اشاعتیں

فروری, 2011 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

صدر اوباما شاہ پور میں

چار سال سے محراب خان روزگار کی تلاش میں تھا۔ لیکن چترال میں روزگار کہاں! جہاں زراعت ہے نہ تجارت! سال کا بڑا حصہ برف کی حکومت ہوتی ہے اور برف نہ بھی ہو تو کیا ہے؟ کارخانے نہ کھیت، یونیورسٹیاں نہ ادارے، ایک بار تو اس نے ادھار مانگا اور گرمیوں میں پشاور پہنچ گیا، لیکن نوکری کیلئے جہاں جاتا، آدھا درجن مہاجر پہلے موجود ہوتے، جوں توں کرتا، اٹک کے اس طرف آیا، اسلام آباد کی سبزی منڈی میں سر پر ٹوکرا رکھ کر کام کرتا رہا، لیکن ایک تو بڑھاپا تھا، دوسرے، جو چند سکے ملتے تھے اتنے نہ تھے کہ وہ چترال بھیج سکتا۔ بالآخر اس نے واپس چترال جانے کا فیصلہ کیا۔ بغیر کرائے کے اور بغیر کھائے پیئے وہ پنڈی سے چترال کس طرح پہنچا؟ یہ ایک الگ کہانی ہے اور کبھی اہل وطن کو سنائی جائیگی لیکن آج نہیں! چار سال کے بعد گزشتہ ماہ محراب خان کو اس کے ایک دور کے رشتہ دار نے راولپنڈی سے اطلاع دی کہ تمہارے لئے نوکری کا بندوبست ہو گیا ہے۔ فوراً پہنچو، چھ ہزار روپے ماہانہ، ساتھ رہائش اور تین وقت کا کھانا۔ محراب خان خوشی سے پاگل ہو رہا ہے۔ وہ کم از کم چار ساڑھے چار ہزار روپے ہر ماہ بال بچوں کو بھیج سکے گا لیکن یہ وہ بات نہیں جو ی...

مکھی کی تھوک

بزرگ فیض شناس اشفاق سلیم مرزا کا خیال تھا کہ فیض ساری زندگی کی رجائیت پسندی کے بعد عمر کے آخری حصے میں یاس کا شکار ہو گئے تھے۔ اس پر یہ فقیر بات کرنا چاہتا تھا لیکن خورشید ندیم نے اعلان کیا کہ وقت ختم ہو گیا ہے۔ ٹیلی ویژن کے پروگراموں کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ پروگرام کرنیوالے کو ایک ایک لحظے کا حساب دینا پڑتا ہے۔ فیض صاحب اگر زندگی بھر رجائیت پسند رہے تو یہ ان کا اپنا قصور تھا۔ لیکن اصل مسئلہ فیض صاحب کا نہیں ہے۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ کب پرامید تھے اور کب مایوسی انہیں آنکھ مارتی تھی اصل مسئلہ اور ہے …؎ نظر آتا ہے جو کچھ اصل میں ایسا نہیں ہے مگر تم نے میری جاں! مسئلہ سمجھا نہیں ہے سوال یہ ہے کہ کیا برصغیر میں انقلاب کی روایت موجود ہے؟ جب یہاں ایسی کوئی روایت ہی موجود نہیں تو رجائیت پسندی کی کیا بنیاد ہے؟ کچھ نہیں! کچھ بھی نہیں! مغل سلطنت اپنے عروج پر تھی۔ برما کے ساحلوں سے لے کر خراسان کے سلسلہ ہائے کوہ تک۔ بادشاہ اپنے پسندیدہ کفش برداروں کو سونے چاندی میں تولتے تھے۔ اس وقت پوری مغل سلطنت کی دولت کا ایک چوتھائی حصہ چھ سو افراد کی ملکیت میں تھا! چھ سو سے بھی کم! اکثریت لنگوٹی ...

Australia : Too decadent for Muslims ?

I am hurt.  When they talk of banning burqa, of course as a Muslim I am hurt. That wearing burqa has never been irremissible in Islam, is known to all and sundry. It has always been a controversial issue. A considerable number of Islamic jurists do not support it. Millions of Muslim women do not practice it. Millions of Muslim women, cutting crops in agricultural fields, picking cotton in South Pakistan, handling herds in Central Asian pasturelands, teaching in universities, working in banks and elsewhere do not wear burqa nor hijab. Billions of Muslim women, while performing pilgrimage in Holy Mecca, have never, and will never, cover their faces. Yet, when they talk of banning burqa, as a Muslim I am hurt. I hear that a rally is being organized to protest against the abortive bill, which was moved to ban burqa. The sense of allegiance sends me there. I hear speeches. The speakers, one after another, come and slate the flawed western secular values. There are two ...

