اشاعتیں

جون, 2011 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

شدّت پسند مسلمانوں کو کیوں قتل کرتے ہیں ؟

”طالبان دہشت گردی کی کسی کارروائی میں ملوث نہیں۔ اگر  ہیں تو اسکی پشت پناہی امریکہ بھارت اور اسرائیل کر رہے ہیں۔“  یہ بیان ایک معروف مذہبی سیاسی جماعت کے  سابق امیر نے گزشتہ ہفتے دیا ہے۔ طالبان پر یہ الزام پہلی بار نہیں لگا۔ نادان دوست یہ کام ایک عرصہ سے کر رہے ہیں۔ انصاف کی بات یہ ہے کہ آپ طالبان کے طریقِ کار سے اختلاف کر سکتے ہیں۔ انکے فہمِ اسلام کو غلط قرار دے سکتے ہیں لیکن یہ کہنا کہ امریکہ اسرائیل اور بھارت ان کی پشت پناہی کر رہے ہیں، طالبان کےساتھ بہت بڑی زیادتی ہے۔ یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔ اس موضوع کی کئی تہیں ہیں اور یہ تہیں نظر آتی ہیں اور نہیں بھی آتیں۔ بنیادی سوال اس ضمن میں یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم جن کارروائیوں کو دہشت گردی کہتے ہیں،  کیا طالبان یا شدت پسند بھی اسے دہشت گردی ہی سمجھتے ہیں؟ آپ نے عوام میں سے بہت سوں کو، بلکہ اکثر کو، یہ کہتے سُنا ہو گا کہ یہ جو بازاروں میں یا مزاروں پر یا مسجدوں میں دھماکے کرتے ہیں تو یہ لوگ مسلمان نہیں ہو سکتے کیونکہ کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو یوں بے دریغ نہیں ہلاک کر سکتا۔ ایک عام آدمی، جس کی مسلمانوں کی تاریخ س...

وہ کافر بچّہ

      ڈاکٹر نے اتنا بھی نہ سوچا کہ وہ پاکستان کے وزیراعظم ہیں!     وزیراعظم ہسپتال کے دورے پر تھے‘ انکے ساتھ وزیر صحت بھی تھے‘ وزیراعظم وارڈ میں ایک مریض کے پلنگ کےساتھ کھڑے اسکی عیادت کر رہے تھے‘ ٹیلی ویژن کی ٹیم بھی موجود تھی‘ وزیراعظم کے دورے کو فلمایا جا رہا تھا‘ اتنے میں سرجن اندر داخل ہوا‘ اس نے دیکھا کہ ہسپتال کے قانون کی خلاف ورزی ہو رہی ہے‘ اس نے وزیراعظم سمیت سب کو ڈانٹا کہ پوری آستینوں کے ساتھ اور نکٹائیوں کےساتھ یہ لوگ وارڈ میں کیوں داخل ہوئے ہیں۔ یہ طریقہ جراثیم کے نکتئہ نظر سے نقصان دہ ہے۔ سرجن باقاعدہ دھاڑ رہا تھا‘ وزیراعظم نے ٹیلی ویژن والوں کو باہر جانے کا اشارہ کیا اور سرجن کو آہستگی سے بتایا کہ ہم نے تو نکٹائی اتاری ہوئی ہے‘ اس پر سرجن وزیراعظم کو کچھ کہنے ہی والا تھا کہ وزیراعظم نے دونوں ہاتھ اٹھائے اور کہا کہ ٹھیک ہے‘ ٹھیک ہے۔ میں آپکی بات مانتا ہوں اور وزیراعظم وارڈ سے نکل گئے۔ اسکے مقابلے میں برطانیہ میں کیا ہوا‘ سنیئے! وزیراعظم برطانیہ نے اپنے قریبی عزیز کو گریڈ اکیس سے بائیس میں ترقی دیکر قومی اسمبلی میں سپیشل سیکر...

The cap of my boy is missing

In response to an article of mine recently published in the Australian “Eureka Street”, many readers and friends (including my nephew) have responded with emphasis on the niqab or burqa.   The central theme of the article has been completely ignored. I must clarify here that the title of the article was originally “Tragic Farce” which was changed into “Islam in denial of burqa” by the journal. The issue is not whether niqab is must or not. As my article states, full face veil has always been a controversial issue. But even if we agree that full face veil is mandatory, still the point raised in the article looms large in the foreground. But first let me narrate a story. Akram was living in a big city and his friend Arshad was living in a village.   Arshad requested his friend Akran to accommodate his son in his house so that he could study and avail the facilities available in the city.   Akram allocated a room in his home for Arshad’s son and pointed out certain norms....

