مگر اک بات جو دل میں ہے
یہ رباط تھا۔ مراکش کا خوبصورت خوابیدہ دارالحکومت۔ ہم کاسا بلانکا کے ہوائی اڈے پر اترے تھے۔ کاسا بلانکا جو مراکش کا نیویارک ہے۔ پرتگالی میں کاسا بلانکا کا مطلب سفید محل ہے۔ عرب اسے دارالبیضا کہتے ہیں۔ محل نما مکان کے ساتھ بہت بڑا لان تھا۔ لان کے درمیان ایک شخص آلتی پالتی مارے زمین پر بیٹھا گھاس سے جھاڑ جھنکار نکال رہا تھا۔ مناسب فاصلے پر ایک خاتون بیٹھی یہی کام کر رہی تھیں۔ یہ قاضی رضوان الحق تھے۔ مراکش میں پاکستان کے سفیر۔ خاتون ان کی بیگم تھیں۔ یہی ہمارے میزبان تھے۔ میرے یارِ دیرینہ قاضی عمران کے برادر خورد۔ قاضی رضوان تغلقوں کے دارالحکومت دیپالپور کے اس خاندان سے ہیں جسے ترکوں اور مغلوں نے قاضی مقرر کیا تھا۔ قاضی تو اب یہ لوگ نہیں رہے لیکن درویشی باقی ہے۔ قاضی عمران بھی بڑے بڑے عہدوں پر رہے مگر ہر رمضان کے آخری دس دن دیپالپور کی مسجد کے سخت فرش پر گزارتے تھے۔ میری بیگم بھی لان کی صفائی پر لگ گئیں اور میں آڈیٹر جنرل آف مراکش سے ملنے چلا گیا۔ ایک سال پہلے میکسیکو میں دنیا بھر کے ملکوں کے آڈیٹر جنرل اکٹھے ہوئے تھے۔ اپنے ملک کی ٹوٹی پھوٹی نمائندگی میں کر رہا تھا۔ وہیں ڈاکٹر احمد ا...