اشاعتیں

جولائی, 2011 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

سفید لٹھّا اور کافور

جیسے لوڈشیڈنگ کافی نہیں تھی! جیسے سی این جی کےلئے میلوں لمبی قطاریں بے بس پاکستانیوں کو اذیت دینے کےلئے کم  تھیں۔ جیسے امن و امان کا لفظ اہل پاکستان کی ڈکشنری سے ختم ہو جانا کافی نہیں تھا۔ اب بتایا جا رہا ہے کہ ریلوے کی قبر تیار ہے ریلوے کے وزیر نے جنازے کے وقت کا تقریباً اعلان کر دیا ہے۔ لٹھا خریدنے کےلئے ہرکارہ بازار جا چکا ہے۔ کافور منگوا لیا گیا ہے۔ مولوی صاحب نے صفوں کی تعداد طاق رکھنے کی ہدایت جاری کر دی ہے۔ قیام پاکستان کے وقت ایک ہزار ریلوے انجن ہمارے حصے میں آئے تھے۔ آج صرف پانچ سو بیس ہیں۔ ان میں سے بھی تین سو سے کم ایسے ہیں جو استعمال میں پھینکے جانے کےلئے انتظار کر رہے ہیں یا کچرے میں پھینکے جانے کےلئے دن گن رہے ہیں۔ پونے دو سو کے قریب پل اسقدر مخدوش ہو چکے ہیں کہ انکے اوپر سے ریل کو گزارنا ہی نہیں چاہئے لیکن یہ پل‘ موت کے یہ پل‘ مسلسل استعمال ہو رہے ہیں کیوں کہ ہمارے صدر ہمارے وزیراعظم‘ ہمارے وزیر‘ ہمارے عوامی نمائندے‘ ہمارے جرنیل‘ ہمارے بیوروکریٹ اور ہمارے سیاستدان ان پلوں سے نہیں گزرتے۔ وہ تو جہازوں اور جہازی سائز کی کاروں میں سفر کرتے ہیں۔ رہ...

دولہا کی تلاش

امریکی مافیا کے سربراہ نے اپنی دختر نیک اختر کے ہاتھ پیلے کرنے ہیں اور دولہا تلاش کرنے کےلئے وہ میری منت سماجت کر رہا ہے۔ مافیا کا تعارف کراتا چلوں۔ انیسویں صدی میں جنوبی اٹلی میں، خاص طور پر سسلی کے جزیرے میں، مجرموں نے اپنے اپنے گروہ بنا لئے تھے۔  ان سب گروہوں نے باہم متحد ہو کر ایک انجمن سی بنا لی۔ اسی کو مافیا کہتے ہیں۔ یہ مافیا اتنا طاقتور ہو گیا کہ کاروباری افراد، کارخانہ دار، کرنسی کا کام کرنے والے، باغات کے مالک، سب انکے محتاج ہو کر رہ گئے۔ جو مافیا سے ”معاملہ“ طے نہیں کرتے تھے اُنکی حفاظت کی کوئی گارنٹی نہیں تھی اور ان کا کاروبار ٹھپ ہو جاتا تھا۔ دو بہادر مجسٹریٹوں  جوانی فالکن  اور  پائولو برسلی نو  نے مافیا پر ہاتھ ڈالا لیکن 1990 کی دہائی میں دونوں کو قتل کر دیا گیا۔ اٹلی سے امریکہ کی طرف ہجرت کی لہر چلی تو مافیا کی شاخ امریکی ساحلوں پر بھی پہنچ گئی۔ وقت گزرنے کےساتھ ساتھ امریکی مافیا کی جو دراصل اطالوی ہی تھے ایک آزاد تنظیم بن گئی۔ یہ اور بات کہ سسلی کے جرائم پیشہ گروہوں کےساتھ یہ تعاون کرتی تھی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ امریکہ کے چھبیس شہر ماف...

