اشاعتیں

مارچ, 2011 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

مجیب الرحمان شامی کے اعترافات

تیس بتیس سال کے اس نوجوان کو دیکھیں تو یہی لگتا ہے کہ ہزاروں دوسرے لڑکوں کی طرح یہ بھی چودہ یا سولہ جماعتیں پاس کرکے کہیں ملازمت کر رہا ہوگا۔لیکن ایسا نہیں، اجمل شاہ دین نے اس بالی عمر یا میں بنکاری پر دنیا کا دوسرا اور پاکستان کا پہلا روزنامہ جاری کیا ہے۔اس انگریزی اخبار کا مالک تو وہ ہے ہی، ایڈیٹر بھی خودہے۔ پاکستانی صحافت میں پہلا Syndicate  (سنڈی کیٹ) بھی اسی نے شروع کیا اور کالم نگاروں کو کاپی رائٹ حقوق میسر آئے۔ اپنے مرحوم سسر مظفر محمد علی کی کتاب ” پاکستانی صحافت کے رازدان صحافی“ شائع کرکے اب اس نے ایک اور کارنامہ سرانجام دیا ہے۔مظفر محمد علی، خدا اُن کے درجات بلند کرے اور ان کی لغزشوں سے درگذر فرمائے۔ انٹرویو لینے کا ہنر جانتے تھے اور جس کا انٹرویو لیتے تھے، اُس کے اندر سے سب کچھ نکال لیتے تھے۔اس کتاب میں اثر چوہان، سعید آسی، حامد منیر سلیم بخاری، مجیب الرحمان شامی اور حسن نثار جیسے صفِ اول کے صحافیوں کے انٹرویو ہیں لیکن انہیں انٹرویوکہنا ایک سرسری بات ہے سچ تو یہ ہے کہ راز ہائے درونِ میخانہ پر مشتمل یہ کتاب پاکستان کی تاریخ ہے اور اس میں وہ تاریخ ہے جو تاریخ کی کتابوں ...

تم اگر خودکشی نہ کرتیں تو کیا کرتیں؟

تم ایک علامت ہو تم صدیوں کی غلامی کی علامت ہو تم علامت ہو اس حقیقت کی کہ جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات کے سوا کچھ  نہیں ہو سکتی تم اگر خودکشی نہ کرتیں تو کیا کرتیں؟ تمہارے ہم وطنوں کے پاس کوئی ایسی فوج نہیں تھی جو امریکہ پر حملہ کر سکتی‘انکے پاس ایئر کرافٹ کیریر تھے‘ نہ ڈرون‘ ڈیزی کٹر بم تھے‘ نہ کیمیائی ہتھیار۔ یہ سب تو دور کی باتیں ہیں‘ تمہارے ہم وطنوں کے پاس تو کچھ بھی نہیں‘ کھاد سے لے کر چینی تک‘ گندم سے لے کر دودھ تک‘ دواﺅں سے لے کر ہر قسم کی مشینری تک‘ کار سے لے کر ریفریجریٹر تک‘ جہاز سے لے کر آبدوز تک‘ ہر شے کیلئے وہ دوسروں کے دست نگر ہیں‘ جو قوم کبھی ڈالروں کیلئے جھولی پھیلاتی ہے اور کبھی یورو کیلئے‘ وہ تمہارے لئے کیا کر سکتی تھی! اچھا ہوا تم نے خودکشی کرلی۔ تم اگر خودکشی نہ کرتیں اور زندہ رہتیں تو یقین کرو تم ایسے ایسے دکھ اٹھاتیں کہ تمہارے چاہنے والے تمہیں دیکھ کر انگاروں پر لوٹتے‘ تم اس قوم کی بیٹی ہو جس کے رہنماءچھینک اور زکام کیلئے انگریزوں کے وطن میں جاتے ہیں‘ انکے کارخانے‘ انکے محلات‘ انکی اولاد‘ سب کچھ انہی گوروں کے پاس ہے‘ جن کے ظلم اور دھاندلی کیخلاف احتجاج کر...

