اشاعتیں

2011 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

ہم کم از کم اتنا تو کریں

قصور اعجاز الحق کا بھی اتنا نہیں، انصاف کی بات یہ ہے کہ شروعات جناب وزیراعظم نے خود کیں۔ قائداعظم کے یوم ولادت کے سلسلے میں ادارہ ثقافتِ پاکستان اسلام آبادمیں تصویری نمائش کا انعقاد تھا۔ وزیراعظم جناب یوسف رضا گیلانی تشریف فرما تھے۔ ملٹی میڈیا پر تصویریں دکھائی جا رہی تھیں۔ قائداعظم کی زندگی کے مختلف ادوار ایک ایک کر کے سامنے آ رہے تھے، اچانک سکرین پر جنرل ضیاالحق فوجی وردی میں ملبوس نمودار ہو گئے۔ نوائے وقت کی اطلاع کے مطابق وزیراعظم برہم ہو گئے، منتظمین پر برس پڑے، کابینہ ڈویژن کی سیکرٹری سے بازپُرس کی اور پھر اسی پر بس نہیں کیا، خطاب کے دوران برہمی ہی میں پوچھا کہ قائداعظم کی تصاویر کے ساتھ ضیاالحق کا کیا تعلق ہے؟ یوں تو یہ خبر پڑھتے ہوئے ہر شخص کے ذہن میں یہ بات آئی ہو گی کہ آخر ضیاالحق کے زمانے میں بھی تو  یوسف رضا گیلانی اقتدار ہی میں تھے، تاہم جنرل ضیاالحق کے صاحبزادے جناب اعجازالحق اس خبر کو کس طرح پی سکتے تھے۔ یوں بھی وہ ان دنوں اقتدار سے باہر ہیں اور میڈیا کے حوالے سے پس منظر میں ہیں، اس لئے ایسا موقعہ اللہ دے اور بندہ لے۔ چنانچہ حسبِ توقع انہوں نے وزیراعظم کی برہمی کا ن...

ہوم ورک! عمران خان! ہوم ورک

تصویر

عظیم ترین ائر لائن

دنیا کی تمام بڑی بڑی ائر لائنوں نے مجھے اپنے جہازوں میں سفر کرنے کی پیشکش کی ان میں روانڈا، گھانا، نائجر، چاڈ، صومالیہ اور افغانستان کی ائر لائنیں نمایاں تھیں۔ ان ائر لائنوں نے گارنٹی دی تھی کہ ان کے جہازوں میں سفر آرام دہ ہوگا، کسی معاملے میں تاخیر نہیں ہوگی اور معیار عالمی سطح کا ہوگا لیکن میں نے ان کی پیشکش ٹھکرا دیں، میں نے دنیا کی عظیم ترین ائر لائن سے ٹکٹ خریدا۔ دنیا کی عظیم ترین ائر لائن کے عظیم جہاز سے جب میں بنکاک کےلئے کئی گھنٹوں کی تاخیر سے روانہ ہوا تو اس جہاز کا لاہور رُکنے کا کوئی پروگرام نہ تھا لیکن جب یہ جہاز لاہور سے گزر رہا تھا تو کچھ مسافروں نے راستے میں کھڑے ہو کر زور زور سے ہاتھ ہلائے اور جہاز کو رُکنے کا اشارہ کیا، جہاز نے جواب میں زور زور سے ہارن بجائے اور انہیں راستے سے ہٹ جانے کےلئے کہا لیکن گٹھڑیاں سروں پر لادے اور تھیلے ہاتھوں میں پکڑے مسافر کہاں ماننے والے تھے، نتیجہ یہ ہوا کہ جی ٹی ایس کی اس بس کو، نہیں، معاف کیجئے، میرا مطلب ہے عظیم ترین ائر لائن کے اس جہاز کو لاہور رکنا پڑا۔ یہ اسلام آباد سے کئی گھنٹے تاخیر سے چلا تھا۔ دو گھنٹوں کی تاخیر مزید جمع ...