عمران خان سے کوئی خطرہ نہیں

یہ دانشوروں کا اجتماع تھا۔ سیکورٹی سخت تھی۔ سکینر لگے ہوئے تھے۔ صرف تین ملکوں کے دانشور اندر آ سکتے تھے۔ مجھے اپنا حُلیہ بدلنا پڑا۔ واسکٹ پہنی ماتھے پر راکھ ملی۔ دھوتی پیچھے سے اُڑسی ۔ ہاتھ میں مالا پکڑی اور رام رام رام جپتا پہنچ گیا۔ دروازے سے گزرتے وقت مالا کے منکے تیزی سے چلانے شروع کر دیے اور آنکھیں بند کر لیں۔ اندر سے ڈر بھی رہا تھا۔ بہر طور خیریت گزری اور ہال میں داخل ہو گیا۔ یہ منظر میں زندگی میں پہلی بار دیکھ رہا تھا۔ اسرائیل اور بھارت کے خفیہ گٹھ جوڑ کا ذکر اپنے ملک میں بارہا سنا تھا لیکن دیکھنے کا اتفاق یہاں ہوا، جس طرح بھارتی مندوب اسرائیل کے نمائندوں کےساتھ بے تکلفی سے مل رہے تھے، حیرت انگیز تھا۔ صاف پتہ چل رہا تھا کہ یہ لوگ برسوں سے ایک دوسرے سے مل رہے ہیں۔ تعارفی خطاب ایک امریکی دانشور نے کیا۔ اس کا لبِ لباب یہ تھا کہ اب تک ہم پاکستان کے حالات سے مطمئن تھے۔ جو کچھ ہو رہا تھا، ہماری خواہشات کے عین مطابق ہو رہا تھا، تین چیزیں پاکستان کو مسلسل کھائی کی طرف دھکیل رہی تھیں، کرپشن ، اقربا پروری اور ٹیکس چوری اور یہی ہمارے لئے اطمینان کا باعث تھیں۔ ہم امداد اس لئے دیتے تھے کہ...

نائب سفیر کا قتل

2010ءکا مارچ تھا یا شاید اپریل....میں کئی دن بعد اسلام آباد کلب آیا تھا۔ شام ڈھل رہی تھی۔ یوں لگا جیسے ادا سی کی زرد چادر ہر طرف تنی ہے۔ میں اپنے دوستوں کی منڈلی میں جا کر بیٹھ گیا۔ سب چُپ تھے۔ ایک ویٹر تفصیل بتا رہا تھا۔ یہ دو دن پہلے کا واقعہ تھا۔ مشتاق رضوی لاﺅنج میں اپنی مخصوص نشست پر بیٹھے تھے۔ انہوں نے چائے منگوائی۔ ویٹر چائے لےکر پہنچا تو وہ سو رہے تھے۔ اس نے آواز دی۔ پہلے آہستہ، پھر اونچی....لیکن رضوی صاحب بہت دور جا چکے تھے۔ وہاں، جہاں پرویز مشرف کو بھی جانا پڑےگا۔ اس جرنیل کو بھی جس کے جرم پر پردہ ڈالنے کےلئے پرویز مشرف نے مشتاق رضوی کو دس سال اذیت میں رکھا اور نوکر شاہی کے اُن تین کارندوں کو بھی جو قوم کے خرچ پر ”انکوائری“ کرنے جکارتہ گئے اور مجرم کو بچا کر، بےگناہ مشتاق رضوی کے پیچھے پڑ گئے۔ ان کارندوں نے اس دنیا میں تو ”خدمت“ کا صلہ پا لیا لیکن مشتاق رضوی پُل کے اُس پار ان کا انتظار کر رہا ہے! مشتاق رضوی سے میری پہلی ملاقات وزارت خارجہ میںاپنے دوست زاہد سعید کے دفتر میں ہوئی تھی۔ شگفتہ چہرہ، دھیمی آواز، اتنی دھیمی کہ سننے کیلئے ہمہ تن گوش ہونا پڑتا تھا۔ ہم چائے پی رہے ت...