اشاعتیں

اگست, 2011 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

سفید چادرِ غم تھی

میں ہملٹن کے جزیرے میں ہوں۔  میلبورن سے اڑھائی ہزار کلو میٹر شمال کی طرف--- تین میل لمبا اور دو میل چوڑا یہ جزیرہ صرف اور صرف سیاحت کےلئے ہے اور گنتی کے چند لوگ یہاں مستقل رہائش پذیر ہیں۔ جزیروں کی ایک قطار ہے جو سمندر میں دور تک نظر آتی ہے۔ بادل نیلے پانیوں کو چُھو رہے ہیں اور جزیرے کی شفاف سڑکوں پر اُڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ آلودگی سے بچنے کےلئے کاریں چلانے کی اجازت نہیں۔ بجلی سے چلنے والی بگھیاں ہیں جو سیاح خود چلاتے ہیں۔ صفائی کا یہ عالم ہے کہ تنکا بھی کہیں نظر نہیں آتا۔ تنظیم، قانون کی حکمرانی اور شہریت کا شعور۔ ان  تین چیزوں نے اس جزیرے کو جنت کا ٹکڑا بنا رکھا ہے۔ دنیا بھر سے سیاح آ رہے ہیں۔ آسٹریلیا اربوں ڈالر کا سالانہ زرمبادلہ کما رہا ہے۔ جزیرے میں کوئی پولیس کا افسر، کوئی فوجی، کوئی داروغہ نہیں دکھائی دیتا۔ گورنر ہاوس ہے نہ وزیراعظم کےلئے کوئی مخصوص رہائش، نہ کسی کےلئے کوئی مفت کھاتہ ہے نہ کوئی وی آئی پی ہے اور سچ پوچھئے تو ہر شخص وی آئی پی ہے۔ دُھند، ساحل کی ریت، شفاف نیلگوں پانی، دلرُبا ہَوائیں، سکیورٹی اور دھیما پن، اس قدر کہ کسی شخص کا چیخنا تو درکنار، بلند آواز سے ب...

مگر مچھ

سامنے جھیل تھی درختوں میں گھری ہوئی۔ جھیل کے پار آسٹریلیا کی پارلیمنٹ کی عمارت تھی جس پر اس 223 سالہ پرانے ملک کا جھنڈا لہرا رہا تھا۔ بائیں طرف قومی لائبریری تھی۔ لائبریری کے بالکل ساتھ جھیل کے کنارے ارغوانی رنگ کے پیڑوں کی قطار تھی۔ منظر ایسا تھا کہ بس جان نکال کر ہتھیلی پر رکھ دیتا تھا۔ دارالحکومت کینبرا میں پہلی بار آمد پر جس اپارٹمنٹ میں ٹھہرا ہوا تھا، یہ جاں فزا منظر اُس کی کھڑکیوں سے نظر آ رہا تھا۔ کینبرا کےلئے جگہ کا انتخاب 1908ءمیں ہو گیا تھا۔ تعمیر کا کام 1913ءمیں شروع ہوا۔ پارلیمنٹ 1927ءمیں ”عارضی“ عمارت میں منتقل ہو گئی لیکن اسکے بعد ساٹھ سال تک کام ہوتا رہا۔ موجودہ پارلیمنٹ کی عمارت 1988ءمیں آباد ہوئی۔ کینبرا کے دوستوں نے جب پوچھا کہ پارلیمنٹ ہاﺅس کس وقت جانا پسند کرو گے تو جیسے میری چیخ ہی تو نکل گئی۔ کہاں میں اور کہاں آسٹریلیا کی پارلیمنٹ! مجھے اپنے ملک کی پارلیمنٹ کی عمارت یاد آ گئی۔ اُسکے اندر جانا تو دور کی بات ہے، تین تین میل تک پولیس یوں پھیلی ہوئی ہوتی ہے جیسے ایٹمی اثاثے یہیں رکھے ہیں۔ اس علاقے میں پائے جانےوالے پاکستانیوں کے گُردے، انتڑیاں، پھیپھڑے، جگر اور تلی ب...