فال اور اُلّو

اُس سے تعارف اُس وقت ہوا جب چھ سال پہلے میں کچھ عرصہ کیلئے انگلستان کے ایک خوبصورت قصبے گلو سٹر میں مقیم تھا۔پہلی دفعہ اسے مسجد میں دیکھا۔سفید فام انگریز! جسے ہم پاکستانی عام طور پر گورا کہتے ہیں۔وہ بہت انہماک سے نماز پڑھ رہا تھا۔ میں اسے ملا اور چند دنوں میں ہم دوست بن چکے تھے۔اکثر اسکی سفیدفام بیوی بھی مسجد میں اسکے ساتھ ہوتی۔اس نے بتایا کہ دونوں ایک ساتھ اسلام کی پناہ میں داخل ہوئے تھے۔ بیوی ڈاکٹر تھی اور وہ خود بزنس مین۔ ایک ماہ پہلے اس کا فون آیا کہ وہ دارالحکومت کے فلاں ہوٹل میں ٹھہرا ہوا ہے۔میں نے اپنے گھر کا پتہ بتایا اور فوراَ  آنے کی فرمائش کی لیکن اس کا اصرار تھا کہ میں اسکے ہوٹل آﺅں کیونکہ اس کے پاس وقت کم تھا۔ شام کو اس کی فلائٹ تھی۔ وہ گلوسٹر واپس جارہا تھا۔میں تین گھنٹے اسکے پاس بیٹھا ۔ ہم نے دنیا جہان کی باتیں کیں۔ جب میں نے پوچھا کہ وہ پاکستان کیوں آیا تو پہلے تو وہ طرح دے گیا لیکن جب میں نے اصرار کیا اور اس نے  لگی لپٹی رکھے بغیر وجہ بتائی تو سچی بات یہ ہے کہ میرے ہوش اُڑ گئے ۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ میں کیا کہوں۔ اس نے بتایا کہ ...

گٹھری اور تھیلا

کار نئی تھی اور چلانے والا جوان تھا۔اس کم عمری میں وہ کمپنی کا ایگزیکٹیو ڈائرکٹر تھا اور یہ قیمتی گاڑی اسے آج ہی کمپنی نے دی تھی۔ اسے چلاتے ہوئے وہ یوں محسوس کر رہا تھا جیسے آسمان پر اُڑ رہا ہو۔ ایک گلی سے گذرتے ہوئے اسے احتیاط کرنا پڑی۔ دائیں بائیں گاڑیاں کھڑی تھیں اور ان کے پیچھے سے کوئی کھیلتا ہئوا بچہ نکل کر سامنے آسکتا تھا۔ پھر بھی اس کی رفتار خاصی تیز تھی۔ اتنے میں زور کی آواز آئی اور اس کی گاڑی جیسے لرزی۔ وہ گاڑی روک کر باہر نکلا۔ ایک اینٹ اس کی گاڑی کو آ کر لگی تھی۔ دایاں دروازہ تقریباَ ٹوٹ چکا تھا۔ ایک سراسیمہ بچہ پاس ہی کھڑا تھا۔ اس نے اسے پکڑ کر جھنجھوڑا۔ ” کیا تمہیں معلوم ہے یہ گاڑی کتنی قیمتی ہے ؟ میں تم سے ایک ایک پائی وصول کرونگا۔ “ بچّہ کانپ رہا تھا۔  مجھے معاف کر دیجیے لیکن مجھے مجبوراَ آپ کی گاڑی کو اینٹ مارنا پڑی۔ سب لوگ اتنی تیز رفتاری سے جا رہے ہیں کہ کوئی رک ہی نہیں رہا تھا۔ شکر ہے آپکی گاڑی کو میری اینٹ لگی اور آپ رک گئے۔ میرا معذور بھائی وِیل چیئر سے گر گیا ہے اور میں اکیلا اسے اُٹھا کر ویل چیئر پر دوبارہ نہیں بٹھا سکتا۔ کیا آپ میری مدد کریں گے؟...

