گنوار کا وحشت کدہ
میں بنیادی طور پر ایک اجڈ اور جنگلی آدمی ہوں۔ گائوں کا گنوار پن جوں کا توں موجود ہے۔ ظفر اقبال نے شاید میرے لیے ہی کہا ہے : ظفر میں شہر میں آ تو گیا ہوں مری خصلت بیابانی رہے گی چنانچہ میں نے اپنا رہائشی جھونپڑا شہر سے باہر پہاڑ کے دامن میں بنایا ہے۔ مَری جاتے ہوئے،راستے میں ایک اکیلی ، اپنے آپ میں ڈوبی ہوئی، دم بخود ، ندی پڑتی ہے جس کے کنارے کھڑا یہ خانہءوحشت دور ہی سے نظر آتا ہے : میں دل کو اُس کی تغافل سرا سے لے آیا اور اپنے خانہءوحشت میں زیرِ دام رکھا دشت میں خیمہ زن ہونے کے ، گنوار پن کے علاوہ بھی اسباب ہیں۔ ایک یہ کہ دارالحکومت کے اندر رہنے کا مطلب یہ ہے کہ آپکے گھر کے ایک طرف کوئی ریٹائرڈ بیوروکریٹ رہ رہا ہے اور دوسری طرف بزنس مین ہے۔ ریٹائرڈ سرکاری ملازموں کے ساتھ رہنے سے بہتر ہے کہ آدمی کُچلا کھا لے کیونکہ مردہ فائلوں کے اصلی اور فرضی نوٹ سُن سُن کر مرنے سے زہر بہتر ہے ۔ رہے بزنس مین تو ان کا کیا ہی کہنا ! بزنس مین سبزی فروش ہو یا جدہ سے لے کر دبئی تک پھیلے ہوئے لوہے کے کارخانوں کا مالک , ایک جیسا ہی ہوتا ہے اور چمڑی اور دَمڑی میں سے دمڑی ہی کا انتخاب ...