلی اور فرضی نوٹ سُن سُن کر مرنے سے  زہر بہتر ہے ۔  رہے بزنس مین تو ان کا کیا ہی کہنا ! بزنس مین سبزی فروش ہو یا جدہ سے لے کر دبئی تک پھیلے ہوئے لوہے کے کارخانوں کا مالک , ایک جیسا ہی ہوتا ہے اور چمڑی اور دَمڑی میں سے دمڑی ہی کا انتخاب ...

ڈاکو انکل

دوپہر کا وقت تھا اور ہُو کا عالم تھا۔ میں اپنی لائبریری میں بیٹھا کام کر رہا تھا۔ بچے برآمدے میں کھیل رہے تھے میری چھ سالہ نواسی کمرے میں داخل ہوئی ”نانا ابو، باہر ڈاکو انکل آپ کو بلا رہے ہیں“۔ میں ہنسا اور پھر کام میں مصروف ہو گیا۔ دس منٹ بعد وہ پھر آئی اور کہنے لگی ”نانا ابو ڈاکو انکل پورچ میں کھڑے آپ کا انتظار کر رہے ہیں“۔ اب کے اسے مذاق سمجھنا مشکل تھا۔ میں باہر نکلا تو دیکھا کہ پچیس تیس سال کا ایک نوجوان، سر پر ڈھاٹا باندھے، بندوق ہاتھ میں پکڑے کھڑا ہے، ڈھاٹا آنکھوں کے اوپر اس طرح آیا ہوا تھا کہ چہرہ پہچاننا مشکل تھا۔ خوف کی ایک لہر میرے جسم میں دوڑ گئی لیکن میں نے اپنے آپ کو مجتمع رکھا اور رعب دار آواز میں کہا کہ اب تم لوگ باقاعدہ گھر سے باہر بلا کر ڈاکے ڈالو گے؟ وہ ہنسا اس کے پیلے دانت اسے اور بھی خوفناک کر رہے تھے، میں ڈاکہ ڈالنے نہیں آیا۔ آپ اخبار میں لکھتے ہیں میں آپ سے کچھ باتیں کرنے آیا ہوں۔ کیا ہم بیٹھ سکتے ہیں؟ میں اسے لائبریری میں لے آیا، ٹھنڈا پانی پلایا اور اس سے پوچھا کہ کیا کہنا چاہتے ہو؟ اس نے بندوق کتابوں کی الماری کے ساتھ کھڑی کر دی اور اطمینان کے ساتھ کرسی سے ٹ...

بھوسے کے تنکے

اونٹنی پر دو تھیلے تھے‘ ایک میں ستو تھے‘ دوسرے میں کھجوریں۔ سامنے پانی سے بھرا مشکیزہ تھا اور پیچھے ایک برتن۔ مسلمانوں کی ایک جماعت ساتھ تھی‘ روزانہ صبح آپ برتن بیچ میں رکھ دیتے اور سب آپکے ساتھ کھانا کھاتے۔ پیشانی سے اوپر کا حصہ دھوپ میں چمک رہا تھا‘ سر پر ٹوپی تھی‘ نہ عمامہ‘ اونٹ کی پیٹھ پر اونی کمبل تھا جو قیام کی حالت میں بستر کا کام بھی دیتا تھا۔ خورجین میں کھجور کی چھال بھری تھی‘ اسے ضرورت کے وقت تکیہ بنا لیا جاتا تھا۔ نمدے کا بوسیدہ کُرتا پہنے تھے اس میں چودہ پیوند تھے اور پہلو سے پھٹا ہوا تھا۔ یہ تھی وہ حالت جس میں عمر فاروق اعظم بیت المقدس میں داخل ہوئے جہاں مخالفین ہتھیار ڈال چکے تھے اور اب وہ معاہدہ کرنے آئے تھے جس کی رو سے یہ عظیم الشان شہر مسلمانوں کی سلطنت میں شامل ہونا تھا۔ آپ نے مفتوح قوم کے سردار کو بلایا‘ اس کا نام جلومس تھا‘ ارشاد فرمایا‘ میرا کرتا دھو کر سی لاﺅ اور مجھے تھوڑی دیر کیلئے کوئی کپڑا یا قمیص دے دو۔ جلومس نے عرض کیا‘ ”آپ عرب کے بادشاہ ہیں‘ اس ملک میں آپ کا اونٹ پر جانا زیب نہیں دیتا‘ اگر آپ دوسرا لباس پہن لیں اور ترکی گھوڑے پر سوار ہو جائیں تو رومیوں ...