صرف دو قومیتیں

تلخ نوائی بزرگ پڑھا رہے تھے۔ وہ عالم بھی بہت بڑے تھے اور استاد بھی کمال کے تھے۔دور و نزدیک سے علم کے شائقین آتے اور فیض یاب ہوتے۔اُس دن وہ ذرا بے تکلّفی کے مُوڈ میں تھے۔ انہوں نے دستار اتار رکھی تھی۔ دیوار سے ٹیک لگا کر ٹانگیں لمبی کر لی تھیں۔شاگرد عبارت پڑھتا۔ وہ تشریح کرتے۔ تشریح کیا کرتے، علم اور حکمت کے موتی رولتے۔ اسی حالت میں انہوں نے دیکھا کہ ایک دراز قد وجیہ شخص مسجد میں داخل ہئوا۔اس کی شخصیت بارعب تھی۔لباس سے بہت بڑا عالم لگتا تھا۔سفید دستار،اس پرطُرّہ۔ بزرگ محتاط ہو گئے۔اتنا بڑا عالم غلطی بھی نکال سکتا ہے، اعتراض بھی کر سکتا ہے۔ انہوں نے اپنی پھیلی ہوئی ٹانگیں سمیٹ لیں۔ پگڑی سر پر رکھ لی اور زیادہ توجّہ سے پڑھانے لگ گئے۔ دراز قد بارعب شخص نے وضو کیا اور مسجد کے اندر آ گیا۔پڑھنے والے طالب علم خاموش ہو گئے۔قریب آیا تو پڑھانے والے بزرگ نے بہت احترام سے پوچھا  ” جناب کا اسم گرامی ؟ “ اس پر اُس نے اپنی بتیسی کی نمائش کی اور کہا ” مجھے آپ کی بات سمجھ میں نہیں آئی “ اب کے بزرگ نے پوچھا ” آپ کا نام کیا ہے ؟ “ اس پر اس نے پھر بتیسی کی نمائش کی اور بتایا ” جی م...

اذانیں دینے کا وقت

اس کے سر میں ایک سو آنکھیں ہیں مونہہ میں اڑتالیس دانت ہیں جسم میں تین دل ہیں۔ ناک کے اندر چھ چاقو ہیں اور ہر چاقو کا استعمال مختلف ہے۔ جسم کے دونوں طرف تین تین پَر ہیں۔ اسی جسم میں جدید ترین ایکس رے مشین نصب ہے۔ یہ کوئی سمندری بلا نہیں، نہ کسی عفریت کی داستان ہے۔ نہ جادو پری کا قصّہ ہے۔ یہ اُس مچھر کا ذکر ہے جو ہمارا خون چوستا ہے لیکن ابھی حیرت کے دروازے بند نہیں ہوئے۔ مچھر کے جسم میں ایک خاص دوا ہے جو انسانی بدن کے اُس حصّے کو سُن کر دیتی ہے جہاں یہ اپنے دانت گاڑتا ہے تاکہ جس کا خون چوسا جا رہا ہے اسے کم سے کم احساس ہو! اسکے اس ذرا سے جسم میں خون ٹیسٹ کرنے کی ایک جدید مشین بھی لگی ہوئی ہے تاکہ یہ انسانی خون کو ٹیسٹ کرے اور اپنی پسند کا خون پی سکے۔ پھر یہ خون پینے کے عمل کو تیز تر بھی کر سکتا ہے تا کہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ خون پی سکے۔  یہ آ ج مچھروں کی خصوصیات کے بارے میں ہم آپ کو کیوں بتانے بیٹھ گئے۔ اس کا جواب تھوڑی دیر میں عرض کرتے ہیں لیکن پہلے ایک ایسی خبر سنیے جو عبرت کا مرقّع ہے۔ ملک میں کرائے کے بجلی گھروں کے ضمن میں کرپشن کا جو بازار گرم ہے اور جس طرح بجلی ...

