اشاعتیں

نومبر, 2011 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

فال اور اُلّو

اُس سے تعارف اُس وقت ہوا جب چھ سال پہلے میں کچھ عرصہ کیلئے انگلستان کے ایک خوبصورت قصبے گلو سٹر میں مقیم تھا۔پہلی دفعہ اسے مسجد میں دیکھا۔سفید فام انگریز! جسے ہم پاکستانی عام طور پر گورا کہتے ہیں۔وہ بہت انہماک سے نماز پڑھ رہا تھا۔ میں اسے ملا اور چند دنوں میں ہم دوست بن چکے تھے۔اکثر اسکی سفیدفام بیوی بھی مسجد میں اسکے ساتھ ہوتی۔اس نے بتایا کہ دونوں ایک ساتھ اسلام کی پناہ میں داخل ہوئے تھے۔ بیوی ڈاکٹر تھی اور وہ خود بزنس مین۔ ایک ماہ پہلے اس کا فون آیا کہ وہ دارالحکومت کے فلاں ہوٹل میں ٹھہرا ہوا ہے۔میں نے اپنے گھر کا پتہ بتایا اور فوراَ  آنے کی فرمائش کی لیکن اس کا اصرار تھا کہ میں اسکے ہوٹل آﺅں کیونکہ اس کے پاس وقت کم تھا۔ شام کو اس کی فلائٹ تھی۔ وہ گلوسٹر واپس جارہا تھا۔میں تین گھنٹے اسکے پاس بیٹھا ۔ ہم نے دنیا جہان کی باتیں کیں۔ جب میں نے پوچھا کہ وہ پاکستان کیوں آیا تو پہلے تو وہ طرح دے گیا لیکن جب میں نے اصرار کیا اور اس نے  لگی لپٹی رکھے بغیر وجہ بتائی تو سچی بات یہ ہے کہ میرے ہوش اُڑ گئے ۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ میں کیا کہوں۔ اس نے بتایا کہ ...

گٹھری اور تھیلا

کار نئی تھی اور چلانے والا جوان تھا۔اس کم عمری میں وہ کمپنی کا ایگزیکٹیو ڈائرکٹر تھا اور یہ قیمتی گاڑی اسے آج ہی کمپنی نے دی تھی۔ اسے چلاتے ہوئے وہ یوں محسوس کر رہا تھا جیسے آسمان پر اُڑ رہا ہو۔ ایک گلی سے گذرتے ہوئے اسے احتیاط کرنا پڑی۔ دائیں بائیں گاڑیاں کھڑی تھیں اور ان کے پیچھے سے کوئی کھیلتا ہئوا بچہ نکل کر سامنے آسکتا تھا۔ پھر بھی اس کی رفتار خاصی تیز تھی۔ اتنے میں زور کی آواز آئی اور اس کی گاڑی جیسے لرزی۔ وہ گاڑی روک کر باہر نکلا۔ ایک اینٹ اس کی گاڑی کو آ کر لگی تھی۔ دایاں دروازہ تقریباَ ٹوٹ چکا تھا۔ ایک سراسیمہ بچہ پاس ہی کھڑا تھا۔ اس نے اسے پکڑ کر جھنجھوڑا۔ ” کیا تمہیں معلوم ہے یہ گاڑی کتنی قیمتی ہے ؟ میں تم سے ایک ایک پائی وصول کرونگا۔ “ بچّہ کانپ رہا تھا۔  مجھے معاف کر دیجیے لیکن مجھے مجبوراَ آپ کی گاڑی کو اینٹ مارنا پڑی۔ سب لوگ اتنی تیز رفتاری سے جا رہے ہیں کہ کوئی رک ہی نہیں رہا تھا۔ شکر ہے آپکی گاڑی کو میری اینٹ لگی اور آپ رک گئے۔ میرا معذور بھائی وِیل چیئر سے گر گیا ہے اور میں اکیلا اسے اُٹھا کر ویل چیئر پر دوبارہ نہیں بٹھا سکتا۔ کیا آپ میری مدد کریں گے؟...