صبح ہونے میں دیر ہی کتنی ہے

اٹھو۔ خدا کےلئے یہاں سے نکلو۔ ابھی رات کا کچھ حصہ باقی ہے۔ ابھی وقت ہے۔ تباہی کےلئے صبح کا وقت مقرر ہے اور صبح ہونے میں دیر ہی کتنی ہے! ساری حدیں پھلانگی جا چکی ہیں۔ ساری حجتیں تمام ہو چکی ہیں۔رسی جتنی ڈھیلی ہو سکتی تھی کی جا چکی اس سے زیادہ وقت نہیں دیا جا سکتا۔ اس سے زیادہ وقت کبھی کسی کو دیا بھی نہیں گیا۔  کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ فرشتوں کے پر ایک افق سے دوسرے افق تک پھیل چکے ہیں۔ کیا تم پھڑ پھڑاہٹ کی آوازیں نہیں سن رہے؟ تمہاری زمین اور آسمان کے اس ٹکڑے کے درمیان جو تمہاری زمین کے اوپر ہے‘ سارا خلا بھر چکا ہے۔ فرشتے آرہے ہیں اور جا رہے ہیں۔ تباہی کےلئے صبح کا وقت مقرر ہے۔ اٹھو‘ خدا کےلئے نکلو‘ صبح ہونے میں دیر ہی کتنی ہے! خلق خدا کی گردنوں پر سوار ان قزّاقوں نے اس لکیر پر پائوں رکھ دیا ہے جس پر نہیں رکھنا تھا۔ انہوں نے چادر اور احرام کو لوٹا۔ لوٹنے والوں کے ڈانڈے جس شہر سے ملے‘ سب نے دیکھا اور سنا‘ لوٹنے والوں کا سرپرست کون تھا اور کہاں تھا‘ سب کو معلوم تھا۔ لوگوں کے حقوق چھین کر اقربا کو دے دئیے گئے‘ ریاست میں روزگار کے جتنے مواقع تھے‘ وہ سب ایک مخصوص طبقے کو سونپ...

افسوس اے حجاج! افسوس!

حجاج! تو نے یہ کیا کیا؟ افسوس! تو نے کیا کر دیا! ایک خاتون کے دہائی دینے پر اتنا طوفان کھڑا کیا۔ کون سا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا، سری لنکا سے آنےوالے جہاز کو قزاقوں نے لوٹا، کچھ کو قیدی بنایا، ایک عورت نے دہائی دی۔ یا حجاج! اور تم نے بصرہ سے لےکر دیبل تک.... عراق سے لےکر سندھ تک.... زمین کو اس بے یارو مددگار عورت کی دہائی سے بھر دیا۔ تم نے جواب میں ”لبیک“ کہا اور پھر سینکڑوں ہزاروں کوس پر پھیلے ہوئے کوہ و دشت اور صحرا و دریا پر اور آبادیوں اور ویرانوں پر اپنے لبیک کی گواہی کو چادر کی طرح تان دیا۔ ایک تنی ہوئی چادر، افق تا افق، شہر تا شہر--- ہر اس عورت کو ڈھانپتی ہوئی جو دہائی دے اور حجاج لبیک کہتا ہوا، لشکروں کو روانہ کر دے! ضائع کیا تم نے اپنے لشکروں کو اے حجاج! ریاست کے لاکھوں درہم اور دینار خرچ کر ڈالے، راجہ کی حکومت کو موت کے گھاٹ اتار دیا، صرف ایک عورت کی فریاد پر! افسوس ہے حجاج! تم پر افسوس ہے! اور تمہاری تشویش--- اور بے تابی--- اور راتوں کی بے خوابی اور دنوں کا پیچ و تاب--- یوں کہ لشکر دیبل روانہ ہوا تو ایک ایک کوس کی رپورٹ طلب کی، ایک ایک پڑاﺅ کا محاسبہ کیا، ہراول دستے بھیجے اور...

Tragic Farce

They were furious. They were chanting slogans. They were swearing to crush the conspiracy being hatched against Islam. They were cursing the Western 'flawed' way of life. The rally was organised to condemn the banning of the burqa (full face veil) in France. Paradoxically, hardly any of the protesters had actually read the text of the French enactment banning, from April, the full face veil. In countries like Pakistan, the nucleus of present Muslim extremism, where literacy is not more than 15 to 20 per cent and centuries old feudalism has been successfully forestalling education, who'd bother to find out and go through the text of the legislation? The intellectual decline which has engulfed the Muslim world has thrown it into a dangerous state of denial. Everything that other, especially advanced countries, do is perceived and analysed in the light of 'conspiracy theories'. The majority of Muslims are suffering from a devasta...