مگر اک بات جو دل میں ہے

یہ رباط تھا۔ مراکش کا خوبصورت خوابیدہ دارالحکومت۔ ہم کاسا بلانکا کے ہوائی اڈے پر اترے تھے۔ کاسا بلانکا جو مراکش کا نیویارک ہے۔ پرتگالی میں کاسا بلانکا کا مطلب سفید محل ہے۔ عرب اسے دارالبیضا کہتے ہیں۔ محل نما مکان کے ساتھ بہت بڑا لان تھا۔ لان کے درمیان ایک شخص آلتی پالتی مارے زمین پر بیٹھا گھاس سے جھاڑ جھنکار نکال رہا تھا۔ مناسب فاصلے پر ایک خاتون بیٹھی یہی کام کر رہی تھیں۔ یہ قاضی رضوان الحق تھے۔ مراکش میں پاکستان کے سفیر۔ خاتون ان کی بیگم تھیں۔ یہی ہمارے میزبان تھے۔ میرے یارِ دیرینہ قاضی عمران کے برادر خورد۔  قاضی رضوان تغلقوں کے دارالحکومت دیپالپور کے اس خاندان سے ہیں جسے ترکوں اور مغلوں نے قاضی مقرر کیا تھا۔ قاضی تو اب یہ لوگ نہیں رہے لیکن درویشی باقی ہے۔ قاضی عمران بھی بڑے بڑے عہدوں پر رہے مگر ہر رمضان کے آخری دس دن دیپالپور کی مسجد کے سخت فرش پر گزارتے تھے۔ میری بیگم بھی لان کی صفائی پر لگ گئیں اور میں آڈیٹر جنرل آف مراکش سے ملنے چلا گیا۔ ایک سال پہلے میکسیکو میں دنیا بھر کے ملکوں کے آڈیٹر جنرل اکٹھے ہوئے تھے۔ اپنے ملک کی ٹوٹی پھوٹی نمائندگی میں کر رہا تھا۔ وہیں ڈاکٹر احمد ا...

بوجھو تو جانیں

میرا کوئی ارادہ نہیں کہ آپ سے ”بوجھو تو جانیں“ کھیلوں لیکن کیا آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ میرا آئیڈیل کون لوگ ہیں؟مجھے یقین ہے کہ آپ نہیں بوجھ سکیں گے۔ آپ کا خیال ہو گا کہ دانشور، ادیب، سائنسدان یا فنکار میرا آئیڈیل ہیں۔ نہیں۔ ہرگز نہیں! میرا آئیڈیل اِس ملک کے تاجر ہیں اس لئے کہ انکے اعصاب مضبوط ہیں۔ یہ گروہ ارادے کا پکا ہے۔ جو چاہے، حاصل کر کے رہتا ہے۔ کسی سے ڈرتا ہے نہ کسی کی پرواہ کرتا ہے۔ ملک میں سیلاب آئے یا زلزلہ، طوفان آئے یا آندھی، عید ہو یا رمضان، خوشی ہو یا غم، تاجر برادری پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ یہ اپنے اہداف ہر حال میں جیت کر رہتے ہیں۔ یہ ناک کی سیدھ میں چلتے ہیں اور اپنے مقصد کے حصول میں اِدھر اُدھر دیکھتے ہیں نہ کسی رکاوٹ ہی کو خاطر میں لاتے ہیں۔ آپ دکانیں صبح جلد کھولنے اور سرِشام بند کرنے ہی کی مثال لے لیجئے۔ جن ملکوں میں بجلی کی کمی کا مسئلہ نہیں اور خوشحالی کا دور دورہ ہے، وہاں بھی دکانیں صبح نو بجے کھُل جاتی ہیں اور شام پڑتے ہی بند ہو جاتی ہیں۔ میں اِن دنوں آسٹریلیا میں ہوں۔ حال ہی میں گھڑیاں ایک گھنٹہ آگے کر دی گئی ہیں۔ سورج پونے آٹھ بجے غروب ہو رہا ہے لیکن...

