اشاعتیں

اپریل, 2011 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

Muddling the Issues

تصویر
Article rank  27 Apr 2011 The Pak Banker Muhammad Izhar ul Haq Muhammad Izhar ul Haq is a free lance writer. www.izharulhaq.net ________________________________________________________________________ The recent ban on the niqab (full face veil) in France has created a furor in almost entire Muslim world. Most of the reaction that has appeared in Print as well as electronic media has condemned the French enactment. It is unfortunate that the Muslim world, more or less, has lost the propensity to analyse issues in their true perspective. Reaction on ban on niqab is a typical example. France has, in fact, has banned niqab and not hijab (covering head with scarf). Full face veil has never been an uncontroversial issue among Muslims. Interestingly, during Haj and Umra (pilgrimage to Mecca) no Muslim woman is supposed to veil her. The ban on niqab should have provided food for thought to Muslims. They should have analysed the reasons of their massive immigration t...

یہ سب بھی معافی مانگیں

جاوید ہاشمی کی تقریر سے جتنی گرد بیٹھی، اتنی ہی اُڑی، صادق نسیم مرحوم کے بقول وہ میرا شعلہ جبیں موجہ ہَوا کی طرح دیے بُجھا بھی گیا اور دیے جلا بھی گیا اُس نے درست کہا کہ باہر پیسہ رکھنے والے خود کو قوم کا لیڈر نہ کہیں۔ اس سے بحی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اگر دس ارب روپے سے صرف رائے ونڈ روڈ بنی تو باقی علاقوں کے لئے ترقّی کی رقم کہاں سے آئے گی ؟عمران کی ساری باتیں درست ہیں لیکن اُس نے صرف سیاست دانوں کو معافی مانگنے کا کہہ کر .... نادانستہ .... اُن ”معزز“ لوگوں کو محفوظ راستہ دے دیا جو قوم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہیں کر سکتے! اس کالم نگار کو سیاست دانوں سے کبھی حسنِ ظن نہیں رہا۔ اُنکا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ وہ اپنے آپکو قانون سے بالاتر گردانتے ہیں لیکن بات وہ کرنی چاہیے جو سچی ہو اور انصاف پر مبنی ہو۔ جاوید ہاشمی آمروں کا ساتھ دینے پر صرف سیاست دانوں پر کیوں گرفت کر رہے ہیں؟ صرف سیاست دان کیوں معافی مانگیں؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ جنرل پرویز مشرف کے شروع کے تین سالوں میں سیاست دان نہیں بلکہ غیر سیاست دان اُسکے ساتھ وابستہ تھے؟ آخر وہ پردہ نشین سامنے کیوں نہیں لائے جاتے اور اُن...

مگر مچھ، کینچوا اور قومی بچت کا ادارہ

ان دنوں یہ کالم نگار ملٹری اکاﺅنٹنٹ جنرل آف پاکستان کے طور پر کام کر رہا تھا۔ وزیر دفاع راﺅ سکندر مرحوم کا فون آیا۔ (وہ پیار یا معصومیت سے جنرل صاحب کہہ کر مخاطب کیا کرتے) انہوں نے بتایا کہ انکے دوست اشرف سوہنا صاحب ممبر پنجاب اسمبلی تشریف لانا چاہتے ہیں۔ سوہنا صاحب آئے۔ مسئلہ یہ تھا کہ ایک بوڑھی بے بس بیوہ کو (جو غالباً سوہنا صاحب کے حلقہ انتخاب سے تعلق رکھتی تھی) کچھ لاکھ روپے مرحوم شوہر کے سرکاری واجبات کے طور پر ملے۔ اس سے ایک شخص نے یہ رقم کاروبار کا لالچ دے کر ہتھیا لی۔ اس شخص کا تعلق ہمارے محکمے سے تھا۔ اس شخص نے بے بس بیوہ کی رقم واپس کی یا نہیں یہ الگ کہانی ہے۔ مختصراً یہ کہ اس نے رقم واپس کرنے کے بجائے ملٹری اکاﺅنٹنٹ جنرل اور اسکے آفس کے خلاف عدالت عظمیٰ میں مقدمہ دائر کر دیا کہ یہ لوگ اسکے ”ذاتی“ معاملے میں دخل انداز ہو رہے ہیں اور اپنی سرکاری پوزیشن کا ”ناجائز“ فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ یہ سب کچھ موضوع سے غیر متعلق ہے۔ کالم نگار یہ کہنا چاہتا ہے کہ یہ ہے وہ سلوک جو معاشرہ بوڑھی بے بس بیواﺅں کےساتھ روا رکھ رہا ہے۔ کہیں کاروبار کا لالچ دے کر رقم ہتھیا لی جاتی ہے۔ کہیں رقم ”ڈبل“ کر...

