اشاعتیں

جنوری, 2011 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

کفن چور

دارالحکومت کے قریب فائیو سٹار ہوٹل میں ان دنوں غیب کی خبریں بتانے والے ایک منجم فروکش ہیں‘  عوامی نمائندے‘ سیاست دان‘ صحافی اور زندگی کے دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والے کیا ناخواندہ اور کیا اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات انکے کمالات سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔ ان میں سیاست دان سرفہرست ہیں۔ خاص کر ایک ایسی سیاسی جماعت سے وابستہ افراد‘ جو ایک نوخیز جماعت ہے۔ سچ پوچھئے تو اس خبر سے دل کو اطمینان نصیب ہوا ہے۔ یہ ’’اسلامی‘‘ شغل مردِ مومن ضیاء الحق کے زمانے میں بھی کافی مقبول تھا۔ آپ قوم پر کوئی بھی احسان کرنے سے پہلے نجومیوں اور پامسٹوں سے ضرور آشیرباد لیتے تھے‘ لگتا ہے کہ نوے دن کو گیارہ سالوں پر پھیلانے کی وعدہ وفائی بھی کسی نجومی ہی کا مشورہ ہو گی۔ سیاست دانوں ہی پر کیا موقوف ہے‘ اطمینان بخش امر یہ ہے کہ تقریباً پورا ملک ہی نجوم‘ پامسٹری‘ فن پیشگوئی‘ تعویز فروشی‘ کالے جادو‘ قبر پرستی اور پیروں فقیروں کی ’’روحانیت‘‘ میں مگن ہے۔ ماشاء اللہ‘ یہ ہماری تاریخ اور روایات کے عین مطابق ہے۔ کیا آپ کو یاد نہیں کہ محمد بن قاسم نے سندھ پر حملہ کرنے سے پہلے نجومی سے زائچہ بنوایا تھا اور ہاتھ کی لکیریں بھی دکھ...

دفتر ِ اعمال

تلواریں سونت لی گئی ہیں۔ گردنوں پر نشان لگا دئیے گئے ہیں۔ قبریں کھودی جا رہی ہیں ؎ سنبھال لو اب درانتیاں خچروں کو ہانکو کہ فصل پک کر سروں کی تیار ہو چکی ہے لوگوں کو گروہوں میں بانٹ دیا گیا ہے۔ جو یہ زبان بولتے ہیں وہ اس طرف کھڑے ہو جائیں۔ جو وہ زبان بولتے ہیں وہ فلاں قطار میں چلے جائیں۔ قبیلوں کے نام پیشانیوں پر کھود دئیے ہیں۔ لوگوں کو زبانوں اور قبیلوں کی بنیاد پر قتل کیا جا رہا ہے۔ جو بچ گئے ہیں انہیں ٹھکانے لگانے کی تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں۔ چلتی بسوں سے اتار کر شناختی کارڈ جانچے جا رہے ہیں۔ گولیوں کی آواز آتی ہے۔ جسم دھم سے گرتے ہیں۔ سر دھڑوں سے الگ ہوتے ہیں۔  محلے الگ الگ ہو گئے ہیں۔ آبادیاں مخصوص ہو چکی ہیں۔ یہ فلاں قبیلے کا محلہ ہے، یہ فلاں زبان بولنے والوں کی آبادی ہے۔ تلواریں سونت لی گئی ہیں۔ گردنوں پر نشان لگا دئیے گئے ہیں۔ عقیدوں کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ لوگوں نے اپنے اپنے عقیدے لکھ دئیے ہیں۔ اپنی گاڑیوں کے پچھلے حصوں پر، اپنی دکانوں کے ماتھوں پر، اپنی مسجدوں کی دیواروں پر، اپنے گھروں کے دروازوں پر، عقیدہ جو بندے اور خالق کے درمیان تعلق کی بنیاد تھا، عقیدہ جو ساجد ا...

