اشاعتیں

ستمبر, 2010 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کالم

فرانس سے ایک خط

بہت سے دوسرے مسلمان خاندانوں کے ساتھ میں بھی ہجرت کر کے فرانس آئی تھی۔یہ دس سال پہلے کی بات ہے۔بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے میں نے اور میرے شوہر نے اپنا آبائی مسلمان چھوڑا اور یہاں آ کر ایک نئی زندگی کا آغاز کیا۔کچھ عرصہ بعد ہمیں شہریت مل گئی۔  دن ڈھل چکا ہے۔شام کے سائے لمبے ہو رہے ہیں۔پیرس کے مرکز میں رونق لمحہ بہ لمحہ بڑھ رہی ہے۔سامنے ایفل ٹاور نظر آرہا ہے۔ ایفل ٹاور کے ساتھ ریستورانوں اور چائے خانوں کی ایک قطار ہے۔وہیں ایک چائے خانے میں بیٹھ کر میں یہ خط لکھ رہی ہوں۔ جمہوریت کے عالمی دن پر میرے نئے وطن فرانس  کی پارلیمنٹ نے نقاب پر پابندی کا بل پاس کیا ہے۔اس بل نے مجھے دو راہے پر لا کھڑا کیا ہے۔ کیا مجھے ایک ایسے ملک میں رہنا چاہیےجہاں رہ کر میں اسلامی شعائر  سے وابستگی نہیں نبھا سکتی۔ میرے رہنما مجھے بتاتے ہیں کہ مخلوط معاشرے میں حجاب کے بغیر رہنا ایک غیر مستحسن امر ہو گا۔ مجھے بتایا جا رہا ہے کہ "" مسلمان عورت اپنی روایات اور اپنی اقدار پر کسی کا زبردستی تسلط تسلیم نہیں کرے گی چاہے اس کے لیے اسے قربانی ہی کیوں نہ دینے پڑے""۔میں سوچتی ہوں۔ زندگی کے گوش...

نو بار پیسا‘ دس بار چھانا

قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں کہ جنرل پرویز مشرف واپس آئینگے یا نہیں۔ ایک اندازہ یہ ہے کہ وہ اپنے سیاہ کارناموں کے پیش نظر پاکستان کا رخ کرنے کی ہمت نہیں رکھتے‘ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہاں سب کچھ ممکن ہے اگر ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں اپنا ریوالور دشمن کو پیش کرنیوالا جرنیل واپس آ کر بقیہ زندگی آرام سے گزار سکتا ہے اور فوجی اعزازات کے ساتھ دفن ہو سکتا ہے تو پرویز مشرف کیوں نہیں آ سکتے بلکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ کراچی آکر اپنی پسندیدہ سیاسی پارٹی کے طفیل انتخابات لڑیں اور جیت بھی جائیں! لیکن اصل سوال یہ ہے کہ اگر پرویز مشرف واپس آ جاتے ہیں اور حکومت بھی سنبھال لیتے ہیں تو کیا وہ ملک کو مسائل کے گرداب سے نکال سکتے ہیں؟ اس کا جواب تو یہ ہے کہ اگر وہ کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتے تو نو سال کے عرصہ میں کر گزرتے! یہ ایک الزامی جواب ہے اس کا جواب یہ دیا جا سکتا ہے کہ اس وقت پرویز مشرف ایک ڈکٹیٹر تھے۔ اب حکومت میں آئے تو کوئی منشور کوئی پروگرام لے کر آئیں گے! خوش گمانی ایک ایسی بیماری ہے جو وہم سے زیادہ مہلک ہے۔ وہم کا مریض بچ نکلتا ہے کیونکہ وہم حفاظتی اقدامات پر اکساتا رہتا ہے۔ خوش گمانی کا مریض ’’سب اچھ...

اک شخص بادشہ ہے تو اک شخص ہے وزیر

سچی بات یہ ہے کہ میں اس معاملے میں سابق وزیر کے ساتھ ہوں۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی سے میرا اعتماد اُٹھ گیا ہے۔ یہ کوئی ایسا معاملہ بھی نہیں تھا کہ اس پر طوفان کھڑا کیا جاتا۔ بادشاہ اور وزیر ایسے کام کرتے ہی رہتے ہیں اس لئے کہ وہ عام لوگوں میں سے نہیں ہوتے۔ ہمارے دوست شاعر احمد جاوید نے جو خود اب عام لوگوں میں سے نہیں رہے، کیا خوب کہا ہے۔ …؎ اک شخص بادشہ ہے تو اک شخص ہے وزیر گویا  نہیں   ہیں   دونوں   ہماری   قبیل   سے اگر بادشاہوں اور وزیروں کے ہر کام پر تنقید شروع ہو جائے تو ہو چکی سیاست اور چل لی حکومت۔ ہم تو وہ فراخدل قوم ہیں کہ جب ایک عوامی وزیراعظم نے مخالفین پر قَتَلَ یَقتُلُ کی گردان شروع کی تو عوام نے ایک ادائے بے نیازی سے اُس کے اقدامات کی منظوری یہ کہہ کر دی کہ بادشاہ بندوں کو مرواتے رہتے ہیں۔ اس میں آخر کیا برائی ہے! پبلک اکائونٹس کمیٹی نے چائے کی جس پیالی میں طوفان اٹھایا ہے اُس کی حقیقت صرف اس قدر ہے کہ ایک سرکاری اہلکار وزارتِ تجارت میں وزیر صاحب کے ذاتی معاون تھے۔ ذاتی معاون کو سٹاف افسر بھی کہتے ہیں۔ کسی صدر، وز...

بڑا بھائی

یوں لگتا ہے کہ امریکہ نے افغانستان سے نکلنے کا فیصلہ کر لیا ہے، ایک ماہ بعد یا ایک سال بعد دو ماہ بعد یا دو سال بعد بقول میر…ع جی کا جانا ٹھہر گیا ہے صبح گیا یا شام گیا رواں ماہ ستمبر کی یکم کو صدر اوباما نے عراق سے اپنے فوجی دستے نکال لینے کا اعلان کیا ہے۔ یہ کارِ خیر امریکہ نے خرابی بسیار کے بعد کیا ہے۔ عراق میں ساڑھے چار ہزار امریکی فوجی ہلاک ہوئے ہیں اور زخمیوں کی تعداد تیس ہزار سے زیادہ ہے۔ امریکہ نے جو عراق اپنے پیچھے چھوڑا ہے وہ اندھیروں میں ڈوبا ہوا عراق ہے۔ نسلی گروہوں میں بٹا ہوا۔ فرقہ واریت کا شکار۔ کربلا سے لیکر بغداد تک دھماکوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ۔ یہ ہے وہ ’’آزادی‘‘ اور یہ ہے وہ ’’جمہوریت‘‘ جو امریکہ نے عراق کو دی ہے۔ کیا امریکہ نے عراق سے کوئی سبق سیکھا ہے؟ یا افغانستان میں اپنے مزید فوجیوں کو جہنم رسید کرا کر رخصت ہو گا؟ اس وقت تک افغانستان سے بارہ سو تابوت امریکہ جا چکے ہیں۔ زخمیوں کی تعداد اسکے علاوہ ہے۔ امریکہ نے جو اہداف اپنے لئے طے کئے تھے ان میں سے کوئی بھی پورا نہیں ہوا۔ افغانستان میں ’’جمہوریت‘‘ آئی نہ اسامہ بن لادن کو پکڑنے کی امریکی خواہش پوری ہوئی۔ ام...