صرف دو قومیتیں

تلخ نوائی بزرگ پڑھا رہے تھے۔ وہ عالم بھی بہت بڑے تھے اور استاد بھی کمال کے تھے۔دور و نزدیک سے علم کے شائقین آتے اور فیض یاب ہوتے۔اُس دن وہ ذرا بے تکلّفی کے مُوڈ میں تھے۔ انہوں نے دستار اتار رکھی تھی۔ دیوار سے ٹیک لگا کر ٹانگیں لمبی کر لی تھیں۔شاگرد عبارت پڑھتا۔ وہ تشریح کرتے۔ تشریح کیا کرتے، علم اور حکمت کے موتی رولتے۔ اسی حالت میں انہوں نے دیکھا کہ ایک دراز قد وجیہ شخص مسجد میں داخل ہئوا۔اس کی شخصیت بارعب تھی۔لباس سے بہت بڑا عالم لگتا تھا۔سفید دستار،اس پرطُرّہ۔ بزرگ محتاط ہو گئے۔اتنا بڑا عالم غلطی بھی نکال سکتا ہے، اعتراض بھی کر سکتا ہے۔ انہوں نے اپنی پھیلی ہوئی ٹانگیں سمیٹ لیں۔ پگڑی سر پر رکھ لی اور زیادہ توجّہ سے پڑھانے لگ گئے۔ دراز قد بارعب شخص نے وضو کیا اور مسجد کے اندر آ گیا۔پڑھنے والے طالب علم خاموش ہو گئے۔قریب آیا تو پڑھانے والے بزرگ نے بہت احترام سے پوچھا  ” جناب کا اسم گرامی ؟ “ اس پر اُس نے اپنی بتیسی کی نمائش کی اور کہا ” مجھے آپ کی بات سمجھ میں نہیں آئی “ اب کے بزرگ نے پوچھا ” آپ کا نام کیا ہے ؟ “ اس پر اس نے پھر بتیسی کی نمائش کی اور بتایا ” جی م...

اذانیں دینے کا وقت

اس کے سر میں ایک سو آنکھیں ہیں مونہہ میں اڑتالیس دانت ہیں جسم میں تین دل ہیں۔ ناک کے اندر چھ چاقو ہیں اور ہر چاقو کا استعمال مختلف ہے۔ جسم کے دونوں طرف تین تین پَر ہیں۔ اسی جسم میں جدید ترین ایکس رے مشین نصب ہے۔ یہ کوئی سمندری بلا نہیں، نہ کسی عفریت کی داستان ہے۔ نہ جادو پری کا قصّہ ہے۔ یہ اُس مچھر کا ذکر ہے جو ہمارا خون چوستا ہے لیکن ابھی حیرت کے دروازے بند نہیں ہوئے۔ مچھر کے جسم میں ایک خاص دوا ہے جو انسانی بدن کے اُس حصّے کو سُن کر دیتی ہے جہاں یہ اپنے دانت گاڑتا ہے تاکہ جس کا خون چوسا جا رہا ہے اسے کم سے کم احساس ہو! اسکے اس ذرا سے جسم میں خون ٹیسٹ کرنے کی ایک جدید مشین بھی لگی ہوئی ہے تاکہ یہ انسانی خون کو ٹیسٹ کرے اور اپنی پسند کا خون پی سکے۔ پھر یہ خون پینے کے عمل کو تیز تر بھی کر سکتا ہے تا کہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ خون پی سکے۔  یہ آ ج مچھروں کی خصوصیات کے بارے میں ہم آپ کو کیوں بتانے بیٹھ گئے۔ اس کا جواب تھوڑی دیر میں عرض کرتے ہیں لیکن پہلے ایک ایسی خبر سنیے جو عبرت کا مرقّع ہے۔ ملک میں کرائے کے بجلی گھروں کے ضمن میں کرپشن کا جو بازار گرم ہے اور جس طرح بجلی ...