غیرت اور موسمی پرندہ

وہ ٹیکسی کی پچھلی سیٹ پر لیٹی ہوئی تھی۔ بے پناہ درد سے اس کا منہ نیلا اور پھر پیلا ہو رہا تھا۔ پورے بدن پر کپکپی طاری تھی ارد گرد گاڑیوں کا سمندر تھا۔ کوئی گاڑی حرکت نہیں کر رہی تھی۔ باپ نے بے بسی سے اسے دیکھا۔ پھر رکی ہوئی گاڑیوں کے بے کنار سمندر کو دیکھا۔ ماں اسکی ہتھیلیاں مل رہی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے اسکی آنکھیں بند ہونے لگیں۔ تھوڑی دیر بعد اس نے آخری ہچکی لی۔ سائرن کی آوازیں آئیں۔ کہیں دور سے تیز رفتار گاڑیوں کا طوفانی قافلہ گزر رہا تھا۔ خدا خدا کر کے ٹریفک کا ٹھہرا ہوا دریا رواں ہوتا ہے۔ ٹیکسی جناح ہسپتال پہنچتی ہے۔ ’’افسوس! آپ کچھ دیر پہلے پہنچتے تو جان بچ سکتی تھی‘‘ ڈاکٹر مظلوم اور مجبور باپ کو بتاتے ہیں۔ یہ دلخراش واقعہ 29 مارچ2006ء کو پیش آیا۔ ظل ہما کراچی یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ کی ہونہار طالبہ تھی۔ اس دن کراچی شہر میں صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف آئے ہوئے تھے۔ انکی جان کی حفاظت کیلئے کراچی کے راستے بند کر دیئے گئے تھے۔ جو گاڑی جہاں تھی وہیں روک دی گئی تھی۔ ظل ہما کے پیٹ میں درد اٹھا اور اسکے ماں باپ اسے ٹیکسی میں لٹا کر ہسپتال کی طرف بھاگے لیکن راستے تمام بند تھے۔ وہ ...

کوئی ان کو بتائے

کوئی زین العابدین بن علی سے، حسنی مبارک سے، بشار الاسد سے، مراکش اور اردن کے بادشاہوں سے کہے کہ سادہ لوح حکمرانو! تم میں ذرا بھی عقل ہوتی تو آج تمہاری کشتیاں منجدھار میں نہ ہوتیں، تمہیں جان کے لالے نہ پڑے ہوتے اور تمہارے شہروں میں باغیوں کے جلوس نہ نکل رہے ہوتے۔  افسوس! تم طفلان مکتب نکلے۔ تم ’’سیاست‘‘ کی ابجد سے بھی نابلد ہو! ذہانت تمہارے دماغوں میں نہیں، ٹخنوں میں ہے تم میں اتنی بھی دور اندیشی نہیں جتنی پاکستانی سیاست دانوں کے پالتو جانوروں میں ہے۔ اے مشرق وسطیٰ کے تیرہ بخت حکمرانو! کاش تم پاکستان کے مقتدر طبقات کے سامنے زانوائے تلمذ تہہ کرتے اور سیکھتے کہ اقتدار کو دوام کس طرح بخشتے ہیں، بھوک سے بلکتی ’رعایا‘ کو مطمئن کس طرح کرتے ہیں اور جمہوریت کے نام پر بادشاہی کس طرح کرتے ہیں! اے حسنی مبارک! تمہیں تو صرف تیس سال ہوئے ہیں تخت پر بیٹھے، اے بشار الاسد! تم تو جمعہ جمعہ آٹھ دن کے لڑکے ہو، دس سال ہوئے ہیں تمہیں تاج پہنے اور اگر تیس سال تمہارے باپ کے بھی شامل کئے جائیں تب بھی یہ مدت چالیس سال سے زیادہ نہیں بنتی اور اے زین العابدین ابن علی! تمہاری قسمت توکتے والے کاف کے ساتھ ک...