وہ میرا شعلہ جبیں موجئہ ہوا کی طرح

اکتوبر کی تیسری صبح تھی جب تعمیلِ حکم کےلئے فرشتہ گھر میں داخل ہوا اور زندگی پروں کو پھڑپھڑاتی دریچے سے باہر نکل گئی۔ فاروق گیلانی اپنے پروردگار کے حضور پہنچ گئے۔ سب سے بے نیاز۔ جیسا کہ رومی نے کہا تھا .... بروزِ مرگ چو تابوتِ من رواں باشد گماں مبر کہ مرا فکرِ این و آن باشد مرگ کے دن جب میرا تابوت جا رہا ہو گا تو یہ نہ سوچنا کہ مجھے اِدھر اُدھر کی فکر ہو گی۔ وہ اِس عصر میں اُن اہلِ کمال کی تصویر تھے جن کے گزرے زمانوں کو لوگ یاد کر کے حیران ہوتے ہیں۔ 36 سال سروس کے اعلیٰ عہدوں پر یوں رہے جیسے بتیس دانتوں میں زبان۔ تلوار کی طرح تیز اور کھرے۔ کتنی ہی دفعہ سزا کے طور پر او ایس ڈی بنائے گئے لیکن کبھی اتنی مصلحت کیشی بھی پسند نہ کی جسے بڑے بڑے صالحین بھی جائز سمجھتے ہیں۔ نصف درجن کے قریب کتابیں آغازِ جوانی ہی میں تصنیف کر چکے تھے۔ گفتگو ایسی کہ ادب اور تاریخ کا، دانش اور حکمت کا مرقع۔ شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہو کہ انکے سامنے فارسی یا اردو کا کوئی مصرع یا قرآن پاک کی کسی آیت کا حصہ پڑھا گیا اور انہوں نے اسے مکمل نہ کر دیا۔ اردو اور انگریزی پر یکساں مہارت۔ خیال کو پوشاک پہنانے کا ار...

پاگل لڑکے سے ٹاکرہ

میں جب کسی کام کا بیڑہ اٹھاتا ہوں تو پھر محنت ، احساسِ ذمہ داری اور کار کردگی کی انتہا پر پہنچ کر دم لیتا ہوں۔ اب کُل جماعتی کانفرنس [ اے پی سی ] ہی کو لے لیجیے، میں نے مصمم ارادہ کر لیا کہ جہاں تک میرا بس چلے گا ہر پاکستانی کو اس کانفرنس کی اہمیت سے آگاہ کروں گا۔ آخر ملک کا مستقبل اسی کُل جماعتی کانفرنس ہی پر تو منحصر ہے۔ یہی احساس ذمہ داری تھا جس نے مجھے اس نوجوان لڑکے سے گفتگو کرنے پر مجبور کیا جو سخت گرمی میں مکان کے باہر تھڑے پر بیٹھا تھا۔ میں نے گاڑی ایک طرف پارک کی اور اُس گندی چھوٹی گلی کے دوسری طرف اُس کے پاس باقاعدہ چل کر گیا۔ پسینے سے اس کی قمیض اس کے بدن کے ساتھ چپکی ہوئی تھی۔ اس سے بو آرہی تھی۔ پھر بھی میں اس کے نزدیک ہئوا اور پوچھا ۔" نوجوان تمہیں معلوم ہی ہو گا کہ کُل جماعتی کانفرنس ہو رہی ہے جو ملک کی سلامتی کی طرف ایک اہم قدم ہے۔" اُس نے قمیض کے بازو کے ساتھ ماتھا پونچھا اور عجیب ہونق انداز میں کہنے لگا " کون سی کُل جماعتی کانفرنس؟" پوچھنے پر اس نے بتایا کہ گیارھویں جماعت کا طالب علم ہے۔ مجھے حیرت ہوئی کہ پھر بھی اسے کانفرنس کے بارے میں کچھ علم...

