اشاعتیں

اکتوبر, 2010 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

جہاں پر جلتے ہیں

جب سے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے پاکستان کو پہلے سے زیادہ کرپٹ قرار دیا ہے اور بنگلہ دیش اور بھارت کی پوزیشن بہتر ہوئی ہے ہم آہ و زاری میں مصروف ہیں۔ کالم نگاروں نے سر کے بال کھول لئے ہیں اور سینوں پر دوہتھڑ مار رہے ہیں۔ دانشور بین کر رہے ہیں اور تجزیہ نگار مرثیہ خوانی سے آسمان میں شگاف ڈال رہے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کب تک ہم فقط آہ و زاری کریں گے اور سینے پیٹتے رہیں گے؟ آئیے! اس ملک کے ایک باشعور شہری کی حیثیت سے ہم اپنا فرض ادا کریں۔ ہم حکومت سے درخواست کریں کہ کم از کم تین ایسے معاملات جن میں کرپشن ثابت ہو چکی ہے اپنے منطقی انجام کو پہنچائے۔ یہ تین ایسے معاملات ہیں جن میں ملک کے طاقت ور افراد ملوث ہیں۔ یہ افراد ان قبیلوں، ان طبقوں سے تعلق رکھتے ہیں جنہیں آج تک سزا نہیں ملی۔ انہی طبقات کو دیکھ کر دوسرے لوگ کرپشن کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں اور مجبور بھی! اگر ہم چاہتے ہیں کہ آہ و فغان کرنے کے بجائے اس ضمن میں عملی طور پر بھی کچھ کریں تو ہم سے ہر ایک کو چاہئے کہ چار روپے کا لفافہ لیکر جناب وزیراعظم کی خدمت میں استدعا کریں کہ وہ ان معاملات کو منطقی انجام تک پہنچائیں۔ ایک بار… صرف ایک بار… اگ...

خضاب کے رنگ دھنک پر

میں نے اخبار میں پڑھا تو یقین آیا اور اطمینان ہوا کہ اللہ کے دین کے سپاہی سو نہیں رہے ،جاگ رہے ہیں۔  حضرت مولانا نے جو وفاق المدارس کے ناظم اعلیٰ ہیں فرمایا کہ ’’ نیلو فر بختیار کا بیان اسلام اور آئینِ پاکستان سے غداری کے مترادف ہے۔ اس خاتون کو سینٹ کارکن ہونے کا کوئی حق نہیں اس کی رکنیت فوراً ختم کردینی چاہیے‘‘۔ مفتی صاحب نے بھی انہی خطوط پر قاف لیگ کی اس خاتون کی مذمت کی اور فرمایا کہ دستوری اور اخلاقی دونوں اعتبار سے نیلو فر بختیار پارلیمنٹ کی رکن ہونے کا حق کھو بیٹھی ہیں۔ خاتون نے وضاحت پیش کی ہے کہ سینٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں اس نے صرف یہ کہا تھا کہ اگر محکمۂ سیاحت کے سرکاری ہوٹلوں میں شراب پر پابندی ہے اور فائیو سٹار ہوٹلوں میں یہ پابندی نہیں ہے تو یہ قانون کا مساوی نفاذ نہیں ہے لیکن میں ذاتی طورپر یہ وضاحت قبول کرنے کے حق میں نہیں۔ ایک عورت کا بیان دو علماء دین کے بیان پر کس طرح حاوی ہوسکتا ہے؟ مجھے اطمینان ہوا ہے کہ اللہ کے دین کے یہ بے لوث اور بے غرض سپاہی جاگ رہے ہیں’’ ملک کا اسلامی تشخص مجروح‘‘ کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دینگے۔ یُو ٹیوب پر لاکھوں کروڑوں افراد نے ...

دولت مند بھک منگے

میں حیران ہوں کہ تم لوگ کتنے بدقسمت ہو۔ تمہارے پاس خزانہ ہے اور تم لوگ خزانے سے بے خبر بھک منگوں کی زندگی گزار رہے ہو۔ تمہارے صحنوں کے نیچے سونے چاندی کے انبار دفن ہیں۔ تمہاری دیواروں کی بنیادوں میں وہ صندوق پڑے ہیں‘ جو ہیروں سے بھرے ہوئے ہیں لیکن تم لوگ ایک ایک پائی کیلئے ترس رہے ہو ٹیٹو بولے جا رہا تھا اور میں کبھی حیرت سے اُس کا منہ دیکھتا تھا اور کبھی شرمندگی سے اپنے پاؤں پر نظریں جماتا تھا۔ یہ ٹیٹو یوگوسلاویہ کا آنجہانی حکمران مارشل ٹیٹو نہیں تھا۔ یہ جنوبی  امریکہ کے ملک بولیویا کا ٹیٹو تھا جو میرا ہم جماعت تھا۔ تیس سال پہلے اٹلی میں ہم دونوں اقتصادیات کے طالبعلم تھے۔ میرے ساتھ اسکی اس زمانے کی تصویر آج بھی میرے بچے دیکھتے ہیں تو ہنس پڑتے ہیں کیوں کہ وہ لمبی داڑھی اور مسکراتے چہرے کے ساتھ ایک کلائون لگتا ہے پھر یوں ہوا کہ زمانے کی گردش ہمیں ادھر ادھر لئے پھری۔ میں نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا لیکن لاطینی امریکہ جانا میری قسمت سے باہر ہی رہا۔ تین سال پہلے گیا بھی تو میکسیکو گیا۔ ایک ہفتہ اتنا مصروف رہا کہ بولیویا جانے کا سوچ ہی نہ سکا۔ یہ تو دو ہفتے پہلے کی بات ہے کہ آسٹریلیا میں ...