غلیل اور لیپ ٹاپ

ہم  لوگ اتنے قنوطی ہو چکے ہیں کہ خدا کی پناہ   ہر معاملے میں ناشکری، ہر بات پر شکوہ اور شکایت، ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں نہ اپنی خوش قسمتی ہمیں نظر آتی ہے۔ ہم ہمیشہ یہ کہتے ہیں کہ آدھا گلاس خالی ہے۔ کبھی یہ نہیں سوچتے کہ آدھا گلاس پانی سے بھرا ہے۔ ہماری حالت اُس مایوس شخص جیسی ہے جسے اُسکے بیٹے نے خوش ہو کر بتایا کہ ہمارا کتا پانی پر چل سکتا ہے۔ اُس نے بُرا سا منہ بنا کر کہا کہ کاش! وہ تیر سکتا!لیکن میں نے یہ رویہ تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ میں اب کُڑھنے اور جلنے کے بجائے ہر بات کا روشن پہلو دیکھا کروں گا۔ اس صحت مند رویے کا آغاز میں نے آج ہی سے کر دیا ہے۔ مجھے علی الصبح خبر ملی کہ بلوچستان کے ضلع جعفرآباد میں راکٹ کے حملے سے پورے کا پورا خاندان موت کے گھاٹ اتر گیا۔ یہ دو دن پیشتر کا واقعہ ہے۔ کچھ محب وطن افراد نے راکٹ چلائے جن میں سے ایک فلّو خان کے گھر کی چھت پر پھٹا۔ اسکی بیوی مائی خاتون اور چاروں بیٹیاں موقع ہی پر ہلاک ہو گئیں۔ دیکھئے اس خبر میں کتنا روشن پہلو ہے۔ خدا کا شکر ہے میں بلوچستان میں نہیں ہوں اور راکٹوں کے حملے سے بچا ہوا ہوں۔ کراچی کے علاقے کھارا...

غیب سے کوئی سوار

گزشتہ ہفتے عجیب خبر پڑھنے کو ملی‘ کویت کے قومی دن کی تقریب میں مہمان خصوصی ہمارے وزیر ریلوے تھے! اس میں عجیب پہلو یہ تھا کہ کویت میں ریلوے کا وجود ہی نہیں۔ کویت میں ریلوے نہ ہونے کا سبب نہیں معلوم لیکن پڑوسی ملک افغانستان میں ریلوے نہ ہونے کا سبب یہ ہے کہ وہاں برطانیہ کی حکومت نہیں رہی‘ جس طرح سانپ اور بچھو کو قدرت نے بلا سبب نہیں پیدا کیا اور ان میں بھی کچھ فوائد رکھے ہیں‘ اسی طرح استعمار کے بھی کچھ فوائد تھے۔ انگریز آئے تو اپنے ہمراہ ادارے بھی لائے‘ سب سے بڑا ”ادارہ“ محنت کا تھا۔ محنت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ کلائیو اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے گھوڑے کی پیٹھ پر سوار رہتا تھا جبکہ سراج الدولہ سمیت ہندوستانی حکمران دلہنوں کی طرح پالکیوں پر سفر کرتے تھے اور میدان جنگ میں بیگمات کی رفاقت ازبس ضروری تھی۔ بہادر شاہ ظفر کے دور ”حکومت“ میں سر مٹکاف دہلی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا نمائندہ تھا‘ اس زمانے کے لکھے گئے روزنامچوں اور ڈائریوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سخت گرمی میں مٹکاف اور اسکے ماتحت ساڑھے سات بجے صبح اپنی اپنی ڈیوٹی پر پہنچ جاتے تھے۔ دوپہر سے پہلے یہ لوگ اپنے کام کا ایک حصہ ختم کر چکے ہ...

جنازہ گاہ اور لنڈن سکول آف اکنامکس

جنازہ گاہ لوگوں سے بھر چکی تھی۔ بہت سے ابھی تیز تیز قدموں سے آ رہے تھے۔ امام کے مصلے پر ایک نوجوان کھڑا تھا۔ مولوی صاحب نے شرکائے غم کو بتایا کہ یہ نوجوان مرحومہ کا پوتا ہے اور اپنی دادی کی نماز جنازہ خود پڑھائے گا۔ مرکزی حکومت کے سینئر بیوروکریٹ عبدالبصیر کا یہ سعادت مند فرزند ’نعمان‘ پیشہ ور نماز پڑھانے والا نہ تھا۔ وہ لندن سکول آف اکنامکس کا فارغ التحصیل ہے اور اعلیٰ عہدے پر فائز ہے۔ اس نے نماز جنازہ پڑھا کر یہ ثابت کیا کہ اس کام کیلئے کسی مخصوص فرد کی احتیاج قطعاً ضروری نہیں۔ یہ کام تو ہر وہ شخص کر سکتا ہے جو مسلمان ہے اور اپنے فرائض سے آگاہ ہے۔ مو لوی صاحب نے اس کا تعارف کراتے ہوئے حاضرین کو بتایا کہ اصولی طور پر جنازے کی نماز وارث کو پڑھانی چاہئے لیکن افسوس کی بات ہے کہ لوگوں نے خود ’’مو لوی‘‘ پر انحصار کیا ہوا ہے اور پھر لعن طعن بھی مولوی ہی کو سننا پڑتی ہے۔ اس انحصار بلکہ محتاجی ہی کا نتیجہ ہے کہ اب ان پڑھ قسم کے ملا یہ دھمکی عام دیتے ہیں کہ آخر مولوی سے بچ کر کہاں جائو گے؟ نکاح اور جنازہ تو مولوی ہی نے پڑھانا ہے! سنجیدہ علماء کرام نے ہمیشہ عوام کو یہی تلقین کی ہے کہ اپنے بچوں...