گھوڑے کی کھال

آخر آپ اسے کیا کہیں گے؟  ناشائستگی ؟  ایک خاص مائنڈ سیٹ؟  ایک خاص ذہنی سطح ؟ وہی ذہنی سطح جو پٹواری اور تھانیدار سے اوپر نہیں اُٹھ سکتی  یا کوئی اور الفاظ جو اسے بیان کر سکیں؟  آخر آپ اسے کیا کہیں گے؟ جو کچھ قومی اسمبلی میں ہو رہا تھا اور جس طرح رحمن ملک نے بھرے ایوان میں وزیراعظم کو ٹوکا اور منع کیا، اُس سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟  خدا کی قسم! کوئی تعلیم یافتہ شخص، کوئی سنجیدہ اور متین پاکستانی، اُن لوگوں سے متاثر نہیں ہو سکتا جو منتخب ایوانوں میں بیٹھے ہیں، مستثنیات کی بات دوسری ہے لیکن وہ بہت کم ہیں، بہت ہی کم۔ کوئی سنجیدہ اور متین پاکستانی ان لوگوں سے متاثر کیا ہو گا، وہ انکے نزدیک سے بھی گزرنا پسند نہیں کرےگا۔ جو کچھ رحمن ملک نے وزیراعظم سے کہا، اُس سے یہ حقیقت دوپہر کے سورج کی طرح واضح ہو گئی ہے کہ یہ لوگ بہت ہی افسوسناک ذہنی سطح کے مالک ہیں!  یہ چار دن پہلے کا واقعہ ہے۔ قومی اسمبلی کا اجلاس جاری تھا۔ وزیر داخلہ رحمن ملک کراچی کی صورتحال پر تقریر کر رہے تھے۔ اس قصے کو فی الحال رہنے دیجئے کہ رحمن ملک کس قسم کے وزیر ہیں۔ اس میں تو کوئی شک نہی...

جرنیل‘ ملائشیا اور پاسپورٹ

ہے تو یہ بھی ریٹائرڈ جرنیل ۔۔ لیکن دوسروں سے الگ .... ازان کہ پیروی خلق گمرہی آرد نمی رویم براہی کہ کاروان رفتست اس نے کسی غیر ملکی تھنک ٹینک میں ملازمت اختیار کی نہ اپنا تھنک ٹینک بنایا اور نہ ہی اپنے آپ کو منظرعام پر لانے اور اپنی تشہیر کرنے کا سامان برپا کیا۔ بہت مدت پہلے مقتدرہ قومی زبان میں ایک بزرگ تھے۔ نواح اسلام آباد میں انکے مرغی خانے تھے۔ یہاں تک تو ٹھیک تھا لیکن حضرت کو تقاریب کی صدارت کا اتنا شوق تھا کہ مسمریزم سے لےکر مرغیاں پالنے تک جس موضوع پر بھی کوئی تقریب ہوتی تو صدارت ضائع نہ ہونے دیتے۔ جس جرنیل کا ہم ذکر کر رہے ہیں۔ وہ ان ریٹائرڈ معززین سے مختلف ہے جو ناشتہ اخبارات میں اپنی تصویر سے شروع کرتے ہیں۔ مردان میں پیدا ہونےوالے جنرل احسان الحق مسلح افواج کے بلند ترین منصب سے سبکدوش ہوئے تو متانت کےساتھ گوشہ سکوت میں چلے گئے لیکن گذشتہ ہفتے ایک انٹرویو میں پہلی بار گفتگو کی اور کچھ حساس غلط فہمیوں کا ازالہ کیا۔ ہم پاکستانی بنیادی طور پر جذباتی قوم ہیں۔ ہماری ذہنی خوراک کا زیادہ انحصار سنی سنائی باتوں پر ہے۔ دلیل اور ثبوت۔ جو مسل...

چیخیں ۔ لاشیں ۔ اور تیز ہَوا

ہَوا تیز چل رہی ہے۔ میلبورن شدید سردی کی آہنی گرفت میں ہے۔ 176 سال پہلے جب اس شہر کی بنیاد پڑی تو یہ ایک گائوں تھا۔ دور افتادہ گائوں، چند جھونپڑیوں کا مجموعہ۔ ایک سو چھہتّر سال کے عرصہ میں گروہِ کفار نے اس گائوں کو دنیا کے تین بہترین شہروں میں شامل کرا لیا۔ بہترین یونیورسٹیوں کے لحاظ سے یہ دنیا کے دس اولین شہروں میں ہے۔ ہَوا تیز چل رہی ہے۔ میرے گھر والے ”داستان“ ڈراما دیکھ رہے ہیں جو حال ہی میں کسی پاکستانی چینل پر چلا ہے۔ تقسیم کے وقت سکھوں نے مسلمانوں پر جو ظلم کئے، وہ اس میں دکھائے گئے ہیں۔ میلبورن کی اس چار دیواری میں سوگ برپا ہے۔ مسلمان لڑکی کو سکھوں نے پکڑ لیا ہے اور وہ ایک بچے کی ماں بن گئی ہے۔ ایسی ہزاروں مسلمان عورتیں مشرقی پنجاب میں رکھ لی گئیں۔ ہزاروں نے کنووں میں چھلانگیں لگا کر موت کو گلے سے لگا لیا۔ پاکستان کےلئے کتنی قربانیاں دی گئیں۔ لاکھوں لاشیں، ہزاروں عورتوں کا اغوا، کس لئے؟ تاکہ مسلمان ،ہندوئوں اور سکھوں کے ظلم سے بچ کر الگ رہ سکیں ۔ تاکہ انصاف مل سکے۔  تاکہ میرٹ کا بول بالا ہو۔ تاکہ مسلمانوں کے غریب بچوں کا ہندوئوں کے ہاتھوں استحصال نہ ہو۔ م...