کھیل کا منطقی انجام
یہ منظر جانا پہچانا ہے۔ یہاں سے ہم پہلے گذر چکے ہیں۔ یہ سماں ہم نے کئی بار دیکھا ہے۔ پلاسٹک کے وزیراعظم شوکت عزیز کا عہد تھا۔ پنجاب میں برسراقتدار، دو اہم سیاست دا ن کچھ دن بعد شوکت عزیز کو ملتے تھے۔ اخبارات کے پہلے صفحے پر تصویر آتی تھی۔ چند روز گزرتے تھے کہ ایک اور تصویر چھپتی تھی۔ راولپنڈی کا ایک سیاست دان جو فوجی آمر کی تعریف میں رطب اللسان رہتا تھا، پنجاب کے برسراقتدار سیاست دان کو مل رہا ہوتا تھا۔ نہیں معلوم کسی کو یاد بھی ہے یانہیں کہ اس سوئی ہوئی قوم کا حافظہ مکڑی کے بنے ہوئے تار سے زیادہ کمزور ہے۔ ان ملاقاتوں کی تصویریں اس کثرت اور اس تواتر سے اور اس ترتیب سے شائع ہوتی تھیں کہ ہنسی تک آنا رک گئی تھی! وہی منظر ہے، وہی تصویریں ہیں۔ وہی کثرت ہے اور وہی تواتر ہے۔ صرف نام بدلتے ہیں۔ کردار وہی رہتے ہیں۔ ایک رات ایسی آتی ہے جب ایکڑ بدل دیئے جاتے ہیں اور شاعر پکار اٹھتا ہے …؎ کیا رات تھی بدلے گئے جب نام ہمارے پھر صبح کو خیمے تھے نہ خدام ہمارے خیمے اور خدام کسی اور کے ہو جاتے ہیں اور سٹیج سے غائب ہونے والے اداکاروں کے نام تک گرد میں چھپ جاتے ہیں۔ تازہ منظر میں ایک معروف مذہبی رہ...