پسلیاں، سانس اور شُرطہ

بارش تھی اور ایسی کہ ہر طرف جل تھل ہو گیا تھا۔ چھاجوں مینہ پڑ رہا تھا۔ اسکی کار کے شیشے پر وائپر تیزی سے چل رہا تھے لیکن بارش کی رفتار کہیں زیادہ تھی۔ کبھی کبھی تو سڑک نظر تک نہیں آتی تھی۔ وہ دوسرے شہر سے آ رہا تھا اور اُسے ڈر تھا کہ وقتِ مقررہ پر نہ پہنچا تو جن صاحب سے ملنا تھا، انتظار کر کے چلے نہ جائیں۔ کام بہت ضروری تھا۔ وقت کم تھا، گاڑی تیز چلانا ممکن نہ تھا۔ بارش اکیلی نہیں تھی تیز ہَوا بھی تھی۔ درخت یوں لگتا تھا زمین پر آ رہیں گے اس پر طرہ یہ کہ وہ اس علاقے میں پہلی بار آیا تھا۔ اس بارش میں سڑک پر کوئی نہ تھا جس سے وہ پتہ پوچھتا۔ گاڑی کھڑی کر کے موسلادھار بارش میں وہ ایک دکان میں جا گھسا لیکن دکاندار خود موجود نہ تھا، ملازم رہنمائی نہ کر سکا۔ پھر اُس نے ایک پراپرٹی ڈیلر کا دفتر ڈھونڈا۔ وہاں سے اُسے مدد ملی اور وہ مطلوبہ مکان تک پہنچ گیا۔ ساتھ ہی اُس نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ وہ صرف دو منٹ لیٹ تھا، گھنٹی بجائی، ایک عورت نے کھڑکی سے سر نکالا اور بتایا کہ ذوالفقار صاحب گھر پر نہیں ہیں، انہیں ایک ضروری کام سے کہیں جانا پڑ گیا۔ یہ افسانہ نگاری نہیں، سو فی صد سچائی ہے۔ بیان کرنے میں صر...

پس ماند گاں

شہر کی دیواریں اشتہاروں سے اٹی پڑی تھیں۔ ’’ہم اپنے لیڈر کو ووٹ دینگے‘‘۔ لیڈر کی جیت ’’انتخابات‘‘ میں اتنی یقینی تھی کہ ’’فتح‘‘ کے بعد کے پروگراموں کا اعلان بھی کر دیا گیا تھا۔ ’’نوے فیصد ووٹ ہر حال میں ملیں گے‘‘۔ تین اپریل کو لیڈر حسبِ پروگرام جیت گیا۔ قزاقستان کے ’’منتخب‘‘ صدر نور سلطان کو مزید دس سال مل گئے۔ گذشتہ بائیس سالوں سے وہ قوم کی ’’قیادت‘‘ کر رہے ہیں۔ چھ سو افراد شہر کے سٹی ہال کے سامنے نعرے لگا رہے تھے ’’ہمیں آئینی اصلاحات چاہئیں۔ بدعنوانوں پر مقدمے چلائو‘‘۔ یہ چار دن پہلے کی بات ہے۔ ابھی یہ چھ سات سو لوگ نعرے لگا ہی رہے تھے کہ پچاس ساٹھ افراد اردن کے بادشاہ کی تصویریں لہراتے اُنکے مقابلے میں آ گئے۔ وہ بادشاہ کیساتھ اپنی وفاداری کا اعلان کر رہے تھے۔ سینکڑوں پولیس والے ’’ڈیوٹی‘‘ پر تھے۔ اور چار ہی دن پہلے قاہرہ اور سکندریہ میں ہزاروں افراد نے جلوس نکالے۔ ’’حسنی مبارک پر مقدمہ چلائو‘‘۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ جلوس نکالنے والوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے لیکن مسلح افواج کی سپریم کونسل لوٹ مار کرنیوالوں کو کچھ نہیں کہہ رہی۔ لوٹ مار کرنیوالوں میں سرفہرست حسنی مبارک، اسکی بیوی اور د...