عبا پوش

ائرپورٹ کی پارکنگ میں جیسے ہی داخل ہوئے دو آدمیوں نے روک لیا۔میرے دوستوں کا خیال تھا کہ انہوں نے بندوقیں تانی ہوئی ہیں جب کہ میرا خیال یہ تھا کہ انہوں نے کلہاڑیاں اٹھا رکھی ہیں۔ ’’جہاز پر کتنے افراد سوار ہوں گے‘‘ ’’دو‘‘ ہم نے جواب دیا۔ ’’تو یہ باقی تین افراد رخصت کرنے آئے ہیں؟‘‘ ’’جی ہاں‘‘ …’’بس ساٹھ روپے ادا کریں‘‘ ہم میں سے ایک نے مطلوبہ رقم کی ادائیگی کر دی۔ اس ’’شریفانہ‘‘ ٹکیس کی وجہ پوچھی تو بتایا گیا کہ حکومت کو فنڈ درکار ہیں۔ میں نے ترس کھاتے ہوئے کپڑے بھی اتار ٹیکس دئیے۔ بنیان اور جانگیہ رہ گئے چلنے لگے تو کلہاڑی بردار اہلکار نے پیچھے سے آواز دی۔ ’’بنیان بھی دیتے جاؤ۔ ایک اہم شخصیت کے بیرون ملک دوروں کیلئے تیس لاکھ روپے روزانہ کی ضرورت ہے۔‘‘ کپڑے اتار کر دینے والی بات مبالغہ سہی، تیس لاکھ روپے روزانہ والی بات حقیقت ہے۔ اب وہ وقت آیا ہی چاہتا ہے کہ پیدل چلنے والوں کو بھی رکاوٹیں پار کرنے کیلئے سڑکوں پر، کچے راستوں پر، تنگ پگڈنڈیوں پر اور ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں جانے پر ٹیکس ادا کرنا ہو گا خواہ سفر اپنے گدھے پر بیٹھ کر کیا جا رہا ہو۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم پاکستانی کنو...

گردنیں اور پائوں

دہشت کا یہ عالم تھا کہ ایک ایک نہتا تاتاری پندرہ پندرہ بیس بیس مسلمانوں کو ہانکتا تھا اور چُوں بھی کوئی نہیں کرتا تھا۔ آمو سے لیکر فرات تک بھیڑ بکریوں کا ایک ریوڑ تھا جسے تاتاری ہانکتے تھے اور جدھر چاہتے تھے لے جاتے تھے۔ سات صدیاں اور پچاس برس اُوپر ہوگئے ہیں اور آج اٹھارہ کروڑ بھیڑ بکریاں پھر ہانکی جارہی ہیں۔اب کے ہانکا لگانے والے تاتاری نہیں، بھارتی نہیں، امریکی بھی نہیں، ان بھیڑ بکریوں کے اپنے ملازم ہیں۔ یہ بھیڑ بکریاں ان ملازموں کو تنخواہیں دیتی ہیں۔تعیشات سے جگمگاتے محلات عطا کرتی ہیں۔پوشاکیں بخشتی ہیں۔ ان ملازموں کے خانوادوں کو مزے مزے کے راتب مہیا کرتی ہیں۔ پھر یہ ملازم ان بھیڑ بکریوں کو ہانکتے ہیں ان کی پیٹھوں پر کوڑے برساتے ہیں۔ انہیں پتھر مارتے ہیں ۔ان پر کتے چھوڑتے ہیں ، انہیں یوں مخاطب کرتے ہیں …’’  اوئے چتکبری، اوئے کالی کھال، اوئے سفید رنگ، تیرا گوشت کھائوں، تیری ہڈیاں ٹوکے سے ٹکڑے ٹکڑے کروں، تیری کھال کے جوتے بنائوں، تیری اُون سے کمبل بُنوں، اوئے چتکبری، اوئے کالی، اوئے تو شام سے پہلے مرے‘‘۔ دُور کیوں جاتے ہیں۔ دارالحکومت ہی کو دیکھ لیجئے۔ آپ راولپنڈی سے اسلام ا...