انوری کا گھر کہاں ہے؟

مشہور شاعر انوری نے کہا تھا کہ ہر بلا آسمان سے اترتے ہوئے میرے گھر کا پتہ پوچھتی ہے۔ لگتا ہے انوری بیچارے کا گھر بھی پاکستان جیسا تھا۔ جب بھی شمعِ حوادث کی لَو تھرتھراتی ہے مصیبتوں کا ایک نیا سلسلہ پاکستان پر ٹوٹتا ہے۔ غریب کی جورو.... طالبان کا زور بھی پاکستان پر ہے، امریکہ بھی اپنی شکست کا غصہ پاکستان پر اتارنا چاہتا ہے۔ کرپٹ انسانوں کا ایک مکروہ طائفہ لوٹ کھسوٹ کے مال سے دنیا بھر میں جائیدادیں خرید رہا ہے، کارخانے لگا رہا ہے اور بنکوں کی تجوریاں بھر رہا ہے، طبقہء علماءکے بڑے حصے کو  بھی اقتدار کا ذائقہ راس آگیا ہے! آپ پاکستان اور اہل پاکستان کی بدقسمتی کا اندازہ لگائیے کہ پرویز مشرف جیسے شخص میں بھی یہ حوصلہ ہے کہ وہ برملا پاکستان واپس آکر اقتدار سنبھالنے کا دعویٰ کر رہا ہے اور اس سے بھی بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ اس نے عمران خان کو اپنا حلیف قرار دیا ہے۔ کہا تو اس نے یہ بھی ہے کہ ایم کیو ایم بھی اس کا ساتھ دے گی لیکن ایم کیو ایم کے ماضی اور ہر لحظہ موقف بدلتے حال کے پیش نظر، اس کا پرویز مشرف کی حمایت کرنا حیرت انگیز بالکل نہیں ہے۔ المیہ یہ ہے کہ پرویز مشرف نے عمران خان کو بھی اپنا ح...

میں پرتھ یونیورسٹی سے متاثر کیوں نہیں ہوا؟

اٹھانوے برس پہلے جب یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا کا پرتھ میں آغاز ہوا تو اُسکے طلبہ کی تعداد صرف 184تھی۔ یونیورسٹی کی عمارت کیا تھی، دیواریں لکڑی کی تھیں اور چھتیں ٹین کی چادروں کی تھیں۔ یونیورسٹی کی قسمت اچھی تھی۔ علی گڑھ یونیورسٹی کی طرح پرتھ یونیورسٹی کو بھی ایک سرسید میسر آگیا۔ اس کا نام وِن تھراپ تھا۔ سَر جان ونتھراپ روزنامہ ویسٹ آسٹریلیا کا مالک اور مدیر تھا۔ اس نے یونیورسٹی کےلئے دن رات ایک کر دئیے۔ یہ بانی چانسلر بھی تھا۔ اس نے اپنی جیب سے سوا چار لاکھ پاﺅنڈ کا عطیہ دیا جو آج کے تین کروڑ ڈالر بنتے ہیں! آج یونیورسٹی کے طلبہ کی تعداد اکیس ہزار ہے جن میں تقریباً پانچ ہزار غیر ملکی ہیں۔ اساتذہ کی تعداد ایک ہزار چار سو ہے لیکن یونیورسٹی کی وجہ شہرت تحقیق اور تحقیقی کام کی تربیت ہے۔ آسٹریلیا میں تحقیق کے حوالے سے یونیورسٹی دوسرے نمبر پر ہے۔ مجھے گذشتہ ہفتے یونیورسٹی میں منعقد کی جانےوالی کانفرنس اور سمپوزیم کےلئے مدعو کیا گیا تھا۔ یہ سرگرمیاں تین دنوں پر محیط تھیں۔ کانفرنس نائن الیون کے حوالے سے تھی اور سمپوزیم آسٹریلیا کے مسلمانوں کے مسائل کے بارے میں تھا جس میں اظہارِ خیال کی دعوت...

