صدر اوباما شاہ پور میں
چار سال سے محراب خان روزگار کی تلاش میں تھا۔ لیکن چترال میں روزگار کہاں! جہاں زراعت ہے نہ تجارت! سال کا بڑا حصہ برف کی حکومت ہوتی ہے اور برف نہ بھی ہو تو کیا ہے؟ کارخانے نہ کھیت، یونیورسٹیاں نہ ادارے، ایک بار تو اس نے ادھار مانگا اور گرمیوں میں پشاور پہنچ گیا، لیکن نوکری کیلئے جہاں جاتا، آدھا درجن مہاجر پہلے موجود ہوتے، جوں توں کرتا، اٹک کے اس طرف آیا، اسلام آباد کی سبزی منڈی میں سر پر ٹوکرا رکھ کر کام کرتا رہا، لیکن ایک تو بڑھاپا تھا، دوسرے، جو چند سکے ملتے تھے اتنے نہ تھے کہ وہ چترال بھیج سکتا۔ بالآخر اس نے واپس چترال جانے کا فیصلہ کیا۔ بغیر کرائے کے اور بغیر کھائے پیئے وہ پنڈی سے چترال کس طرح پہنچا؟ یہ ایک الگ کہانی ہے اور کبھی اہل وطن کو سنائی جائیگی لیکن آج نہیں! چار سال کے بعد گزشتہ ماہ محراب خان کو اس کے ایک دور کے رشتہ دار نے راولپنڈی سے اطلاع دی کہ تمہارے لئے نوکری کا بندوبست ہو گیا ہے۔ فوراً پہنچو، چھ ہزار روپے ماہانہ، ساتھ رہائش اور تین وقت کا کھانا۔ محراب خان خوشی سے پاگل ہو رہا ہے۔ وہ کم از کم چار ساڑھے چار ہزار روپے ہر ماہ بال بچوں کو بھیج سکے گا لیکن یہ وہ بات نہیں جو ی...