پانچ بیماریاں

وہ کئی سال ہمارے ملک میں سفیر رہا‘ سفیر تو اور بھی بہت سے ہیں لیکن وہ دانشور اور تجزیہ کار بھی ہے۔ قوموں کے عروج و زوال کا مطالعہ اس کا مشغلہ ہے۔ جب وہ گفتگو کرتا ہے اور دلائل دیتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ غبار چھٹ رہا ہے اور حقیقتیں ایک ایک کرکے سامنے آرہی ہیں۔ ماضی کے تجربوں کی بنیاد پر وہ مستقبل کی ایسی پیشگوئی کرتا ہے کہ آنیوالا زمانہ نظروں کے سامنے پھرنے لگتا ہے۔ میری اس سے ملاقات ایک تقریب میں ہوئی اور میں اسکے علم و دانش کا اسیر ہو کر رہ گیا۔ جس دن مجھے اطلاع ملی کہ طویل قیام کے بعد وہ یہاں سے واپس جا رہا ہے اور اپنے فرائض منصبی اب کسی اور ملک میں سرانجام دیگا تو میں نے اس سے درخواست کی کہ روانگی سے پہلے میرے ہاں آئے اور کچھ وقت گزارے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ ہمارے ملک میں تم نے اتنے سال گزارے‘ مشاہدہ کیا! طول و عرض میں گھومے پھرے‘ شہر قصبے اور قریے دیکھ‘ عوام اور خواص سے ملاقاتیں کیں‘ سیاست دان‘ نوکر شاہی‘ فوج سب کو قریب سے دیکھا‘ آخر تم کس نتیجے پر پہنچے ہو اور ہمارا مستقبل تمہیں کہاں اور کیسا نظر آرہا ہے؟ وہ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا‘ مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ م...

دجال

بھارت کی صدر تو وہ 2007ءمیں منتخب ہوئی لیکن اس کا سیاسی کیرئر طویل ہے اور چالیس سال پر محیط ہے۔ تین سال وہ راجستھان کی گورنر رہی۔ پانچ سال لوک سبھا کی ہائوس کمیٹی کی سربراہ رہی۔ دو سال راجیہ سبھا کی ڈپٹی چیئرمین رہی اور پورے اٹھارہ سال مہاراشٹر کی صوبائی حکومت میں مختلف محکموں کی وزیر رہی۔ ایم اے کی اور بعد میں قانون کی ڈگری حاصل کرنےوالی پرتیبھا پٹیل 2007ءکے صدارتی مقابلے میں کانگرس اور دوسری اتحادی پارٹیوں کی مشترکہ امیدوار تھی۔ اہم بات یہ تھی کہ بائیں بازو نے بھی اُسکی حمایت کی تھی۔ بھارتی سیاست میں دلچسپی رکھنے والوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ بایاں بازو وہاں کس قدر طاقتور ہے۔ پرتیبھا پٹیل صدارتی مقابلہ جیت گئی اور بھارت کی پہلی خاتون صدر بن گئی۔ 1951ءکے ایکٹ کی رو سے بھارت کے صدر کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی گذارنے کےلئے ایک سرکاری گھر بنوا سکتا ہے، اس ایکٹ میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ یہ گھر کہاں ہو گا۔ زیادہ تر بھارتی صدور نے دہلی ہی میں گھر بنوائے اور ریٹائرمنٹ کے بعد وہیں رہے۔ صدر پرتیبھا پٹیل نے اپنے آبائی صوبے مہاراشٹر کے شہر پونا میں سرکاری رہائش گاہ بنوا...