اشاعتیں

دسمبر, 2010 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

پیش ِ مادر آ

چین کی حکومت نے یہ حکم جاری کیا ہے تو اس لئے کہ وہاں ایک صحت مند معاشرہ ہے۔ مقتدر طبقات قوم کا درد رکھتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ قانون سب کیلئے یکساں ہے جہاں اہل اقتدار اور صرف اہل اقتدار نہیں، سارا بالائی طبقہ، ساری اپر کلاس لوٹ کھسوٹ میں مصروف ہو وہاں زبان پر توجہ کون دیگا؟ قوم کس زبان میں گفتگو کر رہی ہے اور کس زبان میں تعلیم حاصل کر رہی ہے؟ ان سوالوں پر تو وہ حکمران سوچتے ہیں جن کا اوڑھنا بچھونا قوم ہو اور اپنی ذات کو انہوں نے پوٹلی میں بند کر کے ایک کونے میں رکھ دیا ہو! چین کے حکمران قانون سے ماورا نہیں، انکی دولت غیر ملکی بنکوں میں ہے نہ انکی جائیدادیں تین براعظموں پر پھیلی ہوئی ہیں۔ انکے پاس بس اتنا ہی ہے کہ وہ دو وقت کا کھانا کھا لیں اور باعزت لباس پہن سکیں، ایسے ہی حکمران ہوتے ہیں جو صرف قوم کی اقتصادیات اور دفاع کے بارے میں ہی نہیں قوم کی ثقافت، تہذیب اور زبان کے بارے میں بھی فکر مند ہوتے ہیں اسی لئے تو چین کی حکومت نے یہ حکم جاری کیا۔ چین کی حکومت نے اخباروں، اشاعت گھروں، ویب سائٹوں، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کو حکم دیا ہے کہ چینی زبان بولتے اور لکھتے وقت غیر ملکی زبانوں کے ا...

کہ اپنے آپ کو اس صحن میں بو دوں

مزارع کا لڑکا پڑھ لکھ کر افسر بن گیا تو اس نے اسی چودھری کی بیٹی سے شادی کرنے کی ضد کی جس کی زمین پر اس کا باپ ہل چلاتا تھا۔ مزارع نے جا کر اظہار مدعا کر دیا۔ چودھری نے سنا تو آگ بگولا ہو گیا اور اپنے ’’خاص‘‘ ملازموں کو حکم دیا کہ سائل کا دماغ درست کیا جائے۔ دماغ کی درستی کے دوران مزارع کو جہاں زخم آئے‘ ہڈیاں ٹوٹیں اور کپڑے تار تار ہوئے وہاں اس کی پگڑی بھی کھل گئی۔ وہ اٹھا‘ رہے سہے کپڑے جھاڑے اور کھلی ہوئی پگڑی سر پر باندھنے لگا۔ پگڑی باندھتے ہوئے اس نے چودھری سے فیصلہ کن لہجے میں پوچھا کہ ’’چودھری صاحب! آپ کی طرف سے پھر میں انکار ہی سمجھوں؟‘‘ مشرقی پاکستان چودھری تھا‘ نہ مغربی پاکستان مزارع‘ لیکن یہ لطیفہ اس لئے یاد آیا کہ گذشتہ ہفتے مشرقی پاکستان کی افسوس ناک علیحدگی کی انتالیسویں برسی پر ہمارے ٹیلی ویژن چینل جو پروگرام دکھاتے رہے ان میں سے کچھ کے موضوع اس قسم کے تھے۔ ’’کیا مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان دوبارہ اکٹھے ہو سکتے ہیں؟‘‘ کیا پاکستان اور بنگلہ دیش ایک بار پھر ایک ملک بن سکتے ہیں؟ ’’مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں ہندوؤں کا کردار‘‘ وغیرہ وغیرہ! ہمیں نہیں معلوم کہ بنگلہ دیش ک...