اور ہم نیلام ہوجائیں گے....

تصویر

مائینڈ سیٹ

اس کالم نگار کی جاوید ہاشمی سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی‘ ظاہر ہے کہ ایک سست الوجود اور عافیت پسند شخص کسی بھی سیاست دان سے ملنے کا شرف نہیں حاصل کر سکتا۔ سیاست دانوں کو ملنے کیلئے تو بہت دوڑ دھوپ کرنا پڑتی ہے‘ یا پھر کالم نگاری اس ”پائے“ کی ہو کہ سیاست دان خود آکر ملیں‘ وقتاً فوقتاً فون کریں اور بعض مواقع پر ڈھونڈتے بھی رہیں لیکن اس ”پائے“ کی کالم نگاری ہر کہہ و مہ نہیں کر سکتا۔ یہاں بنیادی شرط ”پائے“ کی ہے‘ مشتاق احمد یوسفی ایک جگہ لکھتے ہیں کہ یہ جو پائے کھائے جاتے ہیں‘ بکری کے یا گائے کے‘ تو ان سب میں صرف چارپائی کے پائے صاف ستھرے ہوتے ہیں۔ پائے کے حوالے سے اپنا ہی ایک شعر بھی یاد آرہا ہے.... کسی سے شام ڈھلے چھن گیا تھا پایہء تخت کسی نے صبح ہوئی اور تخت پایا تھا جاوید ہاشمی نے خدشے کا اظہار کیا ہے کہ چند سالوں بعد لاہور کا حال بھی کراچی جیسا نہ ہو جائے۔ جاوید ہاشمی کو اس وقت بھی پارٹی ترجمان قسم کی مخلوقات نے غیردانشمند قرار دیا تھا‘ جب اٹھارہویں ترمیم منظور ہوتے وقت اس نے قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر سیاسی جماعتوں میں موروثی بادشاہت کی مذمت کی تھی۔ ہو سکتا ہے لاہور کے بارے میں اسکے خ...

سفید چادرِ غم تھی

میں ہملٹن کے جزیرے میں ہوں۔  میلبورن سے اڑھائی ہزار کلو میٹر شمال کی طرف--- تین میل لمبا اور دو میل چوڑا یہ جزیرہ صرف اور صرف سیاحت کےلئے ہے اور گنتی کے چند لوگ یہاں مستقل رہائش پذیر ہیں۔ جزیروں کی ایک قطار ہے جو سمندر میں دور تک نظر آتی ہے۔ بادل نیلے پانیوں کو چُھو رہے ہیں اور جزیرے کی شفاف سڑکوں پر اُڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ آلودگی سے بچنے کےلئے کاریں چلانے کی اجازت نہیں۔ بجلی سے چلنے والی بگھیاں ہیں جو سیاح خود چلاتے ہیں۔ صفائی کا یہ عالم ہے کہ تنکا بھی کہیں نظر نہیں آتا۔ تنظیم، قانون کی حکمرانی اور شہریت کا شعور۔ ان  تین چیزوں نے اس جزیرے کو جنت کا ٹکڑا بنا رکھا ہے۔ دنیا بھر سے سیاح آ رہے ہیں۔ آسٹریلیا اربوں ڈالر کا سالانہ زرمبادلہ کما رہا ہے۔ جزیرے میں کوئی پولیس کا افسر، کوئی فوجی، کوئی داروغہ نہیں دکھائی دیتا۔ گورنر ہاوس ہے نہ وزیراعظم کےلئے کوئی مخصوص رہائش، نہ کسی کےلئے کوئی مفت کھاتہ ہے نہ کوئی وی آئی پی ہے اور سچ پوچھئے تو ہر شخص وی آئی پی ہے۔ دُھند، ساحل کی ریت، شفاف نیلگوں پانی، دلرُبا ہَوائیں، سکیورٹی اور دھیما پن، اس قدر کہ کسی شخص کا چیخنا تو درکنار، بلند آواز سے ب...