تین گھنٹے کی ’’اہم‘‘ ملاقات

بڑے شہر کے ہنگاموں سے جب دل گھبرا جاتا ہے تو میں شمال کے اس شہر کا رخ کرتا ہوں جو شہر ہے لیکن اس میں شہروں کی افراتفری نہیں اور جو شاہراہ قراقرم کا دروازہ ہے …؎ غمِ غریبی  و غربت  جو  بر   نمی   تابم بہ شہرِ خود  روم  و   شہر یارِ خود باشم ایبٹ آباد مجھے ہمیشہ اٹلی کے مشہور شہر نیپلز کی یاد دلاتا ہے وہی حسن، وہی پہاڑ شہر کو اپنے حصار میں لئے ہوئے۔ 1980 ء کے نومبر کی ایک سرد اندھیری رات جب نیپلز میں  خوفناک زلزلہ آیا تھا اور میں وہیں تھا۔ زلزلے کا مرکز اُسی علاقے میں تھا۔ مکان گر گئے، لوگ بے گھر ہو گئے یہ پورا علاقہ زلزلوں کیلئے مشہور تھا۔ امریکہ نے بے گھر لوگوں کو پیشکش کی کہ یہ علاقہ ہی چھوڑ دو، امریکہ آ جاؤ، زمین بھی ملے گی اور وسائل بھی مہیا کئے جائینگے لیکن اطالویوں نے انکار کر دیا۔ زلزلے جتنے بھی آئیں گھر پھر بھی گھر ہے انکی قومی غیرت نے گوارا نہ کیا کہ وہ زلزلے سے خوفزدہ ہو کر امریکہ کے مرہون احسان ہو جائیں لیکن بابا حیدر زمان ہماری بدقسمتی سے اطالوی نہیں، ورنہ وہ امریکیوں کو بتا دیتے کہ وہ نئے صوبے کا مطالبہ...

محمد اسد؟ کون محمد اسد؟

پاکستان کو بنے تین سال ہو چکے تھے۔ یہ 1951 تھا‘ ابھی تک سعودی عرب میں پاکستان کا سفارت خانہ قائم نہ ہو سکا تھا..مصر میں متعین پاکستانی سفیر سعودی عرب میں پاکستانی امور نمٹاتا تھا۔ جدہ میں ایک بے بضاعت سا قونصل خانہ تھا۔ !  دوسری طرف بھارت کامیابیوں پر کامیابیاں حاصل کر رہا تھا۔ بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہرلال نہرو نے سعودی عرب کا دورہ کیا۔ یہ دورہ اتنا کامیاب تھا کہ سعودی عرب میں ’’رسول اسلام‘‘ (امن کا سفیر) کے نعروں سے اس کا استقبال کیا گیا۔  مئی1951ء میں پاکستان نے فیصلہ کیا کہ سفارت خانہ کھولنے کی اجازت حاصل کرنے کیلئے سعودی عرب میں ایک اعلیٰ سطحی وفد بھیجا جائے۔ لیاقت علی خان وزیراعظم تھے۔ انہوں نے قومی اسمبلی کے سپیکر مولوی تمیزالدین خان کو اس وفد کا سربراہ مقرر کیا لیکن عملاً وفد کی سربراہی جس شخص کے سپرد تھی ان کا نام محمد اسد تھا۔ وہ وزارت خارجہ میں جوائنٹ سیکرٹری تھے۔ ( یہ وہ زمانہ تھا جب گنتی کے چند جوائنٹ سیکرٹری ہوا کرتے تھے اور ایک ایک شخص کئی کئی افراد کا کام کرتا تھا یہ تو آدھے سے زیادہ پاکستان کے علیحدہ ہو جانے کے بعد وفاقی سیکرٹری روپے کے درجن ملنے لگے۔ رہے جو...

Is Ruling Afghanistan the exclusive right of the Taliban?

2010 The Politics and Development Magazine Is Ruling Afghanistan the exclusive right of the Taliban? Oct 16th, 2010 By Izhar ul Haq It seems the US has decided to quit Afghanistan, sooner or later. On September 1, President Obama announced withdrawal of troops from Iraq. This good work has been done by the US after a lot of blunders. In Iraq, 4,500 US soldiers died and the number of the injured is over 30,000. The Iraq left behind by the US has plunged into darkness, divided in ethnic groups and is suffering from sectarianism. There is an unending series of blasts from Karbala to Baghdad. This is the “freedom” and “democracy” given to Iraq by the US! Has the US learnt any lesson from Iraq? Or it will leave Afghanistan after getting more of its troops killed? Till to date, 1200 coffins have been sent to the US from Afghanistan. The injured are more than that. The US has yet to achieve a single goal in Afghanistan – there are no traces of democracy! Whether the US leaves today o...

انڈے اور کوّے

گروہ کے سبب ارکان ایک دوسرے کے وفادار تھے۔ مفادات کی زنجیر نے اُن کے پائوں باندھے ہوئے تھے۔ مقصد سب کا ایک تھا۔ بنک کی تجوری توڑنا اور دولت آپس میں بانٹنا۔ جب مقصد پورا ہو گیا تو مفاد کی زنجیر غائب ہو گئی۔ اب انہوں نے جھگڑنا شروع کر دیا۔ ایک دوسرے پر الزامات لگانے لگے اور ایک دوسرے کے پول کھولنے لگ گئے۔ بات پھیل گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایک ایک کرکے سب پکڑے گئے۔ جرم و سزا کی ساری کہانیوں میں یہی ہوتا ہے۔ حقیقی زندگی میں بھی ہم آئے دن اس حقیقت کو دیکھتے ہیں، یہی کچھ اس گروہ کے ساتھ ہو رہا ہے جو نو سال متحد رہا اور پاکستان کو ہر طرح کے نقصانات پہنچاتا رہا۔ اس گروہ کا رہنما پرویز مشرف تھا۔ آج یہ گروہ ایک دوسرے سے جھگڑ رہا ہے۔ سب کے پول کھل رہے ہیں، بہت کم لوگ مسئلے کے اس پہلو پر غور کر رہے ہیں کہ پرویز مشرف بڑا مجرم ہے لیکن اکیلا مجرم نہیں ہے۔ دنیا میں مجرموں کے گروہوں کے ساتھ جو کچھ ہوتا آیا ہے، وہی اس گروہ کے ساتھ بھی ہو رہا ہے۔ وہ جو کہتے تھے کہ ہم پرویز مشرف کو وردی میں دس بار منتخب کرائیں گے، آج اپنے ممدوح کے مونہہ کی طرف دیکھ رہے ہیں ۔ اس مونہہ سے ہمارے خلاف اور کیا نکلے گا؟ پرویز مشر...

وہ زلف ہے پریشاں ہم سب اُدھر چلے ہیں

میں یہ کالم تسمانیہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں لاٹروب میں بیٹھ کر سپردِ قلم کر رہا ہوں، تسمانیہ آسٹریلیا کا ایک صوبہ ہے‘ آسٹریلیا ایک جزیرہ ہے اور تسمانیہ اس بڑے جزیرے کے جنوب میں واقع ایک اور چھوٹا سا جزیرہ ہے اگر یہ کہا جائے کہ تسمانیہ کا دنیا کے سب سے زیادہ خوبصورت علاقوں میں شمار ہوتا ہے تو مبالغہ نہ ہو گا۔ پورا جزیرہ کسی گالف کے میدان کی طرح ہے، درخت، جھلیں، سبزہ زار، وسیع و عریض چراگاہیں جن میں جانور کسی کھونٹے اور رسی کے بغیر آزادانہ چل پھر رہے ہیں۔ ڈھلانوں اور ترائیوں پر مخملیں سبزے کے قالین۔  ایک ایک گاؤں صاف ستھرا، دُھلا ہوا، جیسے مرغزار کے درمیان زمرد ٹانک دیا گیا ہو۔  جگہ جگہ چاکلیٹ کی فیکٹریاں،  شہد اور پنیر کے فارم، گل لالہ کے حدنظر تک سرخ کھیت،  دریاؤں کیساتھ پیدل چلنے کے ٹریک، ذرا دور بحرالکاہل میں چلتے ہوئے جہاز …؎ اگر فردوس برروئی زمین است ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است دنیا بھر سے آئے ہوئے سیاح سائیکلوں کاروں اور بسوں میں اِدھر اُدھر گھوم رہے ہیں رہائش سے لیکر سیر تک سارے پروگرام پہلے سے طے شدہ ہیں۔ کوئی وعدہ خلافی نہ تاخیر، بحث نہ جھگڑا، بھاؤ ت...