سب مزے میں ہیں

نہیں میرے دوست! نہیں! پاکستان ترکی نہیں بن سکتا۔  ترکی نہ ملائیشیا نہ ہی متحدہ عرب امارات! بھلا صومالیہ اور زمبابوے جیسے ملک ترکی اور ملائیشیا کی سطح پر کیسے آ سکتے ہیں؟ آج اگر کوشش شروع بھی کر دی جائے تو کئی دہائیاں لگیں گی اور کوشش شروع ہونے کے دور دور تک کوئی آثار نہیں! یہ کسی دور افتادہ پس ماندہ گائوں کا واقعہ نہیں، یہ واقعہ دارالحکومت سے نصف گھنٹے کی مسافت پر واقع ایک جدید اور ترقی یافتہ ٹائون کا ہے اور یہ برسوں پہلے کا واقعہ نہیں، چند ہفتے پہلے کا ہے۔ مسجد بھری ہوئی تھی، جمعہ کا خطبہ دیا جا رہا تھا ۔ تیس سے چالیس فیصد نمازی پتلونوں میں ملبوس تھے اس لیے کہ وہ دفتروں اور کارخانوں میں ڈیوٹی دیکر سیدھے مسجد آئے تھے۔ خطبہ دینے والے مولانا نے اعلان کیا ’’پتلون پہننا حرام ہے‘‘ ۔ کسی نے چوں تک نہ کی۔ ایک ایسا عالم دین بھی نمازیوں میں بیٹھا تھا جو آٹھ دس سال مغربی ملکوں میں گزار کر آیا تھا۔ نماز کے بعد اس نے حضرت سے پوچھا کہ جو برازیل یا میکسیکو یا امریکہ میں پیدا ہوا اور اس کا لباس ہی پتلون ہے تو کیا مسلمان ہونے سے پہلے وہ پاکستان سے یا سعودی عرب سے لباس منگوائے گا اور پھر کلمہ...

لنڈورے، کبڑے اور اندھے

کیا  آپ سامنے وہ اونچا میدان دیکھ رہے ہیں؟ وہاں سے تین بھیڑے اتر کر آئے ان میں سے دو تو لنڈورے تھے، ایک کی دم نہیں تھی! جس بھیڑیے کی دم نہیں تھی وہ تین دریاوں میں تیرتا تھا۔ ان میں سے دو دریا خشک تھے، تیسرے میں پانی ہی نہیں تھا۔ جس دریا میں پانی نہیں تھا اسکے کنارے تین شہر تھے۔ دو شہر اجڑے ہوئے تھے، تیسرا آباد ہی نہیں تھا۔ جو شہر آباد نہیں تھا‘ اس میں تین کمہار رہتے تھے، دو کمہار کبڑے تھے، ایک سیدھا ہی نہیں ہو سکتا تھا۔ جو کمہار سیدھا نہیں کھڑا ہو سکتا تھا، اس نے تین ہانڈیاں بنائیں۔ دو ہانڈیاں ٹوٹی ہوئی تھیں، ایک کا پیندا ہی نہیں تھا۔ جس ہنڈیا کا پیندا نہیں تھا، اس میں چاول کے تین دانے پکائے گئے۔ دو دانے سخت نکلے ایک نرم ہی نہیں ہوا۔ چاول کا جو دانہ سخت تھا، اسے تین مہمانوں کو پیش کیا گیا۔ دو مہمان بھوکے رہے، ایک کا پیٹ ہی نہیں بھرا۔ جس مہمان کا پیٹ نہ بھر سکا اسکے پاس تین عدد گائے تھیں۔ دو بانجھ تھیں اور ایک دودھ ہی نہیں دیتی تھی۔ جو گائے دودھ نہیں دیتی تھیں اسے تین روپے میں فروخت کر دیا گیا، دو روپے کھوٹے تھے اور ایک کو لیتا ہی کوئی نہیں تھا۔ جس روپیہ کو کوئی نہیں